حمزہ ایک تجربے کار مخبر تھا اس نے چوک کھانا سیکھا ہی نہیں تھا ہمیشہ کھڑا اور چوکھا کام کرکے دیتا تھا، اسی لیے باس ترجیحاً اسی کا انتخاب کرتے تھے۔ اس وقت بھی حمزہ انتہائی عمدگی سے اپنی چیزیں بیچ رہا تھا کہ دیکھنے والے کو ذرہ برابر بھی اس پر شک نا ہو۔۔
حفصہ فیصل
دوسری قسط
عدنان نے باہر جاکر لائبہ کی کال سنی اور اسے اس وقت بات کرنے سے منع کیا۔
مولوی ثاقب نے کبھی اپنے بچوں کو خرچ دینے سے ہاتھ نہیں روکا تھا مگر موبائل خصوصاً اسمارٹ فون ان کے نزدیک آج کے دور کی بڑی خرافات میں سے ایک تھی۔ وہ خود بھی استعمال نہیں کرتے تھے اور نہ ہی گھر والوں کے لیے ضروری سمجھتے تھے۔ حالاں کہ لوگ اسمارٹ فون کے استعمال کے لیے یہ دلیل دیتے نظر آتے ہیں کہ
" آج کی اہم ضرورت ہے" مگر اس ضرورت کی آڑ میں جو اس کا غلط استعمال کیا جارہا ہے اور معاشرہ بگاڑ کی جانب رواں ہے اس کی کسی کو فکر نہیں ہے۔اور پھر جب پانی سر سے اونچا ہوجاتا ہے تو معاشرے اور زمانے کو برا بھلا کہا جاتا ہے۔ سر پیٹا جاتا ہے اور ہائے واویلے کیے جاتے ہیں۔
عدنان کے پاس موبائل کہاں سے آیا؟
سم کس نے دی؟
استعمال کیسے سیکھا؟
یہ وہ سوال تھے ،جو رانیہ کے دماغ پر ہتھوڑے برسا رہے تھے۔
٭٭٭
حمزہ کا ٹھیلا اس طرح دکان کی بغل میں دیکھ کر افسر صاحب چونکے۔کیوں کہ اس طرح ان کی دکان کے اتنے قریب آج تک کسی نے ٹھیلا لگایا نہیں تھا۔ پھر انہوں نے اس خیال کو جھٹکا اور دکان میں داخل ہوگئے مگر ان کی چھٹی حس نہ جانے انہیں کیوں خبردار کررہی تھی۔
ویسے بھی افسر صاحب نہایت تجربے کار اور گھاک شخصیت تھے۔کچھ چیزیں امی جان کی طرف سے بھی ورثے میں ملی تھیں۔
حمزہ ایک تجربے کار مخبر تھا اس نے چوک کھانا سیکھا ہی نہیں تھا ہمیشہ کھڑا اور چوکھا کام کرکے دیتا تھا اسی لیے باس ترجیحاً اسی کا انتخاب کرتے تھے۔ اس وقت بھی حمزہ انتہائی عمدگی سے اپنی چیزیں بیچ رہا تھا کہ دیکھنے والے کو ذرہ برابر بھی اس پر شک نا ہو۔۔
افسر صاحب کی نظریں بار بار بھٹک کر شیشے کے شفاف دروازے کے پیچھے دائیں جانب کھڑے حمزہ پر جارہی تھیں ۔
٭٭٭
"عدنان بیٹا! ادھر آئیے۔۔۔"مولوی ثاقب نے انتہائی تحمل سے عدنان کو مخاطب کیا حالاں کہ وہ رانیہ کی زبانی شام کی ساری کارگزاری سن چکے تھے۔ لیکن یہی تحمل اور برداشت ان کی شخصیت کا خاصہ تھی۔
"بیٹا! یہ کیا حال بنا رکھا ہے آپ نے؟
مسجد میں بھی نظر نہیں آتے؟
اپنے قرآن کی فکر رکھیے, اس طرح قرآن سینے سے نکلنے میں دیر نہیں لگتی۔۔!
