تنزیلہ احمد
جواب طلبی کے لیے سب کی چبھتی نظریں اس پر گڑی ہوئی تھیں۔ ایک پل لگا تھا شگفتہ کو نارمل ہونے میں۔ اگلے ہی پل چمچ پلیٹ میں رکھ کر اس نے نگاہیں اٹھائیں اور حاضرین کو دیکھا:
"جرآت تو خیر بہت سی لڑکیوں کی ہو سکتی ہے کیونکہ میرے سمیت آپ کی شعلہ بیانی کے بہت سے۔۔۔ بل کہ سارے ہی متاثرین یہاں موجود ہیں۔ موقع بہ موقع آپ ہر لڑکی کی تذلیل کرتی رہتی ہیں۔ ہو سکتا ہے جو بے چاری آپ کے سامنے زبان نہ چلا سکتی ہو اس نے ہاتھ چلا لیا ہو۔ ویسے آپ کی تسلی کے لیے عرض ہے کہ میں ہاسٹل آتے ہی سیدھی کمرے میں جا کر سو گئی تھی۔ آپ چائیں تو صائمہ سے پوچھ لیں جس نے ابھی کھانے سے پہلے مجھے جگایا ہے۔" شگفتہ کے پرسکون انداز میں دیے گئے جواب نے میڈم کو لب بھینچنے پر مجبور کیا جب کی بہت سی لڑکیوں نے مسکراہٹیں دبائی تھیں۔
"جی میڈم ایسا ہی ہے۔ یہ توکمرے میں ہی موجود رہی۔ سو رہی تھی، ابھی جگایا کھانے سے پہلے۔" وارڈن کی نظریں خود پر مرکوز پا کر صائمہ نے جھٹ سے صفائی پیش کی۔
"دیکھ لوں گی میں سب کو۔ بظاہر جو شرافت کا مظاہرہ کرتی رہتی ہیں، ہو سکتا ہے ان میں سے کسی کی حرکت ہو۔" غصے میں بڑبڑاتے ہوئے وہ اپنی مخصوص نشست پر بیٹھ گئیں۔
شگفتہ واقعی کامیاب ہو گئی تھی خود کو بچانے اور میڈم کی سوچوں کا رخ غلط ست موڑنے میں۔
"ارے پلاؤ تو بہت مزیدار بنا ہے آج۔" شگفتہ کا تعریفی انداز اور کھانے میں رغبت قابل دید تھی۔
کھانا کھاتے ہوئے وہ سوچے گئی کہ بظاہر تو اس کی بے ضرر حرکت سے نہ ہی میڈم کو کوئی نقصان ہوا نہ ہی کئی گھنٹے انھیں کمرے میں محصور رہنا پڑا۔ لیکن نتیجہ بہت زبردست نکلا تھا۔ میڈم خوف زدہ ہو گئی تھیں وہ بھی ان لڑکیوں سے جنھیں وہ جوتے کی نوک پر رکھتی تھیں۔ اب وہ کچھ عرصہ سکون سے اپنے کمرے میں سو نہیں سکیں گی کہ کون جانے کب کوئی انھیں کمرے میں بند کر جائے اور کون جانے کہ اسی ڈر کی بدولت ہی میڈم باعزت رویہ اپنا لیں ہاسٹل کی لڑکیوں کے ساتھ۔۔۔
کھانا ختم کر کے وہ کرسی دھکیل کر اٹھ کھڑی ہوئی۔ جانے سے پہلے وہ میڈم کے پاس رکی:
"چھوڑیں میڈم غصہ تھوک دیں۔ آپ محفوظ ہیں نا بس بہت ہے ہمارے لیے۔" ہمدری جتا کر وہ کھانے کے کمرے سے نکل آئی۔ ابھی اس کا ارادہ کمرے میں جانے کا نہیں بل کہ چہل قدمی کرنے کا تھا۔ وہ خوش جو تھی۔
٭٭٭٭
امتحان کے دن اس نے کافی پریشانی میں گزارے تھے۔ اپنی تمام سرگرمیاں پس پشت ڈال کر عظیم نے زیادہ وقت رٹے مارے تھے تاکہ پاس ہونے کا آسرا تو بنے۔ آخر کار وہ دن بھی آ پہنچا، جب پرچے تمام ہوئے اور پریشانی بھی۔ آج بڑے دنوں بعد اس کی طبیعت خوش گوار تھی، اسی لیے اماں کے پاس آ بیٹھا۔ وہ کسی کا سوٹ سلائی کرنے میں مصروف تھیں۔ ادھر ادھر کی باتیں بھگارنے کے بعد وہ اپنے مطلب کی بات پر آ گیا۔
"اماں کچھ پیسے تو دے دو۔ پیپرز کے دنوں میں تو میں نے توجہ نہ دی مگر اب موبائل میں بیلنس نہ ہونا بہت کھلتا ہے۔" مسکین سی شکل بنا کے وہ بولا تو اماں نے سلائی سے نظر اٹھائے بغیر پوچھا:
"کتنے پیسے چاہییں تجھے؟"
"بس یہ ہی کوئی تین چار سو۔۔۔"
"کیا تین چار سو کا لوڈ ڈلوانا ہے۔ اتنا زیادہ کیوں۔۔۔ پتا ہے تین چار سو کمانے کے لیے مجھے کنتی سلائی مشین چلانا پڑتی ہے؟ تو اپنے ابا کی دکان پر جایا کر، ان کا ہاتھ بھی بٹے گا اور تیرا بھی دھیان آوارہ گردی سے ہٹے گا۔" اماں نے تیکھی نظروں سے دیکھتے ہوئے اسے کہا۔
"دے دے اماں۔ میری پیاری اماں تجھ سے نہیں مانگوں گا تو اور کس سے مانگوں کا؟" ماں کا گھٹنا پکڑ کر وہ خوشامد پر اتر آیا تھا۔
