شوہروں کو بھٹکتے دیر نہیں لگتی

ایک دن میری ہم سائی میرے گھر آئی اور اس نے جو انکشافات کیے، میرے تو پیروں تلے زمین نکل گئی۔ اُس نے بتایا کہ ’’جب آپ آفس اور آپ کے بچّے اسکول چلے جاتے ہیں، تو آپ کے شوہر گھر آجاتے ہیں۔ آپ کی ملازمہ نیا جوڑا پہن کر اُن کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ کر کہیں جاتی ہیں۔ شروع میں تو ہم نے خیال نہیں کیا، لیکن جب روز روز یہ معاملہ ہونے لگا، تو مَیں نے آپ کو آگاہ کرنا ضروری سمجھاکہ یہ سلسلہ کئی ماہ سے چل رہا ہے۔‘‘

تحریر :سعیدہ جاوید، بلال گنج، لاہور
انتخاب : مہرا النساء ڈی آئی خان

مزید پڑھیے۔۔

ہم قدم

بدر عالم ... خدا کے لیے! ہماری جیب سے دشمنی مت کیجیے۔ پہلے ہی اس مہینے آپ نے ان انگریزی سوئّیوں پر ہمارے ہزاروں روپے لٹا دیے۔ غضب خدا کا کوئی اسپیگٹی، کوئی لزانیا، کوئی میکرونی، کوئی تکا اسپیشل، کوئی اٹلی اسپیشل... یہ کوئی کھانے ہیں! بندہ کھا کے بھی آدھا بھوکا ہی رہے!!

ام محمد سلمان

مزید پڑھیے۔۔

یہ کیسی شرمناک ہم بستری ہے!!!

لیکن۔۔۔۔۔ شیطان کبھی کبھی میاں بیوی کے بیچ نہ تو شک پیدا کرتا ہے نہ ہی نفرت کی کوئی چنگاری ڈالتا ہے، نہ جدائی کی کوئی کوشش کرتا ہے بلکہ وہ ان دونوں کو محبت اور وظیفہ زوجیت ادا کرنے کے نام پر اپنے جال میں پھنساتا اور اس حلال جنسی تسکین کو اس طور انجام دینے کی تلقین کرتا اور ابھارتا ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عظمی رشید راولپنڈی

مزید پڑھیے۔۔

دو پہیوں والی چاند گاڑی

موٹر بائیک کو اگر ایک رومان پرور سواری کہا جائے تو بالکل بجا ہوگا ایسی سواری کہ سارے تکلف بالائے طاق رکھتے ہوئے دوسری سواری کو بائیک چلانے والے کے مضبوط کندھوں یاموٹی توند کا سہارا لیناہی پڑتا ہے اور اگر بائیک چلانے والا کوئی ہینڈسم اور اسمارٹ انسان ہو اور اس کے پیچھے کوئی دوشیزہ یا مشکیزہ کوئی بھی بیٹھے تو تھوڑی سی تکنیک سے اس خاتون نامحرم کو محرم بنتے دیر نہیں لگتی اور بالفرض اگر کوئی جوڑا موٹر بائیک پر گھومنے کا عادی ہو تو مشاہدہ کیجیے گا کہ ان کے 6 سال میں کم سے کم چار بچے ضرور ہوتے ہیں۔۔۔۔۔
ارم رحمٰن لاہور

مزید پڑھیے۔۔

دلہن بیگم

سچ ہی کہا کسی نے

وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ

 لوگ نہ جانے کیوں بیویوں سے نالاں رہتے ہیں، میری زندگی میں تو بیوی نے رنگ ہی رنگ بھر دیے تھے جی چاہتا تھا دو تین اور ہوں ایسی ۔۔۔۔

ام محمد سلمان

مزید پڑھیے۔۔

تم

ندا اختر

وہ بالوں کو جوڑے کی شکل میں سمیٹتے ہوئے کھڑی ہوگئ ۔ گرے رنگ کی فراک پر سلور کام کے ستارے جڑے تھے چاند سا چمکتا چہرہ بادلوں سے نکلتا جھلملاتا دکھائی دے رہا تھا ۔

