(پہلا باب زخرف)

مومل ہونٹ کاٹتے شش و پنج میں گھری بار بار اس کا میسج ریڈ کرتی پھر آخرکار نفس انسانی کمزور پڑا، شیطان کا وسوسہ کامیاب ہوا اور شیطان ہر بار کی طرح اس بار بھی اس برے راستے کو نیک راستہ دکھانے میں کامیاب ہوا

مسفرہ سحر کراچی

دوسری  قسط

"واؤ نائس"

ابھی اس نے اگلی تصویر ڈالی ہی تھی کہ سب سے پہلے افنان کا تبصرہ  آیا۔ اس نے بس دیکھا اور آگے بڑھ گئی۔

"میں نے آپ کو ریکوئسٹ صرف آپ کی ایڈیٹس دیکھ کی سینڈ کی ہے کیا عمدہ ایڈیٹ کرتی ہیں آپ"

اگلا تبصرہ اس نے پڑھا پر اس بار بھی کوئی جواب نہیں دیا۔

اگلے چند دن اسی طرح چلتا رہا، یہاں سے پوسٹ جاتی ،وہاں سے نائس ' اوسم ' ماشاءاللہ کے تبصروں کے ساتھ ایک اور اضافی کوئی بھی میسج۔

٭٭٭٭

رات گیارہ بجے کا وقت تھا مومل ہاتھ میں موبائل پکڑے کانوں میں ہینڈ فری لگائے نظم سن رہی تھی۔

مجھے  فرقت  میں  رہ  کر  پھر  وہ  مکہ  یاد  آتا  ہے ..

وہ  زم  زم  یاد  آتا  ہے  وہ  کعبہ  یاد  آتا  ہے ..

جہاں  جا کر  میں  سر  رکھتا  جہاں  میں  ہاتھ  پھیلاتا ..

وہ  چوکھٹ  یاد  آتی  ہے  وہ  پردہ  یاد  آتا  ہے ..

کبھی  وہ  دوڑ  کر  چلنا  کبھی  رُک  رُک  کے  رہ  جانا ..

وہ  چلنا  یاد  آتا  ہے  وہ  نقشہ  یاد  آتا  ہے ..

کبھی  وحشت  میں  آ کر  پھر  صفا  پر  جا کے  چڑ  جانا ..

وہ  مسعی  یاد  آتا  ہے  وہ  مَروہ  یاد  آتا  ہے ..

کبھی  چکر  لگانا  حاجیوں  کی  صف  میں  اَڑ  بھڑ  کر ..

وہ  دھّکے  یاد  آتے  ہیں  وہ  رگڑا  یاد  آتا  ہے ..

کبھی  پھر  ان  سے  ہٹ  کر  دیکھنا  کعبے  کو  حسرت  سے ..

وہ  حسرت  یاد  آتی  ہے  وہ  مزدہ  یاد آتا  ہے ..

کبھی  جانا  مِنیٰ  کو  اور  کبھی  میدانِ  عَرفہ  کو ..

وہ  مجمع  یاد  آتا  ہے  وہ  صحرا  یاد  آتا  ہے ..

وہ  پتھر  مارنا  شیطان  کو  تکبیر  پڑھ  پڑھ  کر ..

وہ  غوغا  یاد  آتا  ہے  وہ  سودا  یاد  آتا  ہے ..

منیٰ  میں  لوٹ  کر  پھر  میرا  دنبہ  کو  ذبح  کرنا ..

وہ  سنت  یاد  آتی  ہے  وہ  فدیہ  یاد  آتا  ہے ..

وہ  رخصت  ہو  کے  میرا  دیکھنا  کعبے  کو  مڑ  مڑ  کر ..

وہ  منظر  یاد  آتا  ہے  وہ  جلوہ  یاد  آتا  ہے ..

