اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ لڑکی اتنی جرآت کا مظاہرہ کرے گی۔ ہمیشہ اس نے لڑکیوں کو خوف زدہ ہوتے دیکھا تھا مگر وہ واحد لڑکی تھی جو چھیڑے جانے پر چیل کی طرح جھپٹی تھی۔

 سلسلہ وار ناول کی پانچویں قسط

 تنزیلہ احمد

 عظیم سے سیکھے گر حسن اس کی بہن پر ہی آزما رہا تھا۔ خط میں حسن نے کال کرنے کا مخصوص وقت بھی لکھا تھا تاکہ جب وہ فون کرے تو حسینہ ہی اٹھائے۔

"پتا نہیں مثبت جواب ملتا بھی ہے یا نہیں۔۔۔" ڈرتے ڈرتے اس نے کال ملائی۔

پہلی بار کال کرنے پر اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب اسے یہ سننے کو ملا کہ "آپ کے مطلوبہ نمبر سے جواب موصول نہیں ہو رہا۔ کچھ دیر بعد کوشش کریں۔"

"کیا؟" اسے یقین نہیں آ رہا تھا۔ یعنی اس کی محنت رائیگاں چلی گئی تھی؟

اگلے روز مخصوص وقت پر اس نے پھر کال کی۔ شکر تھا کہ بیل جا رہی تھی مگر افسوس کہ کال نہیں اٹھائی گئی تھی۔

اسے خیال آیا کہ کیوں نہ ٹیکسٹ کیا جائے۔

"حسینہ مجھ سے بات کریں پلیز۔۔۔"

مگر جواب ندارد۔۔

"اتنے تیور۔۔۔" اس کا ضبط جواب دے رہا تھا مگر وہ مایوس ہونے والوں میں سے نہ تھا۔ مزید چند دن کی مسلسل کوشش کے بعد اسے جوابی پیغام ملا۔

"آپ کون ہیں اور مجھ سے کیوں بات کرنا چاہتے ہیں؟"

 کئی دنوں کے بعد حسن نے سکون کا سانس لیا تھا۔ اسے بات بننے کے آثار نظر آنے لگے۔ ظاہر ہے اس کے پیغام کا جواب دینے والی حسینہ ہی تھی۔ وہ نہ صرف اس کے پیغام پڑھتی تھی بل کہ بخوبی جانتی تھی کہ کوئی اس کے پیچھے پڑا ہوا ہے۔

"میں آپ کو بہت پسند کرتا ہوں۔ آپ جیسی حسین دوشیزہ میں نے آج تک نہیں دیکھی۔ پلیز مجھ سے بات کر لیں۔ پلیز۔۔۔"

موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس نے ٹھک سے جواب بھیجا۔ اسے یقین تھا کہ موبائل حسینہ کے پاس ہی ہو گا۔

"یہ میرا نمبر نہیں ہے۔۔ پلیز مجھے کال یا میسج نہ کیا کریں۔" اگلی نے بھی ٹھک سے جواب بھیجا تھا۔

فورا جواب آنے کا پہلا مطلب یہ تھا کہ مخصوص وقت میں وہ موبائل اپنے پاس رکھتی ہے۔۔اور دوسرا یہ کہ اس نے گھر کے کسی بڑے سے شکایت نہیں کی تھی کہ کوئی اسے تنگ کر رہا ہے ورنہ اس وقت موبائل کسی بڑے کے پاس ہوتا جو کہ اب تک اس کی طبیعت اچھے سے صاف کر چکا ہوتا۔

"دیکھ لیتے ہیں حسینہ بی بی کہ آپ کتنے پانی میں ہیں۔۔۔" آگے کا لاحقہ عمل طے کر کے اس نے حسینہ کو تفصیلی پیغام بھیجا اور مطمئن ہو گیا۔ اسے یقین تھا کہ حسینہ اس کی بات ضرور مانے گی۔

٭٭٭٭٭

شام ڈھلے وہ لڑکھڑاتا ہوا گھر میں داخل ہوا تو اماں سمیت سب کی سوالیہ نگائیں اس پر اٹھیں۔ دروازہ کھولنے والی آپا اور قمیض پر بٹن لگاتی اماں سب کچھ بھول بھال اس کی طرف لپکیں۔

"ارے خدا خیر کرے۔۔ کیا ہوا ہے تجھے؟"

کیچڑ سے بھرے کپڑے دیکھ انھیں کچھ تو اندازہ ہو رہا تھا۔

"ٹانگ پر چوٹ کیسے لگی؟" اماں اس کے ارگرد گھوم کے باقاعدہ اس کا معائنہ کر رہی تھی۔

"کچھ نہیں اماں۔ بس پھسل گیا تھا، زیادہ چوٹ نہیں ہے۔" درد دباتے ہوئے وہ برآمدے میں پڑی کرسی پر جا بیٹھا۔

آپا جھٹ سے گرم دودھ میں ہلدی ڈال کر اس کے لیے لے آئی تھی۔ گلاس ان کے ہاتھ سے تھامتے ہوئے اس نے شکر کی نگاہ ان پر ڈالی۔ آپا کتنی اچھی ہیں۔ خوش شکل، خوب سیرت، ہمدرد، خیال رکھنے والی۔۔۔

"کیا دیکھ رہے ہو؟" اس کا ارتکاز محسوس کرتے ہوئے انھوں نے پوچھا۔

"یہ کہ پھوپھی بہت خوش نصیب ہیں جو انھیں آپ جیسی بہو ملے گی۔"

اس کے سر پر ہلکا سی چپت  رسید کر کے وہ  شرمیلی سی ہنسی ہنس دیں۔

"اچھا اندر جا کر لیٹ جا۔ ابھی سیڑھیاں چڑھ کر اوپر اپنے کمرے میں جانے کی ضرورت نہیں۔" اماں نے ہدایت دی تو اس نے سعادت مندی سے سر ہلا دیا۔

