چوتھی قسط

 کیا وہ اب مجھ سے فون پر بات کرے گی بھی یا نہیں؟ دیکھنے میں تو کیسی چھوئی موئی اور ڈری سہمی سی لگتی ہے، ہائے۔۔۔" حسینہ کا دل کش سراپا حسن کی آنکھوں میں گھوما اور اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ رینگ گئی

 تنزیلہ احمد

 عظیم دکان پر تھا جب بروقت حسن کا پیغام نہیں دیکھ  سکا تھا۔ اس دن حسن عظیم کے گھر کے پاس ہی موجود تھا اسی لیے "کہاں ہے" کا ٹیکسٹ کیا تھا۔

"ہو سکتا ہے گھر پر ہی ہو۔" جوابی پیغام نہ ملنے پر وہ سیدھا اس کے گھر ملاقات کرنے چلا آیا۔

دروازہ کھٹکھٹا کر وہ شرافت سے دو ‍قدم دور جا کھڑا ہوا۔

"کون؟" تھوری دیر بعد مترنم سی آواز سنائی دی تھی۔

"میں عظیم کا دوست ہوں اس سے ملنے آیا ہوں۔ اسے بلا دیں۔۔۔"

کھٹکے سے دروازہ کھلنے کی آواز سنائی دی۔  تھوڑے سے کھلے دروازے سے جھانکتے چہرے کو دیکھ کر وہ ٹھٹھک گیا۔ وہ جب بھی عظیم کے گھر آیا وہ زیادہ تر اسے گھر کے باہر ہی اس کے انتظار میں کھڑا ملا تھا۔

اس کی غیر موجودگی میں ہر بار درزاہ اس کی اماں ہی کھولتی تھی۔ دروازے کی اوٹ میں کھڑا وجود اور چہرہ ایک نوجوان لڑکی کا تھا۔ ہلکی سی جھلک دکھلاتے حسین چہرے پر کم عمری کی معصومیت بھی تھی اور شوخی بھی۔ وہ بلاشبہ بہت خوب صورت تھی۔

"بھائی تو گھر پر نہیں" آواز سنتے ہی وہ ہوش کی دنیا میں لوٹا۔

"کہاں گیا ہے؟"

" دکان پر۔۔۔"

"اوہ اچھا" کہہ کر وہ پلٹنے ہی لگا تھا جب شیریں آواز نے اس کے قدم تھام لیے۔

"آپ کون ہیں؟ بھائی کو کیا بتاؤں؟"

"شکریہ۔ بتانے کی ضرورت نہیں میں خود اسے فون کر لوں گا۔ اچھا سنیں آپ مہمان آئی ہیں کیا؟" کچھ سوچتے ہوئے حسن پوچھ بیٹھا۔

"نہیں تو"

"پھر آپ کون ہیں؟"

"میں عظیم بھائی کی چھوٹی بہن۔۔۔"

"اور اچھا نادیہ۔۔۔" اس نے ہوا میں تیر چلایا۔

"کون نادیہ؟ میں تو حسینہ ہوں۔" حیران ہوتے ہوئی وہ معصومیت سے گویا ہوئی۔

"خیر جو بھی ہے میں چلتا ہوں۔ عظیم سے دکان پر ہی مل لوں گا، شکریہ۔" تمیز سے کہتا وہ آگے بڑھ گیا مگر کچھ تو تھا جو ادھر ہی اٹکا رہ گیا تھا۔

پتا نہیں ذہن یا پھر دل۔۔! دل میں تو لڈو پھوٹ رہے تھے۔ کتنی چالاکی سے اس نے لڑکی کا نام بھی جان لیا تھا۔

عظیم کی چھوٹی بہن حسینہ اپنے نام کا پرتو تھی۔ اپنے بھائی بہنوں میں سے سے زیادہ حسین اور طرح دار۔

چونکہ عظیم کے دوستوں کا گھر آنا جانا نہیں تھا اس لیے وہ اسے پہچان نہیں پائی تھی۔ ادھر حسن یہ سوچ رہا تھا کہ عظیم کی یہ بہن اب تک کہاں چھپی رہی؟ اس نے بچپن میں عظیم کی دو بہنوں کو ہی دیکھا تھا جو کہ اب اتنی بڑی ہو چکی تھیں کہ پہچاننے میں نہیں آ رہی تھی۔ وہ اپنے ذہن سے اس سرسری سی ملاقات کو نہیں نکال پا رہا تھا۔ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ اس پری چہرہ کو پھر دیکھے اور بات کرے مگر پھر اس نے اپنے مچلتے دل کو ڈپٹ دیا کہ وہ اس کے بچپن کے دوست کی بہن ہے اور اسے اس کے بارے میں ایسا نہیں سوچنا چاہیے۔

مگر واہ رے قست۔۔۔! عظیم کی کمینگی اور گھٹیا پن نے کیا کر دیا تھا۔ دھڑلے سے لڑکیوں کے کردار کا تیا پانچہ کرتے ہوئے وہ بھول گیا تھا کہ اس کے اپنے گھر میں جوان بہنیں موجود ہیں اور وہ بھی کسی بدقماش کی نظروں میں آ سکتی ہیں۔ عظیم نے انجانے میں حسن کو اک راہ دکھا دی تھی اور اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ وہ راہ سیدھی اس کی بہن تک جانی تھی۔ عظیم کی اپنی عزت داؤ پر لگنے والی تھی۔