 

آنسو آنکھ سے جاری تھے۔ دل تڑپ اٹھا تھا کہ میرے پیارے مولیٰ کریم مجھے بھی اپنا گھر دیکھنا نصیب فرما ۔ مجھے بھی وہ زمزم نصیب فرما جو حضرت اسماعیل علیہ السلام اور حضرت  ہاجرہ کی یادگار ہے۔ مجھے بھی وہ صفا و مروہ پر چلنا اور دوڑنا نصیب کیجئے جو حضرت ہاجرہ کی بھاگ دوڑ کے بعد ہمارے لئے بابرکت ہوا۔ اس وقت مومل کے دل میں بھی بالکل ویسی ہی شدید تڑپ تھی مکہ اور مدینہ دیکھنے کی، جو ہر مسلمان ہر کلمہ گو کی اللّٰہ کے گھر کا ذکر سننے کے بعد ہوتی ہے۔

٭٭٭

کتنے ہی پل بیت گئے، پر مومل اس ذکر سے، وہاں کے جلوؤں کے تصوراتی خیال سے نکل نہ سکی۔ سکوت تب ٹوٹا جب موبائل نے ہلکی سی حرکت کی ۔

٭٭٭

کیا آپ مجھے ایڈیٹنگ سکھادیں گی؟”میسنجر پر میسنج تھا افنان کا۔

اس نے کوئی جواب نہ دیا ۔

" میں آپ کا زیادہ وقت نہیں لوں گا ۔ کافی کچھ مجھے بھی آتا ہے بس تھوڑی سی مہارت سیکھنی ہے جیسے آپ کے پاس ہے ماشاءاللہ"

پھر میسج پڑھا پھر جواب نہ دیا ۔

"اوکے کوئی بات نہیں ۔ آپ شاید اس وقت بزی ہیں جب فری ہوں تو پلیز مجھے جواب ضرور دیجئے گا۔"

مومل نے میسج پڑھا موبائل ایک جانب رکھا اور سیدھی کروٹ لے کر سونے لیٹ گئی۔

٭٭٭٭

اگلی صبح بھی عباس ہاؤس میں ہر صبح کی طرح پر رونق تھی۔ نماز فجر ادا کرکے سب لوگ سو گئے تھے اور اب آٹھ بجے  گھر کے سربراہان زوجین اور ان کا لاڈلا سپوت بیدار ہوچکے تھے لیکن مومل ابھی تک سوئی ہوئی تھی۔ ارتضیٰ ناشتہ کرکے آفس کیلئے نکل رہا تھا، عباس صاحب باہر چہل قدمی کیلئے جبکہ اسماء خاتون مومل کو اٹھانے اس کے کمرے کی طرف جارہی تھیں۔

 

اسماء خاتون کے اٹھا کر جانے کے کچھ ہی دیر بعد وہ اٹھ گئی تھی ۔ اٹھتے ساتھ ہی دعا پڑھ کے آنکھیں ملتے ہوئے اس نے اپنا موبائل اٹھایا۔

نوٹیفکیشن چیک کرتے ہوئے اس کی نظر پڑی تو افنان کے چار  مزید میسج  آئے ہوئے تھے۔

"میرا کچھ دن بعد ایک پراجیکٹ ہے آپ پلیز بس میری تھوڑی سی ہیلپ کردیں مس مومل ۔"

"مجھے بس ایک لوگو بنادیں جو میں اپنی پراجیکٹس پکس اور ویڈیوز پر لگا سکوں پلیز "۔

مومل کا ذہن اس کے میسج پڑھ کر سوچنے لگا کہ ہو سکتا ہے اسے واقعی ضرورت ہو ۔ ہممم کیا کروں کیا کروں ۔ چلو بنا دیتی ہوں بس ایک لوگو ہی کی تو بات ہے۔ نہیں نہیں کہیں پھر یہ مزید بات چیت نہ شروع کر دے اور اگر ارتضیٰ بھائی کو پتہ لگ گیا تو وہ ناراض ہوں گے چھوڑو۔