"آسیہ تھوڑی بعد بھائی کو کھانے کے ساتھ درد مٹانے والی گولی بھی دے دینا مگر پہلے جا کر صاف کپڑے لا کے دے اسے۔" اماں کے کہنے پر آپا سر ہلاتی اس کے کپڑے لینے چل دی تھی۔

سیڑھیاں چڑھنے کی ہمت تو اس میں بھی نہ تھی۔ کپڑے بدل کر بستر میں لیٹتے ہی آج کا سارا منظر اس کی آنکھوں میں گھوما۔ وہ اور الیاس خوش گوار موسم میں یونہی آوارہ گردی کے لیے نکلے تھے۔

عادتا بس اسٹاپ سے مناسب فاصلے پر وہ رک گئے۔ ہلکی بارش اور سہانا موسم۔۔۔ ایسے میں چھیڑ چھاڑ کرنے کا اپنا ہی مزہ ہوتا ہے۔ اس کی بھٹکتی نگاہ بس اسٹاپ پر اترنے والی ایک خوب صورت لڑکی پر ٹھہری تھی۔ اپنے گردو پیش سے بے نیاز لاپروا سی لڑکی اپنے دھیان میں مگن انداز میں سڑک پار کر کے ذیلی سڑک پر چلنے لگی تھی۔

اس نے الیاس کو اس لڑکی کا پیچھا کرنےکو کہا۔ عظیم کا ارادہ صرف لڑکی کو متوجہ کرنے کا تھا۔ اس کے گنگنانے کی آواز پر بھی وہ ہموار اور متوازن قدموں سے آگے بڑھتی رہی یوں جیسے اس نے کچھ سنا ہی نہ ہو۔ پھر اس نے گھٹیا فقرہ لڑکی کی طرف اچھالا۔ وہ غصے سے پلٹی مگر کچھ بولی نہ تھی۔ تنہا ہونے کے باوجود وہ کہیں سے بھی ڈری سہمی نہیں لگ رہی تھی۔ یکدم ہی عظیم کا تجسس اس لڑکی میں بڑھ گیا تھا۔ لڑکی نے اس پر کوئی خاص توجہ نہ دی تھی۔ اس کی ہر کوشش ناکام ہو رہی تھی۔ خود کو وہ راجہ اندر سمجھتا تھا اور لڑکی کی بے نیازی اس کے جوش کو ہوا دے گئی تھی۔

اس نے الیاس کو بائیک اس لڑکی کے بہت نزدیک لے جانے کا کہا۔

"چھوڑ یار دفع کر۔ اس میں بہت خطرہ ہے۔" محتاط نظروں سے اردگرد کا جائزہ لیتے ہوئے الیاس نے اسے سمجھایا۔

مگر عظیم نے اس کی ایک نہ سنی۔ اس مہم جوئی میں اس کی دل چسپی بہت بڑھ گئی تھی۔ اس کے نزدیک جا کر وہ بس اسے ڈرانا اور سہمانا چاہتا تھا۔ غلطی تب ہوئی جب اس کے نزدیک پہنچ کر جوش میں آ کر اس نے لڑکی کی چادر کا پلو پکڑنے کی کوشش کی۔ آگے جو ہوا وہ انتہائی نا خوشگوار تھا۔ اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ لڑکی اتنی جرآت کا مظاہرہ کرے گی۔ ہمیشہ اس نے لڑکیوں کو خوف زدہ ہوتے دیکھا تھا مگر وہ واحد لڑکی تھی جو چھیڑے جانے پر چیل کی طرح جھپٹی تھی۔ الیاس کو بھی چوٹ آئی تھی۔ اس نے اسے خوب لعن طعن کرتے ہوئے اس نے آئندہ ایسے چکروں میں اس کا ساتھ نہ دینے کی قسم بھی کھائی۔ اور وہ خود کتنا مجبور تھا کہ پکی سڑک پر گرنے کی وجہ سے ٹانگ اور کوہلے میں اٹھتی ٹیسوں کو سب سے چھپا گیا تھا۔ 

"چھوڑوں گا تو نہیں اسے۔ پتا نہیں کیا سمجھتی ہے خود کو۔۔۔" لڑکی کے بگڑے تیور یاد کرتے ہوئے اس نے دل ہی دل میں اسے نیچا دکھانے کی ٹھان لی تھی۔

اب سب کچھ اسے اکیلے ہی کرنا تھا۔ الیاس کو اس معاملے سے وہ دور رکھنا چاہتا تھا۔ اگلے چند دنوں میں وہ لڑکی کے بارے ضروری معلومات اکٹھی کرنے میں لگا رہا۔ پیچھا کرتے کرتے وہ اس کے ہاسٹل اور ڈیپارٹمنٹ اسٹور تک جا پہنچا تھا۔

"کہاں مصروف رہتا ہے تو؟" الیاس کے پوچھنے پر وہ اسے ٹال گیا۔

جب کہ حسن نجانے کہاں غائب تھا۔ نہ ہی اس نے کوئی رابطہ کیا اور اتنے دنوں میں نہ ہی اس سے ملاقات ہوئی۔ یہ واحد لڑکی تھی جسے وہ اپنے دوستوں سے اک راز کی طرح چھپا رکھ رہا تھا۔ حسن کے لیے یہ اچھی بات تھی کہ عظیم سے اس کی ملاقات نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی اس نے رابطے کی کوشش کی۔ اس دوران اسے بھی اپنا کام دکھانے کا موقع مل گیا تھا۔ آخرکار اس کی بیل منڈھے چڑھنا شروع ہو چکی تھی۔