مگر توجہ نہ ہونے پر اداسی میں بالوں کو لپیٹ کر وہ بالیاں اتارنے لگی ۔ سب کچھ بے معنی تھا اک ان کی توجہ کے بغیر ۔۔۔۔

مزید پڑھیے۔۔

مائی ڈیئر وائف

بس !اتنی سی بات کے لیے ہماری بیگم نے اپنے اتنے قیمتی آنسو بہا دیے ۔اچھا! اب میری بات غور سے سنو ، بلکہ دل کے کانوں سے سنو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!

حفصہ فیصل

  کالج میں ہر طرف گہما گہمی تھی، ہرلڑکی گلابی ،سرخ یا آتشی رنگ زیب تن کرکے خود کو پری محسوس کر رہی تھی۔

 یہ شہر کے پوش علاقے کا مہنگا ترین کالج تھا۔ مسزدرانی اس کالج کی روح رواں تھیں۔ اس کالج میں ترقی اور لبرل ازم کے نام پر ہر عالمی دن  اور یادگار منائی جاتی تھی۔

مزید پڑھیے۔۔

شبِ ملاقات

دیکھا جائے تو ”زوجین کی شبِ ملاقات“ایک نئی زندگی،نئی سوچ،نئی ذمے داری ،نئے تعلق،نئی نسل،کی آبیاری کی رات ہے ،جسے خوبصورت ، یادگار بنانے کا طریقہ ، مادی اشیاء پر اسراف  نہیں، بلکہ سنت کےخوبصورت طریقوں کو اختیار کرنے میں ہے ، اس شب کے متعلق، زوجین  کے دلوں میں جو مسرت خیز اور خوش آئند تصور ہوتا ہے ،اصل یہی ہے کہ اس تصور پر پورا اترنے کی کوشش کی جائے ، اور اس کے لیے نبوی تعلیمات سے بہتر کوئی اور ذریعہ نہیں ہوسکتا !!

مزید پڑھیے۔۔

لاجواب

بھئی آپ کچھ بھی کہیں بیگم!! حقیقت تو یہی ہے کہ روپیہ پیسہ عورت کے نصیب سے آتا ہے۔ بڑوں سے ہمیشہ یہی سنتے آئے ہیں کہ اولاد مرد کے نصیب سے اور پیسہ عورت کے نصیب سے ۔ اب خود ہی دیکھ لو میں تو قسمت کا دھنی ہوں۔ اللہ نے بیٹے سے بھی نوازا اور بیٹی سے بھی

 ام محمد سلمان

 "یہ برتن اتنا پٹخ پٹخ کے کیوں دھو رہی ہیں آپ !!! آرام سے دھو لیں ناں بیگم....!!"

"ہم کہتے ہیں چپ رہیے آپ!! پہلے ہی غصہ سوا نیزے پر ہے ہمارا۔ دعوت کریں، بلائیں، کھلائیں، پلائیں اور پھر باتیں بھی سنیں... حد ہوتی ہے بے حسی کی۔"

مزید پڑھیے۔۔

سفید گلاب

سادگی جس دن سے مسلمانوں کی زندگی سے رخصت ہوئی ہے اسی روز سے لڑکیاں رخصت ہونے سے رہ گئی ہیں ۔۔

برادری ہو یا سازوسامان کا نظام لوگ کیا کہیں گے، کیا سوچیں گے ان باتوں نے احساسات کو صحیح وقت پر سانس لینے سے روک دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا  نسل بے راہ روی کی نذر ہوگئی

ند ا اخترمیر پور خاص

سورج کی روشنی میں اس کا چہرہ پیلا نظر آرہا تھا، جیسے دینار کا کوئی سکہ  ہو  یا چاندی کی گردن پر سونے کی کوئی شاہ کار تصویر ہو ۔ مورتی کی طرح کھڑی وہ پرندوں کے جھڑمٹ کو دیکھ رہی تھی ۔  وہ بہت سارے ہوکر بھی دو دو الگ الگ ٹہنیوں پر بیٹھے تھے ۔ بہت خوشنما سا نظر اور یادوں کا اک جھونکا سا آیا جو اس کے وجود کو کسی کی ہمنشینی سے معطر کر گیا ٭٭٭٭

