عدنان کا دل بھی اب لائبہ سے اوب گیا تھا اس لیے اس کا نمبر بلاک کردیا تھا ۔ اس وقت تو اسے بس دوستوں کے آنے کی فکر تھی ، ورنہ جو یہ شیشے کا نشہ اس کی عادت بنتا جارہا تھا وہ کہاں سے ملے گا
حفصہ فیصل
تیسری قسط
افسر صاحب نے اس ٹھیلے پر شبے کا اظہار چھوٹے بھائی انظر علی سے کیا تو اس نے بھی تائید کی ۔اب دونوں بھائی قدرے پریشان ہورہے تھے۔ پھر دونوں کا اتفاق پولیس کی خدمات لینے پر ہوا۔ انسپکٹر خالد جو دونوں کے مشترکہ دوست تھے، ان سے تمام صورت حال ذکر کی گئی۔ انسپکٹر خالد نے سادہ لباس میں دو کارندے شوکت ٹریڈرز کے آس پاس تعنیات کردیے ۔
٭٭٭٭
"باس! کل رات کو شوکت ٹریڈرز کے کنٹینر پہنچ رہے ہیں۔ "
پکی خبر ہے؟
بالکل پکی
سوچ لو غلطی کی گنجائش نہیں۔۔
باس! حمزہ چوکتا نہیں ہے۔
ٹھیک ہے۔۔
کل سے شوکت ٹریڈرز کے زوال کے دن شروع ہونے والے ہیں۔ باس نے یہ کہہ کر ایک زوردار قہقہہ لگایا ۔
٭٭٭٭
عدنان! ادھر آئیے۔ مولوی ثاقب نے انتہائی تحمل سے پکارا۔
جی جی بابا جان!
کہاں سے آرہے ہیں ؟
و،و،وہ دوستوں کے ساتھ ۔۔۔عدنان ہکلایا۔
غالباً ظہر کے بعد ہمارا ملنا طے پایا تھا۔ مولوی ثاقب نے یاد دہانی کروائی۔
جی وہ ،وہ یاد نہیں رہا۔۔عدنان نے شرمندگی سے کہا۔
"عدنان! یہ آپ کس صحبت سے جڑ گئے ہیں؟ مجھے ایسی توقعات نہیں تھیں آپ سے۔" مولوی ثاقب انتہائی کرب سے بولے۔
بابا جان ! آئندہ احتیاط کروں گا۔
آئندہ؟؟ مولوی ثاقب نے استفہامیہ انداز سے کہا۔
پھر خود ہی سر نفی میں ہلاتے ہوئے افسوس کرنے لگے۔
مجھے اپنے دوستوں سے ملوائیے۔
دوستوں سے؟ اب کی بار چونکنے کی باری عدنان کی تھی۔
جی ہاں ! دوستوں سے۔۔ مولوی ثاقب نے مضبوط لہجے میں کہا۔
مگر بابا جان!
اگر ،مگر کچھ نہیں ، دوستوں سے کہیے کل شام کو مسجد میں نماز عصر ادا کریں۔ عصر کے بعد ان سے ملاقات ہوگی۔ مولوی ثاقب حتمی لہجے میں بولے۔
وہ نہیں آئیں گے۔۔ عدنان منمنایا۔
پھر آپ بھی کل سے ان سے ملنے نہیں جائیں گے بلکہ گھر سے باہر قدم نہیں نکالیں گے۔
کیا؟
ہاں!
٭٭٭٭
شوکت ٹریڈرز کا مال آج رات کوآرہا تھا۔ حمزہ کی معلومات کی تصدیق کروا کر باس نے اسے معاوضہ دے کر فارغ کردیا اب حمزہ ٹھیلا سمیٹ رہا تھا کہ سادہ لباس میں ملبوس ایک پولیس اہلکار راہ گیر بن کر حمزہ کے سامنے آیا۔
بھیا ! ابھی تو دوپہر ہے ابھی سے ٹھیلا سمیٹنے لگے؟
حمزہ بھری جیب کے ساتھ مختلف خیالوں میں گم تھا ایک لمحے کے لیے کچھ سمجھ نہ پایا ۔
ہاں, ہاں وہ اپنا کام ہوگیا بس!