"کسی سے نہ مانگ۔ فارغ ہے تو کوئی کام کاج ڈھونڈ۔ تیری عمر کے لڑکے ماں باپ کا سہارا بن کر ان کا بوجھ کم کرتے ہیں۔" روکھا سا جواب اماں کی بجائے آپا کی طرف سے آیا تھا۔
اس نے ناگواری سے اپنی اچھی صورت والی آپا کو دیکھا جو اس وقت اسے کافی بری لگ رہی تھی۔
"کیا ہے آپا جب دیکھو میرے پیچھے پڑی رہتی ہو۔ وقت آنے پر کام بھی کر لوں گا۔"
"تیرے بھلے کے لیے ہی کہتی ہوں۔ تیرے سوا ہمارا اور کون ہے۔ تجھ سے ہی امیدیں ہیں۔" اب کے انھوں نے پیار سے سمبھایا۔
"چلو۔۔ اب اگر میں اکلوتا ہوں تو اس میں بھی میرا ہی قصور ہے؟"
"اچھا بس کرو تم دونوں، یہ پکڑ سو روپے ہیں میرے پاس۔۔۔" اماں نے صلح صفائی کراتے ہوئے اسے پیسے تھماتے ہوئے کہا۔ برے موڈ سے اماں کے ہاتھ سے پیسے کھینچ کے وہ گھر سے باہر نکل گیا تھا۔
"بگاڑ دیا نا اس کا موڈ۔ ہر وقت اسے سمجھانے نہ بیٹھ جایا کر، جوان خون ہے۔"
"اماں تو سمجھتی کیوں نہیں ہے۔۔۔" سر جھٹک کر آپا اندر چل دی تھی۔
٭٭٭٭
ماں کے گزر جانے کے بعد اب وہ مکمل طور پر اپنے چاچا چاچی کے رحم و کرم پر تھی۔ کچھ ہی دنوں میں ایک نوجوان اور خوب صورت لڑکی جس کے والدین حیات نہ تھے چاچی کی نظروں میں کھٹکنے لگی تھی۔ شگفتہ کا ارادہ آگے پڑھنے اور اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کا تھا مگر مالی طور پر غیر مستحکم ہونے کے باعث وہ اپنے ارادے میں ناکام ہوئی تھی۔
فی الحال یہ ہی بہت تھا کہ اسے کھانے کو دو وقت کی روٹی میسر تھی۔ گھر سے چاچی اسے چاہ کر بھی بے دخل نہیں کر سکتی تھی کہ آدھا گھر اس کے باپ کے نام تھا اور ان کے گزر جانے کے بعد وہ ان کی اکلوتی قانونی وارث تھی۔ ماں کے دسویں کی رات گہری نیند سے وہ اچانک جاگی تھی۔ پیاس کے احساس کے تحت اس نے کمرے میں نگاہ دوڑائی۔ پانی کا جگ اور گلاس دونوں ہی وہاں ناپید تھے۔ چاچی کی دونوں بیٹیاں اپنے بستروں میں پرسکون نیند سو رہی تھیں۔ پہلے یہ کمرہ اس کا اور اماں کا تھا مگر اماں کے قل کے اگلے روز ہی چاچی نے اس کا اکیلا پن دور کرنے کے بہانے اپنی دونوں بیٹیوں کو اس کے ساتھ کمرے میں سیٹ کر دیا تھا۔ خالی کروایا جانے والا کمرہ انھوں نے اپنے بڑے اور لاڈلے بیٹے کے حوالے کر دیا تھا۔
اپنے کمرے سے نکل کر باورچی خانے میں جاتے ہوئے اسے چاچی کی آواز سنائی دی۔ ان کے کمرے کی بتی جل رہی تھی اور وہ چاچا سے کسی کی بات کر رہی تھی مگر کس کے متعلق؟ تجسس کے مارے پیاس کو بھول کر وہ دبے پاؤں ان کے کمرے کے دروازے تک چلی آئی۔ دیوار کی اوٹ لیے اندھیرے میں چھپ کر وہ باآسانی تمام باتیں سن سکتی تھی۔
"نا میں کہتی ہوں کہ کیا کرنا ہے اس لڑکی کا، کب تک ہمارے سر پر پڑی رہے گی؟" چاچی کی جھنجھلائی آواز اور الفاظ اس کی سماعتوں سے ٹکرائے۔
"کیا ہو گیا ہے تجھے صغراں؟ بھتیجی ہے میری۔ جوان بچی ہے یہاں نہیں رہے گی تو اور کہاں جائے گی۔" دبی دبی آواز چاچا کی تھی۔
"ہاں جوان ہے اسی لیے تو کہہ رہی ہوں کہ کون رکھے کا اب اس کی راکھیاں؟ کل کلاں کو اونچ نیچ ہو گئی تو دنیا نے تو اپنے منہ پہ ہی تھو تھو کرنا ہے نا۔۔ تم بھول رہے ہو کہ اپنا جاوید بھی اب کوئی چھوٹا بچہ نہیں رہا۔ شگفتہ سے بس ڈیڑھ برس ہی چھوٹا ہے مگر قد اور جسامت میں اس سے بڑا لگتا ہے۔"
"بس کر دے تو۔ بچپن سے اکٹھے پلے بڑھے ہیں، اس کے بھائیوں کی طرح ہے۔ پتا نہیں فارغ بیٹھ کے کیا کیا سوچتی رہتی ہے۔"
"ہاں میں تو جیسے مہارانی ہوں نا جو فارغ رہتی ہوں اور گھر کے سارے کام تو ملازمائیں کرتی ہیں۔" چاچی کی پاٹ دار آواز گونجی۔
