عائشہ محبوب

(پہلی قسط)

’’بھابھی مل گیا، ہررے ۔۔۔ ے ۔۔۔ ے!‘‘درعدن کی آواز تھی یا بم پھٹا تھا ۔۔۔۔۔ موبائل ہاتھ میں تھامے ادھر سے اُدھر چکراتے ارسلان سچ میں چکرا کر رہ گیا ۔۔۔۔ اور اماں کے ہاتھ سے تو چھری اور سبزی رکھا تھال دور جاگرے ۔۔۔۔ رہی عدن کی بھابھی عدینہ تو اس کے والیوم نے باقی سب کو دل ہی پکڑنے پر مجبور کردیا۔۔۔۔‘‘‘ ارے ے ے  ۔۔۔۔ کہاں ہے؟ کہاں ہے؟ کمبخت!‘‘

اس کی آواز پر اماں کو دل پکڑتا دیکھ کر ارسلان نے گہرا لمبا سانس لے کر پہلے خود کو نارمل کیا اور پھر اماں کو پانی کا گلاس پکڑا کر روئے سخن بے غم اور ان کی نند کی جانب کیا ۔۔۔ تم دونوں کے نام ہی میں نہیں عادات اور آواز میں بھی مماثلت ہے! شرم کرو کچھ، جنگل میں نہیں رہتی ہو کہ تمہاری دھاڑتی، چنگھاڑتی، مردے جگاتی، ہارٹ فیل کرواتی آواز واپس تم تک آجائے گی، ویسے ایسا ہوجائے تو کتنا اچھا ہوجائے!‘‘ ارسلان نے ٹھیک ٹھاک دونوں کی ’’عزت افزائی‘‘ کی ۔۔۔۔

’’ہاں ۔۔۔ آپ کو تو ہم دونوں کے یک جان دو قالب ہونے سے بڑے مسئلے ہوتے ہیں شروع سے ہی!‘‘ عدینہ نے سچ میں منہ کے زاویے ٹیڑھے کیے اور جواباً ارسلان نے ہنسی چھپانے کو منہ نیچے کرلیا کیونکہ سامنے اس کی بیوی کی نند مطلب اس کی بہن نہیں،  اس کی بہن کم ’’نند‘‘ زیادہ تھی ۔۔۔۔

’’ہاں بھیا ۔۔۔ کبھی سنا ہے ۔۔۔۔ یا پتا نہیں کہ نند بھابھی کے کیسے کیسے معرکے ہوتے ہیں! وہ تو شکر کریں ہم دونوں شیر و شکر ہیں، ورنہ آپ کو لگ پتا جانا تھا۔‘‘ عدن کی بات پر ارسلان نے حقیقتاً دونوں ہاتھ چہرے پر پھیر کر ’’اللہ تیرا شکر ہے‘‘ کہا ۔۔۔ انداز سراسر چڑانے والا تھا!۔۔۔۔

’’ارے چھوڑیں بھابھی دیکھیں یہ رہا ’’رجسٹر‘‘! اور ارسلان کا تو صدمے سے منہ ہی کھل گیا۔ ’’تو تم دونوں اتنا دھاڑ چنگھاڑ گھر کو درہم برہم اس ’’رجسٹر‘‘ کے لیے کررہی تھیں؟‘‘

’’یہ اس رجسٹر میں ہماری محنت عرق ریزی رقم ہے ۔۔۔ خزانہ ہے ہمارا، سمجھے آپ!‘‘ عدینہ نے شوہر کو گھورا جواباً ارسلان نے اسے نظرانداز کرکے رجسٹرکو غور سے دیکھا ۔۔۔ جس پر وائٹ اور پلاسٹک کور خوبصورتی سے چڑھایا گیا تھا، ساتھ خوب سجا بنا کر ’’دسترخوان، پکوان نت نئے‘‘ درج تھا!

