ایسا نہیں ہے بیٹی۔۔۔تم اپنی اچھی عادت کو نہ بدلو جو بھی کام کرو وقت اور موقع کی نزاکت کو دیکھ کر انجام دو۔شوہر بیوی کی توجہ چاہتا ہے جب وہ سارا دن کا تھکا ماندہ گھر آۓ تو اپنی پوری توجہ اور وقت اسے دو پھر اسے کبھی تم سے کوئی شکایت نہ ہوگی

بنت مسعود احمد

وہ ہر کسی کے لیے دل میں نرم گوشہ رکھتی تھی کوئی پریشان ہوتا یا کسی کو اس کی ضرورت ہوتی وہ کتنی ہی مصروف  یا تھکی ہوئی ہوتی فورا دوسروں کی مدد کو تیار ہوجاتی۔وہ سب کے کام آکر خوش ہوتی کسی کی پریشانی دور کرکے اسے عجیب سا سکون دل و جاں میں اترتا محسوس ہوتا۔وہ ایسی کیوں تھی وہ خود بھی نہیں جانتی تھی اس کے خمیر میں جذبہ ہمدردی گندھا ہوا تھا اس کی نس نس میں خلوص و محبت خون کے ساتھ محو گردش تھی۔

وہ جانتی تھی مخدوم بننے سے خادم بننا ہزارہا گنا بہتر ہے ۔اس کی تربیت میں بڑا ہاتھ اس کی امی کا تھا کیونکہ اس نے امی کو بھی دوسروں لوگوں کے ہر دم متحرک دیکھا تھا۔جوخود کو گھر کے کاموں میں ہمہ وقت مصروف رکھتیں انہیں فارغ بیٹھنا یا فضول کاموں میں وقت ضائع کرنا پسند نہ تھا۔کچھ نہ کچھ کرتے رہنے کچھ اچھا یا تعمیری کاموں میں مشغول رہنا ان کی عادت تھی۔ یہی وجہ تھی کہ وہ ایک ہر دلعزیز شخصیت تھیں اور امی کی یہی عادت اس میں بھی منتقل ہوگئی تھی۔وہ بھی انہی کے نقش قدم پر خود با خود چلنے لگی تھی۔اس کی زندگی یونہی رواں دواں تھی وہ اپنے حال میں مگن اور خوش تھی۔

★★**★★

ایک دن اماں کو اس نے بھابھی کے سنگ کچھ پراسرار سے سرگوشی کرتے پایا۔اسے تھوڑا تجسس تو ہوا پر وہ اپنے کام سے کام رکھنے والوں میں سے تھی شام ہوئی تو صبح کی بات اس کے ذہن سے نکل گئی۔

رات سونے لیٹی تو اماں نے یہ راز خود ہی کھول ڈالا۔کچھ خواتین کل اس کو دیکھنے آرہی ہیں۔اب وہ اتنی  ننھی بچی بھی نہ تھی کہ ان کے آنے کی وجہ نہ سمجھ پاتی۔صبح بھابھی کے ساتھ مل کر اس نے سارا کام کروایا بلکہ ان کے حصے کے بھی کئی کام عدینہ کے رونے کی وجہ سے  اس نے خود ہی کرلیے۔

شام میں مہمان آۓ اور اس کو دیکھ کر چلے گئے ابھی ان کو گئے چند گھنٹے ہی گزرے تھے کہ اماں کے پاس ان کا فون چلا آیا کہ جی ہمیں آپ کی بیٹی پسند آگئی ہے۔ اب آپ بھی آکر ہمارے لڑکے کو دیکھ لیں۔ابا نے سنا تو تو بڑا حیران ہوۓ کہنے لگے نیک بخت یہ لوگ تو ہتھیلی پر سرسوں جمانے پر تلے ہیں ابھی دیکھ کر گئی ہیں اور آج ہی فون بھی کردیا اور اپنے گھر آنے کی دعوت بھی دے ڈالی۔

چند دن کے بعد بھیا اور ابا لڑکےکو دیکھ آۓ ان کو بھی لڑکا بہت پسند آیا۔یوں جلد ہی وہ شفق علی سے شفق بلال بن گئی۔

سسرال ْمیں بھی اس کی وہی عادت تھی ہر ایک کے کام بڑھ چڑھ کر کرتی اس کی انہی عادتوں کی وجہ سے سسرال میں جلد ہی اس کی جگہ بن گئی ہر کام میں اس کو آگے بڑھایا جاتا اس سے مشورہ لیا جاتا۔کبھی کبھی تو ایسا وقت بھی آیا جب وہ کبھی جٹھانی کبھی کسی نند کے کام میں لگی ہوتی اور بلال اس کا انتظار کرتے کرتے سوجاتا۔

