اندھیرے سے اجالے تک

جس طرح ایئرپورٹ پہ زیادہ سامان ہونے کی وجہ سے checking میں مشکل آتی ہے وہاں یہ بھی سوچ لینا چاہیے کہ آخرت کی checking کیسی ہوگی! گناہوں کا بوجھ کم ہوگا تو ان شاءاللہ آسانی کے ساتھ قیامت میں اس مرحلے سے گذر جائیں گے ایئرپورٹ کے لیے سامان کا بوجھ کم رکھو اور آخرت کے لیے گناہوں کا بوجھ کم رکھو، تا کہ دونوں جگہوں پہ آرام سے نکل جائیں لمبی لائن میں کھڑا نہ رہنا پڑے

(تیسری قسط )
عائشہ شیخ

مزید پڑھیے۔۔

ایسی بے حسی اف توبہ

شوہر کی جان پر بنی ہو تو بیوی اس طرح کیسے کہہ سکتی ہے۔ میں نے تھوڑی دیر بعد خود فون کیا، ان سے نام لے کر پوچھا کہ کیا آپ ان کی بیگم ہیں۔ کہنے لگیں جی ہاں میں ان کی بیوی بات کر رہی ہوں۔ میں نے مریض کی کنڈیشن کے بارے میں بتایا کہ ان کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے اور ساتھ آپ نے چھ سات سال کے بچے کو بھجوایا ہوا ہے۔ آپ خود تشریف لے آئیں یا گھر میں سے کسی اور کو بھجوا دیں۔ کہنے لگیں کہ ڈاکٹر صاحبہ میں تو گھر میں اکیلی ہوں۔ میں گھر کو چھوڑ کر نہیں آ سکتی۔

تحریر:ڈاکٹر فرخ فاطمہ اشرف
انتخاب : محی الدین

مزید پڑھیے۔۔

زندگی تو میں بھی ہوں

اور پھر کیا ہوگا وہی ڈاکٹر کی معمول کی باتیں۔ یہ نیا ٹیسٹ کروا کر دیکھتے ہیں، تھوڑا سا مسئلہ ہے وہ اس ٹریٹمنٹ سے ٹھیک ہو جائے گا، یہ ٹیسٹ دوبارہ کراؤ، یہ دوا شروع کر کے دیکھو، شوہر سے کہو ٹیسٹ کروائیں میں لکھ دیتی ہوں، طاقت کی چیزیں کھاؤ، پریشان مت ہوا کرو، خوش رہا کرو،اللہ نے چاہا تو اولاد ضرور ہوگی۔

پانچویں قسط
مہوش کرن

مزید پڑھیے۔۔

زندگی تو میں بھی ہوں

اس نے کمرے سے باہر جھانکا تو سامنے ساس کے کمرے میں کسی غیر معمولی بات کا احساس ہوا اور سب لوگ آہستہ آہستہ باتیں کرتے بھی محسوس ہوئے۔ اک دم ایسا لگا کہ جیسے ندیم زمین پر سیدھے لیٹے ہوئے ہیں۔ اجالا شش و پنج میں مبتلا ہو کر اس کمرے میں گئی تو دیکھا ساس، دیور اور شہنیلا سب موجود ہیں۔ ایک کونے میں مہرین بھی چپ چاپ کھڑی ہے اور ندیم زمین پر بے ہوش پڑے ہیں۔ یہ دیکھ کر اجالا کے منہ سے چیخ نکل گئی

چوتھی قسط

مہوش کرن

مزید پڑھیے۔۔

اندھیرے سے اجالے تک

جب وہ ہمارے ساتھ بے وفائی نہیں کرتا تو ہم کیوں کریں! !!!!!! جب کوئی نہیں سنتا تو وہ سن لیتا ہے فریاد ہماری! جب کوئی نہیں پہچانتا ہمیں وہ رب پہچان لیتا ہے،جب سب منہ موڑ لیتے ہیں وہ تب بھی ساتھ دیتا ہے،جب لوگ بے عزت کرتے ہیں تو وہ پھر عزتیں بھی کرواتا ہے, گمان سے آگے بیان سے باہر