"ہاں میں حسینہ سے دوستی کرنا چاہتا ہوں۔" حسن کے دل نے اقرار کیا۔

"اس سے ملنے اور بات کرنے کی بھی کوشش کروں گا۔" وہ تہیہ کر چکا تھا۔

اب دیکھنا یہ تھا کہ وہ اس کی دوستی کو ٹھکرا کر اپنی اور گھر والوں کی عزت کی پاسداری کرتی ہے یا پھر اس سے دوستی کر کے کسی طور اپنے بھائی کے اعمال کا خراج ادا کرتی ہے۔

"دیکھتے ہیں عظیم کی بہن محترمہ کتنے پانی میں ہے۔" وہ سوچ چکا تھا۔

مگر اس سے رابطہ کیسے کروں، بات کیسے شروع ہو؟" اس سلسلے میں حسن کو ‏غورو فکر کرنے کی اشد ضرورت تھی۔

٭٭٭٭

آنے والی دنوں میں عظیم کے گھر میں کافی بدلاؤ آنے لگے تھے۔ مکمل صحت یاب ہو کر ابا نے دوکان بخوبی سنبھال لی تھی۔ اماں پہلے سے زیادہ سلائی میں مصروف ہو گئیں اور تو اور آپا بھی گھر کے کام کاج سے فارغ ہو کر سلائی کڑھائی میں لگی رہتیں۔

"اماں اتنا کام کیوں کرنے لگی ہو؟" ایک دن ان کے پاس بیٹھتے ہوئے اس نے یونہی پوچھ لیا۔

اماں بے ساختہ مسکرا دیں۔ ایک نظر انھوں نے اپنے لاڈلے پر اور اور دوسری نظر گھر میں چلتی پھرتیں اپنے کام کرتی تینوں بیٹیوں پر ڈالی۔ گھر میں تین جوان بیٹیاں ہماری ذمہ داریاں ہیں۔ تیرے ابا کی اچانک بیماری نے مجھے اور انھیں بہت پریشان کر دیا ہے۔

"بس بہت پڑھ لیا آسیہ نے اس کا فرض ہم جلدی ادا کرنا چاہتے ہیں۔ تیرے ابا نے کہہ دیا ہے تیری پھوپھی کو کہ اپنی امانت لے کر جانے کا سوچے اب۔ اور چند سالوں تک چھوٹی دونوں کا فرض بھی ادا کرنا ہے۔ تب تک اللہ کرے تو بھی اپنے پیروں پر کھڑا ہو کر ذمے داری اٹھانے کے قابل ہو جائے گا۔" اماں نے تفصیل سے جواب دیا۔

"آچھا تو یہ بات ہے۔" نظر اٹھا کر اس نے چھوٹی بہنوں کو دیکھا وہ واقعی بڑی ہو گئی تھیں۔ آپا کی نسبت پھوپھی کے بیٹے سے طے تھی۔ دونوں چھوٹی بہنیں حسینہ اور فضیلہ بلترتیب دسویں اور آٹھویں جماعت میں تھیں۔

"چلو اچھا ہے فرض پورے ہوں گے۔" ہاتھ جھاڑتے ہوئے وہ اٹھ بیٹھا۔

گھر میں رونما ہونے والی ایک  اہم تبدیلی سے وہ ابھی تک بے خبر تھا۔

٭٭٭٭

موسم صبح سے ہی کافی خوشگوار تھا۔ کام مکمل کر کے شگفتہ جوں ہی ڈیپارٹمنٹ سٹور سے باہر نکلی ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں نے اس کا پرجوش استقبال کیا۔ اس نے اندر تک ٹھنڈک اترتی ہوئی محسوس کی۔ آسمان کالی گھٹاؤں سے ڈھکا ہوا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہلکی ہلکی بوندا باندی شروع ہو گئی تھی۔

خوشگوارموسم کو محسوس کرتی تیز قدم اٹھاتے ہوئے وہ بس اسٹاپ کی طرف چلنے لگی۔ وہ بھیگنا نہیں چاہتی تھی۔ بارش تیز ہونے سے پہلے وہ اسٹاپ تک پہنچ گئی تھی۔ شیڈ کے نیچے پہنچتے ہی اس نے سکون کا سانس لیا کہ یکدم ہی بارش کی برستی بوندوں میں شدت آ گئی تھی۔

سڑک پر دوڑتی گاڑیاں، چل تھل ایک کرتی برستی بارش، ٹھنڈی طوفانی ہوا، غر‌ض کہ سب کچھ ہی مختلف اور حسین لگ رہا تھا۔

بس کا انتظار کرنے میں بھی اسے آج کوفت محسوس نہیں ہو رہی تھی۔ اسٹاپ پر اکا دکا مسافر ہی بس کے انتظار میں کھڑے تھے۔ مطلوبہ بس ابھی تک نہیں پہنچی تھی ہاں مگر خدمت خلق کے چکر میں کچھ گاڑیوں کی رفتار اس کے عین سامنے آ کر کم ضرور ہوئی تھی۔ شیشہ نیچے کر کے اشارے بھی کیے گئے مگر جواب میں وہ کچھ ایسا کہتی کہ وہی گاڑی فورا سے پہلے سڑک پر رینگتی نظر آتی۔

