’’دماغ خراب ہے تیرا یہ بہت بری جگہ ہے۔ ہم مجبور ہیں تُو تو مرد ہے تجھے معلوم ہے تجھے اللہ تعالیٰ نے کتنی بڑی نعمت دی ہے۔ ہمارے زخموں کو نہ چھیڑ۔ اپنے چچا کو نہ ستا دیکھ تو میری بات مان لے‘‘

اُم حیات ہنگورا

چوتھی قسط

’’ہاں یہ تو ہے بھائی، اس فانی زندگی کو سب کچھ سمجھ لیا۔ ابّا جی کے انتقال کے بعد بھی امی جی کو یہ احساس نہیں کہ جس طرح وہ یہ سب چھوڑ کر چلے گئے ہم سب کو اسی طرح چلے جانا ہے‘‘ منصور مایوسی سے بولا۔

’’اس زندگی کو ہی ہم نے سب کچھ سمجھ لیا ہے دراصل، اس زندگی میں جو جتنا کامیاب ہے وہی خدا کا محبوب ہے اور جو جتنا پریشان اتنا اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہیں یہی ہے ہمارا پیمانہ ناپنے کا‘‘ شعیب دل آزاری سے بولے۔

’’امی جان مجھ سے ناراض ہیں‘‘ منصور نے آہستگی سے کہا۔

’’کیوں؟‘‘ شعیب غائب دماغی سے بولا۔

’’وہ میرا مطلب تھا جب اس راہ پر چلو گے تو مخالفت تو سہنی پڑے گی۔ بس کبھی سامنے جواب مت دینا‘‘ شعیب نے اب بات سمجھ کر جواب دیا۔

’’آپ جتنا حوصلہ کہاں سے لاؤں گا گا آپ نے اپنے منے کے اغوا پر بھی صبر کرلیا صرف ۔۔۔ ‘‘

’’میں نے  اپنا معاملہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیا ہے‘‘ شعیب منصور کی بات کاٹ کر بولا تو منصور خاموش ہوگیا۔

’’سوری بھائی جان میرا مطلب آپ کی دل آزاری نہیں تھا وہ تو امی ۔۔۔ ‘‘ منصور اتنا کہہ کر خاموش ہوگیا۔

’’ہمارے حضرتِ والا کہتے ہیں کہ ہماری مائیں بڑی شفیق ہوتی ہیں یہ اکیلے جہنم میں نہیں جائیں گی اپنے ساتھ اپنے بچوں کو بھی جہنم لے جائیں گی۔ جب تک ابو زندہ تھے ہم سے اکثر ابو کی شکایتیں یعنی غیبتیں کرتیں اب ان کے بعد ہم بہن بھایئوں سے آپس میں ایک دوسرے کی غیبتیں کرکے نفرت کے بیج بورہی ہیں۔ اچھا اور مکمل تو کوئی بھی نہیں ہوتا ہر بچے میں کمی کوتاہی ہوتی ہے جو بجائے درگزر کرنے کے اب مستقل ٹیلی فون پر اور عام محفلوں میں کی جاتی ہیں۔ بس اتنی غیر اہم باتوں کے زیر اثر رشتے ناتے ختم ہوجاتے ہیں۔ کاش امی سمجھ جائیں یہ تو بڑی بھابھی اور صائمہ دونوں ہی صبر کر جاتی ہیں مگر آخر کب تک ایسا ہوگا‘‘ شعیب نے افسوس بھرے لہجے میں کہا۔

’’ہر گھر کی یہی کہانی ہے بھائی جان‘‘ منصور بولا۔

’’اچھا چھوڑو میرے ساتھ کھانا کھا کر جانا‘‘ شعیب نے کہا تو منصور نے اثبات میں سر ہلادیا۔

٭٭٭٭٭

’’آ چل اس کے ماں باپ کو واپس دے آئیں یہ تو پہلے مشکل ہے پھر مشکلوں کے دروازے ہم پر کھل جائیں گے ہم تو جیسے تیسے رہ گئے، ساری زندگی لوگوں کی باتیں سنیں اور بدتمیزیاں برداشت کیں مگر اس معراج کا کیا ہوگا، یہ سب کیسے سہ پائے گا‘‘ ببلی نے اسکول کا فارم دیکھ کر آپا گلو کو سمجھایا۔