(دوسری قسط )
عائشہ شیخ

مزید پڑھیے۔۔

اندھیرے سے اجالے تک

بالآخر حدیقہ کی امی نے دعا کروائی ، جو کہ نہایت ہی خلوص اور عاجزی کے ساتھ مانگ رہی تھیں, سننے والیوں کی آنکھیں نم ہو گئیں، ایک عجیب اطمینان والی کیفیت سب پہ طاری تھی، جس کو دیکھ کہ کسی کا بھی ایمان تازہ ہو سکتا ہے
عائشہ شیخ
(پہلی قسط)

مزید پڑھیے۔۔

زندگی تو میں بھی ہوں !

چند سال بعد ندیم نے بڑی دھوم دھام سے شہر کے ایک پوش علاقے میں اپنے بنگلے کی تیاری کا کام شروع کروایا۔ وہ ہر چیز کے لیے اُجالا کو ساتھ لے جاتے، ہر معاملے میں اس کی پسند ناپسند کو مدِ نظر رکھتے۔جس چیز پر ہاتھ رکھتی اور پسند کرتی وہ بہت آرام سے خرید لیتے، ہر کوئی تعریف کرتا اور رشک سے دیکھتا کہ واہ کیا بات ہے، کہیں اس انداز میں بھی گھر بنتے ہیں کہ بیگم صاحبہ کی پسند ناپسند سے ہٹ کر تو بات ہی نہیں ہورہی۔ پورے بنگلے کا پینٹ، ٹائلز، خاص کر باورچی خانے کا اسٹائل سب کچھ اجالا نے طے کیا تھا۔
مہوش کرن اسلام آباد
تیسری قسط

مزید پڑھیے۔۔

زندگی تو میں بھی ہوں! (دوسری قسط)

اُجالا کو اس کے گھر سے نکال دیا گیا تھا۔ اس بات کو اب کئی مہینے ہوچکے تھے اور وہ اپنے ماں باپ اور بھائیوں کے ساتھ اسی گھر میں رہ رہی تھی۔ جبکہ اس کی نند و بھاوج یعنی اس کے بھائی شعیب کی بیوی اپنے میکے جا چکی تھی۔ وجوہ جو بھی تھیں یقیناً شعیب اور شہنیلا کے درمیان مسائل ہی تھے لیکن اُجالا اور ندیم کی زندگی اور رشتے کو بھی نتائج بھگتنے پڑ رہے تھے۔

مہوش کرن اسلام آباد

مزید پڑھیے۔۔

کافی ۔میں اور وہ

مجھے کافی پینی ہے،" میں نے دبنگ اپنی پسندیدہ کافی بار کا نام لیتے اسے حکم جاری کیا۔۔ "چلو" حسب عادت وہ بائیک کی چابی پکڑے تیار تھا۔۔

"ہونہہ اتنا بڑا کیفے بار اور یہ اس پٹیچر۔۔" میرے مکمل اماؤس بننے سے قبل وہ میرے کان کے پاس جھکا۔۔ "چلو کیا یاد کروگی، وہ کافی پلواتے ہیں۔۔" اور میں تجسس ہی میں پورے راستے خیالی پلاؤ بناتی بائیک کے ساتھ خود بھی اڑتی رہی کہ اچانک بائیک رکی۔۔۔۔۔

عائشہ محبوب

مزید پڑھیے۔۔

زندگی تو میں بھی ہوں !

