تو جو میری دیوانی بنی پھرتی تھی نا وہ عشق نہیں ہوس تھی ، یہی وجہ ہے تجھے طلاق دینے کی تو آوارہ ہے …اور شادی صالحہ جیسی شریف لڑکیوں سے کی جاتی ہے جو مرد کی آنے والی نسلوں کی امین ہوتی ہیں تجھ جیسی لڑکیاں صرف ٹائم پاس کے لیے ہوتی ہیں
نشا وقار کراچی
اس حالت میں تو اسے آرام اور اچھی خوراک کی ضرورت تھی اور وہ اس حال میں مئی کی چلچلاتی دھوپ اور شدید گرمی میں بغیر ناشتہ کیے جاب کے لئے ماری ماری پھر رہی تھی۔
…اور کسی رہی ملاقات…؟… تمہاری دوست تو بہت امیر ہے …"…فاطمہ کے گھر سے مجھے پک کرتے ہوئے علی نے شرارت سے کہا“… زینب کو دیکھ کر میں جو ماضی کے ورق کھنگالنے لگی تھی، علی کی آواز مجھے دوبارہ حال میں کھیچ لائی.
میری جب سے فاطمہ سے دوستی ہوئی ہے جب سے میں اس کی زندگی کے اتار چڑھاؤ پر مستقل حیران ہی ہورہی ہوں اور آج کی ملاقات نے مجھے مزید حیرت میں ڈال دیا . …گاڑی میں بیٹھ کر سیٹ بیلٹ باندھتے ہوئے میں نے علی سے کہا ……مما آپ کو پتا ہےآج ہم لوگوں نے بہت انجوائے کیا اور پاپا ہمیں پلے لینڈ بھی لے کر گئے تھے… ”… اس سے پہلے علی اور میں فاطمہ کے حوالے سے کوئی بات کرتے میرے سب سے چھوٹے بیٹے نے مجھے خوش ہوتے ہوئے بتایا …“…اور ہم نے آئس کریم بھی کھائی تھی… ”…ننھی مناہل نے بھی خوشی سے تالیاں بجاتے ہوئے کہا … “…مما آپ ہر سنڈے اپنی فرینڈ کے گھر آیا کریں نا تاکہ ہم بھی ہر سن ڈے پلے لینڈ جاۓ… "…بچے کافی خوش دیکھ رہے تھے آج کی آؤٹنگ سے… میں بھی بچوں کی طرف پوری طرح سے متوجہ ہوگئی ڈنر کے بعد علی ہمیں لانگ ڈرائیو پر لے گئے(واپسی میں ہر سنڈے کی طرح ساس سسر کو نند کے گھر سے پک کیا ) واپس آتے آتے ہمیں اچھی خاصی دیر ہوگئی تھی بچے گاڑی میں ہی سوگئے تھے لیکن بچوں اور علی کے ساتھ ایک خوبصورت دن گزارنے کے باوجود فاطمہ مستقل میرے ذہن پر سوار رہی……
٭٭٭٭
موسم صبح سے ہی بہت خوشگوار ہورہا تھا کبھی ہلکی پھلکی پھوار موسم کو مزید دلفریب کردیتی تو کبھی ٹھنڈی ہوا کا جھونکا رگ جان میں ایک خوش کن احساس بیدار کردیتا موسم کی دل فریبی نے مجھے بے چین سا کردیا میں نے جلدی جلدی اپنے کام نمٹائے اور چھت کی طرف دوڑ لگادی مبادا موسم اپنی خوشگواریت لپیٹ کر اڑن چھو نہ ہوجائے کراچی میں موسم کا ویسے بھی کچھ پتا نہیں ہوتا اتنا خوبصورت موسم شاذونادر ہی کراچی والوں کو دیکھنا نصیب ہوتا ہے…… چھت پر قدم رکھتے ہی موتیے اور چنبیلی کے پھولوں کی ملی جلی خوشبو نے میرا استقبال کیا اپنے ذوق کی تسکین کے لئے میں نے چھت پر طرح طرح کے پھولوں کا ایک باغچہ بنادیا تھا جو ہر وقت پھولوں کی خوشبوؤں سے مہکتا رہتا تھا ابھی میں اپنے بناۓ ہوۓ باغچے کی مسحور کن خوشبو کو محسوس ہی کر رہی تھی کہ
