(قسط4)

 وہ ایک بہت خوبصورت نازک سا کانچ کا بنا ہوا تاج محل تھا جس میں دھیمے میوزک میں ایک گڑیا گڈے کا کپل جو آہستہ آہستہ کپل ڈانس کرتا ہوا پورے تاج محل میں گول گول گھوم رہا تھا اسکے ساتھ ایک کارڈ بھی تھا جس پر لکھے گئے الفاظ کو پڑھ کر میرا دل کسی اور لے پر ہی دھڑکنے لگا

 نشا وقار

اپنا ہی تھا قصور کے ساحل میں گھر گئے

ایک موج تھی جسے کنارہ سمجھ لیا

 

"فاطمہ دونوں ہاتھوں سے اپنے منہ سے نکلنے والی چیخوں کو روک رہی تھی اس دوران میرے لئے یہ اندازہ لگانا بہت مشکل ہوگیا تھا فاطمہ زیادہ شدت سے رو رہی ہے یا بارش زیادہ شدید ہے ایسا لگ رہا تھا جیسے آسمان بھی فاطمہ کے دکھ پر زاروقطار رو رہا ہے …“…اور جب مجھے ہوش آیا تو ایک بہت بری خبر میری منتظر تھی نہ صرف یہ کہ میرا بچہ دنیا میں آنے سے پہلے ہی مرگیا تھا بلکہ میں ہمیشہ کے لیے بانجھ ہوگئی تھی پے در پے اتنے سارے صدمات میرے نروس بریک ڈاؤن کا سبب بن گئے تھے… ”…فاطمہ ابھی بھی باقاعدہ ہچکیوں سے رو رہی تھی بارش اب تھم چکی تھی اور آسمان بھی کافی حد تک صاف دکھائی دے رہا تھا میں نے چاہ کے فاطمہ کو لےکر نیچے چلی جاؤں لیکن فاطمہ اس وقت میری کوئی بات سننے پر تیار ہی نہیں تھی آج وہ صرف اپنے دکھ سنانے کے لئے آئی تھی…

 

"جب میں ہوش میں آئی تو مجھے اپنے اردگرد وہ لوگ دکھائی دیے جنہیں میں نے چھوڑ دیا تھا جن کا میں نے دل دکھایا تھا میرے اپنے میرے خون کے رشتے میرے ماں باپ میری جنت میری شفقت میری چھوٹی بہنیں جن لوگوں کی محبت ،لاڈ،مان کو لات مار کر ایک اسے شخص کے ساتھ چلی گئی جس نے شروع سے آخر تک صرف مجھے استعمال کیا اور میں بے وقوف عقل سے پیدل استعمال ہوتی رہی وہ کہتا تھا اسے مجھ سے محبت ہے اسے میری ضرورت ہے اگر میں نے اسے چھوڑ دیا تو وہ مرجاۓ گا جس کی محبت کے خاطر میں نے اپنی دنیا چھوڑ دی اپنا آپ بھلا دیا اور اس نے ہی مجھے چھوڑ دیا اس کے چھوڑنے کا اتنا دکھ نہیں تھا مجھے جتنا اس کے دھتکارنے اس کے ذلیل کرنے کا ہوا تھا اس کے لگائے ہوئے الزامات نے مجھے میری ہی نظروں میں گرادیا تھا .

ایسا تو ہونا ہی تھا میرے ساتھ ،نافرمانی کی تھی میں نے اپنے رب کی، اپنے والدین کی، جس رب نے مجھے خوبصورتی عطا کی، میں نے اسی کی نافرمانی کی اس کے دیے ہوئے حسن کو مزید دوآتشہ بناکر غیر مردوں کی نظروں کا مرکز بن گئی تھی رب نے پردے کا حکم دیا اور میں اس کی حکم عدولی کرتی گئی اور اپنےآپ کو ماڈرن بنانے کے چکر میں خود کو نمائش بنالیا تو یہ سب کچھ تو ہونا ہی تھا نا! لیکن اس میں سارا میرا قصور نہیں ہے میری ماں بھی اس میں برابر کی شریک ہے جس نے مجھے کبھی نہیں روکا وہ خود ماڈرن دیکھنے کے لیے بولڈ ڈریسنگ کرتی تھی تو مجھے کسے روکتی… "…فاطمہ زارو قطار رو رہی تھی اس کی آہیں اس کی سسکیاں مستقل جاری تھیں ایسا لگتا تھا جیسے وہ سالوں سے چھپائے اپنے دل کے غبار کو آج میرے سامنے نکال کر ہمیشہ کے لیے ہلکی ہوجانا چاہتی ہے …“…پتا ہے کھنک یہ جو مائیں ہوتی ہیں نا یہ اولاد کی درسگاہیں ہوتی ہیں خاص کر بیٹیوں کو زمانے کی اونچ نیچ سمجانے والی انہیں سرد گرم سے بچانے والی مجھے یاد نہیں کہ کبھی میری ماں نے مجھ سے یہ کہا ہو کہ دوپٹا سر پر لو یا صحیح سے پھیلا کر پہنو، گھر میں کوئی مہمان مرد آیا ہے تو اسکے سامنے اپنا حلیہ صحیح کر کے جاؤ انہوں نے کبھی خود اس چیز کی پروانہیں کی تو وہ مجھے کیا بتاتیں … "…