"حق ہاہ۔۔ نیکی کا تو زمانہ ہی نہیں رہا تھا۔" گاڑی والے سوچتے تھے۔

کافی انتظار کے بعد اس کے روٹ کی بس آپہنچی جو کہ پہلے سے ہی کھچا کھچ بھری پڑی تھی مگر سوار ہو کے دھکم پیل کر کے اس نے بمشکل کھڑے ہونے کی جگہ ضرور بنا لی تھی۔ اس کے لیے یہ بھی غنیمت تھا ورنہ انتظار میں کھڑی رہتی تو کون جانے اگلی بس وقت پر آتی بھی کہ نہیں۔

اپنے اسٹاپ پر جب وہ اتری تو بارش کا زور ٹوٹ چکا تھا۔

دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی وہ ہاسٹل کی طرف جانے والی ذیلی سڑک پر چلنے لگی۔ تب ہی اسے اپنی پشت پر سیٹی اور گنگناہٹ کی آواز سنائی دی۔ وہ ایک سروس لین تھی اور اس وقت اس پر برائے نام ٹریفک تھا۔

بغیر کوئی توجہ دیے وہ یوں چلتی رہی جیسے اس نے کچھ سنا ہی نہیں تھا۔ گانے کی اونچی آواز اس کے انتہائی پاس سے ابھری تو وہ دبک گئی۔ یکدم پلٹ کر اس نے غصے سے دیکھا۔ بائیک سوار دو لڑکے اس کے پیچھے پیچھے تھے۔ اسے رکتا دیکھ وہ بھی رک گئے تھے۔

"یہ تو آئے دن کا تماشا تھا۔ پتا نہیں اپنی راہ پر چلتی لڑکیوں کو چھیڑ کر لڑکوں کو کیا سرور ملتا ہے؟"

گہری تہدیدی نگاہ ان لفنگوں پر ڈال کے وہ اپنے رستے پر چل دی۔ "لڑکیوں کو گھورنا، چھیڑ چھاڑ کرنا، سیٹی بجانا، ذومعنی جملے کسنا، گھٹیا انڈین گانے گانا اور جان بوجھ کر ان کا پیچھا کرنے جیسی اوچھی حرکتوں کو تو آج کل کے لڑکون نے اپنا فرض سمجھ لیا ہے۔ افسوس یہ ہے کہ انھیں اس میں کچھ غلط اور غیر اخلاقی لگتا ہی نہیں۔" وہ انہی سوچوں میں غلطاں تھی جب اس کے کانوں میں بے ہودہ جملہ پڑا۔

"جان من دیکھو تو سہی۔"

وہ گھبرائے بنا استقامت سے آگے بڑھتی گئی۔ نامحسوس طریقے سے اس نے چادر مزید اچھی طرح اپنے گرد لپیٹ لی تھی۔ اپنے ہی دھیان میں چلتی ایک دم وہ بری طرح لڑکھڑا گئی۔ وہ سمجھ نہیں سکی کہ اس کے ساتھ ہوا کیا ہے۔

چادر یا پھر چادر کے اندر چھپے پرس کو ایک بائیک سوار نے کھینچا تھا۔

خود کو سنبھالتے ہی اگلے لمحے وہ پلٹی اور مضبوطی سے تھاما پرس اپنے سر پر چڑھ آئے بائیک سوار کے منہ پر دے مارا۔ وہ دونوں اس افتاد کے لیے تیار نہ تھے۔

بائیک چلانے والا لڑکھڑایا اور توازن برقرار نہ رکھ سکا اور بائیک ان سمیت گیلی سڑک پر پھسلتی چلی گئی۔ بائیک چلانے والا بائیک سنبھالنے کی کوشش میں تھا جب کہ اس پر ہاتھ ڈالنے والا خوش شکل نوجوان سڑک پہ گرا پڑا تھا۔ شگفتہ کے ہاتھ ان کی طبیعت سے صاف کرنے کا اچھا موقع تھا۔ جارحانہ تیوروں سے زبان سے نشتر برساتی وہ ان کی طرف بڑھی۔ لڑکی کو غصہ سے اپنی طرف بڑھتا دیکھ کر سڑک پر گرا لڑکا اٹھا اور لڑکھڑاتا ہوابائیک کی طرف بھاگا۔ جیسے ہی وہ بائیک کی پچھلی سیٹ پر بیٹھا وہ بائیک بھگا کر لے گیا۔

سڑک سے گزرتے اکا دکا لوگ تماشا دیکھنے کو رک گئے تھے۔

"حرامی ذلیل کمینے۔ یہ ہے ان کی اوقات۔" خود کو سنبھالتی وہ ہاسٹل پہنچی۔ کمرے میں آتے ہی وہ اپنے بستر پر ڈھے گئی تھی۔ سانس ابھی بھی پھولی ہوئی تھی۔

"یا میرے خدا۔ میں چاہے جتنی مضبوط بنو مگر ہوں تو ایک لڑکی ہی۔ خدانخواستہ بیچ سڑک پر وہ اگر میری چادر کھینچ لیتے، پرس چھین کر لے جاتے یا کوئی اور نقصان پہنچاتے تو۔۔۔" سوچ سوچ کر اس کا سر پھٹ رہا تھا۔