اب ارسلان کا دل چاہا سر پیٹے مگر اپنا نہیں ان دونوں کا ۔۔۔ یہ سالوں کی بحث تھی ۔۔۔۔ دونوں میں کہاں ختم ہونی تھی، یہ ارسلان نے سوچا اور ان سے بحث عبث جان کر اس نے وٹس اپ دیکھنا شروع کردیا۔

’’افغانی کباب، اسموکی کباب، اسپیگھیٹی کباب، دم دار کباب، کباب 360، کوفتہ کباب، پشاوری چپلی کباب، ریشمی کباب، شامی لچھا کباب، آلو ٹکی کباب، کٹلس ۔۔۔۔۔۔۔ یہ تو ہوگئے کباب، مزید زارا اور سارہ بھابھی سرچ کررہی ہیں ۔۔۔ اچھوتی ترکیبیں ۔۔۔۔ اب سموسے، پکوڑے، پلاؤ، بریانی، بھنے ہوئے سالن، تلنے والی چکن کی ڈشیں بھی ساری اس میں ہیں اور سب نئی اچھوتی ہیں۔‘‘ ارسلان کے کان اس طرف ہی لگے تھے۔ ہر ہر ڈش پر ایسے لگتا اس کا دل بند ہوجائے گا ۔۔۔۔۔ ایسی ایسی ترکیبیں ۔۔۔۔ پھر ان میں موجود سامان کی فہرست بنائی جارہی تھی۔ ارسلان سے رہا نہ گیا ۔۔۔ بول پڑا۔۔۔ ’’تم دونوں میں ایک اور مماثلت بھی ہے۔۔۔ جو تمہیں یک جان دو قالب نہیں بلکہ چھ جان پنج قالب بنا رہی ہے ۔۔۔ بلکہ تم دونوں کیوں ۔۔۔ وہ اندر بیٹھی دو دیورانیاں تمہاری اور عدن کی بھابھیاں ۔۔۔ اس گھر کی خواتین تو ماشاء اللہ پچھلے دور کے پہلوانوں کو شرمادیں۔‘‘

ان کی چلتی بحثوں کو دیکھتے ارسلان نے بھرپور طنز کا تیر مارا تھا ۔۔۔ اور اب اس ’’وزنیہ‘‘ موضوع پر دونوں کیا بحث کرتیں کہ اس ’’وزن بے چارے‘‘ کو وہ کبھی دورہ پڑتا تو ’’وزن بھاری‘‘ سمجھتیں ورنہ انہیں ہمیشہ اپنا وزن ’’بے چارہ‘‘ ہی لگا ۔۔۔

’’یہ ۔۔۔ یہ غضب خدا کا کیادو دریا پر نیا ہوٹل کھول رہی ہو ۔۔۔۔ اتنا سامان!‘‘

فہرست دیکھ کر ارسلان کو صحیح تپ چڑھی تھی۔

’’ارے بھری پری فیملی ہے ۔۔۔۔ بچے بھی اب ماشاءاللہ دو ایک ہی تین چار سال کے باقی سب تو آٹھ سے بارہ سال کی عمر کے ہیں، پھر ہم سب بڑے ۔۔۔ اور چار پانچ میں تو دو تین روزہ افطار پروگرام اور پاس پڑوس، اوپر نیچے کے فلیٹس اور چوکیدار کو افطاری بھجوانا۔۔۔۔! کیا  ہوگیا میاں تمہیں۔‘‘ اماں وزن کی زیادتی کی بنا ہل تو نہ سکیں مگر لہجہ دبنگ کرکے ارسلان کو اچھی طرح گھورا۔۔۔۔

’’یا میرے اللہ یہ ایک دن کا ۔۔۔۔۔ اس کی بات منہ ہی میں رہ گئی ۔۔۔۔

’’کیا ہوگیا ارسلان آپ کو یہ سامان تمام ڈشز کی نسبت سے ہے کوشش ہوگی پندرہ بیس دن چل جائے نہیں تو دس دن تو نکل ہی جائیں گے ان شاء اللہ

’’باسس ۔۔۔۔ تم نام ہی کی عدینہ رہ گئی ہو ۔۔۔ کچھ تو خدا کا خوف کھاؤ اور تم درعدن اللہ اللہ کرکے تمہارے معیار مطابق رشتہ طے ہوا۔۔۔ ہو تم پچیس کی مگر لگتی پینتیس سے اوپر کی ہو ۔۔۔۔ ارے غضب خدا کا مہنگائی تو دیکھو پھر حالات بھی دیکھو۔۔۔‘‘ ارسلان نے مزید بولنے سے پہلے گہرا سانس لے کر غصہ کم کرنا  چاہا اتنے میں اماں اپنی بہو بیٹی کی مدد کو تیار ہوچکی تھیں ۔۔۔۔