٭٭٭٭٭

کافی دنوں بعد داخلے کے سلسلے میں وہ تینوں اکٹھے ہوئے تھے۔

"آج کل تم دونوں کہاں مصروف رہتے ہو؟ مجال ہے جو اکٹھے کبھی دستیاب ہو جاؤ۔" میدان میں گھاس پر بیٹھتے ہی الیاس نے انھیں مخاطب کیا۔ دونوں ہی سٹپٹا گئے تھے۔   

"کہیں بھی تو نہیں یار۔۔۔" عظیم نے ابھی اتنا ہی کہا کہ الیاس نے اسے ٹوک دیا۔

"بس مجھے ٹرخانے کی کوشش نہ کر، جیسے میں تجھے جانتا نہیں۔"

حسن چپ بیٹھا دونوں کو سنتا رہا۔

"ہو سکتا ہے عظیم سدھر رہا ہو۔ چند دن جو اس نے دکان پر گزارے تھے لگتا ہے اس کی وجہ سے اس کی عقل ٹھکانے آ گئی ہے۔" حسن عظیم کا مذاق بنانے کی کوشش کرنے لگا۔

"عقل تو تمھاری بھی ٹھکانے آئی لگتی ہے۔ تم کہاں وقت گزار رہے ہو آج کل؟" عظیم نے دوبدو کہا۔

"تم دونوں کیا میرے پیچھے پڑ گئے ہو اور کوئی کام نہیں ہے کیا؟" خفگی سے ہاتھ جھاڑتے ہوئے حسن اٹھ کھڑا ہوا۔ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے ہوئے اس نے پیچھے مڑ کر کن انکھیوں سے اپنے دوںوں دوستوں کو دیکھا۔ وہ دونوں کسی بات پر قہقہہ لگاتے ہوئے پیچھے ہی آ رہے تھے۔ پہلے تو وہ ہر کاروائی وہ مل کر ڈالتے تھے مگر اب عظیم کی نظروں سے خود کو چھپانا حسن کو بہت مشکل لگ رہا تھا۔

"انسان کو اپنا آپ ہی چور لگے تو وہ کیا کرے؟"

اس نے عظیم کے رویے سے جانچ لیا تھا کہ حسینہ نےاپنے بھائی سے کسی بھی چیز کے متعلق کوئی بات نہیں کی ہے۔ عظیم کا برتاؤ اس کے ساتھ پہلے جیسا ہی تھا۔ یہ بات اس کے اعتماد میں اضافے کا باعث بنی تھی۔

٭٭٭٭

"میں نے کبھی کسی لڑکی کے لیے ایسا محسوس نہیں کیا جیسا آپ کے لیے کرتا ہوں۔ آپ کو چاہتا ہوں اور صرف آپ کے بارے سوچتا ہوں۔ پلیز مجھے دھتکاریں نہیں۔ صرف آپ سے بات ہی تو کرنا چاہتا ہوں۔ میں آپ کو کسی مشکل میں نہیں ڈالوں گا کبھی کچھ نہیں مانگوں گا پلیز مجھ سے بات کر لیا کریں۔" ٹیکسٹ پڑھتے ہی حسینہ کے پسینے چھوٹ گئے۔ دل کی بے ہنگم دھڑکن، صبیح چہرے کی اڑی رنگت اور ہراساں انداز۔ گھر میں کوئی بھی اسے ایسے دیکھ لیتا تو وہ کیا جواز پیش کرتی؟ بے ساختہ اس نے پسینے سے بھری ہتھیلی میں جکڑے موبائل فون کو دیکھا۔ متضاد کیفیات میں گھرے ہوئے اس نے پیغام پھر سے پڑھا۔

"اولین دور کی اولین پذیرائی۔۔۔" چہرے پر کئی رنگ آ ٹھہرے

آہستہ آہستہ لفظوں کے مفہوم اس پر واضع ہونے شروع ہوئے۔ جتنی بار پیغام پڑھتی اتنی بار نئے نئے معنی سمجھ آتے۔ وہیں بیٹھے بیٹھے اس نے اتنی بار میسج پڑھا کہ اسے حفظ ہو گیا۔

"کچھ ہوش ہے تجھے؟ کب سے موبائل لے کے بیٹھی ہے، کوئی کام کاج نہیں تیرے پاس کرنے کو۔۔۔" اماں کی تیز آواز اسے ہوش کی دنیا میں کھینچ لائی۔ موبائل چھپاتے ہوئے ہڑبڑا کر اس نے ماں کو دیکھا۔

"نہیں اماں بس ایسے ہی۔۔۔"

"کیا ایسے ہی؟ ضرور گیم کھیلنے بیٹھ گئی ہو گی۔ اس موئے موبائل کا پیچھا اب چھوڑ دے۔" اماں نے اسے گھرکا۔

ماں ڈانٹ چکی تو حسینہ نے شکر کا سانس لیا۔

"شکر ہے اماں کو اندازہ نہیں ہوا۔ اگر کبھی انھوں نے یا کسی اور نے ٹیکسٹ پڑھ لیا تو؟" سوچ کر ہی اس کی جان جانے لگی تھی۔

"حسینہ عافیت اسی میں ہے کہ میسج ڈیلیٹ کر دے۔" فیصلہ کرتے ہوئے اس نے موبائل پر کچھ بٹن دبائے اور پرسکون ہو کر موبائل ایک جانب دھر دیا۔