"اف ایک اور ذلالت۔ ایسے موسم میں دوسری بار اس کے ساتھ ایسا ہوا تھا جو اسے کبھی نہیں بھولنے والا تھا۔ پہلا واقعہ یاد آتے ہی اس کی آنکھوں میں مچلتے آنسو ٹپ ٹپ برسنے لگے۔ آنکھوں میں بھی بارش اتر آئی تھی۔

٭٭٭٭

حسن کے قدم حسینہ کی طرف اٹھنے لگے تھے۔ سب سے پہلے اس نے حسینہ کے اسکول جانے کے اوقات اور روٹ کے متعلق معلومات حاصل کیں۔ سب سے بڑا مسئلہ اس سے رابطے کا تھا۔ اگر وہ کھل کے سامنے آ جاتا تو وہ پہچان جاتی کہ وہ اس کے بھائی کا دوست ہے اور یوں معاملہ شروع ہونے سے پہلے ہی بگڑ سکتا تھا۔

"اس طرح تو میں پھنس سکتا ہوں۔ نہیں میں سامنے نہیں آ سکتا۔ اس میں بہت رسک ہے۔" یہ سوچ کر اس نے دوسرا راستہ تلاشنا شروع کیا۔

"کسی طرح بھی بات کرنے کی سبیل نکالنی ہے۔ حسینہ تک رسائی حاصل کرنی ہے۔ اگر وہ مکمل طور پر میری باتوں میں آ گئی، میری محبت کے سحر میں گرفتار ہو گئی تو پھر خود کو ظاہر کرنے میں کوئی قباحت نہیں۔" ذہن میں اٹھی یہ سوچ اس کے دل کو لگی۔ وہ اپنی جمع تفریق میں غلطاں تھا جب اسے امی کی آواز سنائی دی۔

"کیا بات ہے، کوئی پریشانی ہے؟"

"آں ہاں نہیں تو امی۔" وہ بوکھلایا۔

"میں کئی دنوں سے دیکھ رہی ہوں کہ اتنے چپ چپ رہنے لگے ہو۔"

"ایسی بات نہیں ہے امی۔"

"پھر کیسی بات ہے جب دیکھو کچھ نہ کچھ سوچ رہے ہوتے ہو۔" ان کے انداز میں تجسس تھا اور پریشانی بھی۔

"پریشانی والی بات تو کوئی نہیں۔ بس رزلٹ، آگے داخلے اور پڑھائی وغیرہ کے بارے میں سوچ رہا تھا۔" حسن نے ماں کو صفائی پیش کی۔

 "ہممم۔ رزلٹ تو تمھارا اچھا ہی ہو گا۔ اگر تمھاری دوستی ان دو نکموں سے نہ ہوتی تو مجھے یقین ہے کہ تم پڑھائی میں مزید اچھے ہوتے۔" انھوں نے ناگواری سے اس کے دونوں دوستوں کا ذکر کیا تھا۔

شاید یہ قدرتی بات ہے کہ ہر ماں کو اپنی اولاد سادہ اور معصوم لگتی ہے۔ جب کہ ہر قسم کی برائی اور کیڑے صرف دوسروں کی اولاد میں ہی نظر آتے ہیں۔

"نہیں امی ایسی کوئی بات نہیں۔ اب وہ بھی پڑھائی میں سیریس ہو گئے ہیں۔ ہم اکٹھے ہی آگے داخلہ لیں گے۔" حسن نے جواب دیا۔

انھیں اس کی بات خاص پسند نہیں آئی تھی۔ بنا کچھ کہے وہ اس کے پاس سے اٹھ کر چلی گئی تھیں۔

کافی سوچ بچار کے بعد اسے یہی مناسب لگا کہ حسینہ کو خط لکھا جائے۔ رات گئے تک وہ کورا کاغذ اور قلم تھامے بیٹھا رہا۔ کاغذ کے چھوٹے سے ٹکڑے پر اس نے بس چند سطریں ہی لکھیں۔ جی بھر کے حسینہ کی تعریفیں اور اس سے بات کرنے کی دلی خواہش کا اظہار۔۔۔اب اگلا مرحلہ یہ تھا کا اسے خط کیسے پہنچایا جائے؟

"یہ اس تک پہنچانا اس کی اسکول سے واپسی پر ہی ممکن ہو سکتا ہے۔"

اگلے دن حسن نے حسینہ کے اسٹاپ پر اترتے ہی اس کا پیچھا شروع کر دیا۔ حسینہ اپنے گھر کی گلی والا موڑ مڑنے ہی والی تھی جب اس نے اینٹ کے چھوٹے سے روڑے پر لپٹا پتھر اسے دے مارا اور خود دیوار کی اوٹ میں چھپ گیا۔ موبائل، سوشل میڈیا اور انڑنیٹ کے دور میں اس کا اپنایا گیا طریقہ انتہائی دقیانوسی تھا مگر کیا کرتا اسے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔

"پلیز خط اٹھا لو۔" اس نے زیر لب دعا کی۔

"اگر اس نے خط نہ اٹھایا اور دیکھے بغیر ہی آگے بڑھ گئی تو؟" دیوار کی اوٹ میں چھپے بے تحاشا دھڑکتے دل سے اس نے سوچا۔ اسے پکڑے جانے کا ڈر بھی تھا۔ بہرکیف وہ ان معاملات میں عظیم جتنا نڈر اور طاق نہ تھا۔

