مجھے اس وقت وہ ایک بیوی کے علاوہ اور کچھ نہیں لگی تھیں ۔۔۔ ایک ایسی بیوی جو خاوند کی کامیابیوں پر ہی نہیں ناکامیوں پر بھی خود کو برابر کا حصہ دار بناتی ہے
بنت نصیر
تمہیں پتا ہے میں نے کبھی ایسے کام نہیں کیے تھے۔"وہ کرسی پر چڑھے چھت کی دیوار کے ساتھ کپڑے لٹکانے والا تار باندھ رہی تھیں ۔ جب میرے مسلسل رخ موڑے آنکھیں چندھیا کر دیکھنے پر مسکرا کر بولیں ۔
مجھ سے جوابا مسکرایا بھی نہیں گیا تھا ۔ کسی نے دل زور سے بھینچا تھا ۔ ٭٭٭
میرے سامنے وہ عورت تھی جسے ظاہری نہ سہی لیکن علامتی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ ہمیشہ تخت و تاج میں دیکھا تھا ۔ کوئی مدد کروانے والی دائیں کھڑی ہے تو کوئی پاوں دبانے والی بائیں ۔
اللہ نے رزق بھی خوب دیا تھا ۔۔۔ ہر طرح کا رزق! اچھا شوہر ، نیک اولاد ، خاندان میں عزت ، محبت و رتبہ سب موجود تھا اور عاجزی ایسی کہ اپنے پرائے صرف اسی ایک صفت پر گرویدہ تھے ۔
اپنے مال کا بیشتر حصہ ہمیشہ مستحق افراد پر لگاتے دیکھا ۔ فلاں سفید پوش رشتے دار ، محلے کا ذرا کم حساب کتاب والا گھرانہ ، گھر میں موجود ملازم ، فقرا و مساکین ۔۔۔ ان سب کا خیال یوں رکھا جاتا تھا گویا وہ ان کی مستقل ذمے داری ہیں ۔
وقت کا پہیا صرف گھومتا ہی نہیں کبھی کبھی بے دردی سے کچل کر آگے بھی بڑھ جاتا ہے ۔ عروج پر موجود لوگ جب زوال کا سامنا کریں تو ایک دنیا انتظار کرتی ہے ، ان کے ڈھہ جانے کا ، ہمت چھوڑ دینے ، دنیا سے منہ موڑنے کا ۔۔۔
وہ میرے پاس آکر بیٹھ چکی تھیں ۔
بے اختیار نظر ان کی کلائیوں تک گئی ۔ یہ وہ کلائیاں تھیں جن میں جڑاو کنگن مستقل کھنکھناتے تھے ۔ سنہری سونے کے خالص کنگن! کبھی کبھار بیٹیاں انہیں ازراہ مزاح کہا کرتیں "اماں ایک ایک ہمیں دے دیں یار ، بیٹیوں سے بڑھ کر کون ہوتا ہے ماؤں کو؟"
"یہ تو 'تمہارے ابا' نے بنوا کر دیے ہوئے ہیں ، اس لیے ان پر سے اپنی لالچی نظریں ہٹا لو ۔۔۔ تم لوگوں کی قسمت کا اس سے اچھا ملے گا ان شااللہ۔" خفگی بھرے لہجے میں جواب آتا اور بیٹیاں شرارت سے مسکرا اٹھتیں ۔
کلائیاں سونی تھی ، ویران ۔۔۔ یوں جیسے ان سے کوئی بہت عزیز شے چھن گئی ہو ۔ کی آنکھوں میں ایک منظر لہرایا ۔۔۔ دل پھر زور سے بھینچا تھا ۔ کلائیوں سے ہٹ کر نظر چہرے تک گئی لیکن ان کا ٹھہراو اور سکون اس بات کی غمازی کررہا تھا کہ "کیا ہوا جو کلائیاں سونی ہیں ، دل تو اطمینان کی دولت سے بھرا پڑا ہے نا ۔"
"آپ کے اندر اتنی ہمت و حوصلہ کیسے ہے ، کیا کبھی آپ کو اپنا شاندار ماضی یاد نہیں آتا ؟" میرا حلق نمکین ہوا تھا ۔
جواب دینے سے پہلے دھیمی سی مسکراہٹ ابھری تھی ان کے چہرے پر ۔۔۔
"یہ جو اللہ نے خاوند اور بیوی کا رشتہ بنایا ہوتا ہے نا ، یہ خوبصورت تو بہت ہوتا ہے لیکن اتنا ہی عجیب بھی ہوتا ہے ۔ جب علم ہوجاتا ہے کہ اس ایک شخص کے ساتھ ساری زندگی بتانی ہے تو یقین کرو اس کی زندگی اتنی وہ نہیں گزارتا جتنی ہم گزارنے لگتے ہیں ۔ خوشیاں ہیں تو تب تو ساتھ رہنے کا یوں ہی دل چاہتا ہے ، یوں لگتا ہے ہمارا ہی تو حق ہے ان خوشیوں پر ۔۔۔ نعمتوں کو ، مال کو ، رتبے کو اپنی جاگیر سمجھا جاتا ہے لیکن!
لیکن جب اسی ایک شخص پر حالات آتے ہیں نا تب صحیح امتحان شروع ہوتا ہے ہمارا ۔ اب کتنا ساتھ دینا ہے ؟ ساتھ چھوڑ کر ناشکری کرنے لگنا ہے یا صبر اور ہمت سے کام لینا ہے ؟ ہر سہولت و آسائش دینے والے خاوند کو اونچ نیچ آنے پر طعنے دینے لگ جانا ہے یا کندھے پر تسلی کا نرم گرم ہاتھ رکھنا ہے ؟
بیٹا! ہمیشہ یاد رکھنا "مرد کتنی ہی مشکل میں کیوں نہ ہو ، حالات کے تھپیڑے ، باہر کی گرم سرد ہوا کھا رہا ہو ۔۔۔ جب گھر سے بیوی ساتھ نبھانے ، قربانی دینے ، اپنا آپ مار کر خود کو محل چھوڑ کر جھونپڑی میں رکھ کر دال ساگ کھانے پر آمادہ کرلیتی ہے نا تو اس مرد کو اللہ کے سوا دنیا کی کوئی طاقت پچھاڑ نہیں سکتی کیونکہ اسے ذہنی و اعصابی سکون ، ساتھ اور محبت میسر ہے جو اسے ہر لمحے اسی ایک خیال کے تحت جینے کا حوصلہ دیتی ہے کہ "وہ اس ظالم دنیا و حالات میں اکیلا نہیں ، اس کا لباس اور سکون اس کے ہمراہ ہے۔
اس لیے بیویوں کو وفادار اور فرماں بردار ہونے کے ساتھ ساتھ بلا کی بہادر بھی ہونا چاہیے کہ حالات چاہے جو بھی ہوں ، یہ رب کی رضا میں ہمت و حوصلہ پکڑی رکھیں ۔"
مجھے اس وقت وہ ایک بیوی کے علاوہ اور کچھ نہیں لگی تھیں ۔۔۔ ایک ایسی بیوی جو خاوند کی کامیابیوں پر ہی نہیں ناکامیوں پر بھی خود کو برابر کا حصہ دار بناتی ہے ۔