فاطمہ کے دل میں اپنی ماں کے لیے ڈھیروں شکوے شکایتیں تھیں بارش تقریباً تھم چکی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ فاطمہ کے آنسو بھی.

تیرہ، چودہ سال کی عمر میں لڑکیوں پر بہت روپ آتا ہے اور میں تو تھی بھی خوبصورت اور اس پر میرا بننا سنورنا مجھے ایک انوکھا روپ بخشتا تھا اور یہ ہی وہ عمر ہوتی ہے جب لڑکیاں اپنی آنکھوں میں مستقبل کے سنہرے خواب بننے لگتی ہیں یہ خواہش شدت اختیار کرجاتی ہے کہ دنیا میں کوئی ایسا ہو جو صرف ہمارے لیے بنا ہو جو صرف ہمیں چاہے اور یہ ہی وہ وقت ہوتا ہے جب گھات لگائے شکاری شکار کر جاتے ہیں اور کچی عمر کی لڑکیاں سمجھتی ہیں کہ یہ محبت ہے جن لڑکیوں کی مائیں اپنی کچی عمر کی بیٹیوں کی بظاہر دوست بن کر ان پر کڑی نظر رکھتی ہیں ان کی بیٹیاں ان شکاریوں سے بچ کر وقت آنے پر اپنے اصل شہزادوں کے ساتھ بیاہ دی جاتی ہیں اور جن کی مائیں لاپروا ہوتی ہیں ان کی بیٹیوں کا وہ ہی حال ہوتا ہے جو میرا ہوا ۔

میری پھپھو جب بھی سعودیہ سے آتیں ہمارے گھر ہی قیام کرتی تھیں بہت ہی دین دار خاتون تھی اور یہ وجہ تھی کہ ان کی بیٹے بیٹیاں سب لائق فائق اور اپنی اپنی ازدواجی زندگیوں میں خوش و خرم تھے ایک چھوٹا بیٹا راحیل تھا جو امریکا کی یونیورسٹی میں پڑھتا تھا اس کے باوجود اس نے اپنے ماں باپ کی تربیت پر آنچ نہیں آنے دی تھی پھپھو اکثر مما سے کہتی تھی فوزیہ جب عورت ماں بنتی ہے نا تو اسی پل وہ اپنی نیند،لاپروائی بے خبری،غیرذمےداری،لاابلی پن اور اپنی خواہشات کو ہمیشہ کے لیے الوداع کہہ دہتی ہے خاص طور پر بیٹیوں کی مائیں تو ہر وقت الرٹ رہتی ہیں تم کسی ماں ہو تمھاری بڑی بیٹی اپنا سارا وقت اپنی خالہ کے گھر گزارتی ہے اور دونوں چھوٹیوں کے اپنے مشغلے ہیں تمھیں مارکیٹوں اور پالرز سے فرصت نہیں ملتی اپنی بیٹیوں کے لیے وقت نکالو انھیں ٹٹولو وہ اس وقت جس عمر میں ہیں اس عمر میں بہت کچھ دل و دماغ میں پکتا ہے 15 سے 25 سال کی عمر میں بچوں میں صرف فزیکل چینجز نہیں آتی کہ بلکہ ان کی باڈی میں نئے ہارمونز پیدا ہوتے ہیں جو ان کے اندر جنسی خواہشات (Sexual Desires) بیدار کرنے لگتے ہیں اور اس وقت رومانوی ناول، فلمیں، ڈرامیں انٹرنیٹ کا کھلم کھلا استعمال،مخالف جنس کے ساتھ دوستانہ تعلقات ان کے جذبات کو مزید بھڑکادیتے ہیں اور جب یہ جذبات بھڑک جاتے ہیں تو ظاہر سی بات ہے انکی تسکین کیلئے بچے بے چین ہوجاتے ہیں اور جب کوئی حلال راستہ نہیں ملتا تو وہ حرام راستے پر چل پڑتے ہیں جو کہ انکی صحت برباد کرکے انکو گناہگار کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کرتا اسی لیے اس عمر کے بچوں پر ماں باپ کڑی نظر رکھتے ہی تم بھی ان پر کڑی نظر رکھو اتنی چھوٹی عمر میں انہیں پرسنل موبائل مت دو کھوج لگاؤ کہ وہ اس وقت کس ذہنی کیفیت سے گزر رہی ہیں لیکن افسوس مما نے کبھی ان کی بات کو سنجیدگی سے لیا ہی نہیں الٹا ان کی باتوں کو دقیانوسی باتیں کہا کرتی تھی

