میں تنگ آگیا ہوں تمہاری ان حرکتوں سے، روز روز باہر کے کھانے کھاکر اب تو معدہ بھی خراب ہوگیا ہے، نہ تم کھانا بناتی ہو، نہ گھر کا کوئی اور کام کرتی ہو، اور یہ ماسی کا ڈرامہ تو ختم کرو میرے پاس قارون کا خزانہ نہیں ہے۔
آمنہ نور
"میری سمجھ میں نہیں آتا، آخر اسے کس چیز سے مطمئن کروں، وہ ایسی تو نہیں تھی۔" زریاب نے بے زاری سے کہا۔
"کومل تو میری بہت صابر بچی ہے، پتا نہیں میرے گھر کو کس کی نظر لگ گئی۔" امی جان نے آزردگی سے زریاب کو دیکھتے ہوئے کہا۔
"اب تو یہ روز کا تماشا ہے امی جان! کبھی اسے میری تنخواہ کم لگتی ہے تو کبھی میری جاب معمولی، کچھ ماہ پہلے تک تو سب ٹھیک تھا۔ اس کے اعتراضات دور کرنے کے لیے میں نے پارٹ ٹائم جاب بھی شروع کردی ہے۔"
لیکن!!!
کومل کے رویے کو لے کر زریاب کافی پریشان تھا۔
"امی جان بیٹے کو دیکھ کر رہ گئیں۔"
*********
"کومل!!! کومل!!!
کہاں ہو؟"
"کچن میں ہوں رانیہ!! یہیں آجاؤ۔" کومل نے کچن سے آواز لگائی۔
"اوہ تم یہاں ہو، اتنی گرمی ہے، تم یہاں کیوں خود کھپارہی ہو۔" رانیہ کچن کے دروازے میں آکر کھڑی ہوگئی۔
اچھے وقت پر آئی ہو،میں نے کھانا بنالیا ہے، اب چائے بنارہی تھی، چلو مل کر پیتے ہیں۔ رانیہ کو دیکھ کر کومل کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی۔
"مجھے تو قاسم نے فون کرکے کچھ بھی بنانے سے منع کردیا تھا، کہہ رہے تھے باہر سے کچھ لے آئیں گے۔" رانیہ نے اس کے پسینے سے تر صبیح چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا۔
"بھئی! قاسم بھائی کی تو کیا ہی بات ہے، یہاں تو مہنگائی کا رونا ختم نہیں ہوتا۔ اور پھر امی جان بھی باہر کا کچھ نہیں کھاتیں۔" کومل نے حسرت بھرے لہجے میں کہا۔
"ہممم!! ویسے زاویار کہاں ہے، نظر نہیں آرہا؟" رانیہ نے کومل کے دو سالہ بیٹے زاویار کا پوچھا۔
"وہ سوگیا ہے، دراصل رات کو اسے ہلکا سا بخار تھا جس کی وجہ سے ساری رات روتا رہا ہے۔" کومل نے جواب دیا۔
"ویسے سلام ہے تمہاری ہمت کو، میں تو حیران ہوں کہ تم اتنا کچھ کیسے برداشت کرلیتی ہو، گھر کے اتنے سارے کام، بوڑھی ساس اور اوپر سے چھوٹا سا بچہ۔۔۔۔۔" رانیہ نے ہمدردی جتاتے ہوئے کہا۔
"ایسی تو کوئی بات نہیں ہے، زاویار کو تو زیادہ تر امی جان ہی دیکھتی ہیں اور کام تو ہر گھر میں ہوتے ہیں۔" کومل نے رانیہ کے سامنے چائے رکھتے ہوئے کہا۔
"ہاں! شاید تم ٹھیک کہہ رہی ہو، اب ہر کسی کی قسمت مجھ جیسی تھوڑی ہوتی ہے، قاسم تو مجھے کوئی کام کرنے ہی نہیں دیتے۔ اب دیکھو نا میرے منع کرنے کے باوجود ماسی رکھ دی ہے، کہتے ہیں میرے کمانے کا کیا فائدہ اگر تم سارا دن کاموں میں کھپتی رہو، حالانکہ دو لوگوں کا کام ہی کتنا ہوتا ہے۔۔۔۔
اچھا کومل اب میں چلتی ہوں، قاسم آنے والے ہوں گے، اور اگر میں انہیں گھر میں نظر نہ آؤں تو ناراض ہوجاتے ہیں۔" رانیہ نے چائے کی پیالی ختم کی اور اپنے گھر کی راہ لی۔
کومل ہمیشہ کی طرح اس کی باتیں سن کر احساس کمتری کا شکار ہونے لگی۔