چونکہ افنان کو اس کے میسج پڑھ لینے  کا سائن   نظر آ رہا تھا، سو اس نے موقع دیکھتے ہی ایک اور میسج کیا۔

" مس مومل ! مجھے یہ پراجیکٹ پرسوں سبمنٹ کروانا ہے میں باقی پکچرز اور ویڈیوز بنا رہا ہوں ۔ آپ پلیز میرا لوگو بنا دیں گی"

مومل نے میسج پڑھتے ہی بے دھیانی میں میسج ٹائپ کیا اور سینڈ کردیا۔

" آپ کسی اور سے ہیلپ لے لیجیے"

دوسری طرف موجود افنان نے ایک زوردار قہقہہ لگایا تھا کیونکہ وہ جان چکا تھا کہ مچھلی جال میں پھنس رہی ہے۔

"فی الحال تو ابھی میرا کسی اور ایڈیٹر سے کانٹیکٹ نہیں۔ اور پھر آپ بناتی بھی بہت اچھا ہیں اسی لیےآپ کو ڈسٹرب کیا۔ آئی ایم رئیلی سوری اگر آپ کو برا لگا تو ۔ میں کرتا ہوں کچھ نہ کچھ"

مومل ہونٹ کاٹتے شش و پنج میں گھری بار بار اس کا میسج ریڈ کرتی پھر آخرکار نفس انسانی کمزور پڑا، شیطان کا وسوسہ کامیاب ہوا اور شیطان ہر بار کی طرح اس بار بھی اس برے راستے کو نیک راستہ دکھانے میں کامیاب ہوا۔ وہ ایسے کہ مومل نے سوچا مدد ہی تو کرنی ہے کسی کی اور جو ٹیلنٹ اپنے پاس ہو، اسے دوسروں کی مدد کے لئے استعمال کرنا چاہیے چلو بس ایک لوگو بنا دیتی ہوں۔

"اوکے میں آپ کو لوگو بنا کر شام تک سینڈ کردوں گی لیکن پلیز اس کا ذکر آئی ڈی یا ٹائم لائن پر نہیں کیجئے گا وہاں اور بھی بوائز ایڈ ہیں پھر سب ان باکس تک آئیں گے پلیز"مومل میسج بھیج کر اپنے اردگرد اس طرح دیکھنے لگی جیسے اسے ڈر ہو کسی نے دیکھ تو نہیں لیا۔ جیسے کسی چور کو چوری کرتے ہوئے پولیس کے دیکھنے کا ڈر ہوتا ہے۔ جیسے کسی کو برائی کرتے ہوئے گھر والوں اور معاشرے کے دیکھ لینے کا ڈر ہوتا ہے۔ جیسے کسی قاتل کو قتل کرتے ہوئے قانون کے دیکھ لینے کا ڈر ہوتا ہے۔ جیسے ہر گناہگار کو گناہ کرتے ہوئے دنیا اور اردگرد کے دیکھ لینے والوں کا ڈر ہوتا ہے ۔ ایسے ہی اسے بھی ڈر لگا تھا کہ کہیں کسی غیر کو، کسی لڑکے کو، کسی نامحرم کو  میسج کرتے ہوئے مجھے میرے ماں، باپ ،میرے بھائی، میری دوست سہیلیوں نے دیکھ تو نہیں لیا۔ آہ اے انسان! تو کتنا عجیب ہے تجھے خوف ہے تو ہر کسی کا خوف ہے۔ تجھے ڈر ہے تو ہر آنکھ کے دیکھ لینے کا ڈر ہے ۔ پر تجھے اس کے دیکھ لینے کا ڈر نہیں جو خود اپنے بارے میں فرماتا ہے۔

 

یَعۡلَمُ خَآئِنَۃَ الۡاَعۡیُنِ وَ مَا تُخۡفِی الصُّدُوۡرُ°

وہ آنکھوں کی خیانت

 اور اور سینوں کی

 پوشیدہ باتوں کو (خوب) جانتا ہے. (سورہ مومن :19)

