اپنے فرزند ارجمند کو پٹا ڈال کر رکھو ، کہنے کو تو ابا مولوی ہے ، لیکن سپوت نے تو سارے شہر میں آوارگی کی مثالیں قائم کرنے کی ذمے داری لی ہوئی ہے
حفصہ فیصل
پہلی قسط
ان جانے نمبرکو دیکھ کر رانیہ ایک لمحے کو رکی لیکن پھر یس کر کے فون اٹھا لیا
کون کا سوال لبوں پر آنے سے پہلے ہی پاٹ دار آواز کو لمحے کے ہزارویں حصے میں پہچان لیا
"کیسی ہیں بڑی ممانی؟"
رانیہ نے ماضی کے دھندلکوں سے واپس پلٹتے ہوئے سوال کیا۔
بڑی ممانی کی شخصیت ایک تلخ یاد کی طرح اس کے ذہن کے نہاں خانوں میں بستی تھی۔
"مجھے کیا ہونا ہے ،مگر لگتا ہے تم خیریت سے نہیں رہنا چاہتیں۔" لہجے کا طنطنہ ڈھلتی عمر کے ساتھ مزید بڑھ گیا تھا۔
"جی کیا مطلب ؟"رانیہ آنکھیں پھیلا کر بولی۔
"اپنے فرزند ارجمند کو پٹا ڈال کر رکھو ، کہنے کو تو ابا مولوی ہے ، لیکن سپوت نے تو سارے شہر میں آوارگی کی مثالیں قائم کرنے کی ذمے داری لی ہوئی ہے۔"
"خیر! ہمیں کیا جتنی مرضی آوارگیاں کرتا پھرے، لیکن ہمارے گھر سے دور رہے۔۔سمجھادو یہ بات اپنے صاحبزادے کو"
بڑی ممانی تابڑ توڑ بولے جارہی تھیں، رانیہ ان کی باتوں کی تہ تک پہنچنے کی کوشش کررہی تھی مگر مکمل طور پر کچھ نا سمجھ پارہی تھی۔
"ممانی جان! آپ مجھے کھل کر بتائیے،میں سمجھ نہیں پارہی"رانیہ الجھن بھرے لہجے میں بولی۔
٭٭٭٭٭
مولانا صاحب نے بیان ختم کرکے مختصر دعا کروائی ۔ دوسری صف میں حنظلہ اور محمد کو دیکھ کر ایک مبہم مگر مطمئن مسکراہٹ لبوں پر ابھری ۔
وہ ان نوجوانوں کو دیکھ کر مسجد کے مستقبل سے خاصے پرامید تھے۔
٭٭٭٭
مولانا ثاقب کی آواز تلاوت کے دوران ایک پر تاثیر کیفیت پیدا کردیتی اور ایک سما بندھ جاتا۔ علاقے کے اکثر لوگ فجر کی نماز کے پابند ان کی اسی پرسوز تلاوت کی وجہ سے ہوئے تھے آج کل تو مولانا ثاقب صاحب کی تلاوت مزید دلگیر ہوتی جارہی تھی جب ایک دین کے داعی کی اولاد دین سے باغی بننے لگے تو دل کٹتا ہے ، بلکہ تڑپتا ہے اور یہ تڑپ اور آزمائش لہجوں کو پرسوز گریہ عطا کردیتی ہے جو شکوے کو زبان پر نہیں لاتے بلکہ ہر حال میں شکر کا دامن تھامے رکھتے ہیں،ان دنوں مولانا صاحب کا بھی یہی حال تھا۔ ان کی شخصیت سے ان کے فرزند کی شخصیت کا موازنہ ہر خاص و عام کا موضوع بنا ہوا تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ انہوں نے تربیت میں کوئی کوتاہی کی ہو ، ان کا بیٹا حافظ قرآن تھا مگر وہ قرآن کریم کی وقعت نہ جان پایا۔وہ کیسے غلط راہوں کا راہی بن گیا۔ کچھ پتا ہی نا چلا۔
لوگوں کا کیا ہے ان کو تو بس ایک موضوع چاہیے ہوتا ہے۔چاہے وہ کسی اللّٰہ والے پر انگلیاں اٹھانا ہی کیوں نہ ہو۔۔۔
٭٭٭٭
