انسانیت کے رشتے (دوسری قسط)

اس بچے کی کہانی جس کے باپ نے اپنے بھائی مل کر اسے ہجڑوں کے حوالے کر دیا تھا اور گھر والوں کو بتایا کہ بچہ چوری ہو گیا ہے ۔

اُم حیات ہنگورا

’’ہاں تو پھر‘‘ اب آپا گلو اطمینان سے بولی۔

’’تو کیا کہہ کر اسے لے آئی۔ یہ ہیجڑا نہیں ہے‘‘ ببلی حیرت سے بولی۔

مزید پڑھیے۔۔

بہتان

نوکرانی بتول  نے مالکن زمیندارنی کے منہ میں دوا کی بجائے جلتا ہوا کوئلہ کیوں ڈال دیا ؟ بتول کے ماں باپ کے ساتھ زمین دار اور اس کی بیگم نے کیا کیا تھا؟

عظمیٰ ظفر

"بتول!  او بتول!  نی او بتولاں!!!

کتھے مر گئی اج ؟ "

مزید پڑھیے۔۔

غرور عشق کا بانکپن

تنزیلہ احمد

 ہمیشہ کی طرح اس کے قدم بس اسٹاپ کی طرف تیز تیز اٹھ رہے تھے۔ دور سے ہی کافی رش نظر آ رہا تھا۔

"صبح کے وقت تو یوں لگتا ہے، جیسے سارا شہر ہی سڑکوں پر نکل آیا ہے۔ ہر کسی کو کہیں نہ کہیں پہنچنے کی جلدی ہوتی ہے۔ ایسے میں اگر آپ کے روٹ کی وین مس ہو جائے تو بعد میں کتنی کوفت اور مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے یہ صرف وہ ہی جان سکتا ہے جو اس ناخوشگوار تجربے سے دوچار ہوا ہو۔" وہ اپنی ہی سوچوں میں غلطاں تھی، جب سامنے سے اسے اپنی مطلوبہ وین آتی نظر آئی۔ اسٹاپ سے اتر کر وہ سڑک پر تھوڑا آگے بڑھ آئی کہ رش بہت تھا اور اسے ہر حال میں دھکم پیل کر کے وین میں سوار ہونا تھا۔ ایک ڈیپارٹمنٹ اسٹور میں سیلز گرل کی نوکری اس کے لیے بہت معنی رکھتی تھی۔ بیس منٹ کی مسافت کے بعد وین نے اسے مطلوبہ اسٹاپ پر اتار دیا۔ وہاں سے دو سڑکیں پار کر کے تقریبا پانچ سات منٹ کی مسافت کے بعد وہ اس بڑے سے مشہور ڈیپارٹمنٹ اسٹور تک پہنچ گئی تھی۔ حاضری لگانے کے بعد اس نے سپروائزر کو سلام کیا جو اس کے سر پر آن کھڑا ہوا تھا۔

مزید پڑھیے۔۔

تربیت

پہلی قسط                      نشا وقار

ایکسکیوزمی آر یو کھنک… " …امتیاز سپر مارکیٹ میں مہینے بھر کی گروسری کی شاپنگ کرکے میں بل  ادا کرنے کاؤنٹر تک پہنچنے کے لیے قطار میں کھڑی اپنی باری کا انتظار کر رہی تھی کہ پیچھے سے آنے والی کچھ اجنبی کچھ شناسا آواز پر میں نے چونک کر دیکھا …“…یس آئی ایم… "… میں نے سوالیہ نظروں سے اپنے سامنے کھڑی کالا عبایا اور کالے ہی اسکارف کا نقاب لگائے خاتون سے پوچھا جو ہاتھوں میں کالے دستانے اور پاؤں میں کالے موزے پہنی ہوئی تھیں- دیکھنے سے صاف لگ رہا تھا کہ خاتون شرعی پردہ کرتی ہیں… “…میں شبی فاطمہ سر شاہ خالد کے کوچنگ سینٹر میں بی- کام کی کلاسز میں ہم ساتھ ہوتے تھے شریف آباد والے کیمپس میں یاد آیا کچھ… ؟

