کبھی کوئی عقل والی بات بھی کرلیا کر۔ کیا ہوا تھا فضیلہ کی شادی کرکے دوسرے دن ہی طلاق ہوگئی اور کنوئیں میں چھلانگ لگالی فضیلہ نے۔ کل کو صابرہ نے بھی یہی کرنا ہے، اس سے پہلے کہ وقت نکل جائے اس کو ان لوگوں کے ساتھ کرے

اُم حیات ہنگورا

ساتویں قسط

’’اماں گاؤں میں تو صابرہ جیسے لوگ آئے ہیں‘‘ صابرہ (ببلی) کا بڑا بھائی ببلی کا منہ چڑاتے ہوئے بولا۔ ’’تیرے جیسے ہوں گے‘‘ صابرہ نے چیخ کر کہا اور رونے بیٹھ گئی۔ ’’ماں تو کیا صابرہ (ببلی) کو ان لوگوں سے لے کر آئی تھی۔ بالکل ان جیسی معلوم ہوتی ہے‘‘ صابرہ اب روتے روتے کمرے سے نکل گئی۔ ’’کون لوگ تھے کہاں رہتے ہیں؟‘‘ صابرہ کی ماں نے صابرہ کے بھائی اکبر سے پوچھا۔ خانہ بدوشوں والی جگہ پر اترے ہیں، چوہدری صاحب کے گھر میں ناچ گانا کررہے تھے۔‘‘ ماں صابرہ ان جیسی کیوں لگتی ہے کیا ؟‘‘ ’’چپ کر جا دیکھ تیرا ابا کدھر ہے اسے بھیج اس طرف‘‘ صابرہ کی ماں نے اکبر کو ٹوکا تو اکبر منہ بناتا ہوا چلا گیا۔

٭٭٭٭

’’تم کو کچھ خبر ہے اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے آسانی کردی ہے۔ اگر ہم صابرہ کو‘‘

’’دماغ خراب ہوگیا ہے، ٹھیک ہوجائے گی یہ بڑی ہو کر پھر ہم اس کی شادی کردیں گے‘‘ صابرہ کا باپ صابرہ کی ماں کی باتیں سن کر بھڑک اُٹھا۔

’’کبھی کوئی عقل والی بات بھی کرلیا کر۔ کیا ہوا تھا فضیلہ کی شادی کرکے دوسرے دن ہی طلاق ہوگئی اور کنوئیں میں چھلانگ لگالی فضیلہ نے۔ کل کو صابرہ نے بھی یہی کرنا ہے اس سے پہلے کہ وقت نکل جائے اس کو ان لوگوں کے ساتھ کرے۔ آج کی تکلیف، کل کی تکلیف سے بہتر ہے۔ زندہ تو رہے گی‘‘ صابرہ کی ماں اب آنکھوں سے آنسو صاف کرتے ہوئے بولی۔

’’میرے تو کچھ پلے نہیں پڑ رہا‘‘ صابرہ کا باپ سوچتے ہوئے بولا۔

’’لوگوں کو کیا کہیں گے؟‘‘ صابرہ کا باپ تھوڑی دیر بعد بولا۔

’’کہہ دیں گے خود ہی کہیں چلی گئی‘‘

صابرہ نے کمرے میں یہ ساری باتیں سن لیں اور کسی کو کچھ کہے بغیر وہ آپا گلو کے پاس پہنچ گئی۔

٭٭٭٭

’’چل رہی ہے ناں‘‘ آپا گلو نے اس کو دیکھتے ہی پوچھا تو اب صابرہ نے ہاں میں سرہلایا۔

’’چل ہم تیرا ہی انتظار کررہے تھے اگر تو شام تک نہ آتی تو ہمیں چلے ہی جانا تھا‘‘ یہ کہہ کر سب لوگ سامان اُٹھانے لگے اور آپا گلو نے سب کو مخاطب کیا۔ ’’یہ ببلی ہے میری بیٹی میرے ساتھ رہے گی آج سے‘‘

