اسکرین پر ایک خوب صورت لڑکی کی تصویر جس نے اپنا آدھا چہرہ ہاتھ سے چھپا رکھا تھا "پریٹی گرل" کے نام سے جگمگا رہا تھا۔ ان باکس میں کچھ نئے پیغام آئے ہوئے تھے۔

 تنزیلہ احمد

چھٹی قسط

 ایک لمبے عرصے بعد عظیم کو اپنے دوسرے فیس بک اکاؤنٹ کا خیال آیا تھا۔ صارف کا نام اور پاسورڈ لکھ کر اس نے لاگ ان کو انگلی سے چھوا۔ اگلے ہی پل اس کا پروفائل عین اس کی نظروں کے سامنے تھا۔

اسکرین پر ایک خوب صورت لڑکی کی تصویر جس نے اپنا آدھا چہرہ ہاتھ سے چھپا رکھا تھا "پریٹی گرل" کے نام سے جگمگا رہا تھا۔ ان باکس میں کچھ نئے پیغام آئے ہوئے تھے۔ خلاف توقع اس نے ان باکس پر دیکھنا ضروری نہیں سمجھا تھا۔ ان نے سرچ بار میں ایک نام کا اندراج کر کے اوکے کیا۔ اگلے ہی پل ڈھیر سارے نتائج اس کے سامنے تھے۔ مطلوبہ نام کے فیس بک پروفائلز کی لمبی لسٹ کھل چکی تھی۔ وہ اس بدتمیز لڑکی کا نام ضرور جان گیا تھا مگر پورے نام سے تاحال ناواقف تھا۔ نہ جانے اتنے سارے پروفائل میں سے اس والی شگفتہ کی پروفائل کون سی تھی۔ جس کی اسے تلاش تھی خدا جانے وہ فیس بک پر تھی بھی یا نہیں۔

"ہو سکتا ہے وہ فیس بک پر ہو ہی نا۔" اس کے ذہن میں سوچ ابھری۔ گو کہ اج گل کے زمانے میں یہ مشکل ضرور تھا مگر ناممکن نہ تھا۔ اور اگر وہ فیس بک پر تھی بھی تو اسے شناخت کر پانا تب ہی ممکن ہوتا اگر اس کی ذاتی تصویر پروفائل پر لگی ہوتی۔ جوں جوں وہ پروفائلز کو دیکھ رہا تھا اس کی کوفت میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔

کہیں کسی بچے کی تصویر۔

کہیں کسی لڑکی کے حنائی یا لمبے ناخنوں والے ہاتھوں کی تصویر۔

کہیں جوتوں کی۔

کہیں دیدہ زیب لباس زیب تن کیے لڑکی کی سر کٹی تصویر۔

اکا دکا پروفائلز میں لڑکی کا چہرہ نمایاں تھا مگر وہ اس شگفتہ کا چہرہ نہیں تھا جس کی اسے تلاش تھی۔

عظیم اس لڑکی کے بارے مزید جاننا چاہ رہا تھا۔ اس سلسلے میں اسے پہلا خیال فیس بک کا ہی آیا تھا۔ مگر اسے یہاں بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔

پریٹی گرل کے نام والا یہ اس کا جعلی اکاؤنٹ تھا جو اس نے دو نمبر کاموں کے لیے بنا رکھا تھا۔ اس اکاؤنٹ سے اب تک دھڑلے سے کئی لوگوں کو بے وقوف بنا چکا تھا بل کہ یوں کہنا چاہیے کہ لوگ خود ہی بے وقوف بننے کے لیے تیار بیٹھے ہوتے۔ یہ پروفائل بنانے سے پہلے اس نے کافی محنت کی تھی۔ رنگ برنگی پروفائل کو چانچا اور پرکھا تھا۔ مختلف پروفائلوں سے خوب صورت لڑکیوں کی تصویریں چرائیں۔ بل کہ وہ کچھ خاص پروفائلیں کو باقاعدہ دیکھتا رہا تھا۔ ادھر لڑکی پروفائل پک بدلتی ادھر عظیم اسے اپنے پاس محفوظ کر لیتا۔ اس طرح اس کے پاس ایک ہی لڑکی کی مختلف موقعوں اور زاویوں سے کھینچی گئی تصویریں اکٹھی ہو جاتیں جنھیں وہ اپنا مطلب نکالنے کے لیے بلا جھجھک استعمال کرتا تھا۔

جعلی پروفائل بنا لینے کے بعد اس نے کچھ لڑکیوں کی کسی حد تک بے ہودہ تصویریں پبلک پرائیویسی کے ساتھ پوسٹ کیں۔ آگے کا کام تو آسان تھا۔ دوستی کی درخواست اور ان باکس پیغامات کا تانتا بندھ گیا تھا۔ لڑکی بن کر وہ ٹھرکی مردوں سے چیٹ کرتا۔ ان کے جذبات بھڑکاتا اور ان کے بے حد اصرار پر اپنی تصویریں (چوری شدہ) بھیجتا۔ فون نمبر کے لیے تڑپانا اسے بڑے مزے کا کام لگا تھا۔

بہت سوں کے نمبر انباکس میں جمع ہو گئے اور بہت سے منتوں ترلوں سے اس کا نمبر مانگتے رہے۔ کچھ ٹھرکی مردوں سے اس نے خود رابطہ کرنے کے چکر میں ان سے موبائل لوڈ بھی نکلوا لیا تھا۔ ان بے وقوفوں نے اسے کارڈ کھرچ کر اسے کوڈ بھیج دیے تھے۔ بیلنس ہو جانے کے بعد وہ بے چارے کال کی حسرت اور آواز سننے کی تڑپ لیے اس  پروفائل کی بلاک لسٹ میں جا سوئے تھے۔ ڈرامہ باز تو وہ تھا ہی اور دنیا میں بے وقو‌فوں بل کہ کمینے لوگوں کی کمی تھی بھی نہیں۔ ایسے گھٹیا مردوں کو بے وقوف بنا کر موبائل لوڈ لینے پر اسے ذرہ برابر شرمندگی نہ ہوتی۔ نہ وہ مرد ہوس میں پڑتے نہ اپنا نقصان کراتے۔