★★*★★

"مجھے کام کےسلسلے میں کل دوسرے شہر جانا ہے اور اب تک نہ میرے کل پہنے کے لیے کپڑے تیار ہوۓ ہیں نہ  بیگ۔۔۔اتنی دیر تک کیا کررہی تھیں باہر؟"

اس رات بلال اس کا منتظر تھا۔

"بھابھی فواد کو لے کر ڈاکٹر کو دکھانے گئیں ہیں اس کو بہت تیز بخار تھا تو میں فروا کو سلارہی تھی۔"وہ وضاحت دیتے ہوۓ بولی۔

"تمہیں میری پروا نہیں میں کل سے تمہیں یہ بتانا چاہ رہا ہوں مگر صبح بھی تم ناشتہ دے کر بھابھی کی باری کی روٹی پکانے چل دیں۔"وہ سارے حساب آج ہی بےباق کرنا چاہ رہا تھا۔

"کل بھی تم میرے سونے کے بعد کمرے میں پتہ نہیں کب آئیں۔۔۔وجہ؟"

"کل ہمممم۔۔۔"وہ کچھ سوچتے ہوۓ بولی۔

"کل آپا ماہ نور کی میکسی سینے کے لیے دے کر گئی تھیں انہی پرسوں چاہیے تھی تو وہی اماں کے کمرے میں بیٹھی سی رہی تھی۔"

وہ ساری بات سن کر چپ چاپ کروٹ بدل کر لیٹ گیا۔

شفق کو لگا کچھ غلط ہوچکا ہے۔کئی دن لگے تھے اسے اپنی غلطی کی معافی ملنے میں۔وہ آئندہ کے لیے محتاط ہوچکی تھی۔

اس نے اپنے معمولات بدلنے شروع کئے تو لوگوں کے رویے بھی اس کے ساتھ بدلنے لگے۔وہ جو پہلے کسی کام کو نہ نہیں کہتی تھی اب عادت کے برخلاف کاموں کو انکار کرنے لگی صاف لفظوں میں نہیں کبھی بات ٹال دیتی یا پھر خود کو مصروف کرلیتی۔وہ مجبور تھی ایسا کرنے پر۔۔۔کیونکہ اس کا شوہر اس کی ان عادتوں سے ایک بار سخت ناراض ہوچکا تھا۔اب دوسری مرتبہ وہ غلطی دہراکر شوہر کا دل میلا نہیں کرنا چاہتی تھی۔

اب وہ بس اپنے ذمے لگےکام نمٹاکر بلال کے آنے سے پہلے فارغ ہوجاتی اس لیے بلال کو اب اس سے کوئی شکایت نہ تھی۔مگر گھر والے اب سسرال والوں کے رویے اسے دکھ دینے لگے تھے۔

★*★*★

اس صبح بلال نے اسے شام تک کے لیے امی کے یہاں چھوڑ دیا تھا۔

امی ابا اسے دیکھ کر کھل سے گئے۔ننھی عدینہ بھی فورا پھپھو سے آلپٹی۔بھابھی ناشتے کا پوچھنے لگی تو اس نے منع کردیا۔

دوپہر میں نماز اور کھانے سے فارغ ہوکر لیٹی تو ماں سے اپنے الجھن کہہ بیٹھی۔

"اماں ایک بات پوچھوں؟"وہ کچھ سوچتے ہوۓ بولی۔

"ہمممم۔۔"وہ تسبیح کے دانے گھماتے اس کی طرف متوجہ ہوئیں۔

"اماں جب تک میں سسرال میں سب کے کام بڑھ چڑھ کر انجام دیا کرتی تھی تو سب مجھ سے خوش رہتے تھے اب جو میں نے ان کے کہنے پر اپنے کام سے کام رکھنا شروع کیا  تو سب کے رویے بھی میرے ساتھ بدلنے لگے ہیں کبھی مجھے کسی کی ضرورت ہوتی ہے تو کوئی پلٹ کر نہ پوچھتا ہے نہ ہی میرا ہاتھ بٹانے آتا ہے۔جبکہ اپنی دونوں جٹھانیوں کے  کتنے ہی کام میں بغیر ان کےکہے نمٹادیتی تھی۔

اس دن مجھے بخار ہوا مگر رات کی روٹی مجھے ہی بنانی پڑی۔پھر ایک دن سبزی بناتے میری انگلی پر کٹ لگ گیا تب بھی بینڈیج لگا کر سبزی میں نے خود ہی بنائی۔" ماں کو اپنے دل کا حال سناکر چپ ہوئی تو وہ بولیں۔