***********
زریاب اور کومل ایک اچھی شادی شدہ زندگی گزار رہے تھے، زریاب انجینئر تھا اور ایک پرائیویٹ کمپنی میں جاب کررہا تھا، تنخواہ مناسب تھی مگر وہ دونوں امی جان کی حکمت عملی کی وجہ سے محدود وسائل میں بھی اچھا گزارہ چلا رہے تھے، زریاب ہمیشہ ساری تنخواہ امی جان کو دیتا تھا، جس میں سے امی جان کومل کو اس کی ضرورت کے مطابق خرچہ دے دیتیں جو وہ بخوشی رکھ لیتی، اور باقی پیسوں سے گھر کی ضروریات پوری کرتیں، کومل نے بھی کبھی کوئی اعتراض نہیں کیا، پھر زاویار کے آجانے سے ان کی زندگی مکمل ہوگئی، مگر جب سے رانیہ ان کے پڑوس میں آئی تھی اس کی زبانی نت نئی باتیں کومل کے ہنستے مسکراتے گھر میں زہر گھول رہی تھی۔۔۔۔۔ کبھی اسے اس کے گھر کے کاموں پر حیرت ہوتی، کبھی ساس کے ساتھ اس قدر گہرے لگاؤ پر ہمدرد بن کر سمجھاتی، کبھی کپڑوں اور جوتوں کی نئی کلیکشن سے آگاہ کرتی، کبھی قاسم اور زریاب کا موازنہ کرکے اسے زریاب سے بدظن کرتی، اور کومل دوست سمجھ کر اس کی ہر بات کو اہمیت دیتی اور اپنے گھر کا سکون برباد کرتی، امی جان نے اسے ڈھکے چھپے الفاظ میں سمجھانا چاہا۔
مگر،
وہ سمجھتی تب ناں!!!!
*********
"مجھ سے اتنے سارے کام نہیں ہوتے ہیں، گھر کے کاموں کے لئے ماسی رکھ دیں۔" کومل نے نئی فرمائش کرتے ہوئے کہا۔
"تم نے پھر سے نیا شوشہ چھوڑ دیا کومل!
اابھی تو میں افورڈ نہیں کرسکتا کوئی بھی چیز، کیوں کہ ہر ماہ گاڑی کی قسط جمع کرنی ہوتی ہے اس کے علاوہ بھی ہزاروں ضروریات ہیں۔" زریاب عاجز آگیا تھا اس کی روز کی نئی فرمائش سے۔
"کیا مطلب لوگ کماتے کس لئے ہیں؟"
اور میں کوئی غلط مطالبہ تو نہیں کررہی ہوں،لیکن آپ!!
"میں نے کب منع کیا ہے بس کچھ وقت دے دو، پھر جیسا تم کہوگی ویسا ہی ہوگا۔" زریاب نے اسے نرمی سے سمجھانا چاہا۔
"رانیہ کے گھر بھی تو کام والی آتی ہے، ان کے تو لوگ بھی دو ہیں، نہ کوئی بچہ ہے اور نہ ساس۔۔۔" کومل نے اپنی بات پر زور دیتے ہوئے کہا۔
"ہممم !! مجھے پہلے ہی سمجھ جانا چاہیے تھا کہ یہ خرافات تمہارے دماغ میں کہاں سے آرہی ہے، سب سے پہلے تو تم رانیہ صاحبہ سے میل جول بند کرو۔" زریاب نے غصے سے کہا۔
"واہ!! یعنی اب میرا اپنی دوست سے ملنا بھی جرم بن گیا، ایک ہی تو خیر خواہ ہے میری۔" کومل کو زریاب کی بات بری لگی۔
امی جان نے زریاب کو اشارے سے روکا تو وہ غصے میں گھر سے نکل گیا، وہ خود بھی بات کو بڑھانا نہیں چاہتا تھا۔ کومل دیر تک بڑبڑاتی رہی۔
*********
"امی جان! میں ذرا رانیہ کے گھر حلوہ دینے جارہی ہوں، زاویار کو آپ کے پاس چھوڑ رہی ہوں، یہ وہاں بیٹھنے نہیں دیتا۔" کومل نے زاویار امی جان کو پکڑایا اور رانیہ کے گھر چلی گئی۔
*********
"یہ سب کب تک چلے گا، میں تنگ آگیا ہوں تمہاری ان حرکتوں سے، روز روز باہر کے کھانے کھاکر اب تو معدہ بھی خراب ہوگیا ہے، نہ تم کھانا بناتی ہو، نہ گھر کا کوئی اور کام کرتی ہو، اور یہ ماسی کا ڈرامہ تو ختم کرو میرے پاس قارون کا خزانہ نہیں ہے، جو کبھی ختم نہیں ہوگا، کیونکہ پیسے تو تم دونوں ہاتھوں سے لٹارہی ہو، میری تو اب بس ہوگئی ہے۔" قاسم صاحب کی آواز باہر تک آرہی تھی۔
"مجھ سے گنوار مردوں کی طرح سوال جواب مت کیا کرو، میرا جو دل چاہے گا میں وہ کروں گی، ویسے بھی تمہیں کیا لگتا ہے مجھے علم نہیں ہے کیا کہ جو تم نے اپنی ماں کے لئے چوبیس گھنٹے ایک عورت کا بندوبست کیا ہے، اور ہر ماہ پیسے الگ سے بھی بھیجتے ہو، اس کا حساب تو تم نے ان سے کبھی نہیں مانگا، بس سارا زور مجھ پر ہی چلتا ہے۔" رانیہ کمرے کی چیزیں پھینکتے ہوئے چیخی۔