دوسری طرف اسے لڑکیوں کی قابل اعتراض تصویریں چوری اور آگے بھیجنے میں بھی کوئی احساس ندامت نہ تھا۔ نہ وہ لڑکیاں اپنی تصویریں لگاتیں نہ وہ چوری کرتا۔

"سائبر کرائم" کیا ہوتا ہے؟ اس سے اس کا دور دور تک واسطہ نہ تھا۔ یہ سب عام تھا اور سب کھلے عام ایسا کر رہے تھے۔

تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان میں نوجوان نسل نے انٹرنیٹ اور سماجی روابط کی ویب سائٹس کا بے دریغ انتہائی منفی اور نامناسب استعمال کیا اور ابھی تک کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے سب ایسا نہیں کرتے اور جو کرتے ہیں انھیں احساس نہ تھا کہ وہ غلاظت کے ڈھیر میں کھبتے جا رہے ہیں۔

شگفتہ کی تلاش سے مایوس ہو کر اس نے انباکس کھولا۔ وہی پرانے سلسلے، ذومعنی باتیں، گندی تصویریں، ویڈیوز اور فون نمبرز۔ تمام چیزوں سے ایک دم اس کی دل چسپی ختم ہو گئی تھی۔ پیغامات کے جواب دیے ریپلائی کیے بنا ہی اس نے لاگ آؤٹ پر انگلی پھیری۔ اس سب میں اس کا دل نہیں لگ رہا تھا پتا نہیں کیوں۔

٭٭٭٭

اسے دراز ہوئے ابھی ٹھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ دروازہ کھلنے کی چیں ں ں کی آواز پر شگفتہ نے آنکھیں کھولیں۔ ثمینہ اور ریحانہ چہرے پر رسمی مسکراہٹ سجائے اسے دیکھ رہی تھیں۔

"کیسی ہیں آپی، جاب کیسی چل رہی ہے؟" انھوں نے استفسار کیا۔

"سب ٹھیک ہے۔ تم لوگ سناؤ۔ پڑھائی ٹھیک چل رہی ہے؟"

ٹیک لگا کر اٹھ کے بیٹھتے ہوئے اس نے شوق سے دونوں کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔ نئے فیشن کے کپڑے، کریمیں لگا کر چمکائے چہرے جو ہاتھوں سے میل نہیں کھاتے تھے اور جھاڑی نما بالوں کا اسٹائل سے بنا پف۔۔۔

"پڑھائی اے ون جا رہی ہے۔ آپ نے آگے ایڈمیشن لے لیا؟" ثمینہ نے بستر پر بیٹھتے ہوئے سوال پوچھا۔

اسے یاد آیا ابھی تو اس نے آگے پڑھنا تھا بی اے کرنا تھا۔ ایف اے تو وہ کر چکی تھی۔

"ہاں، بس جلد ہی داخلہ بھیج دوں گی۔ ظاہر ہے پڑھ لکھ جاؤں کی تو ہی اپنا مستقبل سنوار پاؤں گی۔ اور سناؤ کیا ہو رہا ہے؟"

"کچھ خاص نہیں۔ آپ سنائیں کوئی نئی تازی۔۔۔"

شگفتہ کی ان کے ساتھ بہت دوستی نہ تھی اور نہ ہی کبھی اس نے گھر والوں کو اپنی مشکلات سے آگاہ کیا تھا۔

وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ ان سے کیا باتیں کرے گو کہ اتنے سالوں میں اس کے اور گھر والوں کے درمیان پہلے جیسی سرد مہری بھی نہیں رہی تھی۔

کسی جگہ پر مستقل رہنے اور وہاں جا کر رہنے میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ یہ فرق اور تمام رشتوں کی حقیقت اس پر مکمل عیاں ہو چکی تھی۔ کھانے کا وقت ہوا چاہتا تھا۔ ثمینہ ماں کی مدد کرانے کا کہہ کر کمرے سے جا چکی تھی۔۔

٭٭٭٭

"سنا ہے تمھاری نک چڑی کزن آئی ہوئی ہے؟" موبائل فون میں سے نسوانی آواز گونجی۔

"ہاں ٹھیک سنا ہے۔ شام میں ہی پہنچی ہے۔ پر تمھیں کیسے پتا چلا۔" لڑکے کی آواز میں حیرت نمایاں ہوئی۔

لڑکی کی کھلکھلانے کی آواز سنائی دی۔ "دیکھ لو ہم اپنوں کی ساری خیر خبر رکھتے ہیں۔"

"اچھا ایسا کیا۔۔۔" وہ بھی ہنس دیا۔

"بالکل۔ خاص طور پر شگفتہ کے آنے جانے کی۔"

"لیکن کیوں؟"

"کمبخت خوب صورت جو بہت ہے۔" لڑکی کے انداز میں ناپسندیدگی واضع تھی۔

"کیا فائدہ خوب صورت چہرے کا۔ اتنی تو کڑوی ہے اس کی زبان۔ اول تو اتنا بولتی نہیں اور اگر بولے گی بھی تو ایسے جیسے مرچیں چبا رکھی ہوں۔"

"ہاں تو تمھیں ضرورت ہی کیا ہے اس کے منہ لگنے کی۔"

"ہونہہ۔ مجھے شوق بھی نہیں ہے۔"

"میرے سوا کسی کی طرف اگر غلطی سے بھی دیکھا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا۔ لڑکی کے انداز میں کچھ نہ کچھ غیر معمولی تھا۔