"بیٹی خلق خداکو نفع دینا بھی عبادت ہے اس سے بھی اللہ راضی ہوتا ہے۔بلال نے تمہیں منع کیوں کیا اس کے پیچھے کوئی تو وجہ ہوگی؟"انہوں نے پوچھا۔

"وہ یہ چاہتے ہیں میں بس ان کو وقت دوں اور امی اب میں نے لوگوں کو دیکھ لیا ہے میں نے ہمیشہ جن کےساتھ اچھا کیا وہ لوگ سب بھول گئے انہوں نے کبھی پلٹ کر میرے لیے کچھ بھی نہ کیا جبکہ میں نے ان کا ہر مشکل میں ساتھ دیا۔"

وہ افسردگی سے کہتی چلی گئی۔

"میری بیٹی کیا تم جانتی نہیں کہ نیکی کا بدلہ سواۓ نیکی کے کچھ نہیں۔"

"نہیں امی اس دنیا کی ریت نرالی ہے یہاں نیکی کرو بھی تو کوئی یاد نہیں رکھتا بدلہ دینا تو دور کی بات ہے۔"

" بیٹی نیکی کا بدلہ وہی دیتا ہے جس کے لیے نیکی کی جاۓ۔ہم انسان سے نیکی کرکے یہ سمجھتے ہیں یہی مجھے اس کا بدلہ بھی دے دے گا ہم جانے انجانے میں اس سے بدلے میں اچھے رویے کی، تعریف کی یا پھر کسی نا کسی بھلائی کی امید لگالیتے ہیں۔پھر جب ہماری امیدوں کے برعکس ہوتا ہے تو ہمیں دکھ، غصہ اور مایوسی جیسی کیفیات اپنے گھیرے میں لینے لگتیں ہیں ۔"

"ٹھیک کہا امی آپ نے میرے ساتھ بالکل یہی ہوتا ہے۔ امی لوگوں کے یہی رویے تو دکھ دیتے ہیں۔

"بات ساری نیت کی ہے۔جب بھی کسی کی مدد کرو تو یہ نیت کرلو کہ اللہ پاک یہ تیرا بندہ ہے میں اس کی مدد تیری رضا کی خاطر کررہی ہوں تیری دی ہوئی توفیق سے کررہی ہوں اور تجھ ہی سے اس کا بدلہ چاہتی ہوں۔اپنی نیت کو خالص کرلوگی تو لوگوں کے رویے تمہیں ذرا برابر تکلیف نہ دے سکیں گے میری بچی۔"

اماں نے رسان سے سمجھاتے ہوۓ اس کے سر پر شفقت سے بوسہ دیا۔

شفق کی آنکھوں میں جانے کیوں نمی سی اتر آئی۔

"آپ نے ٹھیک کہا شاید میری ہی نیت درست نہ تھی میں لوگوں کے کام آکر یہ سوچتی تھی کہ وہ مجھے اچھا سمجھیں گے میرے گن گائیں گے اور بدلے میں ویسے ہی میرا خیال رکھیں گے۔میں غلط تھی۔"

"اب غلطی سدھارنے میں دیر نہ کرنا اپنا نیت صاف رکھو گی اور رب کی رضا کو مدنظر رکھو گی تو ہر انسان کے دل میں اللہ پاک تمہاری محبت ڈال دیں گے

حدیث شریف میں ہے کہ:

"لوگوں میں سب سے بہتر وہ ہے جو لوگوں کو نفع(فائدہ)دے۔"(صحیح بخاری و مسلم)"

"مگر امی ان کو میرا سب کے کام آنا پسند نہیں۔"وہ منہ بسور کر بولی۔

"ایسا نہیں ہے بیٹی۔۔۔تم اپنی اچھی عادت کو نہ بدلو جو بھی کام کرو وقت اور موقع کی نزاکت کو دیکھ کر انجام دو۔شوہر بیوی کی توجہ چاہتا ہے جب وہ سارا دن کا تھکا ماندہ گھر آۓ تو اپنی پوری توجہ اور وقت اسے دو پھر اسے کبھی تم سے کوئی شکایت نہ ہوگی۔"

"ہاں شاید یہی غلطی ہوئی مجھ سے اب ان شاءاللہ میں اپنی ہر غلطی کوشش اور ہمت کرکے جلد سدھارلوں گی۔اس کے لیے مجھے آپ کی دعاؤں کی اشد ضرورت ہے۔"وہ محبت سے ماں کا ہاتھ چوم کر بولی۔

"میری دعائیں ہمیشہ تمہارے ساتھ ہیں میری بیٹی۔"وہ اسے سینے سے لگاتے ہوۓ بولیں۔

★★**★★

ختم شد