کھنک نے ایک نظر آسمان پر پھیلی قوس قزح کو دیکھا اور دوسری نظر فاطمہ کے چہرے پر کھنک کے لئے یہ اندازہ لگانا مشکل ہوگیا کے قوس  قزح سے سجا آسمان زیادہ حسین لگ رہا ہے یا فاطمہ کے چہرے پر بکھرے رنگ۔۔۔۔۔۔۔۔

پانچویں اورآخری قسط

"فاطمہ بیٹا ابھی تک جاگ رہی ہیں آپ ؟ لگتا ہے ساری رات یہاں ہی گزاردی آپ نے …''…سلمیٰ آپا فجر کی نماز پڑھنے کے لئے ٹی وی لاؤنج میں آئی تو فاطمہ کو لاؤنج کے خارجی دراوزے پر بنے صوفے نما جھولے پر بیٹھا دیکھ کر بے ساختہ پوچھ بیٹھیں۔ فاطمہ نے کہا کچھ نہیں، صرف سر اٹھا کر انہیں دیکھا اس کی سرخ سوجی

ہوئی نم آنکھیں انھیں اندر تک گھائل کر گئیں، اس کی آنکھوں میں کیا کچھ نہیں تھا اپنے بنجر ہونے کا دکھ، اپنی تذلیل اور بے مائیگی کا دکھ,اپنی بچپن کی محبت کے خاطر اپنا تن من دھن قربان کر کے اپنے آپ کو پیسہ کمانے کی مشین بنانے کے بعد اپنے اوپر بدچلنی کا لگایا ہوا الزام، اپنی زندگی کے حسین ماہ و سال اس مطلبی شخص پر وار دینے کا دکھ ،جس نے اسے محبت کا لارا دےکر اپنا الو سیدھا کیا …“…

”…آؤ فاطمہ میرے ساتھ فجر کی نماز پڑھو… “سلمیٰ آپا نے لاؤنج میں قبلہ سمت جائے نماز بچھاتے ہوئے کہا ……نہیں آپا آپ پڑھ لیں نماز میرا دل نہیں کرتا نماز پڑھنے کا… ”…نماز کے لیے فاطمہ کی لاپروائی نے سلمیٰ آپا کو اس کے لیے دعا مانگنے پر مجبور کردیا ۔اس دن سلمیٰ آپا کافی دیر تک مصلے پر بیٹھی فاطمہ کے لیے اللہ سے ہدایت مانگتی رہیں، جس طرح اپنے بچوں کے اچھے نصیب اور کامیابی کے لیے دعائیں مانگتی تھیں، ان کے لیے ہدایت مانگتی تھیں، بالکل ویسے ہی فاطمہ کو بھی انہوں نے اپنی دعاؤں میں شامل کر لیا تھا، ان کے دل میں اﷲ کی طرف سے فاطمہ کے لیے نرم گوشہ پیدا ہوگیا تھا، ان کا دل کہتا تھا کہ فاطمہ کی ذرا سی رہنمائی اسے صحیح راستے پر لے آئے گی…… کیونکہ اتنے عرصے میں انہیں اس بات کا اندازہ ہوگیا تھا کہ فاطمہ غلط نہیں تھی بلکہ وہ ماحول غلط تھا جس میں وہ پل کر جوان ہوئی تھی …وقت کا بہاؤ اپنی رفتار سے آگے بڑھتا جارہا تھا، فاطمہ کو سلمیٰ آپا کے گھر رہتےہوئے دوسال ہوگئے تھے۔ ان ماہ و سال نے فاطمہ پر اپنے بڑے گہرے نقش چھوڑے تھے ،جو کچھ وہ ساری زندگی نہیں سیکھ سکی تھی ۔وہ ان دو سالوں میں بہت اچھے سے سیکھ گئی یہ سب سلمیٰ آپا کی صحبت اور ان کے گھر کا ماحول تھا جس نے اسے سر سے پاؤں تک اپنے رنگ میں رنگ لیا تھا، اس کے پہننے اوڑھنے، چلنے پھرنے، اٹھنے بیٹھنے اور بات کرنے کے انداز میں واضح فرق آگیا تھا اب وہ بہت ٹھہر ٹھہر کر سلیقے سے بات کرنے لگی تھی۔ سلمیٰ آپا اور بچوں کو نماز پڑھتے دیکھتی تو خود بھی وضو کر کے نماز کے لیے کھڑی ہوجاتی گو کہ دل اب بھی نماز میں نہیں لگتا تھا، عجیب گھبراہٹ اور بے چینی اسے اپنے حصار میں لے لیتی تھی… “…آپا مجھے نماز میں سکون کیوں نہیں ملتا ؟ میرا دل ہی نہیں لگتا نماز میں ،اپنے آپ کو گھسیٹ کر جائے نماز تک لاتی ہوں، مجھے لگتا ہے اللہ تعالیٰ مجھ سے شدید ناراض ہیں اسی لیے تو انھیں میرا اپنے سامنے کھڑا ہونا پسند نہیں ہے…