مہوش کرن

پہلی قسط
کہاں وہ عشق و محبت، کہاں وہ ہجر و وصال
یہاں تو لوگ ترستے ہیں زندگی کے لیے
کبھی پلکوں پہ آنسو ہیں، کبھی لب پہ شکایت ہے
مگر اے زندگی پھر بھی، مجھے تجھ سے محبت ہے

مزید پڑھیے۔۔

چھپکلی اور چیونٹی

بس جی اب کیا تھا۔۔۔ وہ بھی سینے پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گئے بلکہ بستر پہ لمبے لیٹ گئے۔ اور زندگی سے مایوس ہو کر بولے:

”چل نیک بخت! اب مرنے کے لیے تیار ہو جا۔ نہ جانے کتنا زہر ہم دونوں کے اندر سرایت کر چکا ہے۔ بس اب تو کسی بھی لمحے موت کا فرشتہ آنے والا ہے۔ سنا ہے چھپکلی کی کھال بہت زہریلی ہوتی ہے منٹوں میں آدمی کو قبر میں پہنچا دیتی ہے۔ بس لیٹ جا اور کلمہ پڑھتی رہ۔۔۔۔

ام محمد سلمان

مزید پڑھیے۔۔

تین کا ہندسہ

دیوار پر لکھنا منع ہے۔” پھر لکھا بھی اتنے رسوخ اور وثوق سے ہوتا ہے کہ پاکستانی عوام دیوار کے اشتہار کے نیچے دئیے گئے ایڈریس اور فون نمبر ضرور نوٹ کرتی ہے۔ کچھ مرد حضرات دائیں بائیں دیکھ کر چپکے سے نوٹ کرتے ہیں اور ایسا ظاہر کرتے ہیں کہ وہ حوائج ضروریہ کی اشد ضرورت کے پیش نظر یا ضبط برداشت سے بےچین ہو کر اسی دیوار تلے شروع ہو گئے۔

ارم رحمان لاہور

مزید پڑھیے۔۔

آزادی

میری کسی کو فکر ہی نہیں ہے میرے سر میں درد ہے مجھے ہاسپٹل نہیں لے کر جا رہے آج اگر میں ماڈل ہوتی تو آگے پیچھے ڈھیروں لوگ ہوتے جو میرا خیال رکھتے۔۔ میرے نوکر چاکر میرے آگے پیچھے گھومتے اور لیے اچھے اچھے کھانے بنا کر لاتے، مجھے کوئی کام بھی نہیں کرنا پڑتا بس ان کو ماہانہ تنخواہ دینا میرا کام ہوتا

مریم رحمن کراچی

مزید پڑھیے۔۔

نوراں

شادی کی رات بوجھل دل سے کمرے میں داخل ہوا تو نوراں ٹیوب لائٹ کی طرح روشن تھی اور اس کا وجود پورے بستر پر پھیلا پڑا تھا، جوانی کا بے لگام گھوڑا جسے بدکنے میں دیر نہیں لگتی، ایک منہ زور دریا کی طرح شور مچاتا ,حدیں پھلانگتا ، سہاگ رات میں کیسے تھمتا۔۔

ارم رحمٰن ایڈووکیٹ لاہور

مزید پڑھیے۔۔

نتیجہ

جی مجھ جیسی لڑکی نے ایسے ماحول میں ایک مہینہ گزارا، اس سے زیادہ کی توقع آپ مجھ سے نہیں رکھیے گا ۔ ہم صرف آپ کو یہاں یہ بتانے آئے ہیں کہ کل ہم یہاں سے جارہے ہیں ۔ اپنی بات پوری کرکے وہ کمرے سے چلی گئی اور صفوان بھی اس کے پیچھے ہولیا۔ صائمہ بیگم بھیگی آنکھوں سے اپنا خالی دامن دیکھتی رہ گئی۔

ام حمید میر پور خاص

مزید پڑھیے۔۔

گرداب

بچپن کی منگنی وہ ظلم ہوتا ہے اولاد پر جو ان کے کھیلنے، کھانے کی عمر میں ہی جذبات سے آشنا کرکے ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو کمزور کرکے رکھ دیتا ہے ۔ان کی توجہ اپنی شخصیت کی تعمیر سے ہٹ کے خود کو منگیتر کی پسند ناپسند کے آئینے میں ڈھالنے کی طرف ہوجاتی ہے ۔دنیاداری ،زمانہ شناسی ، سیکھنے کی بچائےسوچوں کو گھن لگ جاتا ہے

