تعبیر کر کے دیکھتے ہیں

عائشہ محبوب

(پہلی قسط)

’’بھابھی مل گیا، ہررے ۔۔۔ ے ۔۔۔ ے!‘‘درعدن کی آواز تھی یا بم پھٹا تھا ۔۔۔۔۔ موبائل ہاتھ میں تھامے ادھر سے اُدھر چکراتے ارسلان سچ میں چکرا کر رہ گیا ۔۔۔۔ اور اماں کے ہاتھ سے تو چھری اور سبزی رکھا تھال دور جاگرے ۔۔۔۔ رہی عدن کی بھابھی عدینہ تو اس کے والیوم نے باقی سب کو دل ہی پکڑنے پر مجبور کردیا۔۔۔۔‘‘‘ ارے ے ے  ۔۔۔۔ کہاں ہے؟ کہاں ہے؟ کمبخت!‘‘

مزید پڑھیے۔۔

میرا محرم

(پہلا باب زخرف)

مومل ہونٹ کاٹتے شش و پنج میں گھری بار بار اس کا میسج ریڈ کرتی پھر آخرکار نفس انسانی کمزور پڑا، شیطان کا وسوسہ کامیاب ہوا اور شیطان ہر بار کی طرح اس بار بھی اس برے راستے کو نیک راستہ دکھانے میں کامیاب ہوا

مسفرہ سحر کراچی

دوسری  قسط

"واؤ نائس"

ابھی اس نے اگلی تصویر ڈالی ہی تھی کہ سب سے پہلے افنان کا تبصرہ  آیا۔ اس نے بس دیکھا اور آگے بڑھ گئی۔

مزید پڑھیے۔۔

دوسرے جنم میں مجھے بیٹی ہی کیجیو!

بیٹا! دس روز پہلے کراچی  سے واپسی پر وہ عابدہ کو ساتھ لا رہی تھی جبکہ تمہارا ابو یہ نہیں  چاہتا تھا ،وہ ناراض ہوکر پہلی گاڑی میں گاؤں آگیا۔ پیچھے والی گاڑی پر اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا گاڑی حادثے کا شکار ہوگئی۔ امی عابدہ زاہدہ سب اللہ کو پیارے ہو گئے

 مہوش اشرف

آخری حصہ

 کریم داد زمینوں پر ہی موجود  تھا۔ اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر درانتی  کا استعمال سکھایا۔ یہ پہلی اور آخری بار تھا، جب کریم داد نے مجھے پیار سے چھوا تھا، اس کے بعد تو زندگی کی کشتی کسی

مزید پڑھیے۔۔

سلگتی پرچھائیاں

ساجد اور اسد باقاعدگی سے نماز عصر میں شامل ہورہے تھے جب کہ کونین کا کسی کسی دن ناغہ ہوجاتا، مولوی ثاقب کونین کی غیر حاضری پر اسے لازمی سلام بھجواتے۔ اب وہ تینوں ان سے کافی قریب ہوتے جارہے تھے۔

حفصہ فیصل

پانچویں قسط

"عدنان کا میٹرک کا رزلٹ آنے والاہے، آپ نے کچھ سوچا اس کے متعلق ؟" رانیہ فکرمندی سے بولی ۔

مزید پڑھیے۔۔

غرور عشق کا بانکپن

وہ کتنی چالاکیاں اور ڈرامے بازیاں سیکھ گئی تھی، جب سے اس کے قدم راہ خاردار کی جانب اٹھے۔ پتا نہیں یہ سب انسانی فطرت میں شامل ہوتا ہے یا اندھی محبت سب سکھا دیتی ہے۔ اپنے گھر والوں کو دھوکا دینا، ان کے اعتبار کا پاس نہ رکھنا، ڈھٹائی سے ان کی آنکھوں میں دھول جھونکنا، بہانے گھڑنا اور بلاتامل جھوٹ بولنا۔۔۔ وہ یہ سب سیکھ گئی تھی اور ابھی نجانے کیا کیا سیکھنا باقی تھا