"ہاں! کیوں کہ میری ماں کو اس عمر میں کسی خیال رکھنے والے کی ضرورت ہے، اور تم جیسی بدزبان اور جاہل عورت کی وجہ سے انہوں نے مجھے خود سے دور کردیا، اسی لیے ازالے کے طور پر ایک غیر عورت کو ان کی دیکھ بھال کے لیے رکھا ہے۔ میری ماں بھی میری ہی ذمۓ داری ہے، احساس اور رحم تو نام کو بھی نہیں ہے تمہارے دل میں، اسی لیے تو اللہ نے ابھی تک اولاد کی نعمت سے بھی محروم رکھا ہوا ہے تمھیں، مگر تم جیسی ناشکری عورت اس بات کو کیسے سمجھ سکتی ہے۔" قاسم بھی آپے سے باہر ہوگیا تھا۔
*********
کومل جو رانیہ کو حلوہ دینے آئی تھی اس کا یہ روپ دیکھ کر حیران رہ گئی، وہ اسے کیا سمجھتی رہی اور وہ کیا نکلی، اسے امی جان کی نصیحتیں یاد آئیں، وہ دروازے سے ہی واپس لوٹ گئی، اور گھر پہنچ کر سب سے پہلے شکرانے کے نوافل ادا کئے کہ اللہ نے اس کی آنکھیں کھول دیں ۔ اور پھر امی جان کو ساری بات بتائی۔
"بس بیٹا! ہمیں اپنی چادر کو دیکھ کر ہی پاؤں پھیلانے چاہیے، کبھی بھی کسی ایسی چیز کے لیے خود کو عذاب میں نہیں ڈالنا چاہیے جو ہماری حیثیت سے بڑھ کر ہو، بلکہ اس چیز کے لیے پروردگار کا شکرگزار ہونا چاہیے جو اس نے ہمیں عطا کی، جیسا کہ ہمارے بزرگ فرماتے ہیں کہ ہمیشہ("دنیاوی لحاظ سے" خود سے نیچے لوگوں کو دیکھو تاکہ تم اپنی نعمتوں پر شکر ادا کرو) اور ("دینی لحاظ سے" خود سے اوپر لوگوں کو دیکھو تاکہ تم ان سے آگے نکلنے کی کوشش کرتے رہو) مگر ہم الٹا چلتے ہیں دینی لحاظ سے خود سے کم کو دیکھ کر خود کو بڑا عالم سمجھتے ہیں اور دنیاوی لحاظ سے خود سے بڑھ کر لوگوں کو دیکھتے ہیں،خود بھی بےسکون رہتے ہیں اور اپنے ساتھ دوسروں کو بھی بے سکون کرتے ہیں۔" امی جان نے افسوس سے کہا
"امی جان! میری وجہ سے پچھلے کچھ عرصے سے گھر میں کافی بےسکونی پھیلی ہوئی تھی، مجھے معاف کردیں۔"کومل شرمندگی سے بولی۔
"نہیں میری جان! تم تو میری بہت پیاری بیٹی ہو۔" امی جان نے کومل کو پیار سے دیکھتے ہوئے کہا۔
*********
"زریاب!!"
"ہممم!!"
"وہ میں نے آپ کے لیے کھیر بنائی ہے۔" کومل نے کھیر کا پیالہ زریاب کے سامنے رکھتے ہوئے کہا۔
"خیریت! طبیعت تو ٹھیک ہے؟ آج کوئی لڑائی وڑائی بھی نہیں کی، اب یہ کھیر پیش کررہی ہو۔ زریاب نے شرارت سے کہا۔
"ایسی کوئی بات نہیں ہے، بس میں اپنے پچھلے رویے پر شرمندہ ہوں، مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔" کومل نے اپنی غلطی مانتے ہوئے کہا۔
"تمہیں اپنی غلطی کا احساس ہے میرے لیے یہی کافی ہے، اور جہاں تک بات ہے تمہاری فرمائش کی تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" زریاب نے بات کو لمبا کیا۔
"تو۔۔۔۔۔۔"
"تو یہ کہ میری پروموشن ہوگئی ہے۔ اس لیے اب تم صفائی کے لیے کسی کام والی کا بندوبست کرلو مگر، کھانا تمہیں خود بنانا پڑے گا اور اس بات پر کوئی سمجھوتا نہیں ہوگا۔ زریاب نے ہنستے ہوئے خوشخبری سنائی۔
"واقعی!! اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے۔" کومل کا رواں رواں اللہ کا مشکور ہوا۔