کل صبح اپنے بال ترشوائیے اور نہا دھو کر ظہر کی نماز میں مسجد آئیے، نماز کے بعد مجھ سے ملیے کسی سے ملوانا ہے آپ کو۔۔"
عدنان نے والد کی بات خاموشی سنی اور کمرے کا رخ کیا۔
رانیہ کے دل میں شام کی باتیں سوچ سوچ کر ہول اٹھ رہے تھے ،اس کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا اس کا بیٹا جو سب سے زیادہ فرماں بردار تھا وہ اس نہج پر جاپہنچے گا۔وہ بستر پر لیٹی بار بار کروٹ بدل رہی تھی۔۔ نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔
مولانا ثاقب رانیہ کی کیفیت اچھے سے سمجھ رہے تھے لیکن اس وقت کچھ بھی کہنے کا مناسب وقت نا تھا۔۔۔ وہ کچھ دیر آرام کرکے اٹھے، وضو کرکے نوافل کے لیے مصلے پر کھڑے ہوگئے۔
رانیہ کو بھی رب سے مناجات میں ہی عافیت نظر آئی وہ بھی ان کی تقلید میں کھڑی ہوگئی۔
٭٭٭٭
"دیکھو ! افسر ہم تم سے کہے دیتے ہیں۔ لائبہ ہاتھ سے نکلی جارہی ہے۔۔ لڑکی پر نظر رکھو۔"
زینب بیگم بیٹے کو متنبہ کررہی تھیں۔
"امی جان! گستاخی معاف ،لائبہ کو اتنا خود سر بنانے میں آپ کا بڑا ہاتھ ہے، ہمیں تو روزی روٹی کے لیے گھر سے باہر رہنا پڑتا ہے، فردوس ( لائبہ کی ماں) نے شروع شروع میں لائبہ کی تربیت میں آپ کے رویے پر اعتراض کیا تو آپ نے اسے جھڑک دیا جس پر وہ پیچھے ہٹ گئی۔ اب لائبہ کی یہ عادتیں پختہ ہوگئی ہیں۔" افسر صاحب بے بسی سے بولے ۔۔۔
زینب بیگم بیٹے کے سارے الزام اپنے سر پر تھوپنے پر ہکا بکا رہ گئیں ۔۔۔
افسر صاحب ویسے ہی دکان کی مصروفیات اور اس ٹھیلے پر شبے کے چکر میں اعصابی تناؤ کا شکار تھے ، اب ماں نے نئی کہانی شروع کردی تو کوفت کا ملبہ سارا ماں پر انڈیل کر چلتے بنے۔
۔۔٭٭٭٭
"ہاں بھئی حمزہ! کوئی خبر ہاتھ لگی؟"
"باس ! حمزہ کسی کام میں ہاتھ ڈالے اور وہ ٹھیک نہ ہو ،ایسا ہو نہیں سکتا۔۔۔"
حمزہ نے اپنے فرضی کالر جھاڑے
"اچھا بتاؤ کیا خبر ہاتھ لگی۔۔۔"
"باس! پرسوں ایک بڑا آرڈر دکان پر پہنچ رہا ہے، کارروائی کے لیے اس سے زیادہ مناسب وقت کوئی نہیں۔ "حمزہ رازدارانہ انداز میں بولا۔
"ہممم، تم مزید نظر رکھو، کوئی تبدیلی ہو تو پہلےسے مطلع کرنا
"او کے باس!"