کیا مطلب؟ راہ گیر نے کریدا۔
حمزہ اپنے ہی کہے پر گڑبڑا گیا۔
و، و، وہ ۔۔۔مطلب کچھ کام ہے گھر پر اس لیے۔۔
حمزہ نے بات بنائی۔
"اچھااا! وہ مجھے کچھ چیزیں چاہیے تمہارے ٹھیلے سے۔۔۔" راہ گیر نے بھی بات گھمائی۔
ہاں ،ہاں! بتاؤ کیا چاہیے؟ حمزہ نے پنیترا بدلا۔
راہ گیر چیزیں اٹھا کر دیکھنے لگا،
کب سے ٹھیلا لگا رہے ہو، پہلے تو کبھی نہیں دیکھا تمہیں؟
چند دن ہی ہوئے ہیں صاب!
اچھا! یہاں سے قریب رہتے ہو یا دور؟
کچی بستی میں رہتا ہوں صاب !
حمزہ دوبارہ اپنے چولے میں آچکا تھا لیکن اب اسے نکلنے کی جلدی تھی مگر وہ راہ گیر بات سے بات نکال رہا تھا ۔
"صاب! ذرا جلدی لےلو جو لینا ہے۔۔ مجھے دیر ہورہی ہے۔ "حمزہ سختی سے بولا۔
اسی دوران انسپکٹر خالد موبائل کے ساتھ وہاں پہنچے ۔
ہاں بھئی کیا ہورہا ہے یہاں ؟
کچھ کچھ نہیں جناب ! بس ٹھیلے والے سے کچھ ضروری چیزیں لینی ہیں۔
اچھاا یہاں ایک مشکوک آدمی کو دیکھا گیا ہے اس لیے علاقے میں ہر اجنبی کی تلاشی لی جارہی ہے ۔ تم دونوں کی بھی تلاشی ہوگی۔
"جی جی لے لیجیے۔۔ "راہ گیر نے مثبت جواب دیا ۔
کیا مطلب ہے ؟ تلاشی! حمزہ بے ساختہ بولا۔
حمزہ کی گھبراہٹ کو انسپکٹر خالد سمیت سب نے محسوس کیا۔
"کیوں؟ تمہیں کیا اعتراض ہے؟ کیا تم کسی مشکوک سرگرمی میں مبتلا ہو؟"
نہیں نہیں سر! حمزہ نظریں پھیر کر بولا۔
تلاشی لو دونوں کی۔۔ انسپکٹر خالد نے تحکمانہ انداز سے ماتحتوں سے کہا۔
حمزہ کی تلاشی لینے کے لیے ایک ماتحت آگے بڑھا اور حمزہ کے جیب سے پانچ سو اور ہزار کی گڈیاں بر آمد کرلی گئیں ، حمزہ دوڑ لگانا چاہتا تھا مگر پولیس اہلکار چوکنا تھا، اس کی کوشش کو ناکام بنادیا گیا۔
"لڑکے ! اب تم پکڑے گئے ہو، سب کچھ سچ سچ بتادو ورنہ تم جانتے ہو ہمیں سچ اگلوانا بھی آتا ہے۔"
حمزہ اس ساری کارروائی میں ہکا بکا ہوگیا تھا اسے اپنے پکڑے جانے پر اب تک یقین نہیں تھا، اسے اپنی مکاری اور چالاکی پر بہت بھروسا تھا لیکن اس بار پانسہ پلٹ چکا تھا۔ اب حمزہ کو گھٹنے ٹیکنے ہی تھے۔
٭٭٭٭
لائبہ کی دو دن سے عدنان سے بات نہیں ہوئی تھی وہ جلے پیر کی بلی بنی سارے کمرے میں گھوم رہی تھی ،عدنان کا فون مسلسل بند جارہا تھا۔ لائبہ غصے میں سارے کمرے کو اتھل پتھل کرچکی تھی۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ ہر چیز کو تہس نہس کردے ، ضد، غصہ اور ہڈ دھرمی اس کی فطرت میں شامل ہوچکی تھی ۔