وہ ذات جو سیاہ رات میں سیاہ پتھر پر سیاہ چلنے والی چیونٹی کو بھی دیکھ لیتا ہے۔ کیا وہ تمہاری یہ خیانتیں کیا وہ تمہارے یہ میسج جو تم سب سے چھپا کر اسے کرتی ہو جس کو میسج کرنا اگر تمہارے ماں باپ بہن بھائی کے علم میں لایا جائے تو گویا تمہاری زندگی میں ایک طوفان برپا ہو جائے ۔آہ پیاری لڑکی! تم اس دنیا کے طوفان سے ڈرتی ہو اور ان چیٹس کو اس بات چیت کو سب سے چھپا کر رکھتی ہو مگر وہ تو سب دیکھ رہا ہے نا۔ وہ جو پہاڑوں کی تہوں کے اندر موجود رائی کے دانے کو بھی دیکھ رہا ہے۔ وہ جو  ارحام میں موجود تین تہوں کے اندر پنپنے والے وجود کی ہر حرکت کو دیکھ رہا ہے۔ وہ جو سمندروں کے نیچے کہیں کسی گہری کھائی میں پڑے ایک سیپ میں موجود چمکنے والے ہیرے کو بھی دیکھ رہا ہے۔ کیا وہ باریک بین ذات تمہارے ان میسجز کو تمہاری اس بات چیت کو نہیں دیکھ رہا۔۔۔ آہ پیاری لڑکی تم کس بھول میں ہو؟

 

آنکھوں کی خیانت  کو خدا دیکھ رہا ہے

مَن چاہی  محبت   کو  خدا دیکھ رہا ہے

غیر محرم  کے  اِن باکس میں  کیا بھیج رہی ہو

نیت کو   شرارت  کو  خدا  دیکھ  رہا ہے

بھیا کہو،    بھائی کہو،    برادر کہو    لیکن

بے نام سی رغبت   کو  خدا دیکھ رہا ہے

شائستگی  دکھائیے،  ناداں!  مگر  تیری

مصنوعی شرافت  کو  خدا دیکھ رہا  ہے

کب کس سے جینے مرنے کے وعدے کئے تُو نے

ہر  ایک  معصیت  کو  خدا  دیکھ رہا  ہے

 

٭٭٭

شام ہوئی مومل نے وعدے کے مطابق ایک آفس ڈیزائن پر “اے ایم” کا لوگو بنا کر افنان کو سینڈ کردیا ۔ وہ پریشان ضرور تھی کہ اگر افنان نے اس بارے میں کسی کو بتایا یا پھر کسی بھی طرح بھائی کو پتہ چل گیا تو کیا ہوگا لیکن ہر بار وہ خود کو تسلی دے کر مطمئن کر دیتی کہ ان شاءاللہ ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ میسج پہنچ چکا تھا اور دوسری طرف سے سین بھی کر لیا گیا تھا۔

٭٭٭

افنان مصطفیٰ نے لوگو دیکھا اور کھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے کہنے لگا۔" ہائے بے چاری نے اتنی محنت کی۔ میں نے تو اس لوگو کا کچھ بھی نہیں کرنا خیر دیکھتے ہیں کتنے پانی میں ہے یہ شریف لڑکی"۔ وہ  موبائل کو دیکھتے ہوئے یہ سب کہہ رہا تھا ساتھ بیٹھے دوست نے پوچھا۔

"کون ہے گرو؟ لگتا ہے آج کل نیا پیس ڈھونڈا ہے پٹانے کو"۔ چوں کہ شام کا وقت تھا اسی لئے دوستوں کے ساتھ ایک کیفے میں بیٹھا تھا۔ کافی دونوں دوستوں کے لئے اسی کی طرف سے تھی ،باپ کے پیسوں پہ عیش کرنے والا بندہ تھا اور پھر اس پر مزید شیخی بگھارنے کا شوق۔