مزید پڑھیے۔۔

کاش مجھے وقت دیا ہوتا

افشاں اقبال کراچی

وہ ٹکٹکی باندھ کر کھانے کی میز پر سلیقے سے رکھے برتنوں  کو دیکھ رہی تھی، پھر اچانک سے چِلانے لگی۔

 ”ہانیہ ہانیہ ادھر آؤ میرے پاس، میں تمہیں اپنے ہاتھوں سے پراٹھا کھلاتی ہوں، پھر اسکول چھوڑنے بھی جاؤں گی “

مزید پڑھیے۔۔

ٹرائس جینڈر

بنت محمود  کراچی

جاذب کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا

"کک ۔۔ کیا ۔۔۔ کیا کہا آپ نے ۔۔۔ ؟ میں کچھ سمجھا نہیں ۔۔۔۔"

"ہاں جاذب میاں تمھارے اندر ایک لڑکی جیسی خصوصیات پائی جاتی ہیں، چاہو تو آپریشن کروا کر ایک مکمل لڑکی بن سکتے ہو " ۔

ڈاکٹر کمار نے اپنی بات دہرائی تو  جاذب سوچ میں پڑ گیا ۔۔ ویسے تو اس کے اندر شروع ہی سے لڑکیوں جیسی نزاکت پائی جاتی تھی۔ اور یہ بات وہ خود بھی اچھی طرح سے جانتا تھا ۔ در اصل پانچ بہنوں ، کئی کزنوں اور ان  کی سہیلیوں کے ساتھ کھیل کھیل کر بڑا ہوا تھا ۔ بہنوں اور ان کی دوستوں کے مزاحیہ وار بھی کچھ کم خطر ناک نہیں تھے ۔ رفتہ رفتہ جاذب کی چال ڈھال اور بات چیت میں زنانہ انداز غالب ہوتا گیا، یہی نہیں بلکہ اس کی ایک شرارتی  کزن نے اس کے دل میں اس کے بچپن کے دوست نادر  کے لیے ایسے جذبات پیدا کردیے  جو کسی لڑکی کے کسی لڑکے کے لیے ہو سکتے ہیں ۔۔۔  دوست کے لیے  دوستانہ محبت کوئی انہونی بات نہیں تھی مگر اس کے جذبات میں زنانہ جذبات بڑھتے جا رہے تھے ، وہ شراتی کزن روزانہ ہی اس کے جذبات کو ہوا دیا کرتی ، پھر اس کزن نے ہی اسے مشورہ دیا کہ تم  ڈاکٹر کمار سے مشورہ کر لو، ڈاکٹر کمار شہر کے مشہور ہسپتال میں جنسیات کے بہت نامی گرامی ڈاکٹر مانے جاتے تھے ۔ ڈاکٹر کمار نے جاذب کی بات چیت سنی چال ڈھال کا جائزہ لیا اور تفصیلی طبی معائنے کا بعد اسے مشورہ دیا کہ تم آپریشن کروا کر لڑکی بن جاؤ جاذب کا دل  بلیوں اچھلنے لگا شاید وہ خود بھی یہی چاہتا تھا۔

 

مزید پڑھیے۔۔

انسانیت کے رشتے

اُم حیات ہنگورا

آخر آپ مجھے بتاتے کیوں نہیں؟ میرا بچہ کہاں ہے؟ آج دوسرا دن ہے، میں نے اپنے بچے کی شکل تک نہیں دیکھی۔ کوئی مجھے بتانے کو تیار نہیں ہے۔ آخر کیا معاملہ ہے؟‘‘ صائمہ یہ کہتے کہتے رو پڑی۔ شعیب نے  صائمہ کی طرف رومال بڑھایا اور کہنے لگا۔ ’’بہت صبر سے میری بات سننا، نہ ہی رونا اور نہ ہی چیخنا۔اِنَّ اللہَ مَعَ الصَّابِرِیْن۔ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ ہمارے گھر جو بچہ پیدا ہوا تھا نا ۔۔۔۔۔!"

اتنا کہتے ہی شعیب کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ہاتھوں سے آنسو صاف کرتے ہوئے شعیب کی آواز  بھرّا گئی۔ پھر وہ ہمت کر کے بولا :

مزید پڑھیے۔۔