(پہلا باب زخرف)
وہ عموماً ان لڑکیوں کو اپنی دوست بناتا تھا جو اس قسم کی نہ ہوں جو لڑکوں اور لڑکوں سے دوستی کو معیوب سمجھتی ہوں لیکن آخرکار پھر اس کی دلنشین باتوں سے اس معیوب کام کو محبوب سمجھ کے کرنے لگتی ہوں۔وہ جانتا تھا یہ مشکل ہوتا ہے لیکن اسے تو ہمیشہ سے ہی ایڈونچر پسند تھے اور بلاشبہ کسی عام دل پھینک لڑکی کے مقابلے میں کسی ایسی لڑکی تک رسائی حاصل کرنا جو اس قسم کے کاموں سے انتہائی نفرت کرتی ہو
مسفرہ سحر کراچی
پہلی قسط
الٰہی تیری چوکھٹ پر بھکاری بن کے آیا ہوں
سراپا فقر ہوں عجز و ندامت ساتھ لایا ہوں
بھکاری وہ کہ جس کے پاس جھولی ہے نہ پیالہ ہے
بھکاری وہ جسے حرص و ہوس نے مار ڈالا ہے
متاع دین و دانش نفس کے ہاتھوں سے لٹوا کر
سکونِ قلب کی دولت ہوس کی بھینٹ چڑھوا کر
لٹا کر ساری پونجی غفلت و نسیاں کی دلدل میں
سہارا لینے آیا ہوں ترے کعبے کے آنچل میں
گناہوں کی لپٹ سے کائناتِ قلب افسردہ
ارادے مضمحل، ہمت شکستہ، حوصلے مردہ
کہاں سے لاؤں طاقت دل کی سچی ترجمانی کی
کہ کس جنجال میں گزری ہیں گھڑیاں زندگانی کی
خلاصہ یہ کہ بس جل بُھن کے اپنی روسیاہی سے
سراپا فقر بن کر اپنی حالت کی تباہی سے
ترے دربار میں لایا ہوں اب اپنی زبوں حالی،
تری چوکھٹ کے لائق ہر عمل سے ہاتھ ہیں خالی،
یہ تیرا گھر ہے تیرے مہر کا دربار ہے مولا،
سراپا نور ہے اک مَہبطِ انوار ہے مولا،
تری چوکھٹ کے جو آداب ہیں میں ان سے خالی ہوں،
نہیں جس کو سلیقہ مانگنے کا وہ سوالی ہوں،
زباںغرقِ ندامت دل کی ناقص ترجمانی پر،
خدایا رحم میرے اس زبانِ بے زبانی پر،
یہ آنکھیں خشک ہیں یارب انہیں رونا نہیں آتا،
سلگتے داغ ہیں دل میں جنہیں دھونا نہیںآتا،
الٰہی تیری چوکھت پر بھکاری بن کے آیا ہوں،
سراپا فقر ہوں عجز و ندامت ساتھ لایا ہوں....!!
وہ بڑی محویت سے اپنے کمرے میں کمپیوٹر کے سامنے بیٹھی مفتی محمد تقی عثمانی کا کلام جنید جمشید کی دل سوز آواز میں سننے میں مصروف تھی۔۔۔
آواز کمپیوٹر سے ہوتی ہوئی اسپیکر کے ذریعے باہر نکل کر پورے ماحول کو پرسوز بنا رہی تھی۔۔۔ وہ روز کی طرح اس وقت بھی اپنے پسندیدہ شوق پکچرز ایڈیٹنگ میں مصروف تھی اور ساتھ ساتھ دوسرا شوق یعنی نظمیں نعتیں سننے کا شوق بھی پورا کر رہی تھی۔۔۔۔
نظم مکمل ہوئی تو وہ اسکرین سے ایڈیٹنگ سافٹ ویئر کو مینی مائز کر کے میوزک پلیئر سے دوسری نظم لگانے لگی۔۔۔۔
تمام نظمیں اور نعتیں ایک ہی جگہ محفوظ تھیں، وہ ماؤس کو دھیرے دھیرے کرتے نیچے لا رہی تھی جب اس کی نظر اپنی پسندیدہ نظم پر پڑی ۔ماؤس ایرو کو وہیں روک دیا اور نظم شروع کردی۔۔۔۔
سنا تھا ہم نے لوگوں سے
محبت چیز ایسی ہے
چھپائے چھپ نہیں سکتی!