کنیز باھو

مزید پڑھیے۔۔

کشتیاں الٹتی ہیں

عبدالکریم جس نے میری جان بچائی تھی، اس نے مجھے آتے ہوئے ایک آفر دی تھی، وہ چاہتا تھا کہ اسی وقت اس کے ساتھ جاؤں ، مگر میں یہاں آنا چاہتا تھا، اب یہاں حالات آپ کے سامنے ہیں، مجھ میں ذہنی طور پر ابھی کچھ کرنے کی سکت نہیں، اور قرض خواہ الگ جان کو آئے ہیں، بچوں کو اسکول سے نکال دیا گیا ہے، " "تو کیا آفر ہے اس کی بیٹا؟" آسیہ بی بی نے اپنے بیٹے کو کچھ الجھ کر دیکھا۔۔
"اس کی بہن ہے ایک۔۔" "توووووو" رومی نے بات کاٹ دی اندر کی حس بیدار ہو چکی تھی، عدیل نے نظریں چرائیں۔۔ "وہ بیوہ ہے، عبدالکریم چاہتا کہ میں اس سے شادی کروں اور اس کا جو حصہ ان کے آبائی کاروبار اور جائیداد میں بنتا وہ میں سنبھالوں!!!"۔

عائشہ محبوب
آخری حصہ

مزید پڑھیے۔۔

آزمائش

عبدالشکور مکتی بانیوں کی نظروں میں تھے- ایک رات ان مکتی بانیوں کے ایک بڑے جتھے نے ان کے گھر پر دھاوا بول دیا- ان کی بیوی اور بچوں کو قتل کردیا- عبدالشکور کسی طرح جان بچا کر بھاگ نکلے- مکتی بانیوں نے ان کے سارے گھر کو لوٹ لیا اور فیکٹری پر بھی قبضہ کر لیا -
ام منیب کراچی

مزید پڑھیے۔۔

نور الاسلام

نور الاسلام مستقل دعاؤں میں مصروف تھیں۔ آنکھوں سے اشک بہ بہ کر دامن بھگو رہے تھے۔ "یا اللہ! میرے وطن کی حفاظت کرنا، اسے رہتی دنیا تک سلامت رکھنا۔ اللہ تو جانتا ہے کہ تیرے بندوں نے اس مملکت کے قیام کے لیے عظیم الشان قربانیاں دیں۔ گھر بار اور جائیدادیں چھوڑیں، آگ و خون کا دریا پار کیا، اپنے پیاروں کو خاک و خون میں نہلوا دیا، اپنی ماؤں بہنوں بیٹیوں کی عصمتوں کو گنوا دیا... آخر کیوں کیا تھا ہم نے یہ سب؟ کیا صرف زمین کا ایک ٹکڑا لینے کے لیے؟
آخری قسط
ام محمد سلمان

مزید پڑھیے۔۔

اٹل حقیقت

بعض اوقات انسان لاعلمی میں ایسا کچھ کرجاتا ہے۔جس کا خمیازہ اسے ہر حال میں بھگتنا ہی پڑتا ہے۔ کیونکہ مکافات عمل اٹل ہے ۔۔۔اور ایک تلخ حقیقت بھی۔۔کسی کے ساتھ کیا گیا ناروا سلوک آ پ کی زندگی میں سے سکون چھین سکتا ہے۔

