بے حس و بے ضمیر معاشرے میں آئے دن ایسے کئی واقعات جنم لیتے ہیں اور پھر آپ اپنی موت مر بھی جاتے ہیں۔
بیگم سیدہ ناجیہ شعیب احمد
"افف! آج بہت تھک گئی۔"
تھکی تھکی آواز میں لاڈ تھا۔
"ذرا سا کام کرنے پہ تھک گئیں محترمہ۔۔۔ کرتی ہی کیا ہو سارا دن؟؟ بس آرام ہونہہ ۔" موبائل اسکرین پر نظریں جمائے ، زہر خند لہجہ میں دھتکار کے کہا گیا۔
"توبہ توبہ! اتنا غصہ؟ ارے آپ سے نہیں کہوں تو کس سے کہوں؟؟"اٹھلا کر شکوہ کیا گیا۔
"سارا سکون غارت کر کے رکھ دیا، مجھے اپنا زر خرید غلام سمجھ لیا ہے ،آخر چاہتی کیا ہو؟"دبی دبی چنگاری بھڑکنے لگی۔
"اجی! آہستہ بولیں نا۔ بچے اٹھ جائیں گے۔"
"تم! آہستہ بولو، مجھے چپ کروا کر خوب زبان چلا رہی ہو بد زبان عورت!!!!"فرعونیت غالب آنے لگی۔
"مم۔ میں تو آپ کی بات کا جواب دے رہی ہوں۔ غصہ تو نہیں کریں نا۔"منت سماجت
"ہر وقت کام کا رونا۔ نہیں ہوتے کام تو چھوڑ دو۔ آرام کرو، بہت مل جائیں گی کام والیاں ایک کھانا پکا کر احسان کرتی ہو؟؟"حقارت نے محبت کو دھتکار دیا۔
"نہیں۔ نہیں میں تو گھر کے سارے کام اپنی خوشی سے کرتی ہوں۔انسان ہوں، تھک جاتی ہوں. مشین تو نہیں ہوں، بس اتنا تو کہا کہ آپ بھی کچھ خیال کریں،آپ کی محبت اور توجہ کی طلب گار ہوں، اور کیا مانگا ہے؟" سسکیاں
"نواب زادی کے لیے ہر طرح کی سہولتیں موجود ہیں، گھر نعمتوں سے بھر پڑا ہے۔ کسی چیز کی کمی نہیں۔ عجیب نحوست پھیلا رکھی ہے۔ تمہاری طرح فارغ نہیں بیٹھا ہوا کہ ہر وقت چونچلے ہی اٹھاتا پھروں ،ناشکری عورت! جب دیکھو ٹسوے بہاتی رہتی ہو۔"چنگھاڑ ، گالیوں کی بوچھاڑ ، لفظوں کی دو دھاری تلوار سے روح چھلنی ہوگئی، لبوں پہ مچلتی فریاد نے ان الفاظوں کے ساتھ دم توڑ دیا۔
"بس کر دیں خدارا! میرے دماغ کی رگ پھٹ جائے گی۔"
گہری خاموشی........
٭٭٭٭
فرید کیانی اپنی بیوی کی تجہیز وتکفین سے فارغ ہوئے تو پریس والوں نے گھیر لیا ۔اظہارِ تعزیت کرتے ہوئے ایک رپورٹر نے ان کی اہلیہ کی ناگہانی وفات کی وجہ دریافت کی۔ کیانی صاحب نے گلوگیر لہجے میں وجۂ وفات بتا کر ڈھیلے سست قدموں کے ساتھ اپنے گھر کی راہ لی۔
٭٭٭٭
آج کی اہم خبر "معروف تاجر فرید کیانی صاحب کی اہلیہ اور نواب حماد اعظم کی اکلوتی بیٹی نور بانو رضائے الٰہی سے انتقال کر گئی ہیں۔
فرید کیانی کے مطابق مرحومہ کرونا ٹیسٹ کی رپورٹ مثبت آنے کے بعد قرنطینہ میں تھیں۔"
فرید کیانی اپنے بوجھل ہوتے ہوئے سر کو دونوں ہاتھوں سے تھامے ہوئے درد کی شدت سے مانندِ ماہی بے آب تڑپ رہے تھے۔ خدا کی بے آواز لاٹھی مکمل چارج ہوگئی تھی۔
٭٭٭٭
بے حس و بے ضمیر معاشرے میں آئے دن ایسے کئی واقعات جنم لیتے ہیں اور پھر آپ اپنی موت مر بھی جاتے ہیں۔