’’نہیں ببلی آئندہ ایسا مت کہنا اس ننھے فرشتے نے ہی ہماری زندگی بدلی ہے۔ ہم نے گناہوں سے بھری زندگی ترک کی ہے۔ اس کے بغیر تو میں مر جاؤں گی۔ امام صاحب ہیں نا!!! اللہ تعالیٰ ان کو زندگی دے انہوں نے جس طرح ہماری مدد کی ہے وہ کوئی کیا کرے گا۔ وہی اس مسئلے کا حل بتائیں گے‘‘ آپا گلو یہ کہہ کر وہ وقت یاد کرنے لگیں جب اسپتال میں معراج کی طبیعت بہتر ہوئی تو وہ دونوں معراج کو لے کر باہر سڑک پر آگئیں۔

’’کہاں جانا ہے بی بی‘‘ رکشہ والے نے پوچھا۔

’’اس پتے پر جانا ہے بھائی‘‘ آپا گلو نے پرچی آگے کی۔

’’بیٹھو‘‘ رکشے والے نے پرچی دیکھ کر کہا۔

’’کچھ بتا تو دے کدھر جارہے ہیں ہم‘‘ ببلی خفگی سے آہستہ سے بولی۔

’’صبر کر جا‘‘ آپا گلو نے اتنا ہی کہا تو ببلی باہر کی طرف دیکھنے لگی۔ (کراچی سے کتنا مختلف ہے یہ) ببلی نے دل میں سوچا۔

’’جی یہی مکان ہے‘‘ رکشے والے نے گھر کے سامنےرکشہ روکا۔ ’’اللہ تمہارا‘‘ آپا گلو کہتے کہتے رکی۔ ’’کتنا کرایہ ہوا بھائی‘‘ ’’دو سو پچپن روپے، ڈھائی سو دے دو‘‘ رکشے والے نے کہا تو پھر زبان آپا گلو نے دانتوں تلے دابی۔ یہ لو کہہ کر وہ اتر گئیں۔

٭٭٭٭

’’آپ یہ سب چیزیں کسی کو دے کیوں نہیں دیتیں‘‘ صائمہ جو چھوٹے بچوں کے کپڑے اور چیزوں کو دیکھ رہی تھی ساتھ ہی رو رہی تھی مومنہ کی بات سن کر چونکی۔ ’’تم یہاں کیا کررہی ہو؟‘‘ صائمہ نے قدرے غصے سے مومنہ سے کہا۔ ’’ہر دوسرے دن آپ گھنٹوں یہیں پائی جاتی ہیں اسٹور میں ہم کو آپ سے کام ہوگا تو ہم کہاں جائیں گے؟‘‘ اب مومنہ نے وضاحت دی۔

’’کیا کام ہے؟‘‘ صائمہ نے پوچھا۔

’’یہ سمجھادیں مجھے یہ سوال سمجھ میں نہیں آرہا‘‘

’’اچھا تم چلو میں آتی ہوں‘‘ صائمہ نے سب چیزیں سمیٹ کر الماری میں رکھیں اور اسٹور کا دروازہ بند کرکے کمرے میں آگئی۔ ’’منا نہیں ہے تو یہ حال ہے منا ہوتا تو ہم نہ جانے کہاں ہوتے معاذ‘‘ مومنہ نے معاذ سے کہا۔ دونوں بہن بھائی بیٹھ کر ہوم ورک کررہے تھے ساتھ ہی باتیں بھی۔

’’یہ دیکھو میرا کام‘‘ میری ٹیچر کہہ رہی تھیں معاذ بہت  Carelessکیئرلیس ہوگیا ہے۔ امی کو پروا ہی نہیں‘‘ معاذ نے افسردگی سے کہا۔

’’آئی ایم سوری بیٹا‘‘ صائمہ کو اندازہ ہوا کہ دن بدن وہ اپنے بچوں سے کتنا دور ہوتی جارہی ہے۔ ’’اب ایسا نہیں ہوگا ان شاء اللہ‘‘ وہ مسکرائی تو بچے بھی مسکرائے۔