"اچھا بس زیادہ بک بک نہ کر۔۔۔ سونے دے مجھے اور خود بھی سو جا۔۔ میں نے زمینوں پر بھی جانا ہے سویرے۔" چاچا نے بے زاری سے کہا۔
چاچی کی بڑبڑاہٹ جاری رہی جو کہ وہ سننے سے قاصر تھی مگر جتنا وہ سن چکی تھی وہ اس کی نیندیں اڑانے کے لیے کافی تھا۔ پتھر کی مانند وہ وہیں جم گئی تھی۔
ماں باپ دونوں یا دونوں میں سے کسی ایک کا ہونا بھی کتنا بڑا سہارا ہوتا ہے۔ باقی خونی رشتے تو بس ضرورت کی حد تک ہی ہوتے ہیں۔ ماں کے مرنے کے دسویں دن وہ حقیقتا بے سہارا ہوئی تھی۔ کتنے آرام سے اس کے کردار کے بارے میں چاچی نے سب فرض کر لیا تھا۔ وہ سوچتی تھی کہ چاچی اسے بوجھ سمجھتی ہیں لیکن رات کے اس پہر اندھیرے میں کھڑے اسے ان کی باتوں اور لہجے سے اندازہ ہوا تھا کہ وہ اسے بوجھ نہیں جان کا عذاب سمجھتی ہیں اور وہ عذاب ٹالنے کے لیے وہ کچھ بھی کر سکتی تھیں۔
مرے مرے قدموں سے بنا پانی پیے ہی وہ اپنے کرے میں آگئی۔ اس وقت پیاس سے بڑھ کر اگر اس کے لیے کوئی احساس اہم تھا تو وہ تھا عزت اور تحفظ کا احساس۔۔۔!
کیا یہ گھر واقعی میری پناہ گاہ ہے؟
کیا اس کے آدھے حصے کا مالک ہونے کا مطلب یہ ہے کہ میں یہاں عزت اور تحفظ سے رہ سکتی ہوں؟
کیا اس گھر میں موجود میرے خونی رشتے دار واقعی میرے اپنے ہیں؟
اس کے ذہن میں اٹھنے والے ان سوالوں میں سے زیادہ تر کے جواب نہ میں تھے۔ اسے اپنی زندگی کے بارے میں تمام فیصلے اب خود کرنے تھے۔ وہ مزید ان دکھاوے کے اپنوں پر بوجھ نہیں بنے گی یہ فیصلہ اسی رات ہو گیا تھا۔ مگر یہ سب وہ کیسے کرے گی اس بات سے وہ ابھی لاعلم تھی۔
اگلے چند دنوں میں شگفتہ میں کافی تبدیلیاں رونما ہوئی تھیں۔ گھر اور چاچی وغیرہ کے وہ کام جو وہ بلا چون چرا کر دیتی تھی اب اس نے وہ کرنے بند کر دیے تھے۔ چاچا کے علاوہ باقی سب سے اس نے سرسری بات کرنی شروع کر دی تھی۔ اس کے بدلے تیوروں نے چاچی کو مزید تپا دیا۔ اٹھتے بیٹھتے وہ اسے جلی کٹی سنانے لگی تھیں۔ اس دن معمول کے مطابق چاچی نے اسے تمام گھر والوں کے میلے کچیلے کپڑے دھونے کا حکم دیا۔
"آپ لوگوں کے کپڑے ہیں خود دھوئیں یا پھر اپنی بیٹیوں سے دھلوائیں۔ میں ملازمہ نہیں۔ اپنے سب کام میں خود کرتی ہیں آپ لوگ بھی اپنے کام خود کرنے کی عادت ڈالیں۔" رکھائی سے دیے گئے شگفتہ کے جواب نے چاچی کو آگ لگا دی تھی۔
"ہائے ہائے! میرا تو نمک ہی کھوٹا ہے۔ ساری زندگی اس یتیم کو پال پوس کے بڑا کیا۔ کبھی اس میں اور اپنی سگی اولاد میں فرق نہ کیا مگر دیکھو آج میرے ہی سر جوتیاں مار ری ہے۔ صحیح کہتے ہیں سیانے بھلائی کا تو زمانہ ہی نہیں رہا۔۔ ہائے لوگوں دیکھو تو سہی کیا صلہ مل رہا مینوں۔"
چاچا جو گھر کھانے کے لیے آیا تھا عین دروازے کے بیچ و بیچ کھڑا اپنی بیوی کے تماشے دیکھ رہا تھا جو سینے کوبی کرتے ہوئے واویلا کر رہی تھی۔
"ہوش کے ناخن لے صغراں کیا تماشا لگا رکھا ہے؟" ہکا بکا کھڑے چاچا نے ہڑبڑا کر اپنی بیوی کو چپ کرانے کی ناکام سی کوشش کی۔
"ہائے! کیا بتاؤ تجھے۔ ایسی منہ زور اور اکھڑ اے شگفتہ۔ اینی منہ ماری کیتی ہے میرے نال کہ کی دساں۔" چاچی نے اپنے ڈرامے میں آنسوؤں کا تڑکا لگایا۔
چاچا نے ناسمجھی سے پاس کھڑی دونوں بیٹیوں اور دور کھڑی حیرت زدہ شگفتہ کو دیکھا۔
"ہاں ابا، اماں ٹھیک کہتی ہے۔ شگفتہ باجی نے اماں سے بڑی بدتمیزی کی ہے۔ اتنی باتیں سنائی ہیں کہ بس۔" بیٹیوں کی فطرت اپنی ماں پر پڑی تھی۔ باپ کو دیکھ کر فورا ماں کے ڈرامے کا حصہ بن گئیں۔ شگفتہ کا خیال تھا کہ زیادہ سے زیادہ چاچی اسے جلی کٹی اور صلواتیں سنائیں گی مگر اچانک شروع ہونے والا ڈرامہ اس کے گمان سے یکسر باہر تھا۔