ام عبد اللہ رمضان کراچی

مزید پڑھیے۔۔

نورالاسلام

آپ ابھی بھی میرے ساتھ رہنا قبول کریں گے وجاہت؟ یہ جانتے ہوئے بھی کہ میں تین سال تک سکھوں کے ساتھ رہی ہوں اور... اور.... میری زبان لڑکھڑانے لگی.. میں اب آپ کے لائق نہیں رہی وجاہت! میرا سارا وجود ناپاک ہو گیا ہے۔ گزرے وقت نے میرے سینے میں وہ زخم چھوڑے ہیں کہ اب انھیں کوئی مندمل نہیں کر سکتا۔ مجھے ان رِستے زخموں کے ساتھ اکیلے ہی جینا ہے۔ میں اب آپ کے لائق نہیں..... آپ میرا خیال اپنے دل سے نکال دیجیے

ام محمد سلمان

مزید پڑھیے۔۔

کشتیاں الٹتی ہیں

عائشہ محبوب
مشترکہ نظام میں سب کو برابر رقم رکھنی ہوتی تھی ساس کے ہاتھ پر، نتیجتاً، جیٹھ ، دیور اور ان کے اہل و عیال پر اثر نا ہوتا لیکن رومی اور اس کے شوہر کو تنگی ہوجاتی، اگر خرچے میں کبھی عدیل کچھ کمی کرتا تو جیٹھانی دیورانی میدان میں شوہروں کو مٹھی میں کرکے پہنچاتیں وہ بھی وہی خرچ دیتے، بچے ہوجانے کے بعد تو رومی کی زندگی میں مزید تنگی در آئی ، اوپر سے ساس نندوں اور سسر تک کا رویہ ایسا ہوتا کہ کبھی ترس کھا لیا کبھی درخور اعتنا نہ سمجھا
(پہلا حصہ)

مزید پڑھیے۔۔

شیطان کا تیر

آخر ایک دن زین کہنے لگا " ہم کورٹ میرج کر لیتے ہیں - تم کل رات کو اسی جگہ آ جانا - ہم شادی کر لیں گے-" شیطان نے جو جال بنا تھا میشہ اس میں بری طرح پھنس چکی تھی- ساری رات میشہ سوچتی رہی آخر دل کے ہاتھوں مجبور ہو گئی -

دوسری رات میشہ چپکے سے گھر سے نکلی اور مقررہ جگہ پر پہنچ گئی - زین انتظار میں کھڑا تھا اس کے ساتھ اس کا ایک دوست بھی تھا- دونوں اس دوست کے گھر گئےاور نکاح کرلیا۔۔۔۔۔

ام منیب کراچی

مزید پڑھیے۔۔

شرمندگی

شمیم اپنے شوہر کو چھوڑ کر دو بچوں کے ساتھ شہر آ گئی ۔ریاض کی ملاقات اس کے ایک رشتے دار کے گھر ہوئی ۔شمیم ایک چالباز عورت تھی ۔ریاض جلد ہی اس کے جھانسے میں آ گیا ۔ویسے بھی اسے اپنے بیوی بچوں کی کیا پرواتھی۔شمیم نے اپنے پہلے شوہر سے طلاق لیے بغیر ہی ریاض سے نکاح کر لیا۔
ام عبد اللہ رمضان

مزید پڑھیے۔۔

سفید پوش

میری بیوی نے ہمیشہ میرا ساتھ دیا اور آج بھی دے رہی ہے۔ لیکن اب جیسے میں ہی اس کا ساتھ نہیں دے پا رہا۔ کبھی جو میں اس کو کپڑے اور زیور بنوا کر دیتا تھا۔ آج اس کا زیور بیچنے پر مجبور ہوگیا ہوں۔ وہ زیور جو اس کی امی اور میری امی نے بڑے چاؤ سے اس کے لیے شادی پر بنوایا تھا۔ اب وہ ایک ایک کر کے خود ہی بیچنے کے لیے دیتی جا رہی ہے۔ بہت عرصے تک تو میں لینے سے انکار کرتا رہا لیکن اب مجبور ہو کر لے رہا ہوں