٭٭٭٭٭

’’تم آپا گلو‘‘ دروازہ کھولنے والا چونکا۔

’’کیسے ہو شمسی بھائی‘‘ آپا گلو نے جواباً کہا۔

’’ٹھہرو میں آتا ہوں‘‘ آدمی اندر چلا گیا اور پھر باہر آیا۔ ’’چلو‘‘ اس نے گاڑی کی طرف اشارہ کیا۔ ’’اب بتاؤ یہاں کیوں آئی ہو؟‘‘ شمسی بھائی نے پوچھا۔ ’’تم نے کہا تھا کہ جب بھی میں اس دلدل سے نکلنا چاہوں گی تم میری مدد کروگے‘‘ آپا گلو نے کہا۔ ببلی حیرت سے دونوں کی باتیں سن رہی تھی۔

’’سارے دروازے بند کرکے آئی ہوں۔ ساری کشتیوں کو آگ لگا کر آئی ہوں‘‘ شمسی بھائی کے جواب میں آپا گلو بولی۔ ’’یہ کون ہے؟‘‘ شمسی بھائی نے ببلی کی طرف اشارہ کیا۔ ’’تم کو کہاں یاد ہوگا ببلی ہے یہ‘‘

’’اتنی بڑی ہوگئی۔۔۔ اور یہ ‘‘ اب اس نے معراج کی طرف اشارہ کیا۔ ’’یہ‘‘ آپا گلو نے بغور معراج کو دیکھا۔ ’’اس کی وجہ سے تو سب کچھ چھوڑا ہے‘‘ ’’کہاں سے ملا‘‘ ’’مت پوچھو‘‘ ’’مگر یہ‘‘۔ ’’ہاں یہ لڑکا ہے۔ جھوٹ بولوں گی نہیں، سچ بتایا نہ جائے گا‘‘ آپا گلو نے کہا۔ ’’اچھا‘‘ شمسی بھائی نے گاڑی ایک مکان کے آگے روکی اور پھر مکان کا تالا کھول کر آپا گلو کو اندر بلوالیا۔ ’’کافی دن سے مجھے نہ جانے کیوں تمہارا مستقل خیال آرہا تھا۔ مجھے یہ سوچ کر رونا آتا تھا کہ تم اب تک وہاں سے نکلی کیوں نہیں‘‘ ’’کیا وہ سب چھوڑنا اتنا آسان ہے۔ تُو تو مرد تھا تجھے تو دنیا نے قبول کرلیا مگر ہمارا کیا ہوگا ہمیں معاشرہ کیا چین کی سانس لینے دے گا؟‘‘ ’’دیکھ آپا گلو اس میں کوئی شک نہیں کہ تم لوگوں کی مشکلات بہت زیادہ ہیں۔ مگر میں نے تمہارے جیسے کئی لوگوں کو باعزت زندگی گزارتے دیکھا ہے۔ اچھائی تجھ میں تھی جو تو نے مجھے وہاں سے نکالا۔ ورنہ میں بھی وہیں کہیں ناچ گانا کررہا ہوتا۔ میں لاوارث تھا کیا یہ بھی‘‘  شمسی بھائی نے معراج کی طرف اشارہ کیا۔

’’اللہ نہ کرے‘‘ آپا گلو نے یک دم کہا۔

’’کیوں اس کے ماں باپ کے جگر کا ٹکڑا چھینا ہے‘‘

’’میں نے تجھے پہلے بھی کہا تھا کہ تو نہ پوچھ ورنہ لاہور بہت بڑا ہے‘‘ آپا گلو سنجیدگی سے بولی۔

’’یہ جو تمہارے کپڑے وغیرہ ہیں ان کو چھوڑ کر اب تم لوگوں کو مردانہ کپڑے اور مردانہ چیزیں استعمال کرنا ہوں گی‘‘ شمسی بھائی نے سمجھایا۔ ’’وہ میں کل تک لادوں گا‘‘ ’’یہ دوائیاں چاہیے ہیں ‘‘ آپا گلو نے پرچہ بڑھایا۔ ’’ٹھیک ہے میں ابھی یہ اور کھانے پینے کا سامان دے جاؤں گا۔ یہ ساتھ ہی مسجد کے امام صاحب کا گھر ہے۔ میں ان کو کہہ دوںگا وہ بہت اچھے آدمی ہیں۔ میری زندگی کو بدلنے میں ان کا بڑا ہاتھ ہے۔ میں نے ان سے تمہارا ذکر بھی کیا ہے۔ کل تک میں کچھ کام نپٹالوں پھر سوچتے ہیں کیا کرنا ہے۔‘‘