مجھے اپنے پیچھے کسی کی آہٹ محسوس ہوئی میں نے پلٹ کر دیکھا تو میرے پیچھے فاطمہ کھڑی تھی مجھے اس طرح اسے اپنے پیچھے دیکھ کر با لکل بھی حیرانی نہیں ہوئی کیونکہ مجھے پھولوں سے اپنی دیوانے پن کا پتا تھا یقیناً اس نے ڈور بیل بجائی ہوگی امی ابو میں سے کسی نے دروازہ کھولا ہوگا اس نے اپنا تعارف کروایا ہوگا اور میرے سادہ لوح ساس سسر نے اسے سیدھا میرے پاس اوپر بھیج دیا ابھی اگر علی گھر پر ہوتے تو میری اچھی خاصی کلاس ہوچکی ہوتی شہر کے حالات کے مدنظر علی خود بھی بہت احتیاط کرتے تھے اور مجھے بھی سخت تاکید تھی احتیاط کرنے کی… …"…واہ بھئی کیا زبردست لان بنایا ہوا ہے تم نے چھت پر کتنے خوبصورت رنگ برنگے پھولوں کی بہار چھائی ہوئی ہے …. " …فاطمہ نے موتیے کے پھولوں کے نزدیک جاکر ان کو پیار سے چھوا اور گہری سانس لے کر ان کی خوشبوں اپنے اندر اتارنے لگی …"…یا اللہ تیرا شکر کے تم خود آگئی تمہیں اندازہ بھی ہے کچھ میں کتنی زیادہ بے چین ہورہی تھی تم سے ملنے کے لئے چلو نیچے چل کر بیٹھ کر سکون سے باتیں کرتے ہیں …"… میں نے فاطمہ سے اپنی خوشی اور بے چینی کا اظہار کرتے ہوئے اسے نیچے چلنے کے لئے کہا کیونکہ موسم کے تیور بتارہے تھے کے بادل کبھی بھی برس جائیں گے… “…مجھے اندازہ ہے تمھاری بےچینی کا اسی لئے خود چل کر تمہارے گھر آگئی اور ہم یہاں ہی بیٹھے گے بھلا اتنا خوبصورت موسم اور رنگ برنگے پھولوں سے مہکتے ہوئے ماحول کو چھوڑ کر ڈرائنگ روم کے گھٹن زدہ ماحول میں جانے کی کیا ضرورت ہے …”…فاطمہ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی موتیے کے گملوں کے پاس جاکر بیٹھ گئی …“…سب سے پہلے تو میں تمہیں یہ بتادوں کے میرے شوہر کا نام شاہ رخ خان نہیں فاخر ہے اور میں الحمداللہ اپنے شوہر سے نہ صرف محبت کرتی ہوں بلکہ ان کی بے تحاشا عزت بھی کرتی ہوں اور سب سے بڑی بات یہ کہ میں اپنے شوہر کی وفادار بھی ہوں اس لئے مجھے شدید ناگوار گزرتا ہے جب کوئی مجھ سے شاہ رخ کا ذکر بھی کرتا ہے میرا شاہ رخ سے کوئی تعلق نہیں ہے وہ میرے انتہائی تکلیف دہ ماضی کے سوا کچھ نہیں ہے جسے میں کبھی بھول کر بھی یاد نہیں کرنا چاہتی اس لئے میں نے سوچا تمہیں آج سب کچھ بتادوں تاکہ تم آئندہ شاہ رخ کا ذکر کر کے مجھے اذیت نہ پہنچاؤ …"…میرے کچھ پوچھنے سے پہلے ہی فاطمہ نے بغیر کسی تمپید کے بولنا شروع کردیا …“…تمھیں یاد ہے کھنک میں ایک بار تمہارے گھر آئی تھی اس وقت میں حاملہ تھی لیکن میں نے یہ بات شاہ رخ سے چھپائی تھی کیونکہ شادی کے تین سالوں میں اللہ نے تین بار مجھ پر اپنا کرم فرمایا تھا لیکن ہر بار شاہ رخ مجھے سرکاری ہسپتال میں لے جاکر پٹخ دیتا تھا یہ کہہ کر کے ہم ابھی بچہ افورڈ نہیں کر سکتے اور یوں ہر بار دنیا میں آنے سے پہلے ہی میرے بچے اپنے باپ کے ہاتھوں قتل ہوجاتے تھے… "…فاطمہ نے زور سے اپنی آنکھیں بند کی جیسے وہ دوبارہ ذہنی, جذباتی اور جسمانی طور پر اس تکلیف سے گزر رہی ہوں جو بار بار دوران ابارشن اسے سہنا پڑتی تھی
"یاد ماضی عذاب ہے یارب ……
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا "
"…جب میں تمہارے گھر آئی تھی میں دو دن کی بھوکی تھی شاہ رخ دو دن سے اپنے ماں باپ کے گھر تھا کیونکہ شادی کے وقت شاہ رخ نے یہ شرط رکھی تھی کہ جب تک اس کا سی -اے مکمل نہیں ہوجاتا میں جاب کرونگی اور وہ صرف پڑھے گا تاکہ مستقبل میں ہم دونوں میاں بیوی خوشگوار زندگی گزاریں اور میں عقل کی اندھی اس کے عشق میں اتنا ڈوب چکی تھی کہ اپنے ماں باپ کے بے حد سمجھانے کے باوجود ان کے خلاف جاکے شاہ رخ سے کورٹ میرج کرلی اور اپنا سارا زیور اسے تھمادیا زیور سے حاصل ہونے والی رقم سے شاہ رخ نے ایک کمرے کا پورشن کرائے پر لے لیا اور گھر کا ایڈوانس اور گھر کا ضروری سامان خریدنے میں سارے پیسے خرچ کردیے اب گھر کے دوسرے اخراجات اور پیٹ کا ایندھن بھرنے کے لیے میرے لئے جاب ناگزیر تھی- لیکن میری تنخواہ مہینہ ختم ہونے سے پہلے ہی ختم ہوجاتی تھی اور مہینے کے آخر میں جب فاقوں کی نوبت آتی تو شاہ رخ اپنے گھر چلا جاتا تھا کیونکہ اسے بھوک برداشت نہیں ہوتی تھی اور خالی پیٹ وہ پڑھ نہیں سکتا تھا اور ہمارے بہتر مستقبل کے لیے اس کا پڑھنا بہت ضروری تھا …"…فاطمہ نے تلخی سے مسکراتے ہوئے کہا …“…اور میں اس کے عشق میں ایسی گرفتار تھی کہ مجھے کبھی اس میں کوئی برائی نظر ہی نہیں آئی یہ وہ وقت تھا جب میں گھر میں اکیلی بھوکی پیاسی بیٹھی اپنے اور شاہ رخ کے بہتر مستقبل کے سہانے خواب بنتی رہتی تھی ماں، باپ،بہنیں سب نے مجھ سے قطع تعلق کر لیا تھا مالک مکان اچھی خاتون تھی اور میری حالت سے بہت اچھے سے واقف بھی تھی ایک وہ ہی تھی جن سے میں اپنے دل کی ہر بات کرلیا کرتی تھی خاص طور پر جب میں فاقے سے ہوتی تھی تو وہ مجھے کھانا بھیج دیا کرتی تھی لیکن وہ دو دن سے اپنے بھائی کے گھر گئی ہوئی تھی ان کی بھاوج کی طبیعت خراب تھی ایک تو پریگننسی اور دوسری