فاطمہ کے لہجے میں عجیب سا دکھ بول رہا تھا جسے کوئی اپنی زندگی کی جمع پونجی اپنی نادانی سے گنوا بیٹھا ہو… “…وہ میرے شباب کے دن تھے جب میری چودویں سالگرہ پر مجھ پر پریوں جیسا روپ آیا تھا بہت ساری نگاہوں میں میرے لیے پسندیدگی واضح دیکھ رہی تھی جب شاہ رخ نے میرے نزدیک آکر مجھے ایک خوبصورت سی پیکنگ میں لپٹا ہوا چھوٹا سا ڈبا پکڑاتے ہوۓ مجھے برتھ ڈے وش کیا.اس وقت میں اپنی دوستوں کے ساتھ کھڑی تھی میری دوستوں کی طرف سے معنی خیز جملوں کی بوچھاڑ پر میں نے گھبرا کر جلدی سے گفٹ کھول دیا بس گفٹ کا کھولنا تھا کہ دوستوں نے معنی خیز سیٹیاں بجانا شروع کردی شاہ رخ نے گفٹ ہی ایسا دیا تھا کہ ایک پل کے لیے میں بھی مہبوت رہ گئی وہ ایک بہت خوبصورت نازک سا کانچ کا بنا ہوا تاج محل تھا جس میں دھیمے میوزک میں ایک گڑیا گڈے کا کپل جو آہستہ آہستہ کپل ڈانس کرتا ہوا پورے تاج محل میں گول گول گھوم رہا تھا اسکے ساتھ ایک کارڈ بھی تھا جس پر لکھے گئے الفاظ کو پڑھ کر میرا دل کسی اور لے پر ہی دھڑکنے لگا (دنیا کی سب سے حسین شہزادی کے لیے دنیا کے سب سے حسین شہزادے کی طرف سے محبت بھرا پہلا حسین تحفہ اپنی محبت کے لیے )بس پھر مجھے کسی چیز کا ہوش ہی نہیں رہا ہماری محبت کی داستان سے پورا خاندان واقف تھا میری ننھیال والوں کے لیے تو یہ کوئی بڑی بات نہیں تھی لیکن میرے ددھیال والوں کے اعتراضات پر بند باندھنے کے لیے پندرہ سال کی عمر میں میری شاہ رخ سے بہت دھوم دھام سے منگنی کردی گئی اور اس منگنی نے مجھے ہر طرح کا لائسنس دے دیا شاپنگ گھومنا پھرنا ڈنر فیملی گیٹ ٹو گیدر ہر جگہ میں اور شاہ رخ ساتھ ہوتے اور شاہ رخ سارا خرچہ میرے کھاتے میں یہ کہہ کر ڈال دیتا کہ یار میں تو اسٹوڈنٹ ہوں اور مجھے تو پاکٹ منی بھی نہیں ملتی چھوٹے موٹے ٹیوشن سے اپنا پڑھائی کا خرچ نکالتا ہوں تم تو پرنسسس ہو اپنے پاپا کی ہر وقت تمھارے پرس میں پیسے موجود ہوتے ہیں ابھی تم خرچ کر لو پھر ساری زندگی مجھے ہی خرچ کرنا ہے تم پر اور میں بے وقوف ہمیشہ اس کی چکنی چپڑی باتوں میں آجاتی تھی …"…