اس نے دیکھا کہ محتاط انداز میں آگے پیچھے دیکھ کر ڈرتے جھجھکتے ہوئے حسینہ نے خود کو لگنے والا پتھر اٹھا لیا تھا۔ بے اختیار اس نے سکون کی گہری سانس پھیپھڑوں میں اتاری۔

یہ مرحلہ بھی طے ہو گیا تھا۔ مگر آگے کیا ہو گا وہ نہیں جانتا تھا۔ خط بیگ میں ڈال کر حسینہ نے روڑہ وہیں پھینکا اور اپنے گھر کی طرف بڑھ گئی اور وہ اپنے گھر کی طرف۔

شام تک بے چینی بہت بڑھ گئی تھی۔ وہ حسینہ کا ردعمل جاننا چاہ رہا تھا مگر کیسے؟

میں انتظار کروں؟

ایک اور پیغام بھیجوں؟  

کوئی اور طریقہ اپناؤں؟

ان میں سے کسی سوال کا جواب بھی اس کے پاس نہ تھا۔ کاش حسینہ کے پاس موبائل ہوتا تو یہ سب کرنا ہی نہ پڑتا۔

وہ تقریبا مایوس ہوا چاہتا ہی تھا کہ اک خیال سے اس کی آنکھیں چمک اٹھیں۔

٭٭٭٭

ماڈل ٹاؤن والے ورکنگ ویمن ہاسٹل میں وہ شگفتہ کا پہلا دن تھا۔ کل شام ہی اپنا سامان پرانے ہاسٹل سے سمیٹ کے وہ یہاں آئی تھی۔ سب سے پہلی ملاقات اس کی کرخت سانولے چہرے والی میڈم وارڈن سے ہوئی۔ انھوں نے چھوٹتے ہی اسے ہاسٹل کے چیدہ چیدہ اصول بتائے تھے۔ ان کے مردانہ قسم کے گہرے سانولے ہاتھ سے کمرے کی چابی تھامتے ہوئے اس کے فرشتوں کو بھی خبر نہ تھی کہ کل میڈم وارڈن اس کے ساتھ کس طرح پیش آنے والی تھی۔

اگلی صبح وہ معمول کے مطابق نوکری کے لیے نکلی تھی۔ اس کے کام کے اوقات شام تک پورے ہو جانے تھے۔ ایک ساتھی کی اچانک طبیعت خراب ہونے کے باعث مجبوری میں اس کا کام بھی شگفتہ کو دیکھنا پڑا۔ شام سات بجے جب وہ کام مکمل کر کے نکلی تو آسمان سے برستی کالی گھٹاؤں نے زمین پر ہلہ بول دیا تھا۔   

شائیں شائیں کرتی ہوا اور موسلا دھار برستی بارش دیکھ کر وہ بوکھلا گئی۔

"یا اللہ اب کیا کروں۔ کیسے پہنچوں گی ہاسٹل؟" اول تو دیر ہو چکی تھی دوم موسم اتنا خراب تھا۔

سواری کے انتظار میں کھڑی وہ تھک گئی تھی۔۔ نیا ہاسٹل اور انجانا روٹ۔ لمبے انتظار کے بعد دو بسیں بدل کر جب وہ ہاسٹل والے اسٹاپ پر اتری تو پریشانی سے اس کا برا حال ہو رہا تھا۔

ہاسٹل کے آہنی گیٹ تک پہنچتے نو بج گئے تھے۔ اسے معلوم نہ تھا کہ ہاسٹل میں داخل ہونے کے انتظار میں گیٹ پر کھڑی لڑکی کو دھتکارا بھی جاتا تھا۔  یاں پر اسے یاد آیا کہ میڈم نے اسے اوقات کار کے بارے میں کچھ بتایا تھا۔

اس کا ہاسٹل میں پہلا دن تھا اور واپسی پر اسے ہاسٹل کا گیٹ بند ملا تھا۔ داہنے ہاتھ سے اس نے کالا آہنی گیٹ بجایا۔ گو کہ بارش تھم چکی تھی مگر تیز ہوا ابھی بھی سرسرا رہی تھی۔ کچھ دیر پہلے کے طوفان کے اثرات جا بجا بکھرے پڑے تھے۔ درختوں کی ٹوٹی ہوئی ٹہنیاں، تنے سے جھولتی بے جان شاخیں، لاوارثوں کی طرح بکھرے پتے اور جگہ جگہ کھڑا بارش کا گدلا پانی۔۔۔ وہ اطراف کا جائزہ مکمل کر چکی تھی مگر اندر سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا تھا۔   

اس نے اس بار ذرا زور سے گیٹ بجایا۔ کچھ لمحوں کے بعد گارڈ کی آواز سنائی دی۔

"کون ہے؟"

"میں اسی ہاسٹل کی ہوں گیٹ کھولیں۔"

"گیٹ نہیں کھلے گا وقت ختم ہو چکا ہے۔" گارڈ کی کرخت آواز سنتے ہی وہ دھک سے رہ گئی۔ یہ اس نے کیا سنا تھا؟

"مم میں اسی ہاسٹل کی ہوں۔ کل ہی آئی تھی۔ دیکھو گیٹ کھولو مجھے اندر آنے دو۔"