یہ آنکھوں میں چمکتی ہے
یہ چہروں پر دمکتی ہے
یہ لہجوں میں جھلکتی ہے
دلوں تک کو گھلاتی ہے
لہو ایندھن بناتی ہے
اگر سچ ہے .....تو پھر آخر ہمیں
اُس ذاتِ حق سے یہ بھلا کیسی محبت ہے؟
نہ آنکھوں سے چھلکتی ہے
نہ چہروں پر ٹپکتی ہے
نہ لہجوں میں سلگتی ہے
دلوں کو آزماتی ہے نہ راتوں کو رُلاتی ہے
کلیجے منہ کو لاتی ہے نہ فاقوں ہی ستاتی ہے
نہ خاک آلود کرتی اور نہ کانٹوں پر چلاتی ہے
نہ یہ مجنوں بناتی ہے
عجب! ..... ایسی محبت ہے
(فقط دعویٰ سجھاتی ہے)
نہ کعبے کی گلی میں تن پہ انگارے بجھاتی ہے
نہ غارِ ثور میں چپکے سکینت بن کے چھاتی ہے
حرا تک لے بھی جائے، قُدس سے نظریں چراتی ہے!
ہم اپنے دعویٰٔ حقِ محبت پر ہوئے نادم
تو پلکوں کے کناروں سے جھڑی سی لگ گئی اور پھر
کہیں سے بجلیاں کوندیں
صدا آئی .........
ذرا اس آنکھ کی بندش کے دم بھر منتظر رہنا
وہاں خود جان جاؤ گے
محبت کی حقیقت کو!
احسن عزیز کے لکھے گئے اشعار کو ایک نعت خواں بہت اچھے انداز میں پڑھ رہا تھا پورے کمرے میں یہ دل سوز آواز گونج رہی تھی اور وہ ہمیشہ کی طرح اس نظم کے مصرعوں پر غور کر رہی تھی کہ لکھنے والے نے اس میں کس قدر سچ لکھا ہے ۔ ہم سب ہی اپنے خالق حقیقی سے محبت کے دعوے دار ہیں لیکن کتنی روکھی پھیکی ہے نا ہماری محبت نہ اسے یاد کر کے آنکھیں بھیگتی ہیں، نہ چہروں سے عیاں ہوتی ہے، نہ الفاظ سے، نہ لہجے سے جھلکتی ہے مالکِ کل سے سچی محبت کے دعوے دار تو انبیاء اور صحابہ کرام ہی تھے۔ ہاں اب بھی ہیں ایسے بہت سے عظیم لوگ جن کے دلوں میں خالق کل کی محبت ہر چیز سے بڑھ کر ہے۔ وہ اپنی اس محبت کے صرف کھوکھلے دعوے ہی نہیں کرتے بلکہ مالک الملک کی محبت میں ہر کام، ہر قربانی سے ہر عمل سے گزر جاتے ہیں چاہے وہ کسی بھی نوعیت کا ہو۔
٭٭٭٭
نظم ختم ہو چکی تھی اور ایڈیٹنگ بھی تقریباً اختتامی مراحل میں تھی لیکن ا س کی سوچوں کی ایک لمبی چین شروع ہو چکی تھی اور ہمیشہ کی طرح اس بار بھی اس کی سوچ مختلف چوراہوں سے گزرتی اس مکان میں داخل ہوگئی تھی ،جہاں آکر وہ خود سے ایک عہد باندھتی تھی۔
"میں بھی تو اپنے رب تعالیٰ سے محبت کرتی ہوں ۔ ان شاءاللہ جب بھی کبھی مجھے اپنے رب العالمین کی محبت میں آ کر کسی بھی قسم کی قربانی دینا پڑی میں ضرور دوں گی۔" ایک عہد تھا خود سے کیا ہوا جو آج کا نہیں بلکہ اس وقت سے تھا جب سے اس نے اپنے رب سے لو لگائی تھی۔
بیٹا اب اٹھ بھی جاؤ کمپیوٹر کے آگے سے۔ کچھ کھاو پی لو اور تھوڑا میرا ہاتھ بھی بٹوا لو۔ آپ کے بھائی اور بابا آتے ہوں گے۔ اس کی سوچوں کے بھنور کو اسماء بیگم کی آواز نے توڑا۔
جی ماما بس آئی۔ پانچ سے دس منٹ میں آتی ہوں بس لوگو لگانا رہ گیا ہے اس پکچر پر۔ اپنی ایڈیٹ کی گئی پکچر پر اپنے نام کے ابتدائی حرف کا لوگو لگاتے ہوئے بولی۔
ماؤس حرکت میں آیا اورتصویر کے دائیں کنارے پر اپنا لوگو چسپاں کیا۔
“ایم اے”
تصویر محفوظ کرکے کمپیوٹر بند کرتے ہوئے اٹھی اور اپنے کمرے سے نکل کر باہر اسماء بیگم کے پاس آگئی۔۔۔