وہ سفید  تازہ گلاب جو ہر صبح اسکے سرہانے رکھے ہوتے ۔ وہ کافی کا گرم کپ جس میں انسیت کی مہک ہوتی ۔ ۔۔۔

ایک محبت کی ادا جو ہر صبح اپنایت کا احساس دلاتی ۔۔ ۔ 

وہ باہر ہوکر بھی اتنا خیال رکھ سکتے ہیں کبھی کبھی وہ بہت حیران ہوتی ۔

نہ دیکھا تھا کبھی اس نے اپنے ہمسفر کو ۔۔۔۔ یہ بچپن میں ہوا نکاح اسے کبھی اپنایت کبھی اجنبیت کا احساس دلاتا مگر مدت تھی کہ طول پکڑتی گئی ۔۔۔

جذبات ٹھنڈے ہوتے گئے شام سرد پڑ گئی ۔۔ ۔۔۔۔۔ رنگ پھیکے ہوگئے، یادیں ہی یادیں رہ گیئں ہاں مگر وہ پھول اب تازہ تھے  جو اس کے سرہانے رکھے ہوئے تھے ۔۔۔

کبھی خاموش پیغام آتا تو کبھی کچھ کہنے کی خواہش ظاہر کی جاتی ۔۔۔ مگر اس کا یہ کہنا تھا کہ بات ملاقات پر ہی ہوگی ٭٭٭

رابطے کمزور ہوگئے اور عمر نے کسی سفید چادر کو اوڑھ لیا ۔۔۔

عکس الفت کا دھندلا گیا، تصویر سونے کی ماند پڑ گئی وہ مجسم مورتی انتظار کی شام لپیٹے کہیں ویرانیوں کی نظر ہوگئ ۔۔۔

والدین کا نکاح کی ڈور میں باندھ کر رخصتی کی دہلیز پر کھڑا رکھنا یہ نازک جذبات کے ساتھ نا انصافی نہیں تو پھر اور کیا ہے ؟؟؟

سادگی جس دن سے مسلمانوں کی زندگی سے رخصت ہوئی ہے اسی روز سے لڑکیاں رخصت ہونے سے رہ گئی ہیں ۔۔

برادری ہو یا سازوسامان کا نظام لوگ کیا کہیں گے کیا سوچیں گے ان باتوں نے احساسات کو صحیح وقت پر سانس لینے سے روک دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا  نسل بے راہ روی کی نذر ہوگئی ۔ ۔۔۔۔ حیادار لڑکیاں خاموش مجسمہ بن گئیں اور والدین نہ چاہتے ہوئے بھی ان کے مجرم بن گئے ۔

سفید گلاب اب خشک ہو چکے تھے اور انکی مہک میں اب تازگی نہ تھی

خیال

اگر آپ کا  ہم سفر آپ کی ان کہی باتیں سمجھتا ہو تو زندگی سے اداسیوں کی خاموشیاں چلی جاتی ہیں اور تھکا دینے والی سانسوں میں پھر کسی کے احساس کی تازہ مہک آنے لگتی ہے ۔۔ 

ضروری نہیں ہوتا ہر خواہش کا پورا ہونا ہاں مگر ایک لڑکی کے لیے ضروری ہوتا ہے ان کہی خواہش  کو  سمجھ لینا اپنے خیالوں میں اسے جگہ دینا

ندا اختر

وہ ٹرالی کھینچتی ہوئی اس کے قریب ہوگئی" یہ مجھے دینا" ۔ وہ مسکرا کر اسے دیکھتا رہا ۔

مزید پڑھیے۔۔

کافی تھا

انتخاب : ام ایشاع

 

 ابن القيم رحمه الله شادی کی ترغیب دیتے ہوئے لکھتے ہیں : اگر شادی کی اہمیت و فضیلت میں صرف

 

💐 نبی صلی الله علیه وسلم کا روز قیامت اپنی امت کو دیکھ کر خوش ہونا ہی ہوتا تو کافی تھا۔

مزید پڑھیے۔۔

بیویاں کیسی کیسی !!!