زینت بیگم کو بھی لائبہ کے غصے کاپتہ چل گیا تھا مگر وجہ کیا ہے وہ نہیں جانتی تھیں۔
ارے میری گڑیا ! کیوں ناراض ہورہی ہے آج؟
"دادو! اس وقت مجھے پریشان نہ کریں "لائبہ کن پٹی مسلتے ہوئے بولی۔
ارے ایسا بھی کیا مسئلہ ہے جو دادو کو نہیں بتاؤ گی؟ زینت بیگم پچکارتے ہوئے بولیں۔
دادو پلیز! ساتھ ہی لائبہ کا اشارہ دروازے کی طرف تھا۔
زینت بیگم پوتی کی ایسی جسارت کی توقع ہرگز نہیں کررہی تھیں ۔ جس پوتی کو انہوں نے ہتھیلی کا چھالا بنائے رکھا آج وہ ہی انہیں دھتکار رہی تھی ، اسے ہی مکافات عمل کہتے ہیں۔ مگر زینت بیگم اب تک اپنے زعم میں تھیں ابھی رسی مزید کھنچنی تھی۔
٭٭٭٭
حمزہ پولیس کا وعدہ معاف گواہ بن چکا تھا، رات کو جب شوکت ٹریڈرز کا مال پہنچا تو باس اور اس کے آدمی نے کنٹینر پر حملہ کرنا چاہا لیکن موقع پر ہی انسپکٹر خالد اور اس کی ٹیم نے انہیں دبوچ لیااس طرح یہ قصہ تمام ہوا۔۔۔ انسپکٹر خالد سے انہیں پتا چلا کہ باس مارکیٹ کی ایک باوقار شخصیت ہے۔ افسر صاحب کی پریشانی دو چند تھی ، وہ سوچ رہے تھے، حاسدین اس حد تک بھی جاسکتے ہیں ۔
٭٭٭
ادھر عدنان یہ سوچ سوچ کر پریشان ہورہا تھا کہ نہ جانے اس کے بگڑے دوست اس کے بلاوے پر آئیں گے یا نہیں، اس نے اسد کو پیغام تو بھیج دیا تھا لیکن ان کے آنے کی رتی برابر بھی امید نہیں تھی۔ دو دن سے اس نے لائبہ کا نمبر بھی بلاک کیا ہوا تھا۔ لائبہ کی تسلط پسند شخصیت عدنان کو اب چھب رہی تھی شروع شروع میں تو عشق کا بھوت سوار تھا اب دوستوں کی پڑھائی پٹیوں میں ایک یہ بھی تھی کہ لڑکی کو خود پر سوار مت ہونے دینا ،تو نہیں اور سہی کے اصول پر کاربند رہو اسی میں فائدہ ہے۔
عدنان کا دل بھی اب لائبہ سے اوب گیا تھا اس لیے اس کا نمبر بلاک کردیا تھا ۔ اس وقت تو اسے بس دوستوں کے آنے کی فکر تھی ، ورنہ جو یہ شیشے کا نشہ اس کی عادت بنتا جارہا تھا وہ کہاں سے ملے گا۔۔۔ عدنان اپنے والدین کی عزت اور خاندان کی روایات سب کچھ فراموش کربیٹھا تھا اسے یاد تھا تو بس اپنا نفس ، جس نے اسے مکمل اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔(جاری ہے)