ساتویں قسط

 زندگی معمول کے مطابق گزر رہی تھی مگر کچھ تھا جو نامحسوس طور پر ان سب کی زندگیاں بدل گیا تھا۔

مزید پڑھیے۔۔

سلگتی پرچھائیاں

ارے! نام مت لو اس منحوس کا میرے سامنے، پہلے خود میرے سینے پر مونگ دلتی رہی، اب میری پوتی کو اس کے سپوت نے نشانہ بنایا ہے، اس رانیہ کو تو میں کبھی نہ بخشوں گی

حفصہ فیصل

چوتھی قسط

اسد نے کونین اور ساجد کو عدنان کا پیغام دیا ، پہلے تو وہ خوب ہنسے۔

" ہم مسجد جائیں گے"

مزید پڑھیے۔۔

میرا محرم

(پہلا باب زخرف)

 وہ عموماً ان لڑکیوں کو اپنی دوست بناتا تھا جو اس قسم  کی نہ ہوں جو لڑکوں اور لڑکوں سے دوستی کو معیوب سمجھتی ہوں لیکن آخرکار پھر اس کی دلنشین باتوں سے اس معیوب کام کو محبوب سمجھ کے کرنے لگتی ہوں۔وہ جانتا تھا یہ مشکل ہوتا ہے لیکن اسے تو ہمیشہ سے ہی ایڈونچر پسند تھے اور بلاشبہ کسی عام دل پھینک لڑکی کے مقابلے میں کسی ایسی لڑکی تک رسائی حاصل کرنا جو اس قسم کے کاموں سے انتہائی نفرت کرتی ہو

مسفرہ سحر کراچی

پہلی قسط

الٰہی تیری چوکھٹ پر بھکاری بن کے آیا ہوں

مزید پڑھیے۔۔

انسانیت کے رشتے

شعیب صاحب ویری امیزنگ بلکہ افسوس سے کہہ رہی ہوں یہ ہمارے ہاسپیٹل کی ہسٹری کا پہلا کیس ہے کہ بے بی نہ لڑکا ہے نہ لڑکی‘‘ ڈاکٹر عالیہ نے شعیب کو اپنے کمرے میں بلوا کر سنجیدگی سے کہا

 اُم حیات ہنگورا

آخری قسط

’’یہ معراج کے پیدا ہونے سے کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے۔ آپ کے ساتھ کچھ لوگ تھے جو مجھے اور کچھ اور میری ساتھیوں کو دیکھ کر بدتمیزی کررہے تھے اور جن سے آپ الجھ گئے تھے‘‘

’’وہ تو اصل میں ان میں صرف ایک میرا دوست تھا اور اس کے بہت اصرار پر میں‘‘ شعیب اتنا کہہ کر رُک گیا۔

مزید پڑھیے۔۔

اگلے جنم میں۔۔۔۔مجھے بیٹی ہی کیجیو!

  میری ساس نے منہ دکھائی میں مجھے جو پہلا تحفہ دیا وہ درانتی تھی، ساتھ اُس نے بتایا کہ فجر  سے پہلے ناشتا دینا ہے اور نماز کے بعد بیلوں کو کھیت کے لیے تیار کرنا ہے۔ چوں کہ کٹائی کا موسم ہے تو عابدہ اور امی کے ساتھ آج سے میں نے بھی کٹائی پر جانا ہے۔ میری سمجھ میں  کچھ نہیں آ رہا تھا۔ یہ کیسا تحفہ ہے۔

 مہوش اشرف

(پہلی قسط)

چار رکنی ڈاکٹرز بورڈ سر جوڑے بیٹھا تھا اور پیشِ نظر شاہدہ بی بی کی رپورٹ تھی پر کسی طور بہتری کی کوئی راہ نکالتی نظر نہ آتی تھی۔ سرجن ڈاکٹر شاہد وقار ملک کے مایہ ناز نیورو سرجن تھے مگر انہوں نے بھی افسوس کا اظہار کرتے ہوئے معذرت  کر لی۔