فاطمہ کے انداز سے ایسا لگ رہا تھا کہ گئے دنوں کی حماقتوں پر وہ ماتم کر رہی ہے… “…یہ لو پانی پی لو …"…میں نیچے سے ٹھنڈے پانی کی بوتل اور گلاس لے آئی کیونکہ فاطمہ تو نیچے جانے پر تیار ہی نہیں تھی میں نے بھی زیادہ اصرار نہیں کیا اس کی اس وقت جو حالت تھی اس حالت میں اس کا میرے ساس سسر کے سامنے جانا مناسب نہیں تھا …امی ابو کو ناشتا دے کر میں دوبارہ اوپر آگئی جب تک فاطمہ پوری بوتل پانی کی پی چکی تھی اس کی حالت سے ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ صدیوں کی پیاسی ہو …“…طویل علالت کے بعد جب میں ہسپتال سے ڈسچارج ہوئی تو مما، پاپا نے مجھے اپنے ساتھ چلنے کا کہا لیکن میں نے ان کے ساتھ جانے سے معذرت کرلی کیونکہ میری تباہی کی ذمہ دار صرف مما نہیں تھی پاپا بھی برابر کے شریک تھے اگر مما لاپروا تھیں تو پاپا کو اپنی مردانگی دکھانی چاہیے تھی وہ گھر کے سرپرست تھے ان کا تعلق دین دار گھرانے سے تھا انہیں کیوں دکھائی نہیں دیا کبھی کے ان کی بیوی اور بیٹیاں غلط راہ پر گامزن ہیں مجھے ان سے شکوہ ہے انھوں نے کیوں نہیں روکا عمر کے اس حصے میں آکر اور میری حالت دیکھ کر انہیں اس چیز کا احساس ہوا کہ وہ غلطی پر تھے ادھیڑ عمر میں مما کو اپنے سسرال والوں کی اچھائیاں دکھائی دے رہی ہیں جن کے ساتھ انھوں نے ساری عمر دقیانوسی کہہ کر ایک فاصلہ رکھا… ”…فاطمہ کی اپنے والدین سے شکایت بجا تھی اور وہ ماضی میں اسی کھوئی ہوئی تھی کہ ایک کے بعد ایک بات اسے یاد آتی جارہی تھی اور وہ پرت در پرت اپنے ماضی کو میرے سامنے کھول کر بیٹھی ہوئی تھی… “…میری مالک مکان سلمی آپا نے جب یہ دیکھا کہ میں کسی صورت اپنے گھر والوں کے ساتھ جانے پر تیار نہیں ہوں تو انہوں نے مجھے اپنے پاس اپنی بیٹی بناکر رکھ لیا اور میرے والدین میرے روپے سے مایوس ہوکر واپس چلے گئے میں نے اپنے سب رشتےداروں سے کنارہ کشی اختیار کرلی حالانکہ جو بھی کچھ ہوا اس میں میری دونوں چھوٹی بہنوں کا کوئی قصور نہیں تھا لیکن پتا نہیں کیوں میرا ہر رشتے سے اعتبار ہی اٹھ گیا تھا زندگی کی چاہ ہی ختم ہوگئی تھی ایک زندہ لاش کی طرح میں سلمی آپا کے گھر میں رہ رہی تھی …فاطمہ اب کافی حد تک نارمل ہوگئی تھی …

 

سلمیٰ آپا کے دو بچے تھے ایک بیٹا اور ایک بیٹی، بیٹا میٹرک کا طالب علم تھا جب کہ بیٹی ایف ایس سی کر رہی تھی ان کے شوہر جرمنی میں ہوتے تھے ان کے پاس روپے پیسے کی کوئی کمی نہیں تھی پانچ سو گز کا گھر ان لوگوں کے لیے کافی بڑا تھا اسی لیے سلمیٰ اپا نے ایک کمرہ اٹیچ ہاتھ، کچن اور ایک چھوٹے سے برآمدے پر مشتمل ایک پورشن بناکر اسے کرایہ پر دے دیا تھا جہاں فاطمہ نے اپنی زندگی کے بدترین ساڑھے تین سال گزارے تھے صرف شاہ رخ کی محبت اور اچھے دنوں کی چاہ میں… سلمیٰ آپا ایک دین دار اور اچھے دل کی مالک خاتون تھی جو فاطمہ کے بنا کہے اس کے ہر مسئلے کو سمجھ جایا کرتی تھی فاطمہ کے فاقے کے ایام میں اپنی جہاندیدہ نظروں سے فاطمہ کے کچھ کہہ بغیر اس کے حالت جان لیتی تھی اس کے گھر کھانا بچوں کے ہاتھ ایسے بھجواتی تھی جس سے اس کی عزت نفس مجروح نہ ہو فاطمہ اگر کرایہ دے دیتی تو ٹھیک ورنہ خود سے کبھی نہیں مانگتی تھی ان ساڑھے تین سالوں میں انہوں نے کبھی کرایہ بڑھانے کی بات نہیں کی سلمیٰ آپا ایک سمجھدار خاتون تھیں فاطمہ کے کچھ نہ کہنے کے باوجود بہت کچھ بغیر کہے ہی جان گئی تھی .یہ ہی وجہ تھی جب فاطمہ ایک زندہ لاش کی طرح ان کے گھر کے ایک کونے میں پڑی رہتی تھی تو وہ اس کی اس حالت کو دیکھ کر پریشان ہوجاتی تھی وہ جتنا اسے زندگی کی طرف لانے کی کوشش کرتی وہ اتنا ہی زندگی سے بیزار دکھائی دیتی.

 

باقی آئندہ