طرف دو دن کا فاقہ میری حالت غیر کر رہا تھا میں نے سوچا گھر میں فاقے سے مرنے سے بہتر ہے کہ میں کوئی پارٹ ٹائم جاب ڈھونڈ لوں تاکہ اپنے اور آنے والے بچے کو ان فاقوں سے بچا سکوں بس یہ ہی سوچ کر میں تمہارے گھر کے نزدیک بنے ہوئے اسکولز میں پارٹ ٹائم کوچنگ کی جاب کے لئے آئی تھی تو مجھے اچانک تمہارا خیال آگیا اور میں تمھارے گھر آگئی جب میں بھوکے ندیدوں کی طرح تمھارے گھر کھانا کھا رہی تھی مجھے اس وقت تمہاری آنکھوں میں الجھن دکھائی دی تھی لیکن اس وقت جو حالت تھے وہ میں تمھیں بتا نہیں سکتی تھی ورنہ تم بھی شاہ رخ کو برا بھلا کہتی جسے سارا زمانہ کہتا تھا اور مجھے شاہ رخ کی برائی برداشت کہاں تھی… "…اس دوران فاطمہ مستقل روتی جارہی تھی میں نے اسے درمیان میں ٹوکنا مناسب نہیں سمجھا اچھا تھا کہ وہ اپنے دل کا ہر دکھ آج آنسوؤں کے ساتھ بہادے.
“…میں تمہارے گھر سے اپنے گھر بہت خوشی خوشی واپس آئی تھی ایک تو اتنے عرصے بعد کسی اپنے سے ملاقات پھر پیٹ بھر کر کھانا, پریگننسی, پارٹ ٹائم جاب کا مل جانا ان سب نے مجھے ایک دم سے فریش کردیا تھا گھر پہنچی تو شاہ رخ کو اپنا منتظر پایا جو میرے لئے بڑا حیران کن تھا کیونکہ آج یکم نہیں تھی اور مجھے تنخواہ یکم پر ملتی تھی اور شاہ رخ ہمیشہ یکم کے بعد ہی آتا تھا جب اسے یقین ہوجاتا تھا کہ راشن آگیا ہوگا کرایہ ادا ہوچکا ہوگا بل بھر دیئے گئے ہونگے… ”…فاطمہ کے منہ سے الفاظ نہیں دکھ اور اذیت ٹپک رہی تھی اس دوران ہلکی ہلکی پھوار شروع ہو گئی کھنک نے وہاں سے اٹھنا چاہ تو فاطمہ نے اسے ہاتھ پکڑ کر دوبارہ اپنے پاس بیٹھا لیا …“
…کب سے انتظار کر رہا ہوں کہاں تھی تم ٹائم نہیں ہے میرے پاس مجھے کہیں جلدی پہنچنا ہے شاہ رخ نے مجھے گھر میں داخل ہوتا دیکھ کر جس لہجے میں مجھ سے بات کی تھی اس نے مجھے ٹھٹکا دیا تھا میری چھٹی حس میں کسی انہونی کے ہونے کا الارم زور زور سے بچنے لگا تھا… "…کیا ہوا سب خیریت تو ہے میں نے اپنے دماغ میں بجنے والا خطرے کے الارم کو نظر انداز کر کے شاہ رخ سے پوچھا اور اس کے برابر میں جاکر بیٹھ گئی… “…امی ابو نے میری شادی طے کردی ہے انعم (شاہ رخ کی چھوٹی بہن )کی دوست صالحہ سے میں آج اپنا سامان لینے آیا ہوں یہاں آج سے ہمارے راستے علیحدہ علیحدہ ہیں تم بھی اپنا کوئی بندوبست کرلو یہ طلاق کے کاغذات ہیں میں نے تمھیں طلاق دے دی ہے تمہارے لئے بہتر یہ ہی ہوگا کہ تم خالہ خالو کے پاس سعودیہ چلی جاؤ …
کیا تقدیر نے چنوائے تھے اسی لیے تنکے
بن جاۓ نشیمن تؤ کوئی آگ لگادے ….