’’اوہ میاں  کیا تم اکیلے کمانے والے ہو ۔۔۔ ارے غضب خدا کا گھر کے بندوں کے کھانے پینے پر نظر رکھ بیٹھے ہو، دو دن پہلے  بھی تم خوب بحث پر اترے تھے ۔۔۔ ارے یہ مہینہ کس لیے آتا ہے اس میں تو متوسط کیا غریب بھی اچھا پکانے کھانے کی کوشش میں ہوتے۔۔۔۔!

جواباً ارسلان نے سچ میں ہاتھ جوڑ کر سر اماں کے پاؤں پر ٹکادیا ۔۔۔ یہ بحث سالوں کی تھی ۔۔۔۔

یہ گھرانہ ماشاء اللہ صاحب ثروت اور متمول ترین گھرانہ تھا ۔۔۔ خوب چٹورے اور نت نئے لذیذ پکوانوں کے شوقین گھر کے افراد تھے۔۔۔۔ ارسلان بھی اچھے کھانوں کا شوقین تھا مگر انتہائی چٹورا وہ کبھی بھی نہیں رہا تھا ۔۔۔ اپنی صحت کے حوالے سے شروع ہی سے اسے چوکنا رہنے کی عادت تھی ۔۔۔ اس کا ماننا تھا کہ موت کا وقت مقرر ہے مگر انسان چلتا پھرتا رہے ۔۔۔ جان بوجھ کر پیٹ پوجا میں لگ کر بیماریوں کو آبیل مجھے مار والی مثال نہ بنے ۔۔۔ موٹاپے سے تو اسے سخت چڑ تھی ۔۔۔ مگر اس کی قسمت کہ جس اسمارٹ بیوی کو اس نے پایا تھا ۔۔۔ اسے تو شادی کے چند ماہ بعد ہی کھوبیٹھا ۔۔۔ بچوں اور آپریشن کے بہانے ہوتے ہوتے وزن اتنا زیادہ ہوچکا تھا عدینہ کا کہ اب ارسلان اس کے برابر کھڑا لگتا تو بے جوڑ جوڑا لگتا ۔۔۔ گھر میں جو یہ نت نئے پکوان بنتے تھے، وہی اسے بھی کچھ نہ کچھ کھانے پڑتے ۔۔۔۔ پھر کاروبار کی دیکھ ریکھ، سودا سلف، بچوں کے اسکول مدرسے چھوڑنے لینے ان کی میٹنگ وغیرہ یہ سب بھی ارسلان کے ذمے تھا اپنے بھی اور دونوں بھائیوں کے بچوں کی بھی ۔۔۔ گھر بھر میں افراد کی بیٹھک اور وقت بے وقت ٹھونسنے کی بناء پر موٹاپے کا شکارتھے ۔۔۔ ارسلان ہی ان سب میں بہتر تھا مگر کم ہی سہی اسے بھی یہ ہائی میک پکوان کھانے پڑتے پھر گھر کے دھندوں، کاروبار کے بکھیڑوں میں اسے ورزش کا ٹائم نہ مل پاتا ۔۔۔۔ اس کی اپنی بیوی، دونوں بھائی ان کی بیویاں، بچوں کے اسکول وغیرہ یا انہیں آؤٹنگ پر لے جانے سے گھبراتے کہ ایک تو اسکول میں تو سب عجیب نظروں سے دیکھتے اور آؤٹنگ پر بچوں کے پیچھے بھاگے کون؟؟

اب گھر یعنی بچے سنبھالو اور باہر بھی سنبھالو!! ورزش کا ٹائم نہ مل پانے کی بناء پر ارسلان کا وزن باقی گھر والوں کی نسبت کم سہی مگر بڑھ گیا تھا ۔۔۔ ماحول کے تناؤ کو ارسلان کے بجتے فون کی گھنٹی نے ختم کیا ۔۔۔ ارسلان نے تو یوں لپک کر فون اٹھایا جیسے پیاسے نے پانی دیکھ لیا۔