اماں نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا ہو گا کہ نئی نسل آج کل موبائل پر کس طرح کے گھناؤنے کھیل کھیلتی ہے۔ کس کس کو کس طرح بے وقوف بنایا جاتا اور بنا بھی جاتا ہے۔ جلد ہی ان کی بیٹی کا شمار بھی ایسے ہی بے وقوفوں میں ہونے والا تھا جس نے گھر والوں کے ڈر سے انجانے نمبر سے آیا پیغام تو مٹا دیا مگر ایسا کرنے سے قبل نہ صرف وہ پیغام حفظ کر چکی تھی بل کہ اپنی دوست کے نام سے وہ نمبر موبائل میں محفوظ بھی کر چکی تھی۔ بڑوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کا یہ طریقہ ڈھونڈا تھا اس نے۔۔۔ جب وہ گھر والوں کو یہ کہے گی کہ وہ اپنی دوست سے بات کرتی ہے تو انھیں اس پر ذرا برابر شک نہیں ہو گا۔ موبائل کمرے میں رکھ کر بظاہر تو وہ کام کاج میں مصروف ہو گئی مگر دل و دماغ میں چلتی کشمشکش کے زیر اثر رہی۔ 

دل اور دماغ میں جنگ چھڑ چکی تھی۔

"اس نے کبھی ایسا محسوس نہیں کیا جیسے میرے لیے کرتا ہے۔"

"اوہ ہو وہ جھوٹ بول رہا ہے۔ لڑکے ایسا ہی کرتے ہیں۔"

"ہو سکتا ہے سچ کہہ رہا ہو کہ مجھے چاہتا ہے۔"

"ہوں۔۔ ایسے کیسے، ڈرامے۔۔۔"

"مجھ سے صرف بات ہی تو کرنا چاہتا ہے۔" دل اس کی طرف مائل ہونے لگا۔

"ہونہہہ چھوڑو۔ اب اسے رابطہ کرنے کے لیے کوئی بات تو گھڑنی ہے۔"

"کچھ اور تو نہیں مانگا نا۔۔ صرف بات ہی تو کرنا چاہتا ہے۔" دل نے ایک اور نکتہ اس کے حق میں پیش کیا۔

"جانے دو۔ ابھی شروعات ہے اس لیے کہہ رہا ہے۔ کیا پتا کل کو کوئی اور فرمائش کر دے۔ لڑکوں کے یہ ہی ڈرامے ہیں۔" دماغ نے پتے کی بات کہی تو کچھ پل کے لیے دل کوچپ لگ گئی۔

"کسی کو جانے بغیر تو اس کے خلاف فیصلہ نہیں کر سکتے نا۔ ہو سکتا ہے وہ سچا ہو۔ بات کرنے سے ہی اندازہ ہو گا۔ اور اگر ایسی ویسی بات نکلی تو بے شک اس سے رابطہ نہ رکھنا۔" دل نے حتمی فیصلہ سنایا۔ دماغ بس تلملا کر رہ گیا تھا۔

بے شک انسان خسارے میں ہے۔ اسے ازل سے برائی میں ہی کشش محسوس ہوتی رہی ہے۔ جس رستے کو صاف اور ہموار سمجھ کر حسینہ نے قدم جمانے کا فیصلہ کیا وہ انتہائی خاردار تھا۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ خار اس کے دامن کے ساتھ الجھیں گے ساتھ ہی ساتھ اس کے گھر والوں کی عزت پر بھی نشتر کی طرح چبھیں گے۔

اسے یہ سوچنا چاہیے تھا کہ وہ ایک بیٹی ہے، بہن ہے، اپنی اور گھر والوں کی عزت کی پاسداری اس کا عین فرض ہے مگر اس سے پہلے وہ ایک لڑکی تھی اور فیصلہ ایک لڑکی نے کیا تھا بہن یا بیٹی نے نہیں۔

"اماں بات سن لے نا۔" ماں کا موڈ اچھا دیکھ کر وہ ان کے ساتھ تخت پر آبیٹھی۔

"ہاں بول کیا بات ہے۔"

"اماں وہ میری دوست ہے نا حنا وہ اتنے عرصے سے فون نمبر مانگ رہی تھی تو میں نے اسے گھر والا نمبر دے دیا ہے۔"

"کیوں دیا ہے تو نے میرا نمبر؟"

"میرے پاس تو موبائل ہے نہیں تو اسی نمبر پر ہی اس سے بات کر لیا کروں گی۔"

"ایسی کونسی باتیں ہوتی ہیں جو تم لوگوں نے موبائل پر کرنی ہوتی ہیں۔" اماں کو اس کی بات کچھ خاص نہیں بھائی تھی۔

"اصل میں امتحان ہو چکے ہیں تو اسکول والوں نے فارغ کر دیا ہے۔ اب کوئی ضروری بات کرنی ہو تو موبائل پر نہ کریں تو اور کیسے کریں؟"

"اپنی مرضی کرنی آتی ہے بس۔۔۔ اور یہ حنا کون ہے مجھے اس نام کی تیری کوئی دوست یاد رہی آ رہی۔" اماں حیرت سے پوچھنے لگیں۔

"وہ اماں میری اچھی دوست ہے، زیادہ پرانی نہیں۔" اماں کو دیکھتے ہوئے وہ محتاط انداز میں کہہ رہی تھی۔

اماں پوری توجہ سے ڈوپٹے کے پلوؤں پر کروشیے کی نازک بیل بن رہی تھیں۔ کاش اسی طرح اپنی بیٹی کے پلو سے بھی وہ کبھی نہ جدا ہونے والی عزت اور حیا باندھ سکتیں۔

"بس زمانے کے انداز بدل گئے ہیں۔ جب دے ہی چکی ہے نمبر تو اور اب کیا کہوں۔"

"اماں فکر نہ کرو۔ اجازت ملے گی تو ہی میں اس سے بات کیا کروں گی۔" اس نے لاڈ سے ماں کے کندھے پر جھکتے ہوئے کہا۔

"اچھا ٹھیک ہے۔ کر لیا کر بات، مگر میں تجھے زیادہ دیر موبائل سے چپکے نہ دیکھوں۔" اماں نے اسے دیکھے بنا سرسری انداز میں کہا۔