""…اس وقت مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے صور اسرافیل پھونکا جارہا ہے جسے قیامت آگئی ہو زمیں میرے پاؤں سے نکل گئی ہو آسمان میرے اوپر آگرا ہو …"…آئی ایم پریگننٹ …"…میں بولنا تو بہت کچھ چاہ رہی تھی لیکن میرے منہ سے نکلنے والے یہ الفاظ نہ صرف مجھے حیران کر گئے بلکہ میرے پاکدامنی کو بھی داغ دار کرگئے اگلے ہی پل شاہ رخ کا ہاتھ مجھ پر اٹھا اور اٹھتا ہی چلا گیا اس نے مجھ پر لاتوں اور گھونسوں کی بارش کر دی میں تڑپتی رہی چیختی رہی چلاتی رہی لیکن اس نے میری ایک نہ سنی اس پر تو جسے بھوت سوار ہوگیا تھا غیرت کا وہ اپنی ہی اولاد کو جو ابھی اس دنیا میں بھی نہیں آئی تھی انتہائی گھٹیا اور غلیظ القابات سے پکار رہا تھا… “…میں جانتا تھا تجھ جسی عورت جو کسی غیر مرد کے لئے اپنے ماں باپ کی عزت داؤ پر لگا سکتی ہے جو نکاح کے بغیر دس سال تک صرف منگنی کے نام پر میرے ساتھ وقت گزارسکتی ہے اس کے لئے شوہر کی موجودگی میں کسی غیر مرد کے ساتھ منہ کالا کرنا کونسی بڑی بات ہے…. "…اس کے الفاظ تھے یا کوئی پگھلا ہوا سیسہ جو میرے کانوں میں اتر کر مجھے اندر تک جلا کر بھسم کر رہا تھا… "…تجھے پتا ہے میرے ماں باپ نے مجھے کیوں منع کیا تھا تجھ سے شادی کرنے کے لیے وہ کہتے ہیں کہ تو آوارہ ہے تیرے جسم پر جو کپڑے ہوتے ہیں نا وہ تجھے ڈھانپتے نہیں بلکہ اور نمایاں کرتے ہیں اور جو تو میری دیوانی بنی پھرتی تھی نا وہ عشق نہیں ہوس تھی تیری یہ وجہ ہے تجھے طلاق دینے کی تو آوارہ ہے …اور شادیاں صالحہ جیسی شریف لڑکیوں سے کی جاتی ہیں جو مرد کی آنے والی نسلوں کی امین ہوتی ہیں تجھ جیسی لڑکیاں صرف ٹائم پاس کے لیے ہوتی ہیں تجھ سے اپنا دوپٹہ سھنبلتا نہیں میری نسلیں سھنبالے گی ہونہہ …اسی لیے نہیں کررہا تھا تجھ سے شادی تو ہی جونک کی طرح چمٹ گئی تھی مجھ سے اسی لیے میں نے شادی کے لیے ایسی شرائط رکھی تھی کہ تو چھوڑدے مجھے لیکن افسوس تو نے پھر بھی جان نہ چھوڑی میری …."…شاہ رخ کے لفظوں کی تکلیف اتنی زیادہ تھی کہ اس نے میری قوت گویائی چھین لی تھی بس مجھے اتنا یاد ہے کہ گھرسے نکلنے سے پہلے اس نے پوری قوت سے میرے پیٹ پر لات ماری تھی اور مجھے گندی غلیظ گالیاں بکتا ہوا گھر سے باہر چلا گیا تکلیف کی شدت سے میں اپنے ہوش کھو بیٹھی تھی…
باقی آئندہ