وہ قہقہہ لگا اٹھا۔ "جیلس ہو رہی ہو؟ افف قسم سے کچھ جلنے کی بو آ رہی ہے۔"

"ہونہہ جیلس ہوتی ہے میری جوتی۔ میں کون سا کسی سے کم ہوں۔" لڑکی نے نخوت سے کہا تو وہ پھر ہنسا۔

دروازے پر ہونے والی دستک نے ان کی باتوں کا تسلسل توڑا۔

"اچھا کوئی آیا ہے۔ تم سے پھر بات کروں گا، رات میں۔۔۔" عجلت میں کہہ کر اس نے فون بند کیا۔

"شکر ہے جان چھوٹی۔" وہ خود بھی اس کی باتوں سے تنگ آ گیا تھا۔

"کون ہے؟" اس نے اندر سے ہی آواز لگائی۔

"بھائی کھانا لگ چکا ہے، امی بلا رہی ہیں۔ سب آ چکے ہیں آپ بھی جلدی آ جائیں۔"

"اچھا ٹھیک ہے آرہا ہوں تم جاؤ۔" کہہ کر وہ بال سنوارے لگا تھا۔

آجاؤ لڑکیو کھانا تیار ہے۔ وہ جیسے ہی کمرے سے نکلی چاچی کی آواز سنائی دی۔ ثمینہ کے ساتھ وہ دستر خوان پر بیٹھ گئی۔ ریحانہ اپنے بھائی جاوید کو بلانے چلی گئی۔ تب ہی اسے سامنے سے ریحانہ اور اس سے پیچھے جاوید آتا دکھائی دیا۔ چاچا چاچی تو پہلے سے ہی موجود تھے۔ شگفتہ کو دیکھ کر اس نے مسکراتے ہوئے سلام کیا۔

"وعلیکم السلام۔ کیسے ہو؟" شگفتہ نے فرض نبھایا۔

وہ عین اس کے سامنے خالی جگہ پر بیٹھ گیا۔

"اچھا ہوں۔ آپ سنائیں سب خیریت؟" اس نے خوش دلی سے پوچھا۔

"چلو بھئی شاباش کھانا شروع کرو بہت ہو گئی باتیں۔ کھانا ٹھنڈا ہو جائے گا۔" چاچی نے کھانے کا ڈونگا آگے بڑھاتے ہوئے انھیں ٹوکا۔

بات تو کرنا دور کھانے کے دوران انھوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا بھی نہ تھا۔ شگفتہ کے پاس ان سے کرنے کو اتنی باتیں تھی بھی نہیں ہاں مگر چاچا کے پاس اس سے کرنے کو بہت باتیں تھیں۔

وہ کھانے کے دوران اس سے چھوٹی چھوٹی باتیں کرتے رہے تھے۔

٭٭٭٭

"یار تم دونوں کے ساتھ مسئلہ کیا ہے؟ کافی دنوں سے میں نوٹ کر رہا ہوں کہ تم لوگ بدل گئے ہو۔" وہ تینوں کالج سے نکل رہے تھے جب الیاس نے انھیں مخاطب کیا۔

"کیا کوئی لڑائی ہوئی ہے؟ کچھ تو گڑ بڑ ہے۔۔۔"

اس کے کہنے پر دونوں کی خاموش رہے تو الیاس نے جھنجھلائی آواز میں مزید کہا:

"یا پھر کہیں اور کوئی چکر چل رہا ہے؟"

حسن کا چونکنا اور گڑبڑا جانا عظیم اور الیاس دونوں نے ہی محسوس کیا۔ اس پہ اس کا یہ کہنا"

"نہیں چکر کیا ہو گا کوئی چکر نہیں ہے۔۔۔" حسن کو اور مشکوک بنا گیا۔

"کچھ تو ضرور ہے۔۔ نہ پہلے کی طرح بیٹھک ہوتی ہے۔۔ نہ ہلا گلا اور نا ہی کوئی شغل میلا"۔۔ الیاس نے کریدا۔۔

"تم بھی کیا شکی بیویوں کی طرح پیچھے ہی پڑ گئے ہو۔ ہماری بھلا کیوں لڑائی ہو گی؟" عظیم نے برا سا منہ بناتے ہوئے جواب دیا۔ حسن کی طرح اس نے نظریں نہیں جھکائی تھی۔

"کیوں حسن۔۔۔" عظیم نے براہ راست حسن کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے پوچھا۔

"آں ہاں، کیوں کا کیا مطلب؟" حسن بوکھلا گیا۔

"چھوڑو یار بہت عجیب ہوتے جا رہے ہو تم لوگ۔ سمجھ ہی نہیں آ رہی تم لوگوں کی۔۔۔ اوپر سے پڑھائی بھی سر سے گزر جاتی ہے۔۔۔" الیاس کے دکھڑے ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے تھے۔

عظیم کا دھیان حسن میں اٹک گیا۔ اسے کچھ کھٹکا تھا۔

وہ نظریں کیوں چرا رہا تھا؟

وہ گڑبڑایا کیوں؟

ایک دم اس کا رنگ کیوں اڑ گیا؟

الیاس کی عادت تھی فضول ہانکنے کی۔ ان کے درمیان ہنسی مذاق، نوک جھونک، جھگڑے سب ہی چلتا تھا مگر پہلے تو کبھی حسن نے ایسا ردعمل نہیں دیا تھا۔ ان کے بیچ کوئی راز نہ تھا۔ مگر حسن کے رویہ سے عظیم کو محسوس ہوا حیسے وہ کچھ چھپانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اسے یاد آیا کافی مرتبہ رابطہ کرنے کی کوشش پر اس کا نمبر مصروف ملا تھا۔