"ٹھیک ہے میری پیاری اماں۔" لاڈ سے ماں کو چبھی ڈال کر خوشی خوشی وہ کسی ضروری کام کا بہانہ کر کے وہاں سے اٹھ کے چل دی۔ سادہ لوح ماں ڈوپٹے پر بیل بناتی ہی رہ گئی تھیں۔

٭٭٭٭

کالج میں پڑھائی شروع ہوتے ہی ان کی زندگی پرانی ڈگر پر آ گئی۔ حسن فرسٹ ڈویژن جب کہ عظیم اور الیاس ہائی تھرڈ ڈویژن لے کر ایف اے میں پاس ہوئے تھے۔ عظیم کی خوشی کے لیے یہ ہی کافی تھا کہ اسے دکان نہیں سنبھالنی پڑی اور کالج آنے کا موقع بھی مل گیا۔ بظاہر تو سب نارمل تھا مگر ان کی زندگیوں میں بہت کچھ بدل چکا تھا۔ حسب معمول وہ کالج جانے کے لیے اٹھا۔ ناشتا کرنے نیچے آیا تو اماں نے اسے کہا:

 "آج تو کالج نہ جا۔"

"مگر کیوں؟"

"چھٹی کر لے۔ تمھارا گھر پر ہونا ضروری ہے۔"

"آج ایسا کیا ہے؟"  

"تیری پھوپھی آ رہی ہے۔"

"اس میں کیا نیا ہے؟ پہلے بھی تو آتی ہیں۔" اس نے بے زار ہوتے ہوئے کہا۔

آپا سر جھکائے کام میں مصروف رہی۔ دونوں چھوٹی بہنیں بھی آج گھر پر موجود تھیں اور صفائی ستھرائی میں آپا کا ہاتھ  بٹا رہی تھیں۔

"ہے نیا۔ بس جو تجھے کہا ہے وہ کر۔" اماں کے ڈپٹنے پر اس کے ذہن میں جھماکا ہوا۔  

"یعنی پھوپھی خاص سلسلے میں آ رہی ہیں۔" وہ بات کی طے تک پہنچ گیا تھا۔

"آسیہ سے پوچھ لینا اور اسے جو چاہیے بازار سے لے آنا۔"

"اچھا اماں۔" ناشتا کر کے بے دلی سے آپا کی دی گئی لسٹ تھام کر وہ باہر نکل گیا۔ سودا سلف لے کر وہ گھر لوٹا تو چھوٹی بہنیں صحن دھو رہی تھیں جب کہ آپا کھانا پکانے میں مصروف تھی۔

اتنا اہتمام تو ان کے گھر عید کے عید ہی ہوتا تھا۔ آپا کو سودا پکڑا کر وہ ماں کے پاس آ بیٹھا۔

"اماں، ابا گھر آئیں گے کیا؟"

"ظاہر ہے آئیں گے۔ دوپہر کے کھانے تک تیری پھوپھی آ جائے گی اور تیرے ابا بھی دکان بند کر کے آ جائیں گے۔"

"اوہ اچھا۔ ابھی تو کافی وقت ہے۔" اس نے موبائل دیکھا۔ دس بج رہے تھے۔

"دوپہر تک میں کیا کروں گا؟" بے دلی سے بیٹھا وہ موبائل پر کچھ ٹائپ کرنے لگ گیا تھا۔ یکدم ہی اسے ایک خیال چھو کر گزرا اور وہ سیدھا ہو کے بیٹھ گیا۔

"ایسا ہے اماں کہ مجھے ایک ضروری کام سے باہر جانا ہے۔"

"ہائیں! تجھے بیٹھے بٹھائے کیا ضروری کام یاد آ گیا؟" 

"دوپہر تک آ جاؤں گا۔" خود ہی فیصلہ کر کے اس نے ماں کو اطلاع دی۔

"ارے، ایسا کون سا ضروی کام یاد آ گیا ہے تجھے بیٹھے بٹھائے۔" اماں نے اسے دیکھتے ہوئے حیرانی سے پوچھا۔

"بس اماں کچھ ہے۔" کہتا وہ سیڑھیاں چڑھ گیا۔

نک سک سے تیار ہو کر وہ گھر سے نکلنے لگا تو اس نے اپنے پیچھے ماں کی آواز سنی۔

"مہمانوں کے آنے سے پہلے گھر واپس لوٹ آنا۔"

"ٹھیک ہے اماں۔"

"اچھا سن"

وہ پلٹا۔

"خیر سے جا۔۔۔" وہ بولیں تو عظیم مسکرا دیا۔

"اچھا اماں فکر نہ کرنا۔" اس نے دروازے سے ہی ہانک لگائی۔ گھر سے نکل کر اس کا رخ مشہور ڈیپارٹمنٹ اسٹور کی طرف تھا۔ اسٹور میں داخل ہوتے ہی جانچتی نظروں سے اس نے چاروں طرف  جائزہ لینا شروع کیا۔

"توبہ اتنا بڑا سٹور۔ پتا نہیں کہاں ملے گی۔۔۔"

ہر طرف ریک میں سلیقے سے سجی رنگ برنگی اشیاء کے انبار تھے اور خریداری کے لیے آتے جاتے لوگ۔

کچھ حصوں سے گزر کر اسے اپنا گوہر نایاب نظر آ ہی گیا تھا۔ ہاتھ میں کچھ تھامے مصروف انداز میں وہ اشیا کا جائزہ لے رہی تھی۔

چیزوں کے ساتھ چھیڑ خانی کرتا نا محسوس طریقے سے وہ اس سے مناسب فاصلے پر جا کر رک گیا۔

عظیم کا انداز ایسا تھا جیسے بہت ضروری خریداری کے لیے آیا ہو۔

"ویسے وہ وہاں آیا کس لیے تھا؟"