"یہ سب کیا کہہ رہے ہیں۔ اصل معاملہ کیا ہے شگفتہ؟" آخر کار چاچا نے اسے مخاطب کیا۔
وہ جو کچھ دیر پہلے پتھر کی بن گئی تھی اپنی اصلی حالت میں لوٹی۔ حیران پریشان چاچا، مکاری چہرے پر سجائے ان کی بیٹیاں اور مگر مچھ کے آنسو بہاتی چاچی۔۔۔ اس وقت اگر کوئی اس کی بات سنتا اور ساتھ دیتا تو وہ صرف چاچا ہی ہو سکتا تھا۔
"چاچا یہ سچ نہیں، میں نے کوئی بدتمیزی نہیں کی۔ میں نے تو چاچی کو صرف اتنا کہا کہ۔۔۔"
"ہائے ہائے سن لے تو اب یہ مجھے میرے ہی شوہر اور اولاد کے سامنے جھوٹا بنا رہی ہے۔ ہائے میری قسمت ربا۔۔۔ "شگفتہ کی بات بیچ سے ہی کاٹ کر چاچی نے اپنا واویلا مچا دیا تھا۔ صورت حال کافی ناخوشگوار ہو گئی تھی۔ بیوی کی باتوں پر چاچا کے ابرو تن گئے۔
"دیکھ شگفتہ تیری چاچی ماں کی جگہ ہے تجھے بدتمیزی نہیں کرنی چاہیے تھی۔ نہ تو اپنی چاچی کو کوئی ایسی ویسی بات کرتی نہ تیری چاچی کا دل دکھتا۔ چل معافی مانگ لے اور ختم کر یہ معاملہ۔۔۔ صغراں تو بھی بند کر اب یہ رونا دھونا۔۔۔"
اعتماد کا ہلکا پھلکا سا بت دھڑام سے اس کے قدموں میں آ گرا تھا۔ وہ سب ایک خاندان تھے اور ان کے بیچ وہ غیروں کی طرح تن تنہا کھڑی تھی۔ زندگی میں پہلی بار اس نے ذلت محسوس کی، اس کا تماشا بنا۔۔۔ یہ تو صرف شروعات تھی۔ اس کی زندگی میں آگے ایسا بہت کچھ ہونے والا تھا جو اسے یہ تماشا بھلا دیتا۔ ڈبڈبائی نظروں سے سب کو دیکھتے ہوئے وہ بنا کچھ بولے اپنے کمرے میں آ گئی۔ سوچوں کے بہت سے در اس پر وا ہو چکے تھے۔
٭٭٭٭
زندگی معمول کے مطابق گزر رہی تھی۔ صبح ہوئی، شام ہوئی۔۔۔ دن ڈھلا، رات چھائی تو آرام کر لیا، نیا دن طلوع ہوا تو کام کاج پر لگ گئے۔ معمول میں پڑ کر انسان وقت کا حساب رکھنا چھوڑ دیتا ہے۔ دن گزرتے ہیں، پھر ہفتے، مہینے اور سال۔ دن رات کے اس تسلسل میں عظیم میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی بل کہ بہت سے کاموں میں وہ ماہر ہوتا چلا گیا۔ اور یہ بات اس کے لیے کسی اعزاز سے کم نہ تھی۔ زندگی اس کی تھی اور وقت بھی۔ اور وہ اپنی زندگی کو مرضی سے گزار رہا تھا بل کہ اس سے بساط بھر لطف کشید کر رہا تھا۔ فراغت کے دنوں میں آنے والی اچانک تبدیلی ابا کی بیماری تھی۔
کافی دنوں سے وہ تھکے ہارے رہنے لگے تھے۔ کھانا پینا بھی برائے نام رہ گیا تھا۔ معمول کے مطابق صبح وہ دوکان پر گئے تھے۔ دوپہر میں دروازے پر ہونے والی دستک بہت جاندار تھی
"کون ہے بھئی صبر کرو آ رہی ہوں دروازہ توڑو گے کیا؟" بڑبڑاتے ہوئے اماں نے چپل پہنی اور دروازہ کھولنے چل دیں۔
دروازہ کھولتے ہی وہ دھک سے رہ گئیں۔۔ ان کے نڈھال اور نیم بے ہوش شوہر کو محلے کے چند مردوں نے سہارا دے رکھا تھا۔
"ہائے اللہ انھیں کیا ہو گیا؟" چکراتے سر کے ساتھ وہ انھیں دیکھنے کو آگے بڑھیں اور پورا دروازہ کھول کر ایک جانب کو ہو گئیں۔
"انھیں اندر لے آئیں۔"
سہارا دینے والوں نے احتیاط سے انھیں برآمدے میں بچھی چاپائی پر لٹا دیا تھا۔
"بہن یہ دکان پر اچانک ہی چکرا کے گر پڑے۔ ڈاکٹر کے پاس سے آ رہے ہیں۔۔ اس نے کہا ہے کہ انھیں بہت کمزوری ہے۔۔ خاص خیال رکھیں۔ یہ کچھ ٹیسٹ بھی ہیں جو ڈاکٹر نے کروانے کو کہا ہے۔" ایک مرد نے ڈاکٹر کا نسخہ انھیں تھماتے ہوئے تفصیل سے آگاہ کیا۔
"انھیں زیادہ سے زیادہ طاقت والی غذائیں دینی ہیں۔ ہمیں اجازت دیں اب ہم چلتے ہیں۔ ہمارے لائق کوئی خدمت ہو تو ضرور بتائیے گا۔" جاتے جاتے بھی محلے دار ہوںے کا فرض وہ نبھا رہے تھے۔