"ہاں یار! وہ سب پرانی ہو گئی تھیں اور تجھے تو پتا ہے مجھے کچھ نیا اور انوکھا کرنا پسند ہے اسی لئے نیو ٹرائی کر رہا ہوں۔“ افنان نے ساتھ بیٹھے اشعر کے ہاتھ پر ہاتھ مارا جو اب اس کے موبائل پر جھکا مومل کی چیٹس پڑھ رہا تھا۔

"شریف لگتی ہے۔ مشکل ٹاسک ہے۔ " اشعر نے کمینگی سے ایک آنکھ دبا کر کہا۔

"چلو اب تم دونوں کافی پیو میں ذرا اپنی نئی فرینڈ کو ٹائم دے دوں۔ " افنان نے موبائل پر ٹائپنگ کرتے ہوئے کہا۔

شکریہ مس مومل۔ اب میں اسی لوگو کو اپنے پراجیکٹ پر یوز کروں گا۔ بہت شکریہ آپ کا۔’(ساتھ ایک اسمائلی ایموجی)۔ افنان میسج سینڈ کر کے اب واٹس ایپ پر کسی اور سے بات چیت میں لگ چکا تھا۔

دوسری جانب مومل نے میسج دیکھا پر کوئی ری پلائے نہ دیا ۔ وسوسے کی آمد ہوئی اور اس نے سوچا ایسے کوئی جواب نہ دینا اچھی بات نہیں چلو بس ایک ایموجی سینڈ کر دیتی ہوں۔ایموجی سینڈ کیا اور ہینڈ فری کانوں میں لگانے لگی۔ سورج غروب ہونے سے بس کچھ دیر پہلے کا ہی وقت تھا۔ کچھ پرندے اپنے اپنے آشیانوں کی طرف واپس جاچکے تھے کچھ روانگی کے لیے اڑ رہے تھے جبکہ کچھ  کھلے آسمان میں اڑنے کا مزہ ابھی کچھ وقت اور لینا چاہتے تھے ۔ آسمان کے کناروں سے سرخی اٹھنے لگی تھی اور یہ وہ وقت تھا جسے غروب آفتاب کا وقت کہا جاتا ہے شاید اس لئے کیونکہ اس وقت صرف سورج ہی غروب نہیں ہوتا بلکہ کائنات میں ایک اور دن غروب ہوجاتا ہے بنی نوع انسان کا ایک اور دن اس کی زندگی سے کم ہو جاتا ہے اسی لئے یہ وقت عموماً اداس سا گم سم سا ساکن سا وقت ہوتا ہے جب ہر کہیں خاموشی اور سکوت ہوتا ہے مصور بھی جب اس وقت کے منظر کو کینوس پر پینٹ کرتا ہے تو اس کی وہ مصوری اداسی بھری ہوتی ہے۔ شاعر بھی جب اس وقت کو اپنی شاعری میں لکھتا ہے تو اس کا وہ شعر اداسی بھرا ہوتا ہے  کیونکہ یہ سمے، یہ وقت ہمارے لئے یہ پیغام لاتا ہے کہ جیسے آج کا دن بھی اس ڈوبتے سورج کے ساتھ گزر گیا اسی طرح گزرتے دنوں کے ساتھ ایک دن ہماری زندگی کا سورج بھی ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ڈوب جائےگا۔

مومل کانوں میں ہینڈ فری کو اچھی طرح سیٹ کر کے اب میوزک پلئیر میں اپنی کلیکشن دیکھ رہی تھی ۔ شام کے وقت زیادہ تر وہ یہی سنا کرتی تھی۔

موت آئی اور انسان کو اچک کر لے گئی۔۔

اقربا مجبور تھے، نادار چارہ ساز تھا۔۔

ہے وہی انجام تیرا جو تیرا آغاز تھا۔۔

خاک سے پیدا ہوا تو خاک میں مل جائے گا۔۔

٭٭٭٭

مکمل توجہ سے ان الفاظ کو سن رہی تھی جب اس کے موبائل کی بپ ہوئی۔