٭٭٭٭

’’اور گل خان تم کیسے آپا گلو بنیں‘‘ شعیب نے پوچھا۔

’’یہ کبھی بھی نہیں بتائے گی‘‘ اب کہ (ببلی) بابر بولی۔ تو آپا گلو پھیکی ہنسی ہنس دی۔ ’’یہ جو اونچے اونچے محل ہوتے ہیں ان کی دیواریں اتنی ہی نیچی ہوتی ہیں۔ میں جس گھر میں پیدا ہوئی وہ کوئی معمولی گھر نہ تھا۔ مگر وہاں کے لوگ بہت معمولی تھے۔ جب سمجھدار ہوئی تو میرے گھر والوں کو احساس ہوچکا تھا کہ میرے چھوٹے ہونے پر جو باتیں چھپی ہوئی تھیں۔ وہ بڑی ہونے پر سب کھل جائیں گی۔ مجھے لوگوں کے سامنے آنے ہی نہیں دیا جاتا تھا حتیٰ کہ میرے چچا، ماموں بھی آتے تو مجھے چھپادیا جاتا اور پھر ایک دن ۔۔۔۔۔  ’’اسے میں باہر بھی نہیں لے جاسکتا۔ لوگوں کو کیا بتاؤں گا کہ یہ کون ہے ہر جگہ کوئی نہ کوئی پہچان نکل آتی ہے‘‘ آپا گلو کے والد آپا گلو کے سامنے ہی اس کی امی سے بولے۔

’’یہاں پر بھی ہم لوگوں سے کب تک چھپائیں گے۔ اس کا ایک ہی حل ہوتا ہے کہ ہم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ آپا گلو کے ابّا نے کہاتو اب تک کیوں سنبھالا تھا پہلے ہی دے آتے‘‘ آپا گلو کی والدہ بولیں۔

’’میں نے دو تین ڈاکٹروں سے ڈسکس کیا تھا کہ مگر وہ کہتے ہیں ففٹی ففٹی چانس ہے‘‘ آپا گلو کے والد بولے۔

’’اچھا پھر کوشش کرلیں‘‘

٭٭٭٭

’’دیکھو بیشن تم مجھ کو انکل بولو گی ٹھیک ہے۔ ہم جہاں بھی جائیں گے تم مجھے انکل کہو گی انکل‘‘ ایک مہینے تک میرے والدین مجھے اسی طرح سکھاتے رہے اور پھر باہر علاج کے لیے بھی لے گئے مگر میری قسمت کہ میرا علاج کامیاب نہ ہوا اور میرے والد مجھے وہیں اسپتال میں چھوڑ کر چلے گئے۔ پردیس ملک میں انجان، اسکول کی شکل میں نے نہ دیکھی تھی۔ وہاں میں کسی کی زبان نہیں سمجھتی تھی۔ پھر مجھے واپس پاکستان بھجوادیا گیا اور یہاں ایدھی ہوم بھیج دیا گیا اور وہاں مجھے لوگوں نے مجبور کردیا کہ میں وہ جگہ چھوڑ دوں پھر ان جیسے لوگ مل گئے اور ہم سب مل کر رہنے لگے۔ پیشہ ورانہ رقابت، گالی گلوچ تمام گھٹیاں طریقے یہی ماحول میں جیتے رہے۔ ہم چاہیں بھی تو کچھ نہیں کرسکتے۔ ادھر لاہور کے امام صاحب نے جس طرح ہماری رہنمائی کی۔ ہم نے اس زندگی سے توبہ کرلی ہے مگر شعیب بھائی آپ بہت مشکل کام بتا رہے ہیں‘‘ آپا گلو تھکے تھکے لہجے میں بولی۔

’’کفارہ بھی تو ادا کرنا ہے میں نے بھی تو۔ خیر چھوڑو، یہ مشکل نہیں ہے ہم تو زادِ راہ جمع کریں گے‘‘ شعیب یہ کہہ کر مسکرایا۔

’’زادِ راہ‘‘ ببلی نے دہرایا۔

’’تم نہیں سمجھو گی بابر(ببلی)‘‘

’’گل خان ایک مہربانی اور کرو مجھ پر، معراج کو تم نے کیوں‘‘

’’شعیب بھائی کچھ باتوں کا چھپا رہنا ہی بہتر ہوتا ہے‘‘

’’نہیں دوست اور دشمن کی پہچان تو ہونی چاہیے‘‘ شعیب نے کہا۔

’’دوست، صحیح کہتے ہو، شعیب بھائی مجھے اس دن بھی حیرت ہوئی تھی کہ ’’یہ کہہ کر پھر گل خان رک گئی۔۔۔۔ اور پھر اچھا میں بتاتی ہوں‘‘

(جاری ہے)