"بی بی کیا نام ہے تمھارا؟" گارڈ نے استفسار کیا۔

 "میں شگفتہ ہوں۔" اس نے فورا جواب دیا۔ اس کے کانوں میں گارڈ کے قدموں کے دور جانے کی آواز پڑی تھی۔

"یا خدا یہ اب کہاں چلا گیا، میں کیا کروں؟"

ہاسٹل میں وہ کسی سے بھی واقف نہ تھی جسے فون کر کے اطلاع دیتی اور ہاسٹل اور میڈم کا نمبر اس کے پاس تھا بھی نہیں۔ اچانک اسے عجیب سا احساس ہوا۔ رات کے اس پہر بند گیٹ کے سامنے وہ پانچ سات منٹ سے کھڑی تھی۔ ہاسٹل کے عین سامنے والی ماڈل ٹاؤن مارکیٹ میں بیٹھے اور چلتے پھرتے لوگوں کی نظروں میں وہ آچکی تھی۔ اپنے حواس درست رکھتے ہوئے اس نے بڑی سی اوڑھی ہوئی چادر اچھے سے اپنے سن پڑتے وجود کے گرد لپیٹی۔ سارا دن کام کر کے تھکی ہوئی تھی اور اب نئی مصیبت گلے پڑ گئی تھی۔

گیٹ کے ساتھ چپک کر اس نے درذ میں سے اندر جھانکا۔ مدھم سی روشنی میں اسے گارڈ کے ساتھ کوئی آتا نظر آ رہا تھا۔

"امید کی کرن۔۔۔" اس نے اپنے خوف زد ہوتے دل کو تسلی دی۔

"بی بی گیٹ نہیں کھلے گا۔ میڈم کہہ رہی ہیں آپ نے دیر سے آنے کی اطلاع نہیں دی۔" گارڈ کی کرخت آواز نے اس کی امید کی کرن کا گلا گھونٹا۔

"کیا؟" وہ سٹپٹائی۔

"میڈم اتنی سنگ دل کیسے ہو سکتی ہیں۔ ایک لڑکی کے ساتھ ایسا کیسے کر سکتی ہیں؟" اس نے اپنے چکراتے سر کو تھاما۔ طوفانی رات میں تنہا نوجوان لڑکی جس کی پشت پر بازار تھا اور آہنی گیٹ کے اس پار جائے پناہ۔ اور جائے پناہ میں داخلے کی اجازت اسے نہیں دی گئی تھی۔ اسے اپنی پشت پر دبی دبی باتوں اور ہنسی کی آوازیں سنائی دیں۔ کوئی شک نہیں تھا کہ نشانے پر اسی کی ذات تھی۔

ٹھنڈے موسم میں بھی اس کے پسینے چھوٹ رہے تھے۔

"مجھے اندر آنے دو۔ میں میڈم وارڈن کو سب بتا دوں گی۔ پلیز گیٹ کھول دو۔" بھیگی آواز میں اس نے منت کی۔

جواب میں سنائی دینے والا فقرہ اور آواز اس زندہ درگور کرنے کے لیے کافی تھا۔

"گیٹ نہیں کھلے گا۔ جہاں سے آئی ہو وہیں دفع ہو جاؤ۔" ہتک آمیز آواز میڈم کی تھی۔

"میڈم پلیز۔ میں اسٹور سے آ رہی ہوں۔ گارڈ کو کہیں گیٹ کھولنے کا۔ مجھے ہاسٹل کے اندر تو داخل ہونے دیں۔" وہ گڑگڑائی۔

"ہممم آئی بڑی نوکری سے آنے والی۔ شریف لڑکیوں کے ایسے لچھن نہیں ہوتے۔"

میڈم کی آواز سن کر اس کی حالت غیر ہوئی تھی۔ بند گیٹ کے ساتھ لگی کھڑی وہ ہچکیوں سے رو رہی تھی۔

"میڈم پلیز اندر آنے دیں۔ کام پر ہی دیر ہو گئی تھی۔ موسم کی خرابی کے باعث بس بھی دیر سے ملی۔" رندھی ہوئی دھیمی آواز میں وہ بمشکل بولی۔

گیٹ کے دوسری طرف اس کے کردار کی دھجیاں اڑاتی میڈم وارڈن عزت اور ٹھسے سے سنگ مرمر کے بنچ پر براجمان تھیں اور گیٹ کے اس پار بے بس اور بے یارو مدد گار شگفتہ تھی۔ اپنی داؤ پر لگی عزت بچانے کی کوشش میں وہ ہلکان ہو رہی تھی۔ اسے کالے آہنی گیٹ کے سامنے کھڑے پندرہ منٹ ہو گئے تھے یا شاید زیادہ۔

اس کا تماشا دیکھنے والے وہیں سامنے بازار میں بہت تھے۔ اس نے اپنی پشت پر گاڑی کی روشنی محسوس کی اور پھر ہارن سنائی دیا۔ دور سے تماشا دیکھنے والی اپنی قسمت آزمانے گاڑی لیے پاس آ کھڑے ہوئے تھے۔

"وہ لوگ اس کے بارے میں کیا کیا سوچ رہے ہوں گے؟" اک سوچ ابھری۔ شرم سے پانی پانی ہونا کیا ہوتا اسے اندازہ ہو چکا تھا۔