٭٭٭٭
مولوی ثاقب ظہر کی نماز کے بعد کافی دیر تک عدنان کا انتظار کرتے رہے مگر عدنان نہیں آیا۔
مولوی ثاقب بیٹے کے اس رویے سے بے انتہا دل برداشتہ ہوئے۔۔
لیکن صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹنے دیا۔ یہی تو اصل آزمائش تھی۔۔ اور اسی میں رب تعالیٰ کی یاد تھی، اسی سے لو لگانی تھی مگر بشر کمزور ہے۔۔۔جلد کمزور پڑ جاتا ہے۔ مولوی ثاقب مضبوط اعصاب کے مالک تھے وہ جان چکے تھے کہ اس آزمائش میں پورا اترنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگانا ہے۔۔
٭٭٭٭
"یہ کیا ہے؟"
عدنان نے پین نما ،سگریٹ جیسی شے کو دیکھ کر حیرت زدہ ہوکر پوچھ رہا تھا۔۔
"یہ تو دنیا کو یکدم رنگین کردینے والی شے ہے پیارے!" کونین نے نشے میں مست ہوکر جواب دیا ۔
کیا مطلب ؟
عدنان اب بھی نہ سمجھ پایا۔
"اوئے بدھو! تو تو نرا جاہل ہی ہے۔ زمانے کی کسی ترقی کا پتا تجھے ہے نہیں ، کسی نئی ایجاد کی اطلاع تیرے پاس نہیں"ساجد نے مذاق اڑاتے ہو ئے کہا۔۔
"میں بدھو ہی سہی ، تم تو دانا ہونا!
اب کچھ بتا بھی دو۔" عدنان خفگی سے بولا۔
یہ شیشہ ہے ،شیشہ!
کیا سمجھا؟
کونین اس کی طرف اس پین کو بڑھاتے ہوئے بولا۔
"لے پی ، اور کھو جا ایک رنگین دنیا میں ،جہاں کوئی غم نہیں ہوگا۔"
میں ں ں ں!
اسے کیسے پیوں؟ عدنان ایک قدم پیچھا ہٹا۔
ساجد نے اس کے ہاتھ میں زبردستی پکڑایا
بس ایک کش لگانا ہے،صرف فلیور ہوتا ہے اس میں اور کچھ نہیں۔ ساجد نے وضاحت کی۔
نہیں نہیں وہ ابو جان! عدنان گھبرا کر بولا۔
"یار ! یہ ابو کا ہوا تیرے سر پر ہر وقت سوار رہتا ہے، کچھ نہیں ہوگا، نہیں پتا لگے گا تیرے ابو کو۔ اس میں کوئی بدبو وغیرہ نہیں ۔
بس کش لگا، اور دھواں اڑا۔۔۔" ساجد نے ترغیب دی۔
"اور اس دھویں کے ساتھ سارے غم بھی اڑا ڈال".
ہاہاہاہا کونین اپنی ہی بات پر محظوظ ہوا۔
اور پھر عدنان نے اس کھلونے کو ہلکا سمجھا جو اسے ایک نئی برائی کے دلدل میں دھنسانے والا تھا۔
ایک تحقیق کے مطابق شیشے میں یورینیم اور لیڈ جیسے بہت سے مہلک مادے ہوتے ہیں جن سے کینسر کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔ یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ شیشہ پینا صحت کے لیے سگریٹ نوشی سے زیادہ خطرناک ہے۔ شیشے کے مختلف ذائقے بھی متعارف کروائے گئے ہیں جس کی وجہ سے لوگوں کا اس کی طرف رجحان کافی بڑھ گیا ہے۔لوگ اسے فلیور کی آڑ میں ہلکا سمجھ کر لیتے ہیں۔ حالاں کہ وہ اپنی صحت کے ساتھ کتنا بڑا کھلواڑ کررہے ہوتے ہیں اس کا اندازہ وقت گزرنے کے بعد ہوتا ہے۔
واقعی بری صحبت انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتی۔۔عدنان اس دلدل میں برے طریقے سے دھنس رہا تھا اور اپنے والدین کی آزمائشوں میں اضافے کا سبب بن رہاتھا ۔(جاری ہے)