مہوش کرن

مزید پڑھیے۔۔

تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے

سبین اپنے لیے سست، کاہل ،فضول خرچ، بے عقل، غیر ذمے دار، جذباتی، جیسے کئی القابات ایک ساتھ اپنی ذات کے لیے برداشت نہ کر سکی۔ اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے کے بعد پھٹ پڑا اور دانش کے ساتھ جھگڑتے ہوئے صاف کہہ دیا کہ جب سے تمہاری ماں اس گھر میں آئی ہے، اس گھر کا سکون تباہ ہو کر رہ گیا ہے۔ دانش اپنی ماں کے لیے سبین کی زبان سے ایسے الفاظ برداشت نہ کر سکا اور غصےمیں اٹھ کر دو تین تھپڑ اس کے چہرے پر جڑ دیے

نبیلہ شہزاد

مزید پڑھیے۔۔

ایک کہانی، ذرا پرانی

زندگی بہت اچھی تھی۔ ایک صحت مند اور خدمت گزار بیوی کی زندگی واقعی اچھی تھی۔ شوہر نامدار کو ایسی عادت تھی کہ جب تک بیوی آ کر پاؤں نہ دبانا شروع کرے، ان کی آنکھ نہیں کھلتی تھی۔ میں صبح وضو کر کے مصلے پر کھڑی ہوتی اور وہ آوازیں لگانا شروع کر دیتے... ”جلدی نماز پڑھو.. آ کر میرے پاؤں دباؤ۔“ اور میں اکثر نماز کے بعد والے اذکار بھی چھوڑ دیتی اور آکر پاؤں دبانے بیٹھ جاتی

زہرہ جبیں کراچی

مزید پڑھیے۔۔

مری ذات ذرہ بے نشاں

سات (7) دن کی معصوم جنت اپنی ماں کی چھاتی سے لگی قطرہ قطرہ دودھ اپنے حلق سے اتار رہی تھی ۔ اپنے ناکردہ و غیر اختیاری جرم ”بیٹی ہونے “ سے بے خبر وہ نازُک کلی مزے سے ماں کی آغوش کی گرمائش میں مگن تھی کہ ایک دم اُس کا باپ درندہ بن گیا ، اس کو چھیننے کے انداز میں اُٹھایا اور بے دردی سے فرش پہ دے مارا ۔ اور پھر آنًا فانًا پانچ گولیاں اس کے سینے میں اتار دیں
ساجدہ بتول
(آخری قسط)

مزید پڑھیے۔۔

غنوی کیوں بے چین تھی ؟

مجھے ایسا لگتا ہے کہ جیسے مجھے کام سے زیادہ ایک جیسی روٹین تھکارہی ہے۔مجھ پر ایک عجیب سا جمود طاری ہے۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میں ایک دائرے میں گھوم رہی ہوں دن سے رات رات سے دن۔۔۔۔سر چکرانے لگا ہے میرا اب تو ایسا لگتا ہے کوئی خوشی کوئی رنگین نہیں رہی اب زندگی میں۔۔۔
بنت مسعود احمد کراچی

مزید پڑھیے۔۔

دھندلا عکس

آج مہینے کی پندرہ تاریخ تھی۔ اس دن وہ ڈونیشنز کیا کرتی تھی۔ مختلف اداروں میں سامان تقسیم کرتی اور ان لمحوں کو کیمرے کی آنکھ میں قید کرواتی۔ پھر وہی تصاویر سوشل میڈیا پر ڈالی جاتیں اور ڈھیروں لائکس سمیٹتی تھیں۔ وہ ان لمحات کا بےصبری سے انتظار کرتی تھی۔اس کی پوری زندگی ہی ان لمحات کے گرد طواف کرتی تھی۔ آج بھی حسبِ معمول صبح سویرے اس کی ٹیم کاموں میں جتی ہوئی تھی۔