"اے میرے خدا۔۔ میری مدد کریں۔" نظریں زمین پر گاڑے کار کی اپنے جسم پر پڑتی تیز روشنیوں سے بچنے کی کوشش میں وہ گیٹ سے چپک گئی۔ ہارن پھر بجا تھا۔ کاش اسے کوئی طلسم آتا اور وہ غائب ہو سکتی۔

"جس کے ساتھ آئی ہو اس کے ساتھ ہی چلی جاؤ۔۔۔" وارڈن کی تیز آواز اس کی سماعتوں سے ٹکرائی۔ گویا وہ بھی گاڑی کا ہارن سن چکی تھیں۔

"میڈم میں کسی کے ساتھ نہیں آئی۔ کہاں جاؤں گی میں؟ جاب سے آ رہی ہوں۔" بری طرح روتے ہوئے اس نے کہا۔

ایک اور گاڑی پشت پر آ کھڑی ہوئی۔ خطا ہوتے اوسان اور بے دم ہوتی ٹانگیں۔۔۔ اس نے لڑکھڑاتے ہوئے گیٹ کو مضبوطی سے تھام لیا۔

"میڈم آپ کو خدا کا واسطہ ہے میری عزت کا خیال کریں۔ خدارہ گیٹ کھلوا دیں۔"

"اگر جاب سے آ رہی ہو تو فون کر کے اجازت کیوں نہیں لی؟ تمھیں فون کر کے مجھے اطلاع دینی چاہیے تھی۔"

میڈم کے بیٹھنے سے لے کر بات کرنے تک کے انداز میں کروفر نمایاں تھا۔ وہ ہاسٹل کے بنچ پر خدا بنی بیٹھی تھی۔

ہارن تسلسل سے بجنے لگے تو وہ شرم سے مزید پانی پانی ہوئی۔

"میڈم مجھے اندازہ نہیں تھا اور تو اور آپ کا یا ہاسٹل کا نمبر بھی نہیں تھا۔ کیسے دیتی اطلاع؟ آپ کو پتا ہے میں کل شام تو آئی ہوں۔ ہاسٹل میں کسی کو جانتی بھی نہیں۔۔۔" زارو قطار روتے ہوئے اس نے دہائی دی۔

رات کے اس پہر اسے بس اپنی عزت کی فکر تھی جو داؤ پر لگی ہوئی تھی۔ بیچ بازار میں بند گیٹ کے سامنے روتی سسکتی، اندر داخل ہونے کے لیے گڑگڑاتی لڑکی کو بازاری سمجھ کر بد قماش مرد اسے ساتھ لے جانے کے تیار کھڑے تھے۔

"میڈم پلیز۔ خدا کے واسطے مجھ پر رحم کریں۔۔ گیٹ کھلوا دیں۔" کوئی جواب نہ پا کر تھک ہار کے اس نے جھکا سر گیٹ سے ٹکا دیا۔ کیا کیا تھا جو اسے یاد نہیں آ رہا تھا۔ ماں باپ کی شف‍ت، پیار، اپنے گھر کی چار دیواری اور تحفظ کا احساس۔ گاڑیوں کے ہارن مستقل چیخ رہے تھے۔ مکروہ ہنسی کی آوازیں، سیٹیاں اور ذومعنی فقرے اس کی رہی سہی جان نکالنے کے لیے کافی تھے۔ کسی بھی صورت اسے پلٹ کر نہیں دیکھنا تھا۔ ابھی تو وہ گیٹ کے سامنے پتھر کی مانند ڈتی ہوئی تھی۔ اگر کہیں پلٹ کر دیکھ لیتی تو مارے شرم کے موم کی طرح پگھلنے لگتی۔

اتنی ذلت اور ہتک اس کے نصیب میں کہاں سے آ گئی تھی؟ وہ یتیم مسکین کھلے آسمان تلے گڑگڑا رہی تھی اور پیچھے عزت کے لٹیرے ڈھٹائی سے کھڑے تھے۔

"کیوں کھڑی ہو ابھی تک؟ جہاں سے آئی ہو چلی جاؤ یا ان میں سے کسی کے ساتھ چلی جاؤ۔۔۔" میڈم کی بے مروت اور تمسخرانہ آواز اسے زمین میں گاڑ گئی۔ وہ  فرعون صفت عورت باہر کے حالات سے ہرگز بے خبر نہ تھی۔

ایک ہی بات کی تکرار کر کے شگفتہ تھک گئی مگر میڈم نہیں تھکی تھی۔

"میں کہیں نہیں جاؤں گی۔ کام سے سیدھی ہاسٹل آئی ہوں، مجھے اندر آنے دیں۔"

دونوں طرف خاموشی چھا گئی یا پھر اس کا ذہن ماؤف ہو رہا تھا۔ دل بیٹھا جا رہا تھا۔

"یا اللہ میری عزت بچا لے۔۔۔ تو جانتا ہے میرا دامن پاک ہے۔" ہچکیوں سے سسکتے ہوئے وہ دعا کر رہی تھی۔