"بہت بہت شکریہ" کہہ کر انھیں رخصت کر کے دروازہ بند گیا۔
وہ بے چینی سے چارپائی کی طرف آئیں جہاں تینوں بیٹیاں فکرمندی سے باپ کے سرہانے کھڑی تھیں۔
"جا آسیہ اپنے ابا کے لیے پانی میں گلوکوز کھول کر لا اور حسینہ تو بھائی کو اطلاع دے کہ جلدی گھر پہنچے ابا کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔"
بیٹیوں کو ہدایت دے کر وہ شوہر کی طرف متوجہ ہوئیں۔ ان کا سر دباتے ہوئے خفگی سے بولیں:
"ایک تو آپ کچھ بتاتے بھی نہیں ہیں۔ طبیعت ٹھیک نہیں تھی تو دکان پر جانے کی ضرورت ہی کیا تھی؟"
"ابا گلوکوز پی لیں" آسیہ گلاس تھامے ان کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔
اس کی بروقت مداخلت نے ابا کو کٹھرے میں کھڑے ہونے سے بچا لیا تھا۔
گلاس ماں کو تھما کر وہ بھاگ کے کمرے سے گول تکیہ لے آئی۔ باپ کو سہارا دے کر اٹھایا اور کمر کے نیچے گول تکیہ رکھا۔ ابا آرام دہ حالت میں آ گئے تھے۔ اپنے ہاتھ سے گلاس ان کے منہ سے لگا کر وہ ان کے ساتھ ہی ٹک گئی۔ گھونٹ گھونٹ پی کر ابا نے بڑا وقت لے کر گلوکوز ختم کیا تھا۔ خالی گلاس نیچے دھر کے اس نے ابا کے ہاتھ پکڑ لیے۔
" فکر نہ کریں ابا آپ جلد ٹھیک ہو جائیں گے۔ بس آپ نے آرام کرنا ہے اور اچھے سے کھانا پینا ہے۔"
بیٹی کی فکر مندی دیکھ کر وہ دھیمے سے مسکرا دیے۔
"میں بہتر محسوس کر رہا ہوں بس چکر آ گیا تھا"
بیٹی کو باپ سے محو گفتگو دیکھ کر اماں کو لاڈلے بیٹے کا خیال پھر سے آیا۔
"ابھی تک گھر نہیں پہنچا یہ لڑکا۔ حالانکہ کالج کی چھٹیاں ہیں پتا نہیں کہاں دھکے کھاتا ہے۔ حسینہ بھائی سے بات ہوئی ہے کہ نہیں۔۔ موبائل کدھر ہے میرا؟"
اماں نے اپنے موبائل کی تلاش میں نظریں دوڑائیں۔ گھر میں صرف ایک ہی موبائل فون تھا جو اماں کے پاس ہی پایا جاتا تھا۔ تمام رشتہ داروں سے اماں کے نمبر پر ہی بات چیت ہوتی تھی۔
"اماں میں نے بھائی کو کال کی تھی پر اس نے اٹھائی نہیں۔ میں نے اسے میسج کر دیا ہے۔ پریشان نہ ہوں میسج پڑھے گا تو بھاگا آئے گا۔"
حسینہ کے بتانے پر بھی ان کی پریشانی میں کمی نہیں ہوئی تھی۔
اس گھر میں موجود تمام خواتین گھر کے سربراہ کے لیے فکر مند تھیں جب کہ گھر کا اکلوتا چشم و چراغ تمام معاملے سے بے نیاز کسی اور مہم جوئی میں مصروف تھا۔
وہ کب سے دروازے پر نگائیں جمائے اس کی منتظر تھیں۔ تقریبا گھنٹے بعد وہ دروازے کو ہلکا سا دھکیل کے اندر داخل ہوا۔ اندر کا منظر عین اس کی نگاہوں کے سامنے تھا۔
چارپائی پر آنکھیں موندے لیٹے ابا او ان کے پاؤں کی جانب بیٹھی اماں جو کہ شاید کچھ پڑھ کر ان پہ پھونک رہی تھیں۔ چھوٹی بہنیں پاس ہی موڑھوں پر بیٹھی تھیں جب کہ باورچی خانے سے پریشر ککر کی سیٹی کی آواز آ رہی تھی۔۔ ظاہر ہے آپا کچھ پکانے میں مصروف تھیں۔ چہرے پہ پریشانی سجائے وہ ابا کے پاس آ بیٹھا۔
"اماں کیا ہوا ہے ابا کو۔۔ سب ٹھیک تو ہے نا؟"
"کہاں مارا مارا پھرتا ہے تو سارا دن؟ خدانخواستہ پیچھے گھر میں کچھ ہو جائے تو تیرے فرشتوں کو بھی خبر نا ہو" دبی دبی آواز میں انھوں نے اسے جھڑکا۔
"اچھا اماں بس کر کچھ نہیں ہوتا۔ آ تو گیا ہوں سنبھال لو گا سب۔" اس کا ازلی لاپروا انداز انھیں کھٹکا تھا۔
"جا کچن میں بہن سے پوچھ کچھ منگوانا تو نہیں اور یہ پکڑ نسخہ۔ طاقت کی دوائیں جو ڈاکٹر نے لکھی ہیں وہ لے کر آنی ہیں" نسخہ اور پلو سے باندھے نوٹ کھول کر انھوں نے اس کے حوالے کیے۔