٭٭٭٭
مومل عباس، عباس ہاؤس کا ہنستا مسکراتا پر رونق چہرہ ۔ عباس ابراہیم اور اسماء خاتون کے گھر کی واحد رحمت۔ ہاں ایک نعمت بھی ہے ان کے گھر ارتضیٰ عباس۔ مومل ارتضیٰ سے پانچ سال چھوٹی ہے لیکن وہ اکلوتی بہن اور بیٹی ہونے کا مکمل فائدہ اٹھاتی ہے اور خود کو کسی بھی معاملے میں اپنے بھائی سے پیچھے نہیں رہنے دیتی۔ یوں اس گھر میں صرف چار مکین رہتے ہیں ۔۔۔ زوجین اور ا ن کو اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے دی گئی ایک نعمت اور ایک رحمت۔
عباس صاحب کا گھرانہ اس وقت سے ہی دین داری میں ڈھلا ہوا تھا جب اس گھر پر ابراہیم صاحب اور عزیزہ بیگم کی حکمرانی تھے اب وہ دونوں تو اس دنیا میں نہیں رہے لیکن ان کا بیٹا اور بہو اپنی اقدار نہیں بھولے اور نہ اس راستے سے ہٹے جس پر ان کے باپ ان کو چلا کر گئے تھے۔
مومل نے جب سے اس گھر میں صبح کی اپنے ارد گرد دین اور اسلام کو اس گھر کی پہلی ترجیح پر پایا صبح صادق کے نمودار ہوتے ہی نماز فجر سے لے کر رات نماز عشاء تک ایک دین داری میں ڈھلا ماحول ملا۔
یہی وجہ تھی کہ وہ خود بھی اور اس کا بھائی بھی دین کے بے حد قریب تھے۔ ایسا نہ تھا کہ وہ دنیا کو بھول بیٹھے تھے یا دنیا سے اب ان کا کوئی لین دین نہ تھا۔ ہرگز نہیں، بلکہ انہوں نے تو بچپن سے اپنے باپ سے سنا تھا کہ دین پر عمل پیرا رہو لیکن دنیا سے اس کا حصہ لیتے رہو کیوں کہ اس کا حکم ہمیں ہمارا مالک خود دے رہا ہے جبھی تو اس نے دعائے ربّنا میں خود فرمایا ہے "اے ہمارے رب ہمیں اس دنیا کا بہترین بھی عطا کر اور آخرت کا بہترین بھی اور ہمیں جہنم کی آگ سے بچا"۔آمین
اسی لئے دین کے اصولوں پر عمل پیرا ہونے کے باوجود عباس صاحب نے اپنے دونوں بچوں کو اچھی تعلیم دلوائی زمانے اور لوگوں کے ساتھ چلنے کے لئے انہیں گھر کی ہر بنیادی سہولت عطا کی اور کبھی بھی ان پر بے جا پابندی نہیں لگائی۔
مومل کو بچپن سے ہی میتھس بہت پسند تھی سو اس نے پسند کو اپناتے ہوئے کامرس فیلڈ جوائن کی اور اب تھرڈ ائیر میں تھی جبکہ ارتضیٰ کمپیوٹر کا شیدائی بچپن سے کمپیوٹرز کے پروگرام میں گھسا رہتا اب الحمدللہ سافٹ وئیر انجینئر تھا۔
میتھس کے بعد اب حمد،نعتیں، نظمیں یہ سب سننا مومل عباس کا دوسرا شوق تھا اور اس کے بعد اب پیپرز سے فراغت ملتے ہی جو نیا جنون اس کو چڑھا تھا وہ ایڈیٹنگ کا شوق تھا۔
نظموں سے مختلف اشعار کٹ کرکے ان کی ایڈیٹس بنانا، مختلف اسپیکرز کی پیاری پیاری باتوں کی ایڈیٹس بنانا یہ آج کل اس کا سب سے پسندیدہ کام تھا ۔
٭٭٭٭
"یار اتنے دن ہوگئے انہی سب پرانی لڑکیوں کو۔ آج دل کر رہا ہے کوئی نیا شکار بنایا جائے۔ چلو ڈھونڈتے ہیں کوئی نئی فرینڈ"۔ رات کے دو بجے کا وقت تھا وہ مسہری پر چت لیٹا اپنی پچھلے ماہ ہی بنائی گئی نئی گرل فرینڈ سے میسنجر کے ذریعے باتوں میں مصروف تھا۔ ڈھائی بجے اس لڑکی نے اسے گڈ نائٹ کہا۔ لیکن اس طرف موبائل پر نظریں جمائے نفس کو شاید ابھی نیند نہیں آرہی تھی۔ بوریت کا احساس ہوا تو ہم زاد شیطان نے وسوسہ ڈالا کوئی اور کوئی نیا شکار کوئی نئی معصوم لڑکی کو اب اپنے کھلواڑ کا ذریعہ بنایا جائے۔