انسانی زندگی کے سکون اور بے سکونی  کا ادراک اسی وقت ممکن ہے جب اس کی ازدواجی زندگی کو پرکھا  جائے اس جانچ کے لیے بیویوں کی اقسام جاننا بھی ضروری ہے۔  اس تحریر کی روشنی میں شادی شدہ حضرات اپنی بیگم کی عادات و خصائل ، مزاج اور شخصیت کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ بیویاں اس تحریر کوآئینہ سمجھ کر اپنا آپ تلاش کریں اور کنوارے حضرات اسے کسوٹی بنا کر ہم نشیں کا انتخاب کرسکتے ہیں۔

 بیگم سیدہ ناجیہ شعیب احمد کراچی

نیک پروین

مزید پڑھیے۔۔

شادی کون سا بار بار ہوتی ہے!!

مہندی کی رسم سے لے کر، جوتا چھپائی ،دودھ پلائی  ، خاندان بھر کو  منہ دکھائی کی بے سرو پا بلکہ بڑی حد تک بے  حیا  رسم  تک  خاندان بھر کے لڑکے اور لڑکیاں ،  نہ صرف دلہا ،دلہن سے بلکہ ایک دوسرے سے بھی خوب بے تکلفی کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔

 اہلیہ محمد عبید خان

”جوڑے  آسمانوں پر طے ہوتے ہیں “کتنا خوبصورت جملہ ہے !!بلاشبہ!!

لیکن انہیں نبھایا تو زمین پر ہی جاتا ہے نا  ۔نبھانے کی چاہت تو تقریبا ً ہر جوڑے کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی شادی کامیاب رہے ، برقرار رہے ، خیر و برکات سمیٹے ۔ یہ  نبھانا فطری تقاضا ہے ۔

لیکن اس فطری خواہش کو تکمیل تک پہنچانے کے لیے جو strategy  چاہیے بد قسمتی سے ہم اس سے ناآشنا ہیں ۔ ہندوانہ رسم و رواج پر مغربی سسٹم کی زبردست یلغار   نے شادی کو کچھ سے کچھ بنا دیا ہے اور ہم خس و خاشاک کی طرح اس میں بہتے چلے جارہے ہیں ۔ 

مزید پڑھیے۔۔

شادیاں کیوں ناکام ہوتی ہیں؟

 اپنے شوہروں کے اکھڑے رویے سے تنگ کچھ خواتین ایسے شخص کے جال میں پھنس جاتی ہیں جوپہلے  نرمی اور ملائمت سے گفتگو کرکے اپنا گروید بناتا ہے۔  پھر  بھیڑیا صفت کمینے پن کا مظاہرہ کرکے انہیں بھنبھوڑڈالتا ہے ۔

شادیاں کیوں ناکام ہوتی ہیں؟

بیگم سیدہ ناجیہ شعیب احمد کراچی

شادیاں ناکام ہونے کی سب بڑی اور اہم ترین وجہ یہ ہے کہ جب زوجین کے مابین رومانس ختم ہو جاتا ہے تو پھر اس وقت شادی یا پیار کا رشتہ قائم نہیں رہ پاتا۔ تین لفظوں کی ڈور سے جڑا یہ نازک بندھن کوئی ایسا ویسا رشتہ اور نہیں ہوتا کہ نہیں ملے ، روٹھ کر بیٹھے رہے تھے تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ میاں بیوی کا رشتہ جسم و جاں کا تعلق ہے۔