مزید پڑھیے۔۔

سلگتی پرچھائیاں

عدنان کا دل بھی اب لائبہ سے اوب گیا تھا اس لیے اس کا نمبر بلاک کردیا تھا ۔ اس وقت تو اسے بس دوستوں کے آنے کی فکر تھی ، ورنہ جو یہ شیشے کا نشہ اس کی عادت بنتا جارہا تھا وہ کہاں سے ملے گا

 حفصہ فیصل

تیسری قسط

افسر صاحب نے اس ٹھیلے پر شبے کا اظہار چھوٹے بھائی انظر علی سے کیا تو اس نے بھی تائید کی ۔اب دونوں بھائی قدرے پریشان ہورہے تھے۔ پھر دونوں کا اتفاق پولیس کی خدمات لینے پر ہوا۔ انسپکٹر خالد جو دونوں کے مشترکہ دوست تھے، ان سے تمام صورت حال ذکر کی گئی۔ انسپکٹر خالد نے سادہ لباس میں دو کارندے شوکت ٹریڈرز کے آس پاس تعنیات کردیے ۔

مزید پڑھیے۔۔

سرپرائز

شاہد پونے آٹھ بجے ہی  کیفے پہنچ گیا ،  کیفے کے باہر ایک  خوب صورت نوجوان کھڑا تھا ، اس نے شاہد سے ہاتھ ملاتے ہوئے پوچھا " شاہد ؟  جواب میں شاہد نے مسکراتے ہوئے  yes کہا  نوجوان نے اپنا نام مسعود بتایا اور  اسے اندر لے گیا اور کہا بھئی اپنا مہمان سنبھالو ، میں تو چلا ۔ یہ کہہ کر اس نے دروازہ بند کر دیا ۔ اب شاہد تھا اور دو برقع پوش خواتین ۔

 آر اے قمر اسلام آباد

(دوسری قسط)

حیدر آباد سے کراچی تک کا سفر کٹنا وردہ کے لیے بہت مشکل ہو رہا تھا ، بار بار اس کی آنکھوں میں آنسو جھلملا رہے تھے ۔

مزید پڑھیے۔۔

بلاعنوان

ایسا نہیں ہے بیٹی۔۔۔تم اپنی اچھی عادت کو نہ بدلو جو بھی کام کرو وقت اور موقع کی نزاکت کو دیکھ کر انجام دو۔شوہر بیوی کی توجہ چاہتا ہے جب وہ سارا دن کا تھکا ماندہ گھر آۓ تو اپنی پوری توجہ اور وقت اسے دو پھر اسے کبھی تم سے کوئی شکایت نہ ہوگی

بنت مسعود احمد

وہ ہر کسی کے لیے دل میں نرم گوشہ رکھتی تھی کوئی پریشان ہوتا یا کسی کو اس کی ضرورت ہوتی وہ کتنی ہی مصروف  یا تھکی ہوئی ہوتی فورا دوسروں کی مدد کو تیار ہوجاتی۔وہ سب کے کام آکر خوش ہوتی کسی کی پریشانی دور کرکے اسے عجیب سا سکون دل و جاں میں اترتا محسوس ہوتا۔وہ ایسی کیوں تھی وہ خود بھی نہیں جانتی تھی اس کے خمیر میں جذبہ ہمدردی گندھا ہوا تھا اس کی نس نس میں خلوص و محبت خون کے ساتھ محو گردش تھی۔

مزید پڑھیے۔۔

ایک ماں کی کہانی

16 دسمبر کے سلگتے زخم کی کہانی

حنا سہیل ریاض سعودی عرب

منیبہ ایک سائکاٹرسٹ تھی، اس کے پاس جو کیس آتے رہتے تھے ان میں سے کچھ تو بہت زیادہ خراب کنڈیشن میں ہوتے تھے، اپنے آپ سے بیگانہ،

مزید پڑھیے۔۔

انسانیت کے رشتے

کبھی کوئی عقل والی بات بھی کرلیا کر۔ کیا ہوا تھا فضیلہ کی شادی کرکے دوسرے دن ہی طلاق ہوگئی اور کنوئیں میں چھلانگ لگالی فضیلہ نے۔ کل کو صابرہ نے بھی یہی کرنا ہے، اس سے پہلے کہ وقت نکل جائے اس کو ان لوگوں کے ساتھ کرے

اُم حیات ہنگورا

مزید پڑھیے۔۔

غرور عشق کا بانکپن

اسکرین پر ایک خوب صورت لڑکی کی تصویر جس نے اپنا آدھا چہرہ ہاتھ سے چھپا رکھا تھا "پریٹی گرل" کے نام سے جگمگا رہا تھا۔ ان باکس میں کچھ نئے پیغام آئے ہوئے تھے۔

 تنزیلہ احمد

چھٹی قسط

 ایک لمبے عرصے بعد عظیم کو اپنے دوسرے فیس بک اکاؤنٹ کا خیال آیا تھا۔ صارف کا نام اور پاسورڈ لکھ کر اس نے لاگ ان کو انگلی سے چھوا۔ اگلے ہی پل اس کا پروفائل عین اس کی نظروں کے سامنے تھا۔

مزید پڑھیے۔۔

سلگتی پرچھائیاں

حمزہ ایک تجربے کار مخبر تھا اس نے چوک کھانا سیکھا ہی نہیں تھا ہمیشہ کھڑا اور چوکھا کام کرکے دیتا تھا، اسی لیے باس ترجیحاً اسی کا انتخاب کرتے تھے۔ اس وقت بھی حمزہ انتہائی عمدگی سے اپنی چیزیں بیچ رہا تھا کہ دیکھنے والے کو ذرہ برابر بھی اس پر شک نا ہو۔۔

حفصہ فیصل

دوسری قسط

عدنان نے باہر جاکر لائبہ کی کال سنی اور اسے اس وقت بات کرنے سے منع  کیا۔

مولوی ثاقب نے کبھی اپنے بچوں کو خرچ دینے سے ہاتھ نہیں روکا تھا مگر موبائل خصوصاً اسمارٹ فون ان کے نزدیک آج کے دور کی بڑی خرافات میں سے ایک تھی۔ وہ خود بھی استعمال نہیں کرتے تھے اور نہ ہی گھر والوں کے لیے ضروری سمجھتے تھے۔ حالاں کہ لوگ اسمارٹ فون کے استعمال کے لیے یہ دلیل دیتے نظر آتے ہیں کہ

مزید پڑھیے۔۔

سرپرائز

تھوڑی دیر بعد اس لڑکے نے ایک پرچے پر اپنا نام اور نمبر لکھ وردہ کے سرہانے رکھے پرس کے نیچے دبا دیا تھا ۔ وردہ نے پہلے سوچا کاغذ مروڑ کر اس کے منہ پہ مارا جائے لیکن پھر اس نے کاغذ لپیٹ کر پرس میں رکھ لیا ۔ لڑکے کے خیال میں چڑیا پھنس گئی تھی۔

آر اے قمر اسلام آباد

(پہلی قسط)

وردہ اور نعمان اسلام آباد ، مری  اور شمالی علاقہ جات کی دس روزہ سیر و تفریح کے بعد لاہور پہنچے تھے ۔ڈیوو بس نے کلمہ چوک پر انہیں اتارا توقراقرم ایکسپریس کے چلنے میں تقریبا  ڈیڑھ گھنٹا باقی تھا ۔ رکشے والے ان کے ظاہری ٹھاٹ باٹ کے مطابق کرایہ مانگ رہے تھے ۔لیکن نعمان ہمیشہ کی طرح رکشے والے کو زیادہ کرایہ دینے کے لیے بالکل تیار نہیں تھا  ۔

مزید پڑھیے۔۔

انسانیت کے رشتے

اُم حیات ہنگورا

میری سمجھ میں نہیں آتا کہ معراج کو کیسے ٹھیک کروں، اس کی ساری عادتیں ہیجڑوں والی ہیں، میرا مطلب ہے جن جن کے ساتھ رہ رہا تھا ان کے جیسا ہے

چھٹی قسط

’’یہ آپ کا بچہ ہے‘‘ شعیب دروازے پر آپا گلو اور ببلی کے ساتھ بچے کو دیکھ کر پریشان ہوگیا اس نے فوراً ان کو اندر لے لیا اور آنے والے کی بات سن کر وہ لرز گیا کیوں کہ وہ مخنث نہیں بلکہ لڑکا تھا۔

’’میرا بچہ‘‘ شعیب نے حیرت سے کہا۔

مزید پڑھیے۔۔

سکون

میں تنگ آگیا ہوں تمہاری ان حرکتوں سے، روز روز باہر کے کھانے کھاکر اب تو معدہ بھی خراب ہوگیا ہے، نہ تم کھانا بناتی ہو، نہ گھر کا کوئی اور کام کرتی ہو،  اور یہ ماسی کا ڈرامہ تو ختم کرو میرے پاس قارون کا خزانہ نہیں ہے۔

 آمنہ نور

"میری سمجھ میں نہیں آتا، آخر اسے کس چیز سے مطمئن کروں، وہ ایسی تو نہیں تھی۔" زریاب نے بے زاری سے کہا۔

"کومل تو میری بہت صابر بچی ہے، پتا نہیں میرے گھر کو کس کی نظر لگ گئی۔" امی جان نے آزردگی سے زریاب کو دیکھتے ہوئے کہا۔

مزید پڑھیے۔۔

سلگتی پرچھائیاں

اپنے فرزند ارجمند کو پٹا ڈال کر رکھو ، کہنے کو تو ابا مولوی ہے ، لیکن سپوت نے تو سارے شہر میں آوارگی کی مثالیں قائم کرنے کی ذمے داری لی ہوئی ہے

 حفصہ فیصل

پہلی قسط

ان جانے نمبرکو دیکھ کر رانیہ ایک لمحے کو رکی لیکن پھر یس کر کے فون اٹھا لیا

کون کا سوال لبوں پر آنے سے پہلے ہی  پاٹ دار آواز کو لمحے کے ہزارویں حصے میں پہچان لیا

"کیسی ہیں بڑی ممانی؟"

مزید پڑھیے۔۔

غرور عشق کا بانکپن

اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ لڑکی اتنی جرآت کا مظاہرہ کرے گی۔ ہمیشہ اس نے لڑکیوں کو خوف زدہ ہوتے دیکھا تھا مگر وہ واحد لڑکی تھی جو چھیڑے جانے پر چیل کی طرح جھپٹی تھی۔

 سلسلہ وار ناول کی پانچویں قسط

 تنزیلہ احمد

 عظیم سے سیکھے گر حسن اس کی بہن پر ہی آزما رہا تھا۔ خط میں حسن نے کال کرنے کا مخصوص وقت بھی لکھا تھا تاکہ جب وہ فون کرے تو حسینہ ہی اٹھائے۔

"پتا نہیں مثبت جواب ملتا بھی ہے یا نہیں۔۔۔" ڈرتے ڈرتے اس نے کال ملائی۔

مزید پڑھیے۔۔

تربیت

کھنک نے ایک نظر آسمان پر پھیلی قوس قزح کو دیکھا اور دوسری نظر فاطمہ کے چہرے پر کھنک کے لئے یہ اندازہ لگانا مشکل ہوگیا کے قوس  قزح سے سجا آسمان زیادہ حسین لگ رہا ہے یا فاطمہ کے چہرے پر بکھرے رنگ۔۔۔۔۔۔۔۔

پانچویں اورآخری قسط

"فاطمہ بیٹا ابھی تک جاگ رہی ہیں آپ ؟ لگتا ہے ساری رات یہاں ہی گزاردی آپ نے …''…سلمیٰ آپا فجر کی نماز پڑھنے کے لئے ٹی وی لاؤنج میں آئی تو فاطمہ کو لاؤنج کے خارجی دراوزے پر بنے صوفے نما جھولے پر بیٹھا دیکھ کر بے ساختہ پوچھ بیٹھیں۔ فاطمہ نے کہا کچھ نہیں، صرف سر اٹھا کر انہیں دیکھا اس کی سرخ سوجی

مزید پڑھیے۔۔

انسانیت کے رشتے

خیر اب میڈیکل سائنس اتنی ترقی کرچکی ہے کہ اگر ایسا کوئی بچہ ہوتا ہے تو بذریعہ آپریشن اس کو لڑکی یا لڑکے میں چینج کردیا جاتا ہے۔ اسّی 80 فیصد یہ ممکن ہے۔

اُم حیات ہنگورا

پانچویں قسط

’’ڈاکٹر صاحب، مخنث بچے کیسے ہوتے ہیں؟‘‘

مزید پڑھیے۔۔

مثالی بیوی

مجھے اس وقت وہ ایک بیوی کے علاوہ اور کچھ نہیں لگی تھیں ۔۔۔ ایک ایسی بیوی جو خاوند کی کامیابیوں پر ہی نہیں ناکامیوں پر بھی خود کو برابر کا حصہ دار بناتی ہے

بنت نصیر

تمہیں پتا ہے میں نے کبھی ایسے کام نہیں کیے تھے۔"وہ کرسی پر چڑھے چھت کی دیوار کے ساتھ کپڑے لٹکانے والا تار باندھ رہی تھیں ۔ جب میرے مسلسل رخ موڑے آنکھیں چندھیا کر دیکھنے پر مسکرا کر بولیں ۔

مزید پڑھیے۔۔

غرور عشق کا بانکپن

چوتھی قسط

 کیا وہ اب مجھ سے فون پر بات کرے گی بھی یا نہیں؟ دیکھنے میں تو کیسی چھوئی موئی اور ڈری سہمی سی لگتی ہے، ہائے۔۔۔" حسینہ کا دل کش سراپا حسن کی آنکھوں میں گھوما اور اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ رینگ گئی

 تنزیلہ احمد

 عظیم دکان پر تھا جب بروقت حسن کا پیغام نہیں دیکھ  سکا تھا۔ اس دن حسن عظیم کے گھر کے پاس ہی موجود تھا اسی لیے "کہاں ہے" کا ٹیکسٹ کیا تھا۔

"ہو سکتا ہے گھر پر ہی ہو۔" جوابی پیغام نہ ملنے پر وہ سیدھا اس کے گھر ملاقات کرنے چلا آیا۔

مزید پڑھیے۔۔

تربیت

(قسط4)

 وہ ایک بہت خوبصورت نازک سا کانچ کا بنا ہوا تاج محل تھا جس میں دھیمے میوزک میں ایک گڑیا گڈے کا کپل جو آہستہ آہستہ کپل ڈانس کرتا ہوا پورے تاج محل میں گول گول گھوم رہا تھا اسکے ساتھ ایک کارڈ بھی تھا جس پر لکھے گئے الفاظ کو پڑھ کر میرا دل کسی اور لے پر ہی دھڑکنے لگا

 نشا وقار

اپنا ہی تھا قصور کے ساحل میں گھر گئے

ایک موج تھی جسے کنارہ سمجھ لیا

مزید پڑھیے۔۔

انسانیت کے رشتے (چوتھی قسط)

’’دماغ خراب ہے تیرا یہ بہت بری جگہ ہے۔ ہم مجبور ہیں تُو تو مرد ہے تجھے معلوم ہے تجھے اللہ تعالیٰ نے کتنی بڑی نعمت دی ہے۔ ہمارے زخموں کو نہ چھیڑ۔ اپنے چچا کو نہ ستا دیکھ تو میری بات مان لے‘‘

اُم حیات ہنگورا

چوتھی قسط

’’ہاں یہ تو ہے بھائی، اس فانی زندگی کو سب کچھ سمجھ لیا۔ ابّا جی کے انتقال کے بعد بھی امی جی کو یہ احساس نہیں کہ جس طرح وہ یہ سب چھوڑ کر چلے گئے ہم سب کو اسی طرح چلے جانا ہے‘‘ منصور مایوسی سے بولا۔

مزید پڑھیے۔۔

حُسنِ صورت یا حُسنِ سیرت

اور سنائیں خالہ! کون سے سیارے کی لڑکیوں کے رشتے کروا رہی ہیں آج کل؟ زینب نے مسکراتے ہوئے گلاس بڑھایا ...  اس کے اس چٹکلے پہ دونوں خواتین کے چہرے پر ہنسی آ گئی

عظمی ظفر

رشتے والی خالہ کو دیکھ کر یونیورسٹی سے واپس گھر آنے والی زینب کا منہ بن گیا.. ایک تو پوائنٹ کا رش کافی تھا دماغ گرم کرنے کے لیے. اور اب یہ شروع ہو جائیں گی کہ آج کل کیسی لڑکیاں پسند کرتے ہیں لڑکے والے.. نہ چاہتے ہوئے بھی خوش مزاج سی زینب نے سرد مہری سے انھیں سلام کیا اور کمرے کی جانب بڑھ گئی....

مزید پڑھیے۔۔

کفِ افسوس

اے بنت حوا! ہے کوئی؟ جو اپنے سر اور سینے کو اپنی خوشی سے رضائے الٰہی جان کر اجر و ثواب کی نیت و شوق سے ڈھانپ لے۔ قبل اس کے کہ اللہ تعالیٰ اپنے حکم پر عمل کروانے کے لیے آپ کو زبردستی اس راہ پر لے آئیں؟ کہ پھر یہ مجبوری بن جائے اور کف افسوس ملنا پڑے

مہوش کرن

 بہت سالوں پہلے ایک دن پتا چلا کہ بنتِ حوّا کو وہ جان لیوا مرض لاحق ہو گیا ہے، جس کا صرف نام سن کر بھی کسی عورت کی جان نکل جاتی ہے۔۔ رپورٹس میں صاف صاف لکھا تھا اور تقدیر کا لکھا کوئی ٹال نہیں سکتا تھا۔

مزید پڑھیے۔۔

غرور عشق کا بانکپن (تیسری قسط)

یاد رکھو کہ باحیا اور باکردار لڑکیاں کبھی ہمارے جیسوں کے ہاتھوں نہ خوار ہوتی ہیں اور نہ خراب۔ اچھی لڑکیاں نہ ہی انجانے لڑکوں سے دوستیاں کرتی ہیں اور نہ ہی رابطے استوار کرتی ہیں۔ ان کے سامنے ہم چاہے جتنا مرضی سر پیٹ لیں وہ تو بات کرنے کی روادار تک نہیں ہوتیں

تنزیلہ احمد

  شگفتہ کے لیے شہر اور ہاسٹل میں آنا بھی خوش گوار تجربہ ثابت نہیں ہوا تھا۔ وہ آسمان سے گر کر کھجور میں اٹک گئی تھی۔ نوکری کے لیے دھکے کھاتے اور رنگ برنگے لوگوں کا سامنا کرتے چند دنوں میں ہی وہ زندگی کے اک نئے روپ سے آشنا ہوئی۔ زندگی آسان تو کبھی نہ رہی تھی مگر اتنی مشکل ہو جائے گی یہ تو اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔

مزید پڑھیے۔۔

تربیت تیسری قسط

 تو جو میری دیوانی بنی پھرتی تھی نا وہ عشق نہیں ہوس تھی ، یہی وجہ ہے تجھے طلاق دینے کی تو آوارہ ہے …اور شادی صالحہ جیسی شریف لڑکیوں سے کی جاتی ہے جو مرد کی آنے والی نسلوں کی امین ہوتی ہیں تجھ جیسی لڑکیاں صرف ٹائم پاس کے لیے ہوتی ہیں

نشا وقار کراچی

اس حالت میں تو اسے آرام اور اچھی خوراک کی ضرورت تھی اور وہ اس حال میں مئی کی چلچلاتی دھوپ اور شدید گرمی میں بغیر ناشتہ کیے جاب کے لئے ماری ماری پھر رہی تھی۔

مزید پڑھیے۔۔

انسانیت کے رشتے (تیسری قسط)

وہ لوگ مخنث تھے مگر ابھی تو وہ عزت سے بیٹھے تھے اس کے باوجود لوگ ان کی طرف اشارہ بھی کرتے اور سیٹیاں بھی بجاتے جس کی وجہ سے ببلی بہت پریشان تھی۔ دونوں نے بڑی چادریں اچھی طرح لپیٹی ہوئی تھیں۔

اُم حیات ہنگورا

’’ماشاء اللہ بہت پیارا ہے آپ کا بیٹا‘‘ صائمہ نے اُس عورت سے کہا۔ ’’میرا‘‘ وہ عورت مسکرائی۔ ’’یہ میرا بیٹا نہیں ہے، اس کا چہرہ دیکھ کر اندازہ نہیں ہوتا کہاں میں اور کہاں یہ؟‘‘ وہ عورت بے تکلفی سے کہنے لگی تو صائمہ بغور اس عورت کو اور بچے کو دیکھنے لگی۔

مزید پڑھیے۔۔

خدا کی لاٹھی

بے حس و بے ضمیر معاشرے میں آئے دن ایسے کئی واقعات جنم لیتے ہیں اور پھر آپ اپنی موت مر بھی جاتے ہیں۔

 بیگم سیدہ ناجیہ شعیب احمد

"افف! آج بہت تھک گئی۔"

تھکی تھکی آواز میں لاڈ تھا۔

"ذرا سا کام کرنے پہ تھک گئیں محترمہ۔۔۔ کرتی ہی کیا ہو سارا دن؟؟ بس آرام ہونہہ ۔" موبائل اسکرین پر نظریں جمائے ، زہر خند لہجہ میں دھتکار کے کہا گیا۔

مزید پڑھیے۔۔

غرور عشق کا بانکپن (دوسری قسط)

تنزیلہ احمد

 جواب طلبی کے لیے سب کی چبھتی نظریں اس پر گڑی ہوئی تھیں۔ ایک پل لگا تھا شگفتہ کو نارمل ہونے میں۔ اگلے ہی پل چمچ پلیٹ میں رکھ کر اس نے نگاہیں اٹھائیں اور حاضرین کو دیکھا:

مزید پڑھیے۔۔

تربیت (دوسری قسط)

  یہ تم نے اپنا حلیہ کیا بنایا ہوا ہے، انتہائی ماڈرن اور فیشن ایبل لڑکی اس وقت ماسی لگ رہی ہے سب خیر تو ہے نا!! کہیں شاہ رخ بھائی نے بے وفائی تو نہیں کردی تمھارے ساتھ، جو تم لیلی بنی گھوم رہی ہو !!

نشا وقار

"کھنک کیسی لگی میری بیٹی تمہیں ؟یہ بہت ذہین ہے. نہ صرف تعلیمی میدان میں بلکہ کھیل کود میں بھی ہمیشہ اول ہی آتی ہے”…فاطمہ کی آواز پر میں ایک بار پھر اپنی سوچوں کی دنیا سے باہر آگئی۔ بیٹی کے لیے فاطمہ کے لہجے میں بے تحاشا محبت بول رہی تھی، یوں ہی ادھر ادھر کی باتوں میں وقت کا پتا ہی نہیں چلا اور علی مجھے لینے کے لیے آگئے- فاطمہ اور زینب مجھے دروازے تک چھوڑنے کے لیے آئیں تو لاؤنج سے باہر نکلتے وقت میری نظر بائیں جانب پڑی، جہاں لکڑی کا بہت خوبصورت فریم دیوار پر آویزاں تھا جو دیکھنے میں بالکل کسی درخت  جیسا تھا اور اس کی ہر شاخ پر فیملی ممبرز کی تصاویر لگی ہوئی تھیں انہیں تصاویر میں ایک تصویر ایسی تھی، جس نے لمحہ بھر کے لئے مجھے دم بخود کردیا اس تصویر میں ایک طرف فاطمہ کھڑی تھی اور ایک طرف زینب سے ملتا جلتا تقریباً چالیس  پینتالیس سال کا ایک مرد کھڑا تھا جبکہ زینب ان دونوں کے درمیان کھڑی شرارتی نظروں سے فاطمہ کی طرف دیکھ رہی تھی یہ ایک مکمل فیملی پکچر تھی جس نے مجھے منٹ کے ہزارویں حصے میں یہ سمجھادیا تھا کہ فاطمہ شاہ رخ کے ذکر کو نظر انداز کیوں کر رہی تھی ……

مزید پڑھیے۔۔