ایک دن فاطمہ دل برداشتہ ہو کر سلمیٰ آپا کی گود میں سر رکھ کر رودی …"تمھیں جب بھی ڈپریشن ہو, مایوسی ہو یا رونا آئے،تم بس ایک کام کیا کرو، وضو کر کے مصلے پر کھڑی ہوجایا کرو اور جس طرح میری گود میں سر رکھ کر روتی ہو، اسی طرح سجدے میں سر رکھ کر یہ تصور کرو کہ تم نے اللہ کی گود میں سر رکھا ہوا ہے اور اس گود میں سر رکھ کر ہر بات کہہ ڈالو، اپنے سارے آنسو بہادو، اپنی زندگی کے سارے غم ،شکوے شکایتیں اس سے کہہ ڈالو، تم اللہ پاک کو بہت رحیم و کریم پاؤگی جب تمھارا دل ہلکا ہوجائے گا تو تمھارا خودبخود نماز میں دل لگنے لگے گا ۔اللہ کو اپنا رازداں بنالو وہ تمھارے راز کو راز رکھے گا چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی بات اس سے شئر کرو ،اپنے لیے ہر وقت ہدایت مانگو ،اپنے گناہوں کی معافی مانگو، پھر دیکھو کس طرح سکون پاؤ گی تم نماز میں، بس یہ یاد رکھنا اللہ بہت محبت کرتا ہے تم سے، بس تمھیں اس کی محبت کا شعور نہیں ہے، تم خوش قسمت ہو، اللہ نے اتنے سارے لوگوں میں تمھارا انتخاب کیا ورنہ تمھاری دونوں چھوٹی بہنیں بھی اسی ماحول میں پلی بڑھی ہیں، انھوں نے بھی پسند کی شادیاں کی ہیں پھر وہ اتنی خوشگوار زندگی کیوں گزار رہی ہیں کبھی سوچا ہے تم نے …؟…

"…ہاں کیونکہ ان کا نصیب آچھا ہے اس لیے وہ اپنی زندگیوں میں خوش و خرم ہیں …"…فاطمہ نے اداسی سے سلمیٰ آپا کو ان کی بات کا جواب دیا …"…

نہیں خوش نصیب وہ نہیں، تم ہو، جیسے رب تعالیٰ نے ہدایت کے لیے چنا ہے اور ہدایت نصیب والوں کو ملتی ہے تمھیں دنیاوی محبت میں مبتلا کرکے اس محبت کی وجہ سے ملنے والی تکلیف اور اذیت کی آگ میں جلا کر تمھیں اس سانچے میں ڈھالا جس سانچے میں وہ تمھیں دیکھنا پسند کرتا ہے ،مجازی محبت سے حاصل ہونے والا دکھ آپ کو ہمیشہ حقیقی محبت سے آشنا کرتا ہے اور مسلمان ہونے کی حیثیت سے یہ ہمارا ایمان ہےکہ دنیا میں ملنے والے دکھ آخرت میں ہماری راحت کا سبب بنیں گے کیونکہ یہ دکھ اور ان دکھوں پر بہائے گئے آنسو ہمیں گناہوں سے ایسا پاک کردیتے ہیں جیسے پیدا ہونے والا بچہ ہر گناہ سے پاک ہوتا ہے ….. تم سونا تھی، رب العزت نے تمھیں دکھوں کی بھٹی میں پگھلا کر کندن بنا دیا - اس کی اس کرم نوازی پر تم اس کی شکر گزار بن جاؤ، اس کی رضا کے لیے تم کثرت سے توبہ کرو اور استغفار  کیاکرو، سب کچھ اللہ پر چھوڑ دو جس نے تمھیں پیدا کیا ہے اس نے کچھ تو سوچا ہوگا تمھارے لیے وہ تمھیں ضائع نہیں ہونے دے گا۔ اللہ نے کوئی شے بے کار نہیں بنائی، وقت آنے پر تمھیں بھی تمھاری زندگی کا مقصد پتا چل جائے گا …"..