"اسے دیکھنے یا پھر اس سے بات کرنے کے لیے؟"

"مگر کیا بات کرنے کے لیے؟"

"اگر اس نے مجھے دیکھ لیا تو کیا کہوں گا؟ اگر اس نے مجھ سے کچھ پوچھ لیا تو؟"

وہ اس کے پیچھے وہاں تک بنا سوچے سمجھے چلا آیا اور اب دل ہی دل سوال جواب میں الجھ گیا تھا۔

اسی شش وپنچ میں وہ ایک قیمتی پرفیوم کی بوتل بے دھیانی میں نجانے کب سے تھامے کھڑا تھا اور نظروں میں بھی آ چکا تھا۔ کیا وہ پکڑا جا چکا تھا؟

٭٭٭٭

معمول کے مطابق انوینٹری کا جائزہ لیتے ہوئے اس نے سرسری نگاہوں سے اپنے آس پا‎س خریداری کرنے والوں کو دیکھا اور اس کی نظر پلٹنے سے پہلے ایک جگہ تھم گئی۔

کیا وہ اس کا وہم تھا یا حقیقت؟ دوبارہ غور سے دیکھنے پر شگفتہ کو اندازہ ہو گیا کہ یہ بائیک والا لڑکا ہے۔ غصے کی تیز لہر اس کے دل میں اٹھی۔ چہرے پر ناگواری سجائے وہ عین اس کے سر پر جا پہنچی۔

"گھٹیا انسان تم یہاں کیا کر رہے ہو؟ چوری کر رہے تھے نا؟"

شگفتہ کا بس نہیں چل رہا تھا کا اس کا منہ نوچ لے۔ وہ جو اپنی سوچوں میں گھرا کھڑا تھا اچانک حملے پر سٹپٹا گیا۔ گڑبڑا کر ہاتھ میں تھاما پرفیوم اس نے ریک پر دھرا۔

"دیکھو تمھیں کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔" دھیمی آواز میں اس سے بس اتنا ہی بولا گیا۔

"ہونہہ، غلط فہمی اور تمھارے بارے میں؟ سڑک پر چلتی لڑکیوں سے چھیڑ چھاڑ کرتے ہو، دن دھاڑے پرس کھینچنے کی کوشش کرتے ہو اور اب یہاں کھڑے ہو کے ڈراما کر رہے ہو۔۔۔" سرخ چہرہ لیے وہ اس پر برس رہی تھی۔

"بس چپ، بہت بول لیا تم نے۔ نہ ہی میں چور ہوں اور نہ ہی پرس چھینتا ہوں۔"

"تو اس دن کیا کر رہے تھے؟"

"وہ تو بس غلطی سے ہو گیا۔" اس کے سامنے کھڑا وہ اپنی صفائی پیش کرنے لگا۔ وہ خود کو راجہ اندر سمجھتا تھا اور اب جوالہ مکھی قسم کی لڑکی کے سامنے بھیگی بلی بنا کھڑا تھا۔

"یہ ڈرامے کسی اور کے سامنے کرنا۔ اپنی شکل دیکھو اور اپنے کرتوت دیکھو۔ مجھے یقین ہے یہاں بھی تم ہاتھ کی صفائی دکھانے ہی آئے ہو۔ رکو ذرا تمھیں تو میں دھکے دلوا کر یہاں سے باہر نکلواتی ہوں۔" کڑے تیوروں سے اسے گھورنے کے بعد شگفتہ نے متلاشی نظریں آس پاس دوڑائیں۔

عظیم کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا۔  

"زبان قابو میں رکھو اپنی۔ ہو کیا تم معمولی سی سیلز گرل۔۔۔ میں جتنا شرافت سے پییش آ رہا ہوں تم اتنی ہی حد سے بڑھ رہی ہو۔ تم کیا بلواؤ گی کسی کو میں خود یہاں سے جا رہا ہوں۔ آئی بڑی، ہونہہ۔۔۔" اسے خود اندازہ نہیں تھا کہ وہ غصے میں کیا کیا بولے جا رہا ہے۔

"تم کون سا کوئی نواب زادے ہو؟ چلتے پھرتے نظر آؤ ورنہ۔۔۔" شگفتہ نے اسے گھرکا تو وہ اول فول بکتا وہاں سے نکل آیا۔ باہر آ کر اس نے سکون کی سانس لی۔

"افف۔ میں یہ سب تو نہیں کرنے آیا تھا۔" اسے برا محسوس ہوا مگر بات تو اور بگڑ چکی تھی۔

سر جھٹکتے ہوئے وہ گھر چلا آیا۔ اس کی چپ مہمانوں کے آنے کے بعد بھی نہیں ٹوٹی تھی۔

گھر میں خوشی کا سماں تھا۔ پھوپھی نے شادی کی تاریخ مانگ لی تھی اور وہ بھی دو مہینے بعد کی۔ وہ لوگ جلد شادی کے لیے رضامند تھے اس سے اچھی اور کیا بات ہو سکتی تھی۔

اماں اور ابا کے چہرے خوشی سے دمکنے لگے۔ آپا کے چہرے پر قوس  قزح کے کتنے رنگ بکھرے وہ دیکھ نہ پایا کیونکہ کام کے بہانے وہ باورچی خانے میں چھپی بیٹھی تھی۔ گھر کی پہلی خوشی تھی اماں خود سب کا منہ میٹھا کرا رہی تھیں۔ وہ اس کے منہ میں بھی شیرے سے بھرا گلاب جامن ڈال گئیں۔