"کیا یہ جان بوجھ کر ہمیں نظر انداز کر رہا ہے۔۔۔ پر کیوں؟" عظیم سوچ رہا تھا۔

٭٭٭٭

رات میں بستر سے ٹیک لگائے وہ رسالہ پڑھنے میں مگن تھی جب دروازے پر آہٹ ہوئی۔ شگفتہ نے چاچی کو اندر داخل ہوتے دیکھ کر رسالہ بند کر دیا۔ 

"نیند تو نہیں آ رہی ہے نا تمھیں؟"

"نہیں بتائیں کیا بات ہے؟" سیدھے ہو کر بیٹھتے ہوئے اس نے استفسار کیا۔

"ہاں بس یونہی۔ بڑے عرصے بعد آئی ہو۔ تمھارے چاچا بات کرنا چاہ رہے ہیں۔ آ جا ہمارے کمرے میں۔"

"ٹھیک ہے چلیں۔" رسالہ بستر پر دھر کر وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔

چاچا ٹی وہ پر خبریں دیکھ رہا تھا۔ انھیں آتا دیکھ کر ٹی وی کی آواز کم کر دی۔ خاموشی سے وہ دیوار کے ساتھ پڑی کرسی پر جا بیٹھی۔ دماغ عجیب عجیب سے اشارے دینے لگا۔

"کیا بات ہو سکتی ہے؟"

"جو بات بھی ہے بہت اہم ہے۔ اور ہے بھی میرے متعلق۔۔۔!" دل ہی دل وہ اندازے لگانے لگی۔

"اور پتر شہر میں سب ٹھیک چل رہا ہے۔" چاچا نے اسے مخاطب کیا۔

"جی چاچا۔"

"اور آگے کے کیا ارادے ہیں؟"

"دیکھتے ہیں، ایف اے کیا ہے ابھی۔ ساتھ جاب بھی جاری ہے۔"

"اس نوں تے بند کر دے۔" چاچا کے ہاتھ سے ریموٹ چھین کر چاچی نے ٹی وی بند کیا۔

اسے ان کی یہ نامناسب حرکت کھٹکی۔

"اور کیا سوچا ہے مستقبل کے بارے؟"

پتا نہیں وہ کیا جاننا چاہ رہے تھے۔ ان دونوں کی طرف بغور دیکھتے ہوئے اس نے بات سمجھنے کی کوشش کی۔

"بی اے کرنے کا ارادہ ہے تاکہ ڈھنگ کی نوکری مل سکے۔"

"پتر کب تک نوکری کرو گی؟"

"ضروری ہے۔ نوکری کرنا اور ساتھ پڑھائی بھی۔۔۔"

"یہ تو سب ٹھیک ہے مگر دیکھو آج کل زمانہ کتنا خراب ہے۔ تم جوان جہان ہو، شہر میں اکیلی رہتی ہو۔" چاچی اپنی بات شروع کر چکی تھی۔ چار سال بعد اچانک انھیں زمانہ خراب لگنے لگا تھا۔

"میں کچھ سمجھی نہیں۔" اس نے سوالیہ نظریں ان پر مرکوز کیں۔

چاچی کی نظریں اپنے شوہر کی طرف اور پھر اس کی طرف اٹھیں۔

"دیکھو صاف بات ہے کہ سب ملنے جلنے والے ہم سے تمھارے متعلق سوال کرتے ہیں۔ ظاہر ہے تم ہماری ذمہ داری ہو۔ ہم ہی تمھارے بڑے ہیں۔ لوگوں کی باتوں کے کب تک جواب دیں؟"

"صاف بات کریں پلیز۔" اس نے سادگی سے کہا۔

"ساری زندگی تم ایسے تو نہیں گزار سکتی۔ ہم چاہتے ہیں کا اب تمھاری شادی ہو جائے۔۔۔" بلی تھیلے سے سر باہر نکال رہی تھی۔

"ہم چاہتے ہیں۔۔۔" پر زور دیا گیا تھا۔ شگفتہ دم سادھے ان کی باتیں مع مفہوم سمجھنے کی کوشش کرنے لگی۔

"دیکھ پتر ہماری نظر میں تمھارے لیے ایک دو رشتے ہیں۔ تمھاری مرضی ہو تو آگے بات شروع کریں۔" چاچا نے لجاجت سے کہا۔

"تو یہ بات ہے۔۔۔" اور وہ رشتے کیسے ہوں گے شاید وہ اندازہ کر سکتی تھی۔

"ابھی میرا شادی کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔" گہری سانس بھر کر اس نے کسی کو بھی دیکھے بنا بات شروع کی۔

"اور نہ ہی میں اس بارے سوچنا چاہتی ہوں۔ آپ براہ مہربانی میرے لیے رشتے نہ دیکھیں۔"

اس کے سنجیدگی سے کہنے پر چاچی کے تاثرات یک دم ہی بدلے۔ صاف لگ رہا تھا کہ انھیں اس کی دو ٹوک بات انتہائی ناگوار گزری ہے۔

"کیوں نہ دیکھیں تمھارے لیے رشتے؟ ماں باپ تو ہیں نہیں تمھارے،اور کون بیٹھا ہے تمھارے فیصلے کرنے کے لیے؟"

"میں کچھ اور بات کر رہی ہوں۔" اس نے انھیں باور کروانے کی کوشش کی۔

"کیوں شہر میں کہیں اپنے لیے خود تو نہیں کوئی تکا لیا؟ برا نہ منانا آزاد خیال تو تم شروع سے ہی ہو۔۔۔ ہماری عزت کا بھی کچھ خیال کر لو بی بی۔ شہر میں اکیلے رہنے کا یہ مطلب نہیں کہ تو جو چاہے کرے۔۔۔"

"آہ ہ ہ یہ نہیں بدلیں۔ وہی پرانا انداز اور تیکھا پن۔۔۔" شگفتہ نے بے دلی سے سوچا۔

چاچی بلا روک ٹوک بولتے ہوئے اس کے لتے لینے شروع کر چکی تھیں۔

"او ہو تم تو چپ کرو۔۔۔" وہ سارے نشتر چلا چکیں تو چاچا کو اپنی بڑبولی بیوی کو خاموش کرانے کا خیال آیا۔ 