مزید پڑھیے۔۔

ان چاہی

زرق برق لباس میں ملبوس زارا اور

ٹوکری میں رکھے سرخ رسیلے سیبوں نے اس کی اشتہا میں اضافہ کر دیا تھا

بیگم سیدہ ناجیہ شعیب احمد

 وہ اپنے مرمریں بازوؤں کے گھیرے میں سر جھکائے سکڑی سمٹی ہوئی بیٹھی تھی۔ جب دروازے پر آہٹ سی ہوئی۔

سکندر نے اندر داخل ہو کر کمرے کی چٹخنی چڑھا دی۔ لڑکھڑاتے ہوئے قدموں کے ساتھ وہ اس کے سامنے نیم دراز ہوگیا۔ ” تم میری پسند نہیں ہو۔“ الفاظ تھے یا زہر بجھے تیر، جو شرماتی لجاتی دلہن کی روح  کے آر پار اتر گئے۔ مہکتی کلی کو بری طرح روندنے کے بعد سکندر بےخبر سو گیا۔ کمرے میں اس کے خراٹے گونج رہے تھے۔ وہ یادگار رات زارا نے آنکھوں میں کاٹی تھی۔

مزید پڑھیے۔۔

دیوارِ انا

جب حماد اور طیبہ کی جدائی میں بس ایک دستخط کا فاصلہ تھا تو انا کی دیوار کیسے ریزہ ریزہ ہوئی ؟

اُمِّ نُسیبہ

 فون سنتے ہوئے نہ جانے کیوں مستقل اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ حالانکہ یہ اس کا اپنا فیصلہ تھا۔ اس نے لرزتے ہاتھوں سے فون بند کیا اور باہر کی طرف کُھلی کھڑکی کے قریب آگئی۔

مزید پڑھیے۔۔

دلہن

محلے بھر کے پاگل شیدے کو اس کی خوب صورت بیوی  نے سمجھ دار  اور  عقل مند وں کو ابنارمل کیوں کہا ؟

عشوا رانا

"دلہن آئی ہے،  دلہن آئی ہے " محلے میں بچے ہر طرف شور مچا رہے تھے.بڑوں کو الگ تجسس تھا.کب سے اس بارات کا انتظار تھا اور کیوں نہ ہوتا.....!

محلے کا "شیدا "  کی جسے سب پاگل کہتے تھے،  شادی تھی.

مزید پڑھیے۔۔

بیوی اور تسکین

 بیوی  شوہر کی تسکین  کرے تو اس کا مطلب اس کی غلامی کرنا ہے ؟ یا اپنے  اور اس کے رشتے کو مضبوط و محفوظ بنانا ہے

 محمد حمزہ صدیقی

کئی ایک احادیث میں عورت کو اس بات پر تنبیہ کی گئی ہے کہ اس کا شوہر جب بھی اس سے جنسی تسکین حاصل کرنا چاہے تو اسے چاہیے کہ وہ انکار نہ کرے، بلکہ ایسی عورت کی تعریف کی گئی ہے جو بطور خاص مرد کی اس ضرورت اور خواہش کا خیال رکھے اور ایسی عورت کے لیے وعید تک بیان کی گئی ہے جو اس پہلو سے لاپروائی اختیار کرے بالخصوص ایسی صورت میں کہ جب مرد اپنی عورت سے اس خواہش کا اظہار کرے اور عورت انکار کر دے

مزید پڑھیے۔۔

تیرا وعدہ ادھورا رہا

ندا اختر میر پور خاص

   وہ دور نظروں میں کسی تصور کو جمائے تا حد نگاہ خالی خالی زرد رنگ کے قمقموں کو دیکھ رہی تھی، سردی کی ٹھٹرتی رات میں خشک گلابی  ہونٹوں پر سفیدی کی پرت جمی تھی ۔۔

ہواؤں کے چلتے دھیمے انداز میں کسی کی آہٹ پوشیدہ تھی ۔ کوئی گرم شال جس نے اپنے حصار میں سمیٹ لیا ہو، کافی کا دھویں اڑاتا کپ اور مسکراتا چہرہ ،نا معلوم اچانک کہاں غائب ہوگیا ۔ کسی کی یادیں تھیں بس ۔۔۔اور عکس مضمحل ہوگیا ۔