"بھائی جی شادی کی لمبی چوڑی تیاریوں میں نہ پڑیے گا۔ ہمیں کون سا جہیز کے نام پر اپنا گھر بھرنا ہے۔" پھوپھی اپنے بھائی کا مان رکھ رہی تھیں۔ وہ دھیمے مزاج کی سادہ لوح خاتون تھیں۔ وہ آگے بھی کچھ کہہ رہی تھیں مگر اس کا دھیان ان کی زبان کی نرمی اور شیریں مزاج میں اٹک گیا۔ گو کہ منہ میں گلاب جامن تھا مگر کچھ یاد آنے پر اس کا حلق تک کڑوا ہو گیا۔ بدکلامی اور بد زبانی کا تازہ مظاہرہ جو اس نے آج دیکھا اور جھیلا تھا۔ غیر ارادی طور پر عظیم اس کے بارے میں ہی سوچے جا رہا تھا۔

"بدتمیز ہونہہ۔۔۔" ہر چیز سے اس کی دل چسپی منقود ہو گئی تھی۔ حالانکہ اس کی فیس بک کی خاص دوست کا ٹیکسٹ بھی اس کی توجہ اپنی طرف مرکوز نہیں کر وا سکا تھا۔

"کیا ہوا خاموش کیوں ہو؟" آپا نے اس کی چپ محسوس کرتے ہوئے فکرمندی سے پوچھا۔ باقی سب تو خاموشی سے کھانا کھا رہے تھے ایک آپا ہی تھی جو اس کی چپ محسوس کیے بنا نہیں رہ پائی تھی۔ انھوں نے دیکھتے ہی اس کا بجھا بجھا انداز بھانپ لیا تھا۔

"واہ رے آپا۔" ان کے مطمئن اور خوشی سے دمکتے چہرے کو دیکھ کر وہ بھی مسکرا دیا۔

"کچھ نہیں آپا۔ خوامخواہ اپنی خوشی چھپانے کے لیے چہرے پر مصنوعی پریشانی طاری نہ کرو۔" اس نے بات اڑانے کی کوشش کی۔

"شرم تو نہیں آتی میری فکر کا مذاق بناتے ہوئے۔" مصنوعی خفگی بھی ان کے چہرے کی چمک مانند نہ کر سکی تھی۔ ایک آپا ہی تھی جن کی بدولت وہ ذہنی طور پر سب کے بیچ لوٹ آیا تھا۔ ہاں دل مگر پتا نہیں کہاں اٹک گیا تھا۔

پھوپھی ابا کو اپنے بیٹے کی نئی نوکری کے بارے آگاہ کر رہی تھی۔ سرکاری محکمے میں مناسب نوکری، معقول تنخواہ اور سب سے بڑھ کر پیار کرنے والی پھوپھی۔ اس کی پیاری آپا کی زندگی اچھی گزرنے والی تھی۔

"شفیق بھائی بہت اچھے ہیں۔ اپنے نام کی طرح شفیق، رحم دل اور نیک فطرت۔ پھوپھی کے گھر کے حالات بھی ہم سے بہتر ہیں۔ ہاں آپا وہاں خوش رہیں گی۔" صحیع معنوں میں ایک بھائی بن کر وہ بہن کے لیے سوچتے ہوئے ان کے لیے خوش تھا۔ چلو کچھ تو ایسا ہوا جو اس کی سوچوں کا دھارا بدل گیا۔ بدتمیز لڑکی اس کے ذہن سے ہٹ چکی تھی۔

٭٭٭٭

"لگتا ہے اس ویک اینڈ تم گاؤں جا رہی ہو۔" اسے بیگ میں کپڑے رکھتے دیکھ صائمہ نے اندازہ لگایا۔

"ہاں جا رہی ہوں۔ چاچا نے شاید کوئی ضروری بات کرنی ہے۔"

"واقعی؟"

"ہاں، کئی بار فون کر چکے ہیں بس یہ ہی پوچھنے کے لیے کہ گھر کا چکر کب لگا رہی ہو؟" بیگ کی زپ بند کر کے اس نے اسے چارپائی کے نیچے دھکیلا اور خود دھپ سے اپنے بستر پر بیٹھ گئی۔   

"خیریت، بتایا انھوں نے کہ کس بارے بات کرنی ہے؟" چائے کا کپ شگفتہ کو تھماتے ہوئے اس نے پوچھا۔ اپنا کپ تھامے وہ اس کی چارپائی پر ہی بیٹھ گئی۔

"نہیں، کوئی قابل ذکر بات نہیں۔۔۔"

"خیر چھوڑو، تم بتاؤ اس بار تم گھر جا رہی ہو؟"

"ہاں یار، جانا ہے بہت اداس ہو گی ہوں۔"

"حالانکہ اداس تو تمھارے گھر والوں کو ہونا چاہیے؟"

"وہ کیوں؟" صائمہ نے ناسمجھی سے پوچھا۔

"اتنی اچھی چائے بنانے والی جو نہیں ہوتی گھر پر۔۔۔" بھاپ اڑاتی چائے کے گھونٹ بھرتے ہوئے اس نے اسے سراہا۔ شگفتہ کو اس کے ہاتھ کی ذائقہ دار اور خوشبو دار چائے بہت پسند تھی۔

صائمہ بے اختیار مسکرا دی۔ "اور نہیں تو کیا"

شگفتہ بیگ باندھ چکی تھی جب کہ صائمہ نے ابھی کپڑے وغیرہ رکھنے تھے۔ کل ہفتہ تھا اور وہ دونوں اپنے گھر جانے کا ارادہ کر چکی تھیں۔ شگفتہ اپنا بیگ کام پر ساتھ لے گئی۔ ڈیپارٹمنٹ اسٹورسے بس کا اڈہ پاس پڑتا تھا۔ سپروائزر کو آدھی چھٹی کا وہ پہلے ہی بتا چکی تھی۔ چھٹیاں وہ شازو نادر ہی کرتی اس لیے آدھے دن کی چھٹی باآسانی مل گئی تھی۔ بس اسٹاپ سے لے کر گاؤں پہنچنے تک کا سفر اس کے لیے کبھی خوشگوار نہیں رہا تھا۔ نہ جاتے ہوئے نہ واپس آتے ہوئے۔ بہت کچھ تھا جو اسے یاد آتا اور تکلیف کا باعث بنتا۔ یادوں کا آسیب شگفتہ کا پیچھا نہیں چھوڑتا تھا۔