"لو میں نے ایسا کیا کہہ دیا ہے؟"

"پتا نہیں کہاں کی بات کہاں لے گئی ہو۔ بس اب چپ رہو۔"

شگفتہ کے خفت سے سرخ پڑتے چہرے کو دیکھ کر چاچا نے اپنی بیوی کو گھرکا۔

"دیکھ پتر تو اس کی باتیں دل پہ نہ لے۔ ابھی تیری شادی نہیں کر رہے، مگر ظاہر ہے ایک دن کرنی تو ہے۔ ابھی اگر بات طے کر دیں گے تو لوگوں کے منہ بھی بند ہو جائیں گے اور تیرا مستقبل بھی محفوظ ہو جائے گا۔ ہم جو بھی کریں گے اس میں تیری بھلائی ہی ہو گی۔۔۔" پتا نہیں وہ اسے مطمئن کر رہے تھے یا خود کو۔

"آپ میری بات کہاں طے کرنا چاہ رہے ہیں؟" اس کی چپ ٹوٹی۔

"ایک دو جاننے والوں نے سوال کیا ہے تمھارے لیے اور۔۔۔" چاچا کی بات ادھوری رہ گئی۔ شاید چاچی کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا تب ہی چاچا کی بات کاٹ کر وہ بولیں:

"آج نہیں تو کل تیری شادی کرنی ہے۔ آخر کو اگلے جہان تیرے ماں باپ کو منہ بھی دکھانا ہے۔ کہیں بھی شادی کریں گے تو ظاہری بات ہے دینا دلانا بھی پڑے گا۔ بعد میں جائیداد کے سو بکھیڑے پڑ جاتے ہیں۔ اس واسطے ہم نے سوچا ہے کہ کیوں نا گھر کی بات گھر میں ہی رہ جائے۔" 

چاچی نجانے سانس لینے کو رکی تھی یا پھر اس کے تاثرات جانچنے کو۔ مگر وہ دم سادھے بے تاثر نظروں سے بس انھیں دیکھتی رہی۔ گھر کی بات، جائیداد کے بکھیڑے، دینا دلانا۔۔! سب باتیں اس کے ذہن میں گھنٹیاں بجا رہی تھیں۔ اس نے سوالیہ نظریں چاچا پر مرکوز کیں۔

"تیرے لیے یہ ہی اچھا ہے کہ تیری شادی ہم اپنے جاوید سے کر دیں۔ ہمیں تو تیری عادتوں کا اندازہ ہے برداشت کر لیں گے۔ کہیں اور بیاہ کر جائے گی تو پتا نہیں وہاں سیٹ ہو یا نہ ہو اور یہ بھی نہیں پتا کہ وہ لوگ کیسے نکلیں۔" چاچی کی آواز ہتھوڑے کی مانند اس کے اعصاب پر برستی رہی۔

"میرا رشتہ جاوید سے؟" وہ بڑبڑائی۔  

"ہاں تو اس میں برائی ہی کیا ہے؟ یہ تو ہمارا بڑا پن ہے کہ تیرے لیے قربانی دے رہے ہیں ورنہ ایک آدھ سال بڑی ہی ہے تو میرے جاوید سے۔۔۔ ماشااللہ سے اونچا لمبا جوان ہے۔ پڑھ لکھ رہا ہے۔ ابھی کالج کے تیسرے سال میں ہے۔ کل کو پڑھ لکھ کر اپنے پیروں پر کھڑا ہو جائے گا تو شادی کر دیں گے۔" چاچی نخوت سے بولتی رہی۔

بلی نہ صرف تھیلے سے باہر آ چکی تھی بل کہ اس پر جھپٹ بھی رہی تھی۔

"دیکھ پتر کوئی جلدی نہیں اور نہ ہی زبردستی والی کوئی بات ہے۔" چاچا نے اس کے تاثرات جانچتے ہوئے تسلی دی۔  

"تو اچھی طرح سوچ لے، پھر جیسے تیری مرضی۔" اس کے سر پر ہاتھ دھرتے ہوئے انھوں نے شفقت سے کہا۔

آہستہ آہستہ سب کچھ اس کی سمجھ میں آنے لگا۔ چاچی کا بڑا پن، قربانی، بے غرضی، صلہ رحمی۔۔۔ وہ صاحب جائیداد تھی۔ آدھے گھر کی مالک۔ کہیں اور رخصت ہو کر جاتی تو اسے پورا حق تھا کبھی بھی اپنا حصہ مانگنے کا۔ اور اگر اسی گھر میں رہ جاتی تو سانپ بھی مر جاتا اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹتی۔

چاچی جیسی مکار اور خود غرض عورت سے وہ اور کیا توقع کر سکتی تھی؟   

ایک وقت تھا کہ وہ شگفتہ سے جلد از جلد جان چھڑانا چاہتی تھی اور اب یہ وقت آیا کہ وہ اسے اپنے مفاد کی خاطر بہو بنانے کے خواب دیکھنے لگیں۔ واہ ری قسمت۔۔ ایسا بھی ہونا تھا۔

چاچی اپنے جس اکلوتے بیٹے کے لیے اسے راضی کر رہی تھی وہ اس وقت گھر والوں سے بے خبر بند کمرے میں اپنی محبوبہ سے فون پر رومانس بھگارنے میں مصروف تھا۔ مرے مرے قدموں کو گھسیٹتے ہوئے وہ وہاں سے اٹھ کر باہر چلی آئی۔ وہ اس وقت کسی کو بھی دیکھنا نہیں چاہتی تھی۔ ویران اندھیری رات اسے اپنی زندگی کی طرح لگی۔ وہیں اندھیرے میں وہ آخری سیڑھی پر بیٹھ گئی۔ دو آنسو گال سے لڑھکتے ہوئے نیچے گرے۔

