شعیب صاحب ویری امیزنگ بلکہ افسوس سے کہہ رہی ہوں یہ ہمارے ہاسپیٹل کی ہسٹری کا پہلا کیس ہے کہ بے بی نہ لڑکا ہے نہ لڑکی‘‘ ڈاکٹر عالیہ نے شعیب کو اپنے کمرے میں بلوا کر سنجیدگی سے کہا

 اُم حیات ہنگورا

آخری قسط

’’یہ معراج کے پیدا ہونے سے کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے۔ آپ کے ساتھ کچھ لوگ تھے جو مجھے اور کچھ اور میری ساتھیوں کو دیکھ کر بدتمیزی کررہے تھے اور جن سے آپ الجھ گئے تھے‘‘

’’وہ تو اصل میں ان میں صرف ایک میرا دوست تھا اور اس کے بہت اصرار پر میں‘‘ شعیب اتنا کہہ کر رُک گیا۔

’’مجھے بھی بہت حیرت ہوئی تھی کہ سوائے آپ کے باقی سب انتہائی گھٹیا اور فحش زبان استعمال کررہے تھے اور پھر آپ ان سے ہم لوگوں کے لیے اُلجھ پڑے تھے‘‘ گل خان اتنا کہہ کر رُکا۔

’’ہاں مگر میری ان لوگوں سے پھر کبھی دوبارہ نہ ملاقات ہوئی اور میری اس دن کے بعد سے اس دوست سے دوستی بھی تقریباً ختم ہوگئی تھی۔ مجھے بہت ہی شدید افسوس تھا کہ میں ان کے ساتھ کیوں گیا تھا؟‘‘ شعیب افسردگی سے بولا۔

’’کچھ لوگوں کے دل میں اتنا کینہ ہوتا ہے کہ وہ موقع ملتے ہی اپنے بغض اور کینے سے دوسروں کی خوشیاں چھین لیتے ہیں۔ اتفاق سے معراج کی پیدائش والے دن گاڑی کی ٹکر نے مجھے اسپتال پہنچایا وہیں پر ان میں سے ایک شخص جو آپ کے ساتھ تھا اس دن ڈاکٹر سے الجھ رہا تھا۔ پھر نہ جانے اس نے ایسا کیا کہا کہ ڈاکٹر نے نرس کو بلوایا اور پوچھا۔ ’’مسز شعیب کے کیس کا کیا ہوا؟‘‘ ڈاکٹر نے پوچھا ’’بس میں آپ کو بلوانے آرہی تھی‘‘

’’ڈاکٹر یہ پاؤں پر خراش آگئی ہے وہ انجکشن لگوانا ہے‘‘ گلو آپا ادھر گائنی وارڈ میں تم کیا کررہی ہو‘‘ نرس غصے سے بولی۔

’’یہ میرے ساتھ ہے ڈاکٹر کے ساتھ جو شخص الجھ رہا تھا اس نے نہ جانے کیا سوچ کر کہا۔ آپ جائیں اس شخص نے ڈاکٹر سے کیا۔ تو وہ نرس کو لے کر چلی گئی۔ ’’سنو اگر تم میرا ایک کام کردوں تو میں‘‘ وہ شخص بولا۔ ’’مجھے نہیں پہچان پایا حیرت ہے‘‘ گلو آپا نے دل میں سوچا۔

’’ابھی بھی سوچ لو عمران۔ تمہارے بھی بچے ہیں‘‘ ڈاکٹر نے اندر آکر کہا۔

’’چلو پھر ایسا کرو کہہ دو بچہ مخنث ہے اور اس کے حوالے کردو۔ اس شخص نے میری طرف اشارہ کیا۔

’’صاحب ہم ایسے لوگ نہیں ہیں‘‘ گل خان کچھ کچھ سمجھ گیا تھا۔ بہرحال اس نے ایک دنیا دیکھی تھی۔

’’ٹھیک ہے میں کسی کچرا کونڈی میں ڈلوادوںگا مگر بہرحال مجھے یہ بچہ چاہیے‘‘ عمران نے سختی سے ڈاکٹر کو دیکھتے ہوئے کہا۔

’’اچھا میں لے جاؤں گا‘‘ گل خان نے اس کی بات سن کر کہا اور جب مجھے تم میرا مطلب ہے آپ نے اپنے ہاتھوں سے بچہ دیا تو میری سب سمجھ میں آگیا‘‘ گل خان نے بات مکمل کی۔

٭٭٭٭

’’گل خان ظلم کرنے والا تو ظلم کرگیا مگر میرے پروردگار نے میرے بچے کی کیسے حفاظت کی‘‘ شعیب نے نم آنکھوں سے کہا۔

’’مگر شعیب بھائی بہرحال آپ کو سوچے سمجھے بغیر‘‘ اب بابر (ببلی) بولا۔

’’میں تم کو اس وقت کی کیفیت اور حالات کیسے سمجھاؤں بس سمجھو عقل ماری جاتی ہے۔

٭٭٭٭

’شعیب صاحب ویری امیزنگ بلکہ افسوس سے کہہ رہی ہوں یہ ہمارے ہاسپیٹل کی ہسٹری کا پہلا کیس ہے کہ بے بی نہ لڑکا ہے نہ لڑکی‘‘ ڈاکٹر عالیہ نے شعیب کو اپنے کمرے میں بلوا کر سنجیدگی سے کہا۔

’’لڑکا نہ لڑکی‘‘ شعیب نے دہرایا۔

’’ایسے بچوں کو ایسے لوگوں کو ہی دے دینا بہتر ہوتا ہے‘‘ شعیب کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کہے اتنے میں شعیب کے موبائل فون کی گھنٹی بجی۔

’’کہاں ہو شعیب، امی جان کو اسپتال آنا ہے‘‘ محمود بڑے بھائی دوسری طرف فون پر تھے۔

’’محمود بھائی آپ اس وقت کہاں ہو؟‘‘ ’’آفس سے نکل رہا ہوں‘‘

’’آپ پہلے اسپتال آجائیں مجھے ضروری کام ہے‘‘ ’’اچھا میں آتا ہوں‘‘

’’دیکھیے میں اتنی دیر سے مسٹر شعیب کو سمجھا رہی ہوں‘‘ محمود بھی ڈاکٹر کی بات سن کر پریشان ہوگیