میری ساس نے منہ دکھائی میں مجھے جو پہلا تحفہ دیا وہ درانتی تھی، ساتھ اُس نے بتایا کہ فجر  سے پہلے ناشتا دینا ہے اور نماز کے بعد بیلوں کو کھیت کے لیے تیار کرنا ہے۔ چوں کہ کٹائی کا موسم ہے تو عابدہ اور امی کے ساتھ آج سے میں نے بھی کٹائی پر جانا ہے۔ میری سمجھ میں  کچھ نہیں آ رہا تھا۔ یہ کیسا تحفہ ہے۔

 مہوش اشرف

(پہلی قسط)

چار رکنی ڈاکٹرز بورڈ سر جوڑے بیٹھا تھا اور پیشِ نظر شاہدہ بی بی کی رپورٹ تھی پر کسی طور بہتری کی کوئی راہ نکالتی نظر نہ آتی تھی۔ سرجن ڈاکٹر شاہد وقار ملک کے مایہ ناز نیورو سرجن تھے مگر انہوں نے بھی افسوس کا اظہار کرتے ہوئے معذرت  کر لی۔

”ہم اپنی پوری کوشش کر رہے ہیں ،پر شاہدہ بی بی کا زخم بری طرح خراب ہوچکا ،سی ٹی اسکین کچھ اچھی خبر نہیں دے رہا۔ برین کےاُپری اور نچلے حصے پر اُس وقت جو خون جمع ہوگیا تھا، وہ بعد میں ٹیومر کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ میڈیکل سائنس میں اسے پیراسیجیٹل اور سیریبیلر ٹیومر کہتے ہیں۔  عام زبان  میں یہ کینسر کی شکل اختیار کر گیا ہے اور اسٹیج بھی لاسٹ ہے نا تھراپی ہوسکتی ہے نا ہی سرجری۔  اب ہمارے بس میں  کچھ نہیں ہے باقی آپ اللہ پر بھروسا رکھیں وہ ہی کوئی معجزہ کرے گا ان شاءاللہ۔“ ڈاکٹر طارق نے سہیل کو رپورٹ واپس دیتے ہوئے کہا۔

سہیل کو کچھ سمجھ میں نہیں آیا سوائے اِس کے کہ اُس کی ماں کا زخم ناسور بن گیا ہے۔ اس نے اپنا بکھرا وجود سمیٹا ایک قیامت گزر چکی تھی جبکہ ابھی ایک قیامت باقی تھی۔ بستر مرگ پر پڑی ماں کا سامنا کرنا ابھی باقی تھا۔ وہ جیسے تیسے ڈاکٹر کے کمرے سے باہر آیا اور وارڈ کی جانب چلا جہاں اس کی ماں زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہی تھی۔

شاہدہ نے نیم دراز آنکھیں کھولیں اور سہیل کو دیکھا اُس کا اترا چہرہ شاہدہ نے پڑھ لیا تھا، ماں جو تھی بیٹے کے چہرے کے رنگ خوب جانتی تھی۔

”بیٹا سہیل ! نہ بیٹا رونا نہیں، میرے لیے دعا کرنا، کلام الہی پڑھنا بیٹا اور کسی کا دل نہیں دکھانا بیٹا! کسی کا حق کھانا غلط ہے گناہ ہے۔“

”امی آپ پریشان نہ ہوں میں آپ کی رپورٹ دوسرے ڈاکٹر کے پاس لے کر جاؤں گا۔“ سہیل نے اپنے آنسو چھپاتے ہوئے کہا۔

”سہیل! بڑے ماموں کو بلا لو مجھے کچھ ضروری بات کرنی ہے۔“شاہدہ نے نحیف سی آواز میں  کہا۔

سہیل پر نم آنکھوں سے اظہر ماموں کو فون ملانے مڑ گیا اور ادھر شاہدہ نے آنکھیں موندی چپ چاپ ماضی کو وادی میں اتر گئی۔

٭٭٭٭٭

ہم کوہاٹ کے رہنے والے تھے۔ متوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ اظہر  بھیا ، میں عابدہ اور زاہدہ ہم چار بہن بھائی امی ابا اور دادی یہ کل کائنات تھی ہماری۔

 ہم بیٹیوں کو گھر سے نکلنے یا اسکول جانے کی اجازت نہیں تھی۔ دادا ابا کو عزت پیاری تھی اور ان کی وفات کے بعد یہ بیڑا دادی اماں نے سنبھال رکھا تھا۔ ہم کس سے ملتے ہیں۔ کون گھر آتا ہے۔ امی نے کہیں کسی سے کوئی بات تو نہیں کی۔ دن بھر کی یہ ساری روداد دادی اماں، ابا کے گوش گزار کرتی تھیں اور ذرا سی بھول چوک پر دادی اور ابا مل کر امی کو مارتے تھے۔ اظہر بھیا سب سے بڑے تھے۔ وہ امی اور ہماری ڈھال تھے۔ ان کے ہوتے گھر میں  سکون تھا۔ ان ہی کی وجہ سے ہمیں گڑیا کی شادی کی اجازت بھی مل گئی تھی ۔ مڈل تک تو اسکول گاؤں کے نزدیک ہی تھا، پر مزید تعلیم کے لئے انہیں شہر جانا پڑا اور یہاں ہم سب بے آسرا ہوگئے اور میری زندگی برباد ہوگئی۔