اس نے سوچا سب سے زیادہ تکلیف اسے کس بات سے ہوئی؟ شاید اسے چاچی کا رشتے کی بات کرنا معیوب نہیں لگا تھا مگر جس مقصد اور نیت سے وہ اپنے بیٹے سے اس کا رشتہ کرنا چاہ رہی تھی وہ شگفتہ کا دل زخمی کر گیا تھا۔

٭٭٭٭

عظیم کے گھر میں غیر معمولی ہل چل دیکھ کر ہی اندازہ ہو جاتا کہ شادی کی تیاریاں چل رہی ہیں۔ اماں ابا اور آپا کا شمار تو دنیا کے مصروف ترین انسانوں میں ہونے لگا تھا۔ جبھی اماں نے اسے ہدایت کی گھر کے کاموں کی طرف بھی دھیان دیا کرو۔ بہن کو بازار سے کئی چیزیں چاہیے ہوتی ہیں۔ بہن کو بازار لے جایا کرو یا خود لا دیا کرو۔ فارغ وقت میں دکان پر چلا جایا کر، باپ کا ہاتھ بٹے گا۔۔۔ بات تو اماں نے صحیح کہی تھی۔

"ٹھیک ہے اماں" کہہ کر اس نے انھیں مطمئن کیا۔

"میں خیال کروں گا۔ مجھے احساس ہے کہ شادی والا گھر ہے سو کام کاج ہوتے ہیں۔" وہ آپا کے پاس بیٹھا مختلف چیزوں کی لسٹ بنانے میں مگن تھا جب اماں نے حسینہ کو ٹوکا۔

"تو کیا سارا دن موبائل لیے بیٹھی رہتی ہے۔ جب نظر پڑے تو اسے ساتھ لیے منڈلاتی رہتی ہے۔" اماں کا سخت لہجہ اسے حیران کر گیا۔

"کوئی نہیں اماں۔ سارا دن کہاں بیٹھی ہوتی ہوں۔ اتنے کام ہوتے ہیں گھر کے۔ ذرا دیر کو پکڑ لیا تو نے تو سارا وقت کا الزام دھر دیا۔"

"بہت زبان چلنے لگی ہے تیری۔ دوبدو جواب دیتی ہے، آگ لگاتی ہوں میں اس منحوس کو۔" اماں غصے سے بولی تو حسینہ کے تیور بدلے۔

"چھوڑو اماں اتنا غصہ۔۔۔ کیا کام کرنا ہے؟" آخر کو وہ بھی عظیم کی بہن تھی ویسی ہی کائیاں۔ موقع کی نزاکت کو کیسے نہ بھانپتی۔

"آپا اماں اتنا غصہ کیوں کر رہی ہے؟" گھر میں چلنے والے سلسلوں سے وہ بے خبر تھا۔

ماں کی ڈانٹ کی لپیٹ میں تو وہ سب آتے تھے مگر اماں نے اسے موبائل کی وجہ سے ڈانٹا اور اس بات نے عظیم کے کان کھڑے اور کریدنے پر مجبور کر دیا تھا۔

"حسینہ کی کوئی دوست ہے۔ وہ اسے کال اور میسج کر لیتی ہے۔ اسکول سے تو فراغت ہے آج کل امتحان جو ہو چکے ہیں۔"

"اس کی کون سی دوست ہے؟"

"حنا نام ہے اس کا۔ لگتا ہے فارغ ہی ہوتی ہے وہ ہر وقت۔" آپا نے کام روکے بنا مگن انداز میں جواب دیا مگر انداز ناگواری لیے ہوئے تھا۔ انھیں بھی یہ سب پسند نہ تھا۔

"اوہ اچھا۔ تو اس میں غصہ کرنے کی کیا بات ہے۔" اس نے سر جھٹکا۔

عظیم کے خیال میں اس کی بہنیں سفید پتھر کی ایسی مورت تھیں جو کبھی تڑخ نہیں سکتی تھیں۔ مگر عظیم کا خیال بھی اس کی طرح ہلکا تھا۔ لسٹ بنا کر وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ اس نے دیکھا حسینہ برآمدے میں بیٹھی سبزی بنا رہی تھی۔ پاس ہی اپنے تخت پر اماں سلائی مشین پر جھکی تھیں۔ موبائل آس پاس کہیں بھی نظر نہیں آ رہا تھا۔

"اماں بھی نا بس۔۔۔" اس نے سوچا۔

ان کے گھر کمپیوٹر تو تھا نہیں اور لیپ ٹاپ کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ اماں کا موبائل سادہ اور عام سا تھا جو کہ صرف رشتہ داروں کے ساتھ رابطے میں رہنے کے لیے رکھا تھا۔ عظیم کے علاوہ گھر میں انٹرنیٹ کے استعمال سے کوئی بھی واقف نہ تھا تو فکر کاہے کی تھی۔  

٭٭٭٭

"میں اگلے دو دن کالج نہیں آؤں گا۔" وہ جیسے ہی کینٹین میں بیٹھے الیاس نے انھیں اطلاع دی۔

"کیوں کل کیا اچانک تیری طبیعت خراب ہونے والی ہے؟" عظیم نے اسے چھیڑا۔

"طبیعت خراب ہو میرے دشمنوں کی۔ میری تو ہشاش بشاش ہونے والی ہے۔۔۔" الیاس نے زیر لب مسکراتے ہوئے کہا۔ دھیان اس کا کہیں دور تھا۔

"اچھا زیادہ تجسس نہ پھیلا، سیدھی بات بتا۔" حسن نے اسے ٹوکا۔

"اچھا یار بتاتا ہوں۔" میز پر آگے کو جھکتے ہوئے اس نے رازداری سے بات کا آ‏غاز کیا۔