مزید پڑھیے۔۔

میاں بیوی

سعد محمود کراچی

 اللہ تعالی نے انسان کو بنایا تو اس کی تمام ضروریات کا بھی لحاظ اور خیال رکھا، انسان کی پہلی ضرورت تنہائی دور کرنے کا سامان تھی۔ باقی سب کچھ ہوتے ہوئے بھی وہ تنہا تھا۔ اس تنہائی کی دوری دوسرے انسان ہی سے ہوسکتی تھی۔ لیکن وہ انسان بھائی بھی ہوسکتا تھا، جو ہر کام میں معاونت کرتا ساتھ دیتا، باپ بھی ہوسکتا تھا جو اس کی تربیت کرتا، بیٹا بھی ہوسکتا تھا جو دست و بازو بنتا، بہن بھی ہوسکتی تھی جو اس کا خیال رکھتی، ماں بھی ہوسکتی تھی اس کے لیے جتنا خیال ماں رکھ سکتی ہے دوسرا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا، بیٹی بھی ہوسکتی تھی کہ باپ کی جتنی خدمت بیٹی کرسکتی ہے کوئی نہیں کرسکتا۔ یعنی دوسرے انسان کو کوئی بھی رشتہ دیا جاسکتا تھا۔

مزید پڑھیے۔۔

دل سے دل تک۔۔۔۔ شوہر کا سفر

محمد کاشف تبسم

 شادی کے بعد پہلی نظر کی خوشی لفظوں میں بیان نہیں کی جا سکتی۔

ایک جھلک میں ہزاروں جلوے حسین تصویر کھینچ دیتے ہیں۔

زیر لب مسکراہٹ،خوشی سے لبریز مہکتا دل اور پوری کائنات مسکراتی مسکراتی استقبال کرتی ہے۔

کیسا حسیں رشتہ اور کتنا ہی پیارا آغاز!!!

مزید پڑھیے۔۔

ادب پہلا قرینہ ہے.... محبت کے قرینوں میں...

عظمی ظفر

شادی کے ابتدائی مہینوں میں دعوتوں کا سلسلہ جاری تھا. ہنستی مہکتی نئی زندگی شفق کو بہت اچھی لگ ر ہی تھی..

مامی جان چائے..شفق نے شام کی چائے ٹیرس پہ موجود اپنی ساس کو دی اور خود بھی نزدیک کرسی پر بیٹھ گئی.. شکریہ خوش رہو، انھوں نے کپ تھام لیا..تم کب تک مجھے مامی جان کہو گی ..اب میں تمہاری ساس بن گئی ہوں ..بہو رانی .. روایتی ساس بنوں گی تم دیکھنا..انھوں نے شفق کو ڈرایا..مگر میں تو مامی جان ہی کہوں گی..جیسے بچپن سے کہتی آرہی ہوں ..آپ جو بھی سلوک کریں ظالم ساس! شفق نے ہنستے ہوئےکہا. بھئ خوب... مامی جان بھی ہنس پڑیں ..

مزید پڑھیے۔۔

رقص ِ دل

 بیگم ناجیہ شعیب احمد

جھریوں زدہ کپکپاتے ہاتھوں میں سُوپ کا پیالہ تھامے بوڑھا بدن کھانسا تو سوپ چھلک پڑا، احساسِ بے بسی و محتاجی سے بڑی بی کی آنکھوں کے گوشے بھیگنے لگے، لمحہ بھر کو بڑے میاں کا دل سکڑا انہوں نے سوپ کا پیالہ سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا کانپتے لزرتے ہاتھوں سے نحیف و نزار بڑی بی کا کنول سا چہرہ اپنے ہاتھوں کے کٹورے میں بھر کر وفورِ محبت و عقیدت سے ان کا ماتھا چوم لیا بوڑھی نم آنکھیں احساسِ

مزید پڑھیے۔۔