حمنہ کامران، اسلام آباد

مزید پڑھیے۔۔

حرم

بے چاری فاختہ، نرم ملائم پروں والی معصوم سی، اس ظالم کی قیدی بن گئی، وہ مکروہ جلاد اس کے پر نوچتا کھسوٹتا ، ٹھونگیں مارتا، اسے طرح طرح کی اذیت دے کر اپنی فتح کا جشن مناتا، کومل، گداز بدن فاختہ مرجھاکے رہ گئی، کیوں کہ اس کا ساتھی نر ایک گدھ تھا، جوبد شکل تھا، ظالم اورسفاک تھا ۔فاختہ نے بہت کوشش کی کہ اس بد فطرت اور بد خصلت ساتھی سے چھٹکارا پا سکے لیکن ۔۔۔۔۔۔۔
ارم رحمان لاہور

مزید پڑھیے۔۔

اڑان

ہاں ،بہت خوشی ہوتی تھی کہ میں ایک فوجی کی بہن ہوں ،محلے میں میری سہیلیاں رشک کرتی تھیں ،میرے بھائی کی تو چال ہی شان والی تھی ،وہ اپنی کارکردگی کی بنیاد پر ترقی پا کر کیپٹن بنے ،پھر تو ان کی اڑان دیکھنے والی تھی ،ہر مشکل محاذ پر انھیں بھیجا جاتا تھا اور وہ سرحد کی حفاظت، اپنی دھرتی کی حفاظت اپنی ماں کی طرح کیا کرتے تھے
عصمت اسامہ لاہور

مزید پڑھیے۔۔

نور الاسلام

یا اللہ مدد! یا اللہ مدد!
میں نے آخری بار پکارا اور پھر ہوش و حواس سے بیگانہ ہو گئی۔ اسی بے ہوشی کے دوران مجھے سہاگ کا جوڑا پہنا کر بیل گاڑی میں ڈال کے گردوارے لے گئے اور جب واپس آئی تو جگجیت سنگھ کی ووہٹی "سُندر کور" بن کر۔ ریشمی اور رجنی موسی ہر قدم پر میری ڈھارس بندھاتی رہیں۔ دن گزرتے رہے اور یوں ہی ایک سال پورا ہو گیا... اگلا رمضان آ گیا. مگر ہمارے گاؤں میں کوئی پاکستانی لڑکیوں کو لینے نہیں آیا۔ یا شاید آئے بھی ہوں تو ہمیں خبر نہ ہوئی۔ موسی رجنی کا بیٹا جو فوج میں تھا وہ بھی ابھی تک واپس نہیں آیا تھا۔ چھے مہینے اور گزر گئے

(پانچویں قسط)
ام محمد سلمان

مزید پڑھیے۔۔

کم بیک جوزف

’’اس انگریز ملک میں پاپی پیٹ کو پالنے کے لیے نام کے ساتھ ساتھ حلیے بھی بدلنے پڑ جاتے ہیں لیکن اب مجھے یاد آیا ہے کہ میں مریم ہوں اور اب مجھے سمجھ آیا کہ ہم اپنی قدریں بھول کر اپنے حالات تو بدل سکتے ہیں، لیکن اپنا اصل چھوڑ کر کبھی اپنا وجود اور اپنی شناخت نہیں حاصل کرسکتے۔۔۔
ڈاکٹر ماریہ اشفاق قریشی
(آخری قسط)

مزید پڑھیے۔۔

نور الاسلام

ریشمی مجھے کوٹھڑی میں بند کر کے چلی گئی۔ آج نہ جانے کیوں میرا دل بڑے سکون میں تھا۔ میں کوٹھڑی کی دیوار سے ٹیک لگائے بہت دیر تک بآواز بلند قرآن کی تلاوت کرتی رہی مجھے ایسا لگ رہا تھا اس کوٹھڑی میں چاروں طرف نور کی بارش ہو رہی ہے۔ ریشمی کے حسن سلوک سے میرے دل کو ایک نئی امید بندھ گئی تھی۔ اب شاید میں یہاں سے نکل پاؤں... میں نے پر امید ہو کر سوچا۔

ام محمد سلمان

(چوتھی قسط)

مزید پڑھیے۔۔