"بات یہ ہے کہ کل امی ابا قصور جا رہے ہیں۔"

"تو اس میں ہمارا کیا قصور ہے؟" عظیم کے مذاق پر الیاس کے منہ کے زاویے بگڑے۔

"کدھر اور کیوں جا رہے ہیں؟" حسن نے پوچھا۔

"خالہ کی طرف جا رہے ہیں پھوپھو کے سلسلے میں۔۔۔" الیاس نے مطلع کیا۔ خوشی اس کے انگ انگ سے پھوٹ رہی تھی۔

"تو پھر؟" دونوں اکٹھے بولے۔

"توبہ ہے یار سمجھتے ہی نہیں ہو۔ میں ان کے ساتھ جا رہا ہوں خالہ کی طرف۔" الیاس نے زچ ہوتے ہوئے کہا۔

"اوہ تبھی۔۔۔" ان دونوں نے معنی خیز انداز میں پہلے ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر الیاس کو۔

بات ان کی سمجھ میں آخر کار آ ہی گئی۔ الیاس اپنی خالہ کی بیٹی کو پسند کرتا تھا اور زبانی کلامی طور پر اس کی امی نے اپنی بہن سے دونوں بچوں کے رشتے کی بات بھی کر رکھی تھی۔ دونوں خاندانوں کو اس رشتے پر کوئی اعتراض نہ تھا۔ پچھلے سال ہی الیاس کی چھوٹی پھوپھو کا رشتہ خالہ کے دیور کے ساتھ طے ہوا اور سلسلے کے بعد دونوں خاندان مزید ‍قریب آ گئے۔

"اچھا تو اس لیے تیرے تھوبڑے پر پٹاخے پھوٹ رہے تھے۔ مگر یہ تو بتا کہ اس بار وہاں جانے کا مقصد کیا ہے؟" عظیم کا انداز سراسر مذاق اڑانے والا تھا۔

"یار اصل میں خالو کی طبیعت ٹھیک نہیں۔ جا تو ان کی عیادت کے سلسلے میں رہے ہیں مگر امی ابو چاہتے ہیں کہ ان سے پھوپھو کی شادی کے متعلق بھی بات کر کے آئیں۔ مطلب کب تک شادی کے ارادے ہیں ان کے؟"

الیاس اتنا خوش تھا کہ مذاق کا برا منائے بغیر رسانیت سے جواب دیتا گیا۔

"ہاں تو تیرا سلسلہ تو کچھ اور ہے نا، تو خالو کی عیادت کے لیے جا رہا ہے نہ اپنی پھوپھو کی شادی کرانے کی خاطر۔" عظیم کی بات اور پھر ان دونوں کے مشترکہ قہقہے نے ایاس کو خجالت نے بالوں میں انگلیاں پھیرنے پر مجبور کر دیا۔

"دفع ہو جاؤ، تم لوگوں کو تو بندہ کچھ بتائے ہی نا۔۔۔"

"چل چل اب زیادہ ڈرامے نہ کر۔" عظیم اور حسن نے الیاس کو کچا کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔

اس کا مذاق اڑاتے ہوئے عظیم کے ذہن میں اک شبیہ لہرائی۔ وہ جو کئی دنوں سے اس خیال سے چھٹکارا پائے ہوئے تھا یک دم ہی اس کی گرفت میں آ گیا۔ اس کے چّپ ہونے پر الیاس نے سکون کی سانس لی۔

اچانک سے غیر ارادی طور پر آنے والا شگفتہ کا خیال عظیم کو بے چین کر گیا تھا۔

٭٭٭٭

وہ دونوں کب کے اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو چکے تھے جب کہ وہ اکیلا ہی سڑکوں پر مارا مارا پھرتا رہا۔

دوپہر ڈھلے جب وہ گھر پہنچا تو کافی بجھا بجھا سا تھا۔ کافی دیر کی دستک کے بعد دروازہ کھولنے والی حسینہ تھی۔ اپنا ڈوپٹا سنبھالتی دروازہ کھول کر وہ سامنے کھڑی تھی۔ عظیم کو اس کی رنگت اڑی اڑی سی لگی شاید بھاگم بھاگ دروازہ کھولنے آنے کی وجہ سے یا پھر شاید بھائی کو دیکھ کر۔    

"اتنی دیر کیوں لگائی دروازہ کھولنے میں؟" کہیں کا غصہ وہ کہیں نکال رہا تھا۔ اندر داخل ہوتے ہی اس نے ادھر ادھر نگا ہ دوڑائی۔

"اماں نظر نہیں آ رہی۔۔۔ کہاں ہیں؟" اگلا سوال ناگواری سے پوچھا۔

"بھائی ميں کمرے میں تھی اور چھوٹی سو رہی ہے۔ اماں اور آپا خالہ صغراں کی طرف گئی ہیں بستروں کا کپڑا دینے کے لیے۔" دھیمے لہجے میں جواب دیتے ہوئے وہ اپنے تاثرات ٹھیک کر چکی تھی۔

خالہ صغراں کو وہ اچھے سے جانتا تھا وہ اماں کی سہیلی تھی اور شادی کے کام کاج میں ہر طرح سے ہاتھ بٹا رہی تھی۔

"اچھا ٹھیک ہے۔ میرے لیے کھانا نکال دے۔ میں ہاتھ منہ دھو کر آتا ہوں۔" اسے حکم دے کر وہ غسل خانے کی طرف بڑھ گیا۔