کھانا، دوائیاں ضرورت کی چیزیں دینے کے بعد شمسی بھائی نے آپا گلو سے کہا ’’دروازہ اچھی طرح سے بند کرلینا‘‘

’’یہ سب کیا ہے آپا گلو‘‘ ببلی جو حیرت سے سب دیکھ رہی تھی شمسی بھائی کے جاتے ہی پوچھنے لگی۔

’’لمبی کہانی ہے ابھی سنے گی کیا‘‘ آپا گلو چارپائی پر لیٹتے ہوئے بولی۔ لے معراج بھی سو گیا ہے ابھی کرنا کیا ہے، ببلی دوسری چارپائی پر معراج کو سوتا دیکھ کر بولی۔ ’’اچھا‘‘ آپا گلو نے جماہی لی نیند بھی آرہی تھی تھکن بھی ہورہی تھی ایسا کرتے ہیں کل‘‘ آپا گلو نے جان چھڑانا چاہی۔

’’کل ۔۔۔ اچھا‘‘ ببلی روٹھے لہجے میں بولی۔

’’ماں باپ کے انتقال کے بعد چچی کے ظلم کی وجہ سے اور پھر ٹی وی، فلمیں دیکھ کر یہ شمسی گھر سے بھاگ کر ہمارے ٹولے میں آگیا تھا۔ دو تین دفعہ اس کا چاچا ڈھونڈتا اسے ہمارے علاقے تک پہنچا مگر یہ واپس یہیں آجاتا مگر ایک دن اس کا چچا پولیس والوں کے ساتھ جب ہمارے علاقے میں پہنچا تو

٭٭٭٭

’’دیکھ شمسی میں کہتی ہوں تو واپس چلا جا، یہ صرف ذلت اور رسوائی والی جگہ ہے‘‘ گلو نے اس کو سمجھایا وہ بھی اس وقت تقریباً اس کا ہم عمر تھا۔

’’مجھے یہ سب کچھ اچھا لگتا ہے مجھے یہاں سکون ملتا ہے، چچا کے گھر سے تو یہ بہت ہی اچھی جگہ ہے‘‘ شمسی بولا۔

 ’’دماغ خراب ہے تیرا یہ بہت بری جگہ ہے۔ ہم مجبور ہیں تُو تو مرد ہے تجھے معلوم ہے تجھے اللہ تعالیٰ نے کتنی بڑی نعمت دی ہے۔ ہمارے زخموں کو نہ چھیڑ۔ اپنے چچا کو نہ ستا دیکھ تو میری بات مان لے‘‘

 ’’میں چچا کے ساتھ ہرگز نہیں جائوں گا‘‘

 ’’میری مان لے یہ تیرا چچا اب بھی سب سے بہتر ہے تیرے لیے۔ صرف کام ہی زیادہ کرنا پڑتا ہے مگر یہاں پر گدھ ہیں سب تجھ کو کھاجائیں گے‘‘

اور پھر میں نے اس کو اس کے چچا کے حوالے زبردستی کردیا۔ جاتے ہوئے مجھے بہت گالیاں دے کر گیا۔ مگر پھر کچھ عرصہ بعد آیا اور بہت شکریہ ادا کیا اور مجھے کہا کہ جب بھی میری ضرورت ہو تو مجھے یاد کرلینا اور اس نے مجھے آفر تب بھی دی تھی کہ میں سب چھوڑ کر اس کے ساتھ چلوں وہ مجھے باعزت نوکری دلوادے مگر اس وقت مجھے تیری فکر تھی اور اب اس کی فکر مجھے یہاں لے آئی‘‘ آپا گلو نے یہ کہہ کر منہ تک چادر تان لی۔

’’کچھ سمجھ میں آیا ہے کچھ نہیں خیر۔۔۔‘‘ ببلی بڑبڑائی اور کروٹ بدل لی۔

(جاری ہے )