’’جی ۔۔۔ ارے واہ ۔۔۔ ! آپ کو بھی مبارک! ہاں میں باہر جاتا ہوں!‘‘ ارسلان کا تو خوشی سے چہرہ کھل اُٹھا تھا ۔۔۔ باقی سب ’’بتاؤ بھی ہوا کیا‘‘ والے تاثرات کے ساتھ اسے دیکھ رہے تھے ۔۔۔ اس نے سر اٹھایا سب کو دیکھا اور بم پھینکا۔۔۔ ’’چلو بھئی عدن پیکنگ شروع کرو۔۔۔ یہ شعبان کے پندرہ دن اور رمضان اور عید وغیرہ ہم سعودی عرب تمہاری امی کی طرف کریں گے مکہ میں!‘‘ اور عدینہ تو صدمے میں باقی سب حیرت میں تھے ۔۔۔ آخر اماں ہی کو ہوش آیا۔۔۔ عدینہ کو کھینچ کھانچ کر بڑی مشکل سے گلے لگایا اور دل سے مبارکباد دی ۔۔۔ خود تو اب بڑھاپے پھر موٹاپے اور بیماریوں کی بنا پرحسرت ہی رہ گئی کہ عمرہ کریں ۔۔۔ حج فرض جوانی میں کرچکیں اس کے بعد دو عمرے بھی مگر وہ بھی چالیس سال کی عمر سے قبل ۔۔۔ اب تو بس جانے والوں کو دعاؤں کا کہتیں ۔۔۔ ’ایسے کیسے ارسلان!‘‘

’’جیسے ایسے‘‘ ارسلان نے چٹکی بجائی۔ ’’میں آیا پاسپورٹ ٹکٹ لے کر، جلدی گھسو کمرے میں پیکنگ شروع کرو۔۔۔‘‘ ارسلان تو یہ جا وہ جا۔ جبکہ باقی سب اچنبھے سے عدینہ کا پریشان چہرہ دیکھ رہے تھے۔

٭٭٭٭٭٭

’’ارے بھابھی کیا ہوگیا ۔۔۔ کوئی پانچ سال بعد آپ اپنے گھر والوں سے ملیں گی ۔۔۔ خوش نہیں ہیں ۔۔۔ کیوں؟‘‘ در عدن کو سب سے زیادہ حیرت تھی ۔۔۔ یہ گھرانہ دینی اور اخلاقی طور پر بہت اچھا تھا ۔۔۔ آپس میں بھائی چارہ محبت کا ماحول تھا ۔۔۔

’’ہاں بیٹی  عمرہ بھی تو ہورہا ہے دیکھو!‘‘ ’’ہاں اماں یہی تو۔۔۔۔‘‘

’’کیا یہی تو بھابھی؟‘‘ سارہ کو حیرت ہوئی ۔۔۔ ’’کہ عمرہ، میں نےسوچا تھا تھوڑا وزن کم ہوتا تو ۔۔۔ اب دیکھو مطاف اوپری منزل ہے تو طواف کتنا لمبا ہوگیا نا۔۔۔‘‘

’’ تو کیا عدینہ تم آہستہ آہستہ کرلینا!‘‘ یہ زارا بھابھی تھیں جن کی چاہت تھی مگر میاں اگلے سال پرٹال دیتے تھے ۔۔۔۔ کہ گرمی اور پھر ہمارے وزن !!!

’’نہیں گرمی بھی پھر روزے میں۔۔۔۔۔‘‘ ارے مارچ تو کم گرم ہوتا ہے تو اور اپریل میں بھی اتنی گرمی کہاں ہوتی ۔۔۔ تم افطار کے بعد طواف کرلیا کرنا ۔۔۔ افطار میں خوب کھا پی کر !‘‘ اماں نے ’’خوب‘‘ مشورہ دیا۔۔۔۔

’’چلیں بھابھی ہم کرواتے ہیں آپ کے ساتھ پیکنگ ۔۔۔ زارا، سارہ درعدن کھڑی ہوگئیں ۔۔۔ ’’ہاں جاؤ! مل جل کر کرلو۔۔۔ اگلے برس ہم سب ان شاء اللہ اکٹھا چلیں گے!‘‘

اماں نے تو بات برائے بات وہ بھی حسرت سے کہی تھی مگر وہ غیب کیا جانتی تھیں!!!

                           (جاری ہے)