وہ عموماً ان لڑکیوں کو اپنی دوست بناتا تھا جو اس قسم کی نہ ہوں جو لڑکوں اور لڑکوں سے دوستی کو معیوب سمجھتی ہوں لیکن آخرکار پھر اس کی دلنشین باتوں سے اس معیوب کام کو محبوب سمجھ کے کرنے لگتی ہوں۔وہ جانتا تھا یہ مشکل ہوتا ہے لیکن اسے تو ہمیشہ سے ہی ایڈونچر پسند تھے اور بلاشبہ کسی عام دل پھینک لڑکی کے مقابلے میں کسی ایسی لڑکی تک رسائی حاصل کرنا جو اس قسم کے کاموں سے انتہائی نفرت کرتی ہو کسی ایڈونچر سے کم نہیں اور اسے یہ ایڈونچر ہمیشہ سے ہی پسند تھا شاید اسکی وجہ یہ تھی کہ وہ کبھی اس ایڈونچر میں ہارا جو نہیں تھا۔
انتہائی گھٹیا سوچ کے ساتھ مکروہ ہنسی ہنستا اب وہ people you may know کے آپشن کی طرف جارہا تھا۔ مختلف آئی ڈیز سے گزرتا اور ان میں گرلز آئی ڈیز کو چیک کرتا کچھ خاص نہ ملتا تو بے رخی برت کر گزر جاتا ۔ کئی آئی ڈیز کو ریجیکٹ کرتے اب وہ ایک آئی ڈی پر کلک کررہا تھا ۔
1500احباب دیکھ کر وہ متاثر ہوا۔ وال چیک کرتا نیچے آیا تو ہر تصویر پر بہت سے تبصرے موجود تھے۔ تبصرے پڑھے تقریباً سب ہی داد دیتے کلمات پر مشتمل تھے ۔
باتوں اور تبصروں سے اندازہ ہوا کہ لڑکے آئی ڈی میں شامل ضرور ہیں لیکن نہ ان کے تبصروں کا جواب دیا گیا نہ ان سے بات کی گئی ہے یعنی دوری برتی گئی ہے۔
واؤ کہنے کے انداز میں ہونٹوں کو گول کرتا وہ ریکویسٹ سینڈ کر چکا تھا۔
٭٭٭٭
ناشتے اور ناشتے کے برتن دھونے سے فارغ ہو کر مومل اسما بیگم کو بتا کر اپنے کمرے میں آ گئی۔ آتے ساتھ ہی موبائل اٹھایا اور فیس بک کھولا۔ عادت کے مطابق پہلے نیوز فیڈز چیک کیں ۔کل بنائی گئی آیات کی تصاویر پر ڈھیر سارے تبصرے موجود تھے، مسکراتے لبوں کے ساتھ تبصروں کا جواب دینے لگی۔ اس کے بعد اس کی نظر فرینڈز ریکوئسٹ پر پڑی تو ایک نیو ریکوئسٹ دیکھ کر آپشن کلک کیا۔ ریکوئسٹ بھیجنے والے کے نام پر نظر پڑی ۔
افنان مصطفیٰ۔
ممم کرلیتی ہوں ایکسپٹ۔ مجھے تو بس اپنی ایڈیٹس ہر کہیں دکھانا ہوتا ہے میں کون سا ان بوائز سے بات چیت کرتی یا انہیں رپلائی دیتی ہوں۔” ہر بار کی سوچ نے اس بار بھی اس کے ذہن پر وار کیا اور مومل عباس نے افنان مصطفیٰ کی طرف سے بھیجی گئی درخواست دوستی قبول کرلی۔
٭٭٭
ایسا نہ تھا کہ مومل کی اس حرکت پر ارتضیٰ نے کبھی اسے کچھ کہا نہ تھا۔ ابتدا میں وہ اس سے پوچھتا تھا لیکن پھر ایک بار مومل نے اسے مطمئن کردیا تھا ۔ یہ کہہ کر بھائی میں صرف ان کی فرینڈ ریکوئسٹ ایکسپٹ کرتی ہوں انہیں اپنا دوست تھوڑی بنا لیتی ہوں۔ نہ انہیں جواب دیتی ہوں' نہ آئندہ کبھی دوں گی سو آپ بالکل مطمئن رہیں میری طرف سے۔ ان شاءاللہ ایسا کبھی نہیں ہوگا کہ آپ کو یا بابا کو میری وجہ سے کبھی شرمندہ ہونا پڑے۔ ان شاءاللہ۔
ارتضیٰ اس کی بات سن کر مطمئن ہوگیا تھا ۔(جاری ہے)