"کچھ ٹیسٹ بھی لکھے ہیں ڈاکٹر نے۔ تیرے ابا چلنے پھرنے کے قابل ہو جائیں تو ٹیسٹ کروانے ساتھ لے جانا۔"
اماں واقعی خفا تھیں۔ نہ ہی انھوں نے بیٹے کی بلائیں لیں اور نہ ہی اسے کھانے کا پوچھا تھا۔ خاموشی سے وہ باورچی خانے میں چلا آیا۔
آپا یخنی بنا چکی تھیں اور اب اسے چھان رہی تھیں۔ گرم یخنی سے اٹھتی بھاپ نے آپا کا چہرہ دھندلا دیا تھا۔
"آپا کیا باہر سے کچھ منگوانا ہے؟" اس نے انھیں متوجہ کیا۔۔
"ہاں ایک کلو دودھ لے آنا۔ رات میں ابا کے لیے شیک بنانا ہے باقی کا دہی جما دو گی۔" اپنے کام میں مصروف رہ کر اس کی طرف دیکھے بنا انھوں نے جواب دیا۔
وہاں مزید کھڑے رہنا بے سود تھا سو وہ چیزیں لینے باہر کی طرف چل دیا تھا۔
رات تک ابا کو بخار نے بھی گھیر لیا تھا۔ ان کی طبیعت میں کوئی افاقہ نہیں ہوا تھا۔ آپا نے چمچ سے یخنی پلا دی تھی اور یخنی کی بچی بوٹیاں ڈال کر کھچڑی بھی تیار کر دی تھی۔ گھر کا ماحول ایک دم ہی بدل گیا تھا۔۔
اپنے ابا کو اس نے ہمیشہ خاموش اور مصروف دیکھا تھا۔ وہ زیادہ باتیں کرنے کے عادی نہ تھے۔ غصہ انھیں بہت کم آتا اور نہ ہی وہ کبھی کسی چیز کی شکایت کرتے تھے۔
رات میں وہ ان کے پاس آ بیٹھا۔ اسے پہلی دفعہ ابا بوڑھے سے لگے تھے۔ خاموشی سے وہ ان کی ٹانگیں دبانے لگ گیا۔۔ سب گھر والوں کی طرح وہ بھی انھیں جلد از جلد صحت مند اور اپنے پاؤں پر چلتا پھرتا دیکھنے کا خواہش مند تھا۔
٭٭٭٭
کافی دیر سے الماری میں گھسی وہ چیزوں کو ترتیب دینے میں مگن تھی جب اس کا فون بج اٹھا۔
"کس کا فون آ گیا؟" بڑبڑاتے ہوئے شگفتہ نے الماری سے سر نکالا اور چارپائی پر پڑے موبائل کو دیکھا۔ اسکرین پر نظر پڑتے ہی اس نے بے اختیار دیوار پر ٹنگی گھڑی کی طرف دیکھا جو رات کے ساڑھے دس بجا رہی تھی۔
"چاچا اس وقت کال کر رہا ہے؟" حیران ہوتے ہوئے اس نے کال اٹھائی۔
"ہیلو، السلام علیکم"
"وعلیکم السلام۔۔ پتر کیسی ہے تو؟" چاچا کی نرم آواز اس کی سماعتوں سے ٹکرائی۔۔
"ٹھیک ہوں چاچا۔ خیریت آج اتنی رات کو کیسے فون کیا؟ گھر میں سب ٹھیک ہے؟" دل میں آئے خیال لفظوں میں ڈھلے تھے۔
"سب ٹھیک ہے۔ یاد آ رہی تھی تیری۔۔ میں نے بس یہ پوچھنے کے لیے کال کی کہ کل ہفتہ ہے تو گھر آ رہی ہے کہ نہیں؟ پورے دو مہینے ہو گئے تجھے گھر کا چکر لگائے ہوئے۔ آجاتی تو بندہ بیٹھ کر چار باتیں ہی کر لیتا ہے۔"
"دیکھتی ہوں چاچا ابھی تو کوئی ارادہ نہیں بنا۔۔ ہو سکتا ہے اگلے ہفتے آؤں گھر۔ آنے سے پہلے تجھے بتا دوں گی۔" اس نے سادگی سے جواب دیا۔
"ٹھیک ہے پتر۔ اپنا خیال رکھیں۔ اللہ حافظ"
"اللہ حافظ" کہہ کر اس نے کال منقطع کی اور گہری سانس بھرتی چارپائی پر بیٹھ گئی۔
"ضرور کوئی خاص بات ہو گی جو چاچا کرنا چاہ رہا ہے ورنہ پہلے تو کبھی ایسے نہیں پوچھا۔" سوچتے ہوئے وہ بہت پیچھے چلی گئی تھی۔ گزشتہ چار سال اس کے ذہن میں گھومے۔۔ ذہن کے پردے پہ گویا کوئی فلم چل پڑی تھی۔
٭٭٭٭
ماں کے مرنے کے کچھ دن بعد گھر میں ہونے والے ڈرامے نے اس گھر میں شگفتہ پر زندگی تنگ کر دی تھی۔ حالات سے مجبور ہو کے اس نے شہر میں آ کے رہنے اور نوکری کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
"میٹرک پاس لڑکی کو کون سی باعزت نوکری مل سکتی ہے؟" اس بارے میں ابھی اس نے کچھ نہیں سوچا تھا۔ فی الحال وہ گھر کے گھٹن زدہ ماحول سے آزادی چاہتی تھی۔
چاچآ سے اجازت لینے گئی تو ان کا رویہ غیر متوقع تھا۔ اس کا خیال تھا کہ وہ اسے فورا اجازت دے دیں گے مگر انھوں نے حامی ہی نہیں بھری تھی۔ بل کہ انھیں اس کی اکیلے شہر میں رہنے اور نوکری کرنے والی بات سرے سے پسند ہی نہیں آئی تھی۔