ہم سب نے روتے ہوئے بھیا کو رخصت کیا تو دادی اور ابا ناراض ہونے لگے دعا دو بھیا کو، خیر سے جائے خیر سے آئے۔ ہم سب نے دعا دی۔ بھیا کے جانے کے بعد ہم نے گڑیا کی شادی کی تیاری شروع کر دی، جو ایک ہفتے سے بھیا کے ساتھ مل کر رہے تھے ۔گھر سجایا مہندی لگائی، اچھے کپڑے پہننے اور آج تو ابا نے امی کو بھی اچھا کھانا بنانے کے ساتھ تیار ہونے کا کہا تھا ،بھیا کو رخصت کر کے ابا امی کو لے کر دادی کے کمرے میں چلے گئے۔

”کہاں چھوٹی ہے، خیر سے پندرہ میں لگ جائے گی ،اب کی شبِ برات میں۔“ دادی کے کمرے سے آواز آئی۔

 ابو امی کو لے کر تھوڑی دیر پہلے ہی دادی کے کمرے میں داخل ہوئے تھے اور دروازہ اندر سے بند کر لیا گیا تھا۔ کسی کو کمرے کی طرف جانے کی اجازت نہیں تھی۔

”شاہدہ آپی !گڑیا کا لال ڈوپٹا کہاں گیا۔“زاہدہ نے رونی صورت بناتے ہوئے کہا۔

”ارے یہ مسہری پر تو پڑا ہے۔ روتی کیوں ہو؟ کچھ آنسو سنبھال کر رکھو، رخصتی کے لیے بس عابدہ اپنے گڈے کی برات لے کر آتی ہی ہوگی۔“شاہدہ نے زاہدہ کو چھیڑا

”آپی سے روز ملنے چلیں گے اور مٹھائیاں کھا کر آیا کریں گے دولہا بھائی سے۔“زاہدہ نے نم آنکھوں سے ہنستے ہوئے کہا۔

تھوڑی دیر میں  دادی کے کمرے کا دروازہ کھول دیا گیا۔

دادی نے بڑے چاؤ سے مجھے سرخ ڈوپٹا اڑا دیا اور امی رونے لگی۔

کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا، ایک افراتفری تھی سارے گھر میں۔ عابدہ کو گڈے کی بارات لانے سے منع کر دیا گیا تھا۔

امی نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور میرا ماتھا چوما

” کریم داد اچھا لڑکا ہے۔ تجھے خوش رکھے گا۔ اللہ تیرے نصیب اچھے کرے ،میری بیٹی!“

”چچا کریم داد! امی نے میرے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔

”نہ بیٹا نہ! چچا نہ کہنا اب، گناہ ہوتا ہے ،شام کو تیری رخصتی ہے۔ امی نے مجھے گلے لگا لیا۔

”پر امی رخصتی تو گڑیا کی تھی آج۔“ میں نے پوچھا، پر امی کے پاس کوئی جواب نہ  تھا۔

٭٭٭٭

پچیس سالہ کریم داد خوبرو جوان تھا۔  گندمی رنگت ، دراز قامت کریم داد  زمیندار کی زمینوں پر کھیتی باڑی کا کام کیا کرتا تھا۔ وہ ابا کا دور کا کزن تھا ،اکثر ابا کی مدد کر دیا کرتا تھا۔ ابا نے اظہر بھیا کو شہر پڑھنے بھیجا تھا اور قرضے کے طور پر پچاس ہزار روپے لیے تھے۔ جس کی معافی کے طور پر آج میں  بیاہی جارہی تھی ۔

کریم داد برات لے آیا اور میں رخصت ہو کر اس کے گھر آ گئی۔

  میری ساس نے منہ دکھائی میں مجھے جو پہلا تحفہ دیا، وہ درانتی تھی، ساتھ اُس نے بتایا کہ فجر  سے پہلے ناشتا دینا ہے اور نماز کے بعد بیلوں کو کھیت کے لیے تیار کرنا ہے چوں کہ کٹائی کا موسم ہے تو عابدہ اور امی کے ساتھ آج سے میں نے بھی کٹائی پر جانا ہے۔ میری سمجھ میں  کچھ نہیں آ رہا تھا۔ یہ کیسا تحفہ ہے، کریم داد کہیں نہیں  تھا۔ اس رات کو گھر نہیں  لوٹا۔ اگلی صبح ساس کو ناشتا دینے کے بعد میں  کھیتوں میں  جانے کو تیار ہوگئی۔

 امی اور عابدہ مجھے لینے آگئیں تو میں  نے امی سے سوال کیا:

”امی یہ کیسی شادی ہے نہ مٹھائی نہ گانے، مجھے واپس گھر جانا ہے۔ دیکھو نا امی! یہ درانتی، میں کیا کروں گی اس کا ،مجھے تو گھر میں تو ہاتھ میں  لینے سے منع کرتی تھی، مجھے یہ کام نہیں کرنا امی مجھے بھی اظہر بھیا جیسا پڑھنا ہے۔“

”چپ پگلی ! کسی نے سن لیا تو جان سے جائے گی، اب تو عزت ہے کریم داد کی ،ایسی باتیں پھر نہ کرنا، جیسے وہ اور اس کی ماں کہے، ویسے کرنا ۔اپنے امی ابو کی لاج رکھنا بیٹا۔“ امی نے قدرے مضطرب ہو کر کہا تو میں نے بھی وعدہ کر لیا کہ اب سے کچھ نہیں  کہوں گی اپنے امی ابو کی لاج رکھوں گی۔ (جاری ہے )