رانیہ کے والدین کا ایک حادثے میں انتقال ہونے کے بعد رانیہ بڑے ماموں کی کفالت میں پروان چڑھی۔ بڑے ماموں جتنے شفیق اور رحیم تھے ،بڑی ممانی اتنی ہی مغرور اور ظالم تھیں ، رانیہ کی زندگی کے وہ تلخ ایام جو اس نے بڑی ممانی کی سنگت میں گزارے، بڑے تکلیف دہ تھے۔ اٹھارویں برس میں مولوی ثاقب کا رشتہ آیا تو بڑی ممانی نے سر دھڑ کی بازی لگا کر رانیہ کو اپنے گھر سے چلتا کیا۔ حالاں کہ ماموں جان کو مولوی ثاقب کی عمر اور تعلیم کی کمی پر کچھ اعتراضات تھے مگر بڑی ممانی کے آگے آج تک کسی کی چلی تھی جو اب چلتی ۔۔۔
بڑی ممانی کے اپنے چار بچے تھے ،دو بیٹے افسر اور انظر اور دو بیٹیاں صبیحہ اور فریحہ ، جنہیں بڑی ممانی نے ہمیشہ ہتھیلی کا چھالا بناکر رکھا تھا مگر رانیہ کو انہوں نے کبھی اپنا نہ سمجھا۔
مولوی صاحب سے شادی کے بعد تو گویا رانیہ کا ماموں کے گھر سے رشتہ ہی ختم ہوگیا۔ اور پھر رانیہ کی شادی کے ایک سال بعد بڑے ماموں بھی حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے اس فانی دنیا سے کوچ کرگئے،اس ناگہانی نے تو رانیہ کا بڑے ماموں کے گھر سے رشتہ ختم ہونے کی مہر ثبت کردی۔
مگر اللّٰہ رب العزت انسان کو اس کی طاقت سے زیادہ نہیں آزماتے ۔۔ مولوی ثاقب کی شکل میں رانیہ کی زندگی میں کوئی فرشتہ اتر آیا تھا۔ انتہائی نرم خو ، نفیس اور محبت کرنی والی شخصیت تھی ۔ رانیہ کی سلگتی زندگی میں گویا ٹھنڈی میٹھی پھوار برس پڑی تھی۔ رانیہ بھی اس جھل تھل سے مطمئن تھی زندگی کی یہ بہار شکر کے بادلوں کے ساتھ کئی برس آگے بڑھی، رانیہ مولوی صاحب کےتین بیٹوں کی ماں بن گئی ، تینوں بلا کے ذہین اور تابع دار تھے۔ عدنان، نعمان اور سلمان ۔بہت چھوٹی عمروں میں تینوں کے سینوں میں کلام پاک کی برکتوں نے گھر کرلیا ۔ عدنان پندرہ برس کا ہوگیا تھا میٹرک کے امتحانات کے بعد کیسے غلط دوستوں کی صحبت میں جا بیٹھا کہ اب وہ کسی سے سنبھل نہیں رہا تھا۔آزمائش کا یہ دور بڑا کٹھن ثابت ہورہا تھا۔ مولوی صاحب کو مختلف لوگوں سے مختلف باتیں سننے کومل رہی تھیں ، کوئی افسوس کرتا تو کوئی مولوی صاحب کی شخصیت سے بیٹے کا موازنہ کرتے ہوئے طنز کرتا ، مولوی صاحب نے عدنان کو بہت سمجھایا کچھ بہلاوے بھی دیے، کچھ تنبیہ بھی کی لیکن عدنان کے سر پر تو شیطان سوار ہوگیا تھا ، قرآن پر سے توجہ ہٹ گئی تھی، ہر وقت دوستوں کے ساتھ گھومنا ویڈیو گیم میں پایا جانا اس کا وتیرہ بن گئے تھے،اور آج بڑی ممانی سے نیا انکشاف لڑکیوں سے دوستی کا سن کر سر ہی پکڑ لیا۔ نہ جانے کیسے بڑی ممانی کی پوتی لائبہ سے سلسلہ چلا بیٹھااور عشق معشوقی کو زندگی سمجھ بیٹھا تھا۔