"کیا چاچا کو ابھی بھی میری پروا ہے مگر ان کا اس دن کا رویہ؟" وہ اس بارے میں بھی سوچنا نہیں چاہتی تھی۔۔
شگفتہ پہلے ہی فیصلہ کر چکی تھی کہ اپنے بل بوتے بھی کچھ کرنا اور بننا ہے۔ اور یہ تب ہی ممکن ہوتا جب وہ اس گھر سے رہائی پا لیتی جو ہوتے ہوئے بھی اس کا نہیں تھا۔
بالآخر وہ چاچا کو راضی کرنے میں کامیاب ہو گئی تھی۔ باقی سارے گھر والے تو خوشی خوشی اس سے جان چھڑانے کو تیار تھے۔ ایک چاچا ہی تھے جسے اس کی فکر تھی مگر شگفتہ کی ضد کے سامنے انھوں نے بھی ہار مان لی تھی۔ اسے ہاسٹل میں رہنے اور نوکری کرنے کی اجازت مل گئی تھی۔۔
اس کا تمام تر دارومدار اپنی دوست پر تھا جو انہیں کے قصبے کی تھی اور چند سالوں سے ہاسٹل میں مقیم تھی۔۔ شہر میں وہ آگے پڑھ بھی رہی تھی اور خرچے پورے کرنے کے لیے جزو وقتی نوکری بھی کر رہی تھی۔ دوست سے رابطہ کرنے، جانے کی اجازت ملنے اور گھر چھوڑنے تک وہ خود کو کافی مضبوط کر چکی تھی۔۔
پیکنگ کر کے اس نے جائزہ لیا۔ اس کا سامان ہی کیا تھا چند کپڑے اور جوتوں کے جوڑے اور دیگر ضرورت کی اشیاء۔ اپنا بیگ تیار کر کے وہ شہر جا کر نئی زندگی شروع کرنے کے لیے بالکل تیار تھی۔ اسے بیگ سمیت رخصت ہوتا دیکھ کر چاچی نے سکون کا سانس لیا تھا۔ جھوٹے منہ بھی انہوں نے کوئی تسلی دلاسہ یا کوئی اچھی بات شگفتہ کو کہنی مناسب نہیں سمجھی تھی۔ شگفتہ کو ان کے سرد رویے کی اب کوئی پروا نہ تھی۔ چاچا اسے شہر چھوڑنے آیا تھا۔ ہاسٹل میں چھوڑ کر واپسی سے پہلے جب انھوں نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر اسے اللہ کی امان میں دیا تو بس اک پل لگا تھا اسے یہ سمجھنے میں کہ وہ اس کے اپنے ہیں اور انھیں اس کی پروا بھی ہے۔ اس دن انھوں نے جو کہا اور کیا وہ گھر کے ماحول کو ٹھیک کرنے کے لیے کیا تھا۔ بہرحال وہ بیوی کے ڈرامے کے آگے لاچار تھے۔ ہر شریف آدمی کی طرح۔۔۔!
٭٭٭٭
نو بجتے ہی اس کا موبائل الارم چلا اٹھا۔ بمشکل آنکھیں کھول کے اس نے موبائل ڈھونڈا اور مستقل چیختے الارم کو بند کیا اور پھر سے موبائل سرہانے کے پاس دھر دیا۔ دن کب کا چڑھ چکا تھا۔ کسلمندی سے وہ انگڑائیاں لیتا ہوا اٹھ بیٹھا۔ سیڑھیاں اترتے ہی اس نے غسل خانے کا رخ کیا۔ پھر منہ ہاتھ دھو کر باورچی خانے میں چلا آیا۔ اماں ناشتا تیار کر رہی تھی۔ ابا اندر کمرے میں آرام کر رہے تھے۔ دونوں چھوٹی بہنیں اسکول کے لیے روانہ ہو چکی تھیں۔۔
اسے کچن میں آتا دیکھتے ہی اماں نے اس کے لیے پراٹھا بنانا شروع کیا۔ وہ ہمیشہ اپنے لاڈلے کے لیے تازہ پراٹھا بناتی تھیں۔ باورچی خانے میں ہلکا دھواں اور سوندھی خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔ پراٹھا پکا کر اماں نے خاموشی سے ناشتہ اس کی طرف سرکایا اور دوسرا پراٹھا بیلنے لگ گئیں۔
گرم پراٹھا، بھاپ اڑاتا چائے کا مگ اور رات کا بچا سالن۔ ابھی اس نے چند نوالے ہی لیے تھے کہ آپا ٹرے میں خالی چائے کا کپ رکھے کمرے سے برآمد ہوئی اور پریشانی سے بولی:
"اماں! ابا کو بہت تیز بخار ہے۔ چائے کے ساتھ ان سے صرف ایک رس ہی کھایا گیا ہے۔"
"عظیم تو ایسا کر ناشتے کر کے اپنے ابا کو اسپتال لے جا۔ ڈاکٹر کو دکھا اور ٹیسٹ بھی تو کروانے ہیں۔" سنجیدگی سے اسے مخاطب کر کے کہا گیا۔
"ٹھیک ہے اماں!" اس نے چائے کا کپ منہ سے ہٹاتے ہوئے سادگی سے جواب دیا۔ آگے اس کے ساتھ جو ہونے والا تھا وہ سادہ نہیں تھا اور اس سے اس کی زندگی میں کیا فرق پڑنے والا ہے یہ تو عظیم کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔۔
ابا کو ڈاکٹر کے پاس لے کر جانا ایک مشکل مرحلہ ثابت ہوا۔ نقاہت کے باعث ان سے قدم اٹھانا مشکل ہو رہا تھا۔ اپنا تقریبا سارا وزن ہی انھوں نے بیٹے کے کاندھے پر ڈال رکھا تھا۔
ابا کو تھام کر سہارا دے کر چلتے ہوئے اسے پہلی بار احساس ہوا کہ لوگ بیٹوں کو بڑھاپے کا سہارا کیوں کہتے ہیں۔ والدین کی دلی خواہش ہوتی ہے کہ ان پر آنے والی مشکل اور پریشانی میں بیٹے ان کا بازو بنیں، ان کا بوجھ اپنے کندھوں پر ڈھوئیں جیسے بچپن میں والدین نے اولاد کو پالا پوسا اور سہارا دیا ہوتا ہے، ان کی ذمے داری اٹھائی ہوتی ہے۔ سنا تو اس نے یہ بھی تھا کہ جوان بیٹے ماں باپ کا مان ہوتے ہیں مگر گھر والوں نے ابھی تک اس پہ ایسی کوئی ذمہ داری نہیں ڈالی تھی یا یوں کہہ لیں کہ اس نے اٹھائی ہی نہیں تھی۔ سرکاری اسپتال میں پرچی بنوانے سے ٹیسٹ کروانے تک جتنے دھکے اسے کھانے پڑے اس کے ہوش ٹھکانے پر آ گئے تھے۔ بڑی مشکل ذمہ داری اس کے کندھوں پر آ پڑی تھی۔ ڈاکٹر سے معائنہ اور ٹیسٹ کروانے کے بعد جب تک وہ ابا کو لے کر گھر پہنچا دوپہر ہو چکی تھی۔ اماں تو جیسے منتظر ہی بیٹھی تھیں۔
انھیں دیکھتے ہی فورا لپک کر آئیں:
"کیسی طبیعت ہے اب؟" شوہر کو سہارا دے کر چارپائی پر لٹاتے ہوئے انھوں نے بے تابی سے پوچھا۔
انہوں نے ہلکے سے سر ہلا دیا تھا۔
"ہاں پھر کیا کہا ہے ڈاکٹر نے؟ تیرے ابا کب تک ٹھیک ہو جائیں گے؟" دونوں سوال بیٹے سے پوچھے گئے۔ سوالیہ نظریں عظیم پر مرکوز تھیں۔
"اماں ڈاکٹر نے دوائیاں دے دی ہیں۔ اور کہنا کیا ہے وہی باتیں کہ آرام اور خوراک کا خیال رکھیں۔ باقی جو بھی مسئلہ ہے ٹیسٹ کی رپورٹ آنے پر پتا چلے گا۔"
"ہممم! اللہ نہ کرے کوئی مسئلہ ہو۔" اماں نے اس کی بات سمجھتے ہوئے کہا۔
شوہر کے چہرے پہ پریشانی کے آثار دیکھ کر وہ ان کی طرف متوجہ ہوئی۔
"آپ نے ذرا بھی فکر نہیں کرنی۔۔ اللہ بہتر کرے گا۔ مکمل صحت یابی تک آپ نے آرام کرنا ہے۔ جب تک طبیعت سنبھلتی نہیں آپ نے دکان پر جانے کا تو سوچنا بھی نہیں۔"
"دکان کا حرج ہو گا۔" انھوں نے نخیف آواز میں کہا۔۔
"نہیں ہوتا حرج۔ آپ کی غیر موجودگی میں عظیم جایا کرے گا دکان پہ۔۔ یہ رکھے گا خیال۔" اماں ابا کو دلاسہ دیتے ہوئے ہمدری سے کہ رہی تھیں۔
پرسکون انداز میں کرسی پر بیٹھے عظیم کا سانس اٹکا تھا۔ دکان پر بیٹھنا اس کی شان کے سخت خلاف تھا۔ اس طرح تو اس کی آزادی سلب ہو جاتی۔
"اماں میں کیسے۔۔۔ میں اور دوکان پر؟ مجھے نہیں پتا چلتا چیزوں کا۔۔۔ میری پڑھائی کا ہرج ہو گا۔" گھبراہٹ میں وہ الٹا سیدھا بولے گیا۔
اماں نے اسے سخت نظروں سے گھورا۔
"اپنے ابا اور گھر کا احساس ہے کہ نہیں؟ روزانہ کی کمائی پر چلتا ہے گھر کا خرچہ۔۔۔ اور کیا حرج ہونا ہے تیری پڑھائی کا۔۔ پہلے کون سا تو اول آتا ہے جو چند دن دکان پر بیٹھنے سے نہیں آئے گا؟ جا کر تھوڑا آرام کر لے۔۔ پھر کھانا کھا کر دکان کا چکر لگا آنا۔۔ تھوڑی دیر بیٹھے گا تو خود ہی سمجھنے بھی لگ جائے گا۔۔۔"
اماں فیصلہ سنا چکی تھیں۔ مزید کچھ کہنا بے کار تھا۔
منہ پھلا کر دھپ دھپ سیڑھیاں چڑھتا آرام کرنے کی غرض سے وہ اوپر اپنے کمرے میں آ گیا۔ ذرا سا سکون ملتے ہی اس نے جیب میں پڑا موبائل نکالا۔
ابا کو لے لے کر پھرتے ہوئے اسے موبائل کا خیال تک نہیں آیا تھا۔ حسن اور الیاس کو اس نے مختصر ابا کی بیماری کے متعلق آگاہ کیا۔ آنکھیں موندتے ہی اسں پہ غنودگی چھانے لگی تھی۔
(جاری ہے)