ساجد اور اسد باقاعدگی سے نماز عصر میں شامل ہورہے تھے جب کہ کونین کا کسی کسی دن ناغہ ہوجاتا، مولوی ثاقب کونین کی غیر حاضری پر اسے لازمی سلام بھجواتے۔ اب وہ تینوں ان سے کافی قریب ہوتے جارہے تھے۔

حفصہ فیصل

پانچویں قسط

"عدنان کا میٹرک کا رزلٹ آنے والاہے، آپ نے کچھ سوچا اس کے متعلق ؟" رانیہ فکرمندی سے بولی ۔

"ان شاءاللہ! سب بہتر ہوگا۔ میں بتدریج اس پر کام کررہا ہوں، آپ ماں ہیں ،خوب دعاؤں کا اہتمام کیجیے۔ ماں کی دعائیں بڑے بڑوں کی کایا پلٹ دیتی ہے۔اور مجھے امید ہے کہ عدنان بھی راہ راست پر جلد آجائے گا۔"

ان شاءاللہ! رانیہ جذب سے بولی۔

٭٭٭٭

لائبہ باپ کی باتیں سن کر بہت پریشان ہوگئی تھی۔ اسے رہ رہ کر عدنان کا خیال آرہا تھا۔

"کہیں عدنان بھی کوئی فراڈ تو نہیں تھا؟

پہلے اتنی باتیں کیں ،اب یکدم  غائب ہے۔

نہیں ،نہیں عدنان کو تو دادی ماں بھی جانتی ہیں شاید، اس دن کچھ کہہ رہی تھیں نا! وہ رانیہ کا بیٹا وغیرہ" لائبہ خود کلامی کی کیفیت میں کبھی خود کو ہی  جھٹلاتی اور کبھی سراہتی، عجیب گومگو کیفیت میں مبتلا تھی۔"

"مجھے دادی سے بات کرنی چاہیے "

 ہاں یہ ٹھیک ہے!

وہ فیصلہ کرتی کمرے سے نکلی۔

"افسر ہم کہہ رہے ہیں  پریشان مت ہو، یہ عدنان دراصل رانیہ کا ہی بیٹا ہے ،میں نے معلومات کروالی تھیں، کچی عمر کی نادانیاں ہیں ،آگے کوئی معاملہ نہیں، میں نے رانیہ کو بھی فون کرکے تنبیہ کردی تھی، اب وہ لڑکا ،لائبہ سے رابطے میں نہیں ہے، لائبہ اسی لیے ہر بات پر خار کھارہی ہے مگر یہ سب وقتی ہے، چند دنوں میں معاملہ سیٹ ہوجائے گا۔" افسر صاحب کو ماں کی بات سے کچھ تسلی تو نا ہوئی ، لیکن پھر بھی سر ہلا دیا۔

باہر لائبہ کھڑی ساری گفتگو سن چکی تھی۔ اور اب اسے مزید غصہ آرہا تھا۔ مگر یہ غصہ کس پر آرہا تھا یہ تعین مشکل تھا۔۔

٭٭٭٭

ساجد اور اسد باقاعدگی سے نماز عصر میں شامل ہورہے تھے جب کہ کونین کا کسی کسی دن ناغہ ہوجاتا، مولوی ثاقب کونین کی غیر حاضری پر اسے لازمی سلام بھجواتے۔ اب وہ تینوں ان سے کافی قریب ہوتے جارہے تھے۔

جمعرات کو مولوی ثاقب نے ان تینوں کو جمعے کی عصر کے ساتھ مغرب پڑھنے کی بھی دعوت دی کہ عصر سے مغرب ایک مختصر بیان کی نشست رکھی گئی ہے ، اگر وہ تینوں شریک ہوں گے تو انہیں بہت خوشی ہوگی۔

کونین نے عذر دینا چاہا مگر پھر مولوی ثاقب کے آگے کچھ کہہ نا سکا اور اس طرح ان تینوں کو حامی بھرنی ہی پڑی۔ عدنان بھی اس اقرار سے بہت خوش تھا، بابا کا اس کے دوستوں کے ساتھ اتنا مشفقانہ رویہ اس کے مزاج پر بھی اچھے اثرات مرتب کررہاتھا۔ اب تو مسجد کے اکثر لوگ ان تینوں کو عدنان اور مولوی ثاقب کے حوالے سے احترام کی نگاہ سے دیکھنے لگے تھے۔

بیان کی ابتدا ہونے والی تھی، عدنان بے چینی سے اپنے دوستوں کا انتظار کررہا تھا۔

نگاہیں بھٹک بھٹک کر دروازے کی جانب جارہی تھیں۔ أخر کونین ، ساجد اور اسد اسے آتے دکھائی دیے۔