کچھ دیر بعد اس نے تالا کھلنے کی آواز سنی۔ آخر کار جائے پنا ہ کا دروازہ اس کے لیے وا کر دیا گیا تھا۔ آخری بار اس نے اپنی پشت پر موجود تماشائی، بازار اور گاڑیوں میں بیٹھے عزت دار مردوں کے نشتر اپنے بے دم ہوتے وجود میں گڑتے محسوس کیے۔ ایک لمحہ بھی ضائع کیے بغیر لپک کر وہ کھلے گیٹ سے اس پار آ گئی جہاں وہ محفوظ تھی۔ میڈم وارڈن کروفر سے وہیں بنچ پر ہی بیٹھی تھی۔

"شکر کرو میں نے گیٹ کھلوا دیا ہے۔ اندر چلو خبر لیتی ہوں تمھاری۔" اس کے خزاں رسیدہ پتے کی مانند لرزتے وجود کو دیکھتے ہوئے انھوں نے حقارت سے کہا۔ ان کے ترکش میں ابھی زہر بجھے بے شمار تیر باقی تھے۔

وہ نہیں جانتی تھی کہ اسے خود کو معصوم اور باعزت ثابت کرنے میں کتنا وقت لگنا تھا۔ وہ منحوس عورت جس کی وجہ سے اس کا تماشا لگا، بیچ چوراہے اس کی عزت اچھالی گئی وہ شگفتہ کی نظروں اور دل سے ہمیشہ کے لیے گر چکی تھی۔ میڈم اچھے سے جانتی تھیں کہ اس کا پہلا دن ہے۔ جب اپنا اور ہاسٹل کا نمبر اسے دیا ہی نہیں تھا تو وہ رابطہ کیسے کرتی۔ پھر بھی انہوں نے اسے ذلیل و رسوا کرنے کی انتہا کر دی۔ وہ بند گیٹ جسے وہ پچیس تیس منٹ پہلے بھی کھلوا سکتی تھیں انھوں نے نہیں کھولنے دیا تھا۔

یہ اس کی زندگی کا بدترین دن تھا اور یہ اس کی زندگی کی بدترین ذلت۔ ہاں شگفتہ کی قسمت ہی خراب تھی۔

وہ ساری رات سسکتی رہی۔ نیند تو آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ اور وقت کی کیسی ستم ظریفی ہے کہ رات کے تماشے کو ذہن سے جھٹک کے وہ اگلے روز خود کو زبردستی مضبوط ظاہر کرتی دن چڑھتے ہی کام پر چلی گئی تھی۔

دروازے پر ہونے والی مسلسل دستک اسے چار سال پہلے کے ماضی سے کھینچ کر حال میں لے آئی۔ دروازے پر یقینا صائمہ تھی کیونکہ دروازے کی کنڈی اس نے اندر سے چڑھائی ہوئی تھی۔ اپنے آنسو پونچھ کر چہرہ خشک کرتی وہ دروازہ کھولنے چل دی تھی۔

٭٭٭٭

حسن کو اچانک یاد آیا تھا کہ عظیم کے گھر میں ایک موبائل بھی ہے جو اس کی اماں کے استعمال میں ہوتا ہے۔

"تو کیا اس نمبر پر حسینہ سے رابطہ ہو سکتا ہے؟" وہ سوچ میں پڑ گیا۔

ہو تو سکتا ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ نمبر حاصل کیسے کیا جائے؟ جو بھی ہے کوئی ترکیب تو نکالنی پڑے گی نمبر حاصل کرنے کی۔۔۔" وہ خود سے ہی سوال و جواب میں الجھتا رہا۔

اسے کامیابی ملے گی یا نہیں وہ نہیں جانتا تھا مگر کوشش کیے بنا پیچھے ہٹنے کو دل کسی طور راضی نہ تھا۔

ایک دن عظیم اور الیاس کے ساتھ بیٹھے ہوئے اس نے لڑکیوں کی ویڈیوز دیکھنے کے بہانے سے عظیم کا موبائل اٹھا لیا۔ کال لاگ میں جا کر غیر محسوس طریقے سے وہ اس کے گھر کا نمبر اپنے پاس محفوظ کر چکا تھا۔ 

"ميں اس کی امی کے موبائل نمبر پر اس سے رابطہ کروں گا یہ بات حسینہ تک کیسے پہنچاؤں؟" وہ پھر سوچ میں پڑ گیا۔ حسن کے سر پر حسینہ کا جنون سوار تھا۔ ایک بار پھر اس نے پرانا طریقہ اپنایا اور اپنے دل کی خواہش اس تک پہچانے کے لیے خط کا سہارا لیا۔ اس کی توقع کے عین مطابق حسینہ نے ڈرتے جھجھکتے خط اٹھا لیا تھا۔

وہ کھل اٹھا۔ "تو کیا وہ اس کے اگلے پیغام کی منتظر تھی؟"  

تجسس تو اسے بھی ہو گا کہ کون ہے جو اس کے پیچھے پڑ گیا ہے۔

اس کی اتنی مدح سرائی کرتا ہے۔

اس سے بات کرنے کے لیے مرا جا رہا ہے۔

"کیا وہ اب مجھ سے فون پر بات کرے گی بھی یا نہیں؟ دیکھنے میں تو کیسی چھوئی موئی اور ڈری سہمی سی لگتی ہے، ہائے۔۔۔" حسینہ کا دل کش سراپا حسن کی آنکھوں میں گھوما اور اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ رینگ گئی۔

(جاری ہے )