وہ چاچا کو پہلے ہی اطلاع کر چکی تھی۔ عصر ہونے سے پہلے وہ گھر کے دروازے پر اتری۔ دروازہ بجاتے ہی کھول دیا گیا۔ شاید وہ لوگ گھر کے سامنے رکشہ رکنے کی آواز سن چکے تھے۔

"السلام  علیکم"

"وعلیکم السلام۔" دروازے پر کھڑا چاچا اسے دیکھ کر کھل اٹھا۔ 

"آجا آجا بڑے عرصے بعد تو گھر آئی ہے۔" سر پر پیار دیتے ہوئے کہا گیا۔

کھلے دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی سامنے ہی صحن میں اسے چارپائی پر بیٹھی چاچی نظر آئی۔ انھیں سلام کر کے وہ بھی چارپائی پر بیٹھ گئی اور ہاتھ میں پکڑا بیگ زمین پر دھر دیا۔

"وعلیکم السلام۔۔ کیسی ہے تو؟"

"ٹھیک۔ آپ کیسی ہیں؟"

"ہاں گزر رہی ہے بس۔ بڑا دل لگ گیا ہے تیرا شہر میں۔ ہماری تو اب یاد بھی نہیں آتی۔" چہرے پر مسکراہٹ سجائے انھوں نے اپنے پن سے گلا کیا۔

جواب میں وہ ہلکا سا مسکرا دی۔ اب کہتی بھی تو کیا کہتی۔ بدلتے وقت کے ساتھ لوگ بھی بدل جاتے ہیں۔ انھیں یہ تو یاد رہتا ہے کہ انھوں نے کیا کیا اور کب برداشت کیا۔ مگر یہ یاد نہیں رہتا کہ ان کی وجہ سے دوسروں کو کیا کچھ برداشت اور سہنا پڑا۔ سچ ہے انسان اپنے مطلب کی بات یاد رکھتا ہے باقی سب یوں بھول جاتا ہے جیسے کبھی ہوا ہی نہ ہو۔ چاچی کا شمار بھی ایسے لوگوں میں ہوتا تھا۔

گزرے سالوں میں مکینوں کے ساتھ گھر میں بھی کافی تبدیلیاں آ گئی تھیں۔ سلیقے سے ترتیب دیا گیا فرنیچر، فرج، ٹی وی، اور تو اور یو پی ایس بھی لگوا لیا گیا تھا۔

"توبہ ہے بھئی اتنی گرمی ہے۔ بجلی اتنی جاتی ہے کہ نہ دن کو سکون نہ رات کو چین۔ سچ کہوں مجھے تو اب گرمی بہت لگتی ہے دل گھبراتا ہے۔ جب سے یو پی ایس لگایا زندگی میں سکون ہو گیا ہے۔۔ پتا ہی نہیں چلتا کہ بجلی گئی ہوئی ہے یا نہیں۔"   چاچی اسے ایسے آگاہ کر رہی تھی جیسے وہ ساری زندگی لندن گزار کر حال ہی میں لاہور شفٹ ہوئی تھیں اور شگفتہ کسی ڈونگے پنڈ سے انھیں شہر ملنے آئی تھی۔

"چل تو جا کمرے میں تھوڑا آرام کر لے۔" اس کی بے توجہی محسوس کرتے ہوئے انھوں نے کہا۔

"ثمینہ اور ریحانہ کہاں ہیں؟" گھر میں خاموشی ان کے نہ ہونے کا پتا دے رہی تھی۔

"وہ دونوں گئی ہیں ٹویشن پڑھنے۔ آ جائیں گی ٹھوڑی دیر تک تو کھانا کھائیں گے۔" ان کے کہنے پر سر ہلاتی اپنا بیگ اٹھا کر وہ کمرے میں چلی آئی۔ کمرے میں قدم دھرتے ہی بہت سے منظر اس کی آنکھوں میں گھومے۔

زندگی کا بڑا حصہ اسی کمرے میں گزرا تھا۔ کمرے کی ہئیت اور ترتیب یکسر بدل دی گئی تھی۔ دو پلنگ جوڑ کر ڈبل بیڈ کی شکل دے دی گئی تھی۔ کونے میں دھری مطالعے کی میز اور اس کے ساتھ الماری۔۔ سامنے کی دیوار کے ساتھ پرانی طرز کا سنگھار میز تھا۔ دیوار کے ساتھ بنی الماری کمرے میں نیا اضافہ تھا۔ جب تک کمرہ اس کے اور ماں کے استعمال میں تھا وہاں پرانی سیف الماری پڑی ہوتی تھی۔

بیگ کونے میں دھر کر وہ سنگھار میز کے پاس چلی آئی۔ حیرانی تو اسے آرائش و زیبائش کی مختلف چیزیں دیکھ کر ہو رہی تھی۔ افف ان دونوں لڑکیوں کو میک اپ کا کتنا شوق تھا۔ کریم، لوشن، نیل پالشز، فیس پائڈر، فاؤنڈیشن، لپ اسٹکس، غرض کہ ہر شے ہی وہاں سجی تھی۔ منہ ہاتھ دھونے کے بعد وہ تھوڑی دیر کے لیے آرام کرنے کے لیے لیٹ گئی تھی۔

(جاری ہے )