حسینہ جلدی سے کمرے میں بھاگی۔ فٹافٹ اس نے موصول شدہ کال لاگ مٹایا۔ اس کام سے مطمئن ہو کر وہ بھائی کے لیے کھانا نکالنے باورچی خانے میں چل دی۔ وہی ہوا تھا جو اس طرح کے معاملے میں ہوا کرتا ہے۔ شروع میں ٹیکسٹ پر ڈری سہمی بات کرنے والی حسینہ کو بہت جلد انجان لڑکے پر اعتبار آ گیا۔ اس سے بات کرنے کی عادت کیا ہوئی وہ اس کی باتوں کے جال میں الجھتی چلی گئی۔ پتا نہیں کچی عمر اور ناپختہ ذہنوں والی لڑکیوں کے دل نامحرم کے لیے اتنے نرم کیوں ہوتے ہیں۔۔۔ اتنے کہ اس سے زیادہ ہمدرد، پیار کرنے والا اور اپنا اور کوئی لگتا ہی نہیں۔ یہاں تک کا خونی رشتے بھی نہیں۔   لفاظی اور تعریفیں سن کر حسینہ بھی اس کی جانب مائل ہوتی گئی۔ دل نے دماغ کی تمام تاویلیں رد کر دیں۔ اسے یقین ہو گیا کہ یہ سب سچ کے سوا اور کچھ تھا ہی نہیں۔

حالانکہ یہ دل کا معاملہ تھا ہی نہیں۔ نجانے کیوں دل اس بات سے بے خبر رہا کہ دوسری طرف دماغ اس سے کھیل کھیل رہا ہے۔ دل کے معاملے وقت گزاری کے نہیں ہوتے ہاں مگر دماغ سے کسی کے دل سے کھیلے جانے والے کھیل وقت گزاری کے لیے ہوتے ہیں۔

گھر میں حسینہ کی دل چسپی ضرورت کی حد تک رہ گئی۔ دل تو اس کا کہیں اور اٹکا رہتا اور دماغ الجھا سا۔ دھیان کہیں اور ہونے کے باعث اس سے اکثر لاپروائی ہونے لگی اور اماں سے سننے کے باوجود وہ باز نہ آئی۔ وہ کوشش کرتی کہ زیادہ وقت اکیلی رہے خاص طور پر جب گھر پہ کوئی نہ ہو مگر ایسا شازو نادر ہی ہوتا۔  چھوٹے سے گھر میں چھپ کر باتیں کرنا اس کے لیے تقریبا ناممکن تھا۔ اس لیے اسے موقع ڈھونڈنے پڑتے تھے تا کہ وہ کسی کی نظروں میں نہ آئے اور آج اسے یہ موقع بڑی مدت بعد نصیب ہوا تھا۔ چونکہ اس کے محبوب نے ابھی تک اس سے ملنے کی بات نہ کی تھی اس لیے وہ نہیں جانتی تھی کہ وہ کس کی محبت میں گرفتار ہو چکی ہے۔ لڑکے نے اسے اپنے بارے جو بھی بتایا اس نے اسے من و عن سچ مان لیا۔ مت مارے جانا شاید اسی ہی کہتے ہیں۔

حسن نے حسینہ کو شیشے میں اتار لیا تھا۔ یہ سلسلہ کب تک چلنے والا تھا اور اس کا انجام کیا ہوتا یہ دیکھنا ابھی باقی تھا۔ آپا اور اماں واپس لوٹیں تو عظیم کو گھر میں دیکھ کر انھوں نے سکون کا سانس لیا۔

"عظیم تو وقت سے گھر آگیا تھا نا؟" اماں جوان بیٹیوں کو چھوڑ کر شازو نادر ہی کہیں جاتی تھیں اس لیے وہ فکر مند تھیں۔

"اماں اگر ایسے یوں اچانک جانا پڑے تو مجھے کال کر دیا کرو۔ مناسب نہیں لگتا ان کا ایسے گھر میں اکیلے رہنا، چھوٹی ہیں دونوں۔" وہ خود کو کہنے سے روک نہ پایا۔ آج اسے بہنوں کا اکیلے گھر میں رہنا کھٹکا تھا۔   

"کیا کہہ رہے ہو؟ ضروری نہ ہوتا تو کبھی نہ جاتی۔ ویسے بھی تیرا کالج سے واپسی کا وقت ہونے والا تھا اس لیے ہم چلے گئے کہ تو پہنچ جائے گا۔" اماں اس کی بات پر حیران رہ گئیں۔

"وہ تو ٹھیک ہے اماں، پر جانتی تو ہو کہ میں کالج سے آتے ہوئے دیر کر دیتا ہوں۔ اگر بتا دیا ہوتا تو وقت پر گھر آجاتا"۔

"کیا؟ میں نے حسینہ کو کہا تھا تجھے فون کر کے بتا دے۔ موبائل اسی کے پاس ہوتا ہے۔" اماں کی تیوری چڑھی۔

"لیکن اماں مجھے تو کوئی کال نہیں کی گئی۔"

"اے حسینہ باہر آ ذرا۔ تو نے بھائی کو فون کیوں نہیں کیا تھا کہ جلدی گھر آجائے۔" وہ کمرے سے بوکھلائی ہوئی نکلی تو اماں نے اسے کڑے تیوروں سے گھورا۔ یہ سب غیر متوقع تھا۔ اسے اندازہ نہ تھا کہ بات بڑھ جائے گی۔

"وہ۔۔ اماں میں نے بھائی کو کال کی کوشش کی مگر بھائی کا نمبر نہیں لگ رہا تھا۔" اس نے اٹکٹے ہوئے بات مکمل کی۔ بڑے بھائی کے سامنے وہ ڈر سی گئی۔ ورنہ اماں کی ایسی باتوں کو وہ کسی خاطر میں نہ لاتی تھی۔

"تو تیرے ہاتھ کام نہیں کر رہے تھے کیا؟ میسج کر دیتی بھائی کو وہ تو مل ہی جانا تھا کہ نہیں؟" اماں کو حسینہ کی توجیہ ہضم نہیں ہوئی۔

"اماں میسج کرنے ہی والی تھی کہ بھائی گھر آگیا۔" ہاتھ مروڑتے ہوئے اس نے اماں کو صفائی دی تھی۔

(جاری ہے)