ارے! یہ کیا اٹھا لائے؟

کونین کے ہاتھوں میں پھولوں کا گلدستہ دیکھ کر عدنان کو پہلے حیرت اور پھر ہنسی آئی۔وہ بیان کو غالباً کوئی خوشی کی تقریب سمجھ رہا تھا خیرتھی تو خوشی کی ہی تقریب کہ جہاں اللّٰہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ہو وہاں رحمتیں نازل ہوتی ہیں اور رحمت ،خوشی کی ہی مترادف ہے۔

 

السلام علیکم ورحمۃاللہ! عدنان نے آگے بڑھ کر تینو ں کو سلام کیا۔

انکل کہاں ہیں؟ کونین جلد از جلد یہ گلدستہ مولوی ثاقب کو تھما دینا چاہتا تھا۔ اسے یہاں کا ماحول دیکھ کر اپنا یہ پھولوں کا گلدستہ عجیب لگنے لگا تھا ۔

بابا آگے کی صف میں ہیں۔ آجاؤ! عدنان تینوں کو لیے آگے کی جانب بڑھا۔

مولوی ثاقب تینوں کو اس موقع پر دیکھ کر بہت خوش ہوئے دل ہی دل میں رب کا شکر ادا کیا اور باری باری سب کوگلے لگایا۔

کونین کے ہاتھوں سے گلدستہ لے کر بے حد خوشی کا اظہار کیا اور پھولوں کو آگے کی جانب رکھوایا۔

عصر کی نماز کے فوراً بعد بیان شروع ہوگیا۔ مولوی ثاقب کے  استاد محترم اس درس کو بیان کرنے تشریف لائے تھے۔

٭٭٭٭

اللَّهُ يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَن يَشَاء وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَن يُنِيبُ

 "ﷲ جس کو چاہتا ہے، چن کر اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔"

اب ہم اس آیت کو دو حصوں میں سمجھانے کی کوشش کریں گے۔

اَللّٰہُ یَجْتَبِیْٓ اِلَیْہِ مَنْ یَّشَآءُ: ’’اللہ جس کو چاہتا ہے اپنی طرف (آنے کے لیے) چن لیتا ہے‘‘

        یہ اللہ کی شانِ عطا ہے کہ کبھی کبھی وہ کسی راہ چلتے مسافر کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔  جنہیں اللہ تعالیٰ نے کسی خاص موقع پر بلا تمہید اپنی طرف کھینچ لیا۔ ایسے لوگ ’’مقامِ قرب‘‘ پر فائز ہو جانے کے بعد منازلِ سلوک طے کرتے ہیں اور یہ مقام و مرتبہ اکثر و بیشتر ’’شہداء‘‘ کے حصے میں آتا ہے۔  اللہ تبارک وتعالی اپنی مخلوق میں ان لوگوں کو منتخب کرلیتا ہے جن کے بارے میں وہ جانتا ہے کہ وہ اس کی رسالت، اس کی ولایت اور اس کی نعمت کے لیے زیادہ موزوں ہیں۔اس طرح اس نے اس امت کا انتخاب کیااسے تمام امتوں پر فضیلت سے نوازا اور اس کے لیے بہترین دین چنا۔

حضرت عمر کو اللہ تعالیٰ نے اسی طرح اپنی طرف کھینچ لیا تھا، ورنہ اس ’’حسین اتفاق‘‘ سے پہلے نہ تو آپ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کا مزاج اس ’’مقامِ شوق‘‘ سے کچھ مطابقت رکھتا تھا اور نہ ہی آپ کے معمولات ومشاغل میں ایسے کسی ’’رجحان‘‘ کا رنگ پایا جاتا تھا۔

دوسرے حصے میں اللّٰہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ؛

         وَیَہْدِیْٓ اِلَیْہِ مَنْ یُّنِیْبُ: ’’اور وہ اپنی طرف ہدایت اُسے دیتا ہے جو خود رجوع کرتا ہے۔‘‘

بندے کی طرف سے یہ ایسا سبب ہے جس کے ذریعے سے وہ ہدایت الہی کی منزل تک پہنچتا ہے۔اپنے رب کی طرف انابت،دلی محرکات کا اس کی طرف کھینچنا اور رب کی رضا کو اپنا مقصد بنانا یہ تمام اسباب طلب ہدایت کے حصول کو آسان بناتے ہیں۔

 جیسا کہ سورہ المائدہ میں بھی اللّٰہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ؛

" اس کتاب کے ذریعے سے اللہ ان لوگوں کو سلامتی کی راہیں دکھاتا ہے،جو اس کی رضا چاہتے ہیں( المائدہ 5,6)

ثابت یہ ہوا کہ فلاح صرف رسول، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین  کے طریقے میں ہے۔

→←

بیان کے الفاظ اور ماحول نے ایسا سحر باندھا کہ کب وقت گزرا پتا بھی نہ چلا۔ (جاری ہے)

 

 

(جاری ہے)