شام کو جب رانیہ نے تمام صورت حال مولوی صاحب کے گوش گزار کی تو وہ بھی پریشان ہوگئے مگر ان کا اپنے رب سے تعلق مضبوط تھا وہ اس آزمائش کی گھڑی میں استقامت کا پہاڑ بنے کھڑے تھے۔ انہوں نے رانیہ کو بھی رجوع الی اللّٰہ کی تلقین کی اور خود بھی اپنے حجرے میں تشریف لے گئے۔
٭٭٭٭
زینب بیگم عرف بڑی ممانی جلے پیر کی بلی بنی ادھر سے ادھر گھوم رہی تھی۔ دو پوتوں کے بعد آنے والی لاڈلی پوتی لائبہ جسے انہوں خود ہی لاڈ پیار سے خود سر بنایا تھا اب بالکل ہاتھوں سے نکلی جارہی تھی عمر تو صرف چودہ سال تھی مگر انتہائی ضدی اور ہٹ دھرم ۔۔۔زینب بیگم کی بھی اس کے سامنے ایک نہ چلتی ، سہیلی کے کہنے پر ایڈونچر میں عدنان سے دوستی کرلی اور اب یہ دوستی عشق میں بدل گئی تھی۔
کچی عمر ،غلط تربیت اور صحبت آج کی نسل کو ایسے لےکر ڈوب رہی ہے۔
٭٭٭٭
شوکت ٹریڈرز ہمارا اگلا ہدف ہے۔ یاد رکھنا کسی قسم کی چوک برداشت نہیں کی جائے گی۔ حمزہ کو فون پر باس کی ہدایت ملی ، جس پر اس نے بلا چوں چراں سر ہلادیا۔
حمزہ ایک کارندہ تھا جسے ہر صحیح اورغلط بات پر عمل کرنے کے پیسے ملتے تھے، اس کے نزدیک حلال حرام کی کوئی اہمیت نہ تھی، زندگی کا محور پیسہ اور عیاشی تھا۔ شوکت ٹریڈرز کے مالک اسفر علی اور انصر علی کی اسے دو دن مکمل نگرانی کرنی تھی اور پھر آگے رپورٹ کرنی تھی۔ اسی مقصد کے تحت اس نے اپنا گیٹ اپ بھی تبدیل کرلیا تھا اب وہ ایک غریب ٹھیلے والا تھا ،جس نے شوکت ٹریڈرز کے بغل میں اپنا ٹھیلہ لگا رکھا تھا۔
شوکت ٹریڈرز شہر کے مین بازار میں ایک جانی مانی دکان تھی جس کی روزانہ کی سیل لاکھوں میں تھی اور اسی وجہ سے حاسدین میں روز بروز اضافہ ہورہا تھا۔ افسر صاحب اور انظر صاحب نے والد کے کاروبار پر خوب محنت کی تھی اسی محنت کا آج پھل کھارہے تھے ، اب تو ان کے بچے بھی دکان سنبھالنے لگے تھے۔ مگر آگے کیا ہونے والا تھا اس متعلق کوئی نہیں جانتا تھا۔
٭٭٭٭
"عدنان !کہاں سے آرہے ہو؟" آج رانیہ کا غصہ سوا نیزے پر تھا، بڑی ممانی کے انکشاف نے اسے بھٹی میں جھونک دیا تھا ،وہ اپنی بیٹے سے ایسی امید نہیں کرسکتی تھی۔ اسی لیے مولانا صاحب کے منع کرنے باوجود خود کو روک نہ پائی اور بیٹے سے سوال کربیٹھی۔
عدنان ،ماں کے اس طرح سوال کرنے پر چونک گیا ۔
"وہ دوستوں کے ساتھ تھا۔۔۔" عدنان نے بات گول کی۔۔۔
"عدنان جھوٹ مت بولو۔۔" رانیہ سختی سے بولی۔
ابھی عدنان کوئی جواب دیتا کہ اس کے جیب سے ایک دھیمی سی کرنٹ نما آواز گونجی۔
یہ کیا ہے؟ رانیہ حیرت سے بولی۔۔
"وہ ،وہ دوست کا موبائل جیب میں رہ گیا۔میں اسے لوٹا کر آتا ہوں۔" عدنان سرتاپا کانپ کر بولا، اور دروازے سے نکلتا چلا گیا۔
رانیہ ! بیٹے کے لب و لہجے کو دیکھ کر لرز گئی۔
"پانی سر سے بہت اونچا ہوگیا تھا۔
میری تربیت میں کہاں کمی رہ گئی یارب!" رانیہ سسک پڑی۔
(جاری ہے )