٭٭٭٭٭

سلمیٰ آپا کی باتوں سے فاطمہ کو کافی ڈھارس ملتی تھی، اب وہ ڈپریشن میں سیڈ سونگ نہیں سنتی تھی جائےنماز بچھا لیتی تھی ، اب اس کا دل نماز میں لگنے لگا تھا

تیری بارگاہ میں اے خدا

جونہی سر کو میں نے جھکادیا

اسی وقت تیری خدائی نے

مجھے پستیوں سے اٹھادیا

میں کمزور تھا، میں حقیر تھا

تیرے در کا ایک فقیر تھا

تو نے ایک سجدے کے بدلے میں

مجھے کیا سے کیا بنادیا

رگ جاں سے تو قریب ہے

تو ہی لکھتا سب کے نصیب ہے

جسے چاہ پل میں گرادیا

جسے چاہ پل میں اٹھادیا

٭٭٭٭

جب بھی اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتی تو ساتھ میں اپنے لیے وہ حوصلہ اور ظرف بھی مانگتی، جس کی بدولت وہ شاہ رخ اور اپنے والدین کو معاف کر سکے۔ انہیں دنوں فاطمہ کے والدین اس سے ملنے پاکستان آئے تو فاطمہ کو سلمیٰ آپا کے رنگ میں رنگا دیکھ کر خوشی کے ساتھ ساتھ سکون کا سانس لیا… …فاطمہ کب تک یہاں رہوگی سلمیٰ کے شوہر اپنا بزنس پاکستان ٹرانسفر کر رہے ہیں ،اگلے دو تین ماہ میں وہ ہمیشہ کے لیے پاکستان آجائیں گے، مناسب نہیں لگتا تمھارا اس طرح ان لوگوں کے ساتھ رہنا ،تمھاری پھپھو نے تمھارا ہاتھ مانگا ہے، اپنے چھوٹے بیٹے راحیل کے لیے، تمھارا دین کی طرف رحجان تمھیں ان کی فیملی میں ایڈجسٹ ہونے میں مدد دے گا ۔انہوں نے پہلے بھی تمھارے لیے راحیل کا رشتہ مانگا تھا لیکن اس وقت تمھارا رحجان شاہ رخ کی طرف دیکھ کر وہ خود ہی پیچھے ہٹ گئی تھی… …فاطمہ کی والدہ فوزیہ بیگم نے فاطمہ کے بالوں میں پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا فوزیہ اور ماجد کے لیے فاطمہ کا بدلہ ہوا رویہ اور اپنی ناراضی چھوڑ کر ماں باپ سے محبت سے ملنا، اپنے پچھلے رویے پر ان سے معافی مانگنا، ان کی ہمت بڑھا گیا تھا کہ وہ اپنے آنے کا مقصد  بتاسکیں…

"مما آپ جانتی ہیں نا ! میں اجڑی ہوئی بنجر زمین ہوں، جس پر کبھی ہریالی نہیں آئے گی، میں اپنے بنجر وجود سے راحیل کی زندگی بنجر نہیں کرسکتی… "فاطمہ کے لہجے کا خالی پن فوزیہ بیگم کو اندر تک تڑپاگیا، وہ بے ساختہ فاطمہ کو گلے لگا کر پھوٹ پھوٹ کر رودیں، فاطمہ نے فی الحال ان کے ساتھ جانے سے معذرت کر لی تھی لیکن فوزیہ بیگم اس سے یہ وعدہ لے کر گئی تھیں کہ جب وہ اگلی بار آئیں گی تو فاطمہ ان کے ساتھ چلے گی۔ انھی دنوں سلمیٰ آپا کی چھوٹی بھابھی کی طبعیت دوبارہ اتنی شدید خراب ہو گئی کہ سلمیٰ آپا کو مجبوراً ان کے ساتھ ہسپتال میں رہنا پڑا، ان کی ایک سالہ بھتیجی اور سلمیٰ آپا کے دونوں بچوں کا فاطمہ بہت اچھے سے خیال رکھ رہی تھی، یہ ہی تو وقت تھا سلمیٰ آپا کے احسانات کا قرض اتارنے کا طاہر اور زوبیہ تو بڑے تھے، اپنا خیال خود رکھ لیتے تھے لیکن ننھی زینب ابھی بہت چھوٹی تھی۔ باپ جاب پر اور ماں ہسپتال میں۔ ایسے میں فاطمہ ہی تھی، جو جی جان سے اسے سنبھال رہی تھی، روتی ہوئی زینب کو چپ کرانے کے لیے، جب وہ اسے اپنے سینے سے لگاتی تو جہاں زینب پرسکون ہوکر اس کے کندھے پر سر رکھ کر خاموش ہوجاتی وہیں پر فاطمہ کی بے قرار ممتا کو قرار آجاتا۔ زینب بھی کچھ ہی دنوں میں فاطمہ سے مانوس ہوگئی تھی، زینب کو اپنے دونوں بازوؤں میں بھر کر اسے کے بے تحاشا چومنے پر زینب کا کھلکھلا کر ہنسنا قدرت کو اتنا بھایا کہ زینب کو ہمیشہ کے لیے فاطمہ کی ممتا کی تسکین بنادیا اور وہ جو فاطمہ اپنی زندگی سے بے زار تھی، جس میں جینے کی چاہ ہی ختم ہوگئی تھی جسے اپنا وجود ایک بے کار شے لگتا تھا اس کے وجود کو زینب کے لئے کارآمد بنادیا …

٭٭٭

سلمیٰ آپا کی چھوٹی بھابھی کو لاسٹ اسٹیج پر کینسر ڈأگنوسٹ(daignost )ہوا تھا جس کی وجہ سے وہ اپنی زندگی کی بازی ہارگئی تھی، فاخر اپنی محبوب بیوی کے چلے جانے پر بکھر سے گئے تھے سلمیٰ آپا کے کہنے اور زینب کی محبت میں فاطمہ فاخر کی زندگی میں شامل ہوگئی، فاطمہ نے بہت طریقے سے نہ صرف زینب اورگھر کو سنبھالا بلکہ بکھرے ہوئے فاخر کو بھی سہارا دیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ فاخر اور فاطمہ کے بیج کی دوریاں ختم ہوگئیں، فاخر کی دی ہوئی عزت اور اس کا بےتحاشا خیال رکھنا، فاطمہ کے دل کے نہاں خانوں میں فاخر کی محبت کا باعث بن گیا جبکہ فاخر کو فاطمہ کا زینب سے بے تحاشہ پیار اور اس کے گھر کو جنت بنانا اس کی صبر شکر کی عادت فاطمہ کو فاخر کے قریب لے آئی ۔یوں فاطمہ اور فاخر ایک خوشگوار ازدواجی زندگی گزار رہے تھے، ان دونوں میاں بیوی کی خوشیوں کا مرکز زینب تھی …

٭٭٭٭

فاطمہ جو ہر وقت اپنی زندگی کے عدم توازن پر قسمت سے نالاں رہتی تھی آج اس کی زندگی کی بیلنس شیٹ کو قدرت نے کچھ ایسے بیلنس کیا تھا کہ لوگ اس کی زندگی پر رشک کرتے تھے خود کھنک کو اس وقت فاطمہ پر رشک آرہا تھا کسے اندھیری رات کے بعد فاطمہ کی زندگی میں سویرا آیا تھا کہ اس کی دنیا اور آخرت دونوں بیلنس ہوگئی تھیں ..بے شک ہدایت انھیں کو ملتی ہے جو اپنے لیے ہدایت مانگتے ہیں اور فاطمہ کے لیے تو ایک طرف سلمیٰ آپا نے نمازوں میں ہدایت مانگی تھی تو دوسری طرف مسجدالحرام اور مسجد نبوی میں زاروقطار روتے ہوئے فوزیہ اور ماجد نے اپنی پہلوٹی کی اولاد کے لیے ہدایت اور اس کی زندگی کی خوشیاں مانگی تھی …تو پھر بھلا کیسے ہدایت کے در فاطمہ پر نہ کھلتے ……

کھنک نے واضح محسوس کیا اپنے ماضی کو ورق ورق کھنک کے سامنے کھولنے پر فاطمہ کے چہرے پر کئ رنگ آ جا رہے تھے لیکن فاخر اور زینب کے ذکر پر اس کے چہرے پر قوس قزح پھیل گئی تھی۔  کھنک نے ایک نظر آسمان پر پھیلی قوس قزح کو دیکھا اور دوسری نظر فاطمہ کے چہرے پر کھنک کے لئے یہ اندازہ لگانا مشکل ہوگیا کے قوس  قزح سے سجا آسمان زیادہ حسین لگ رہا ہے یا فاطمہ کے چہرے پر بکھرے رنگ۔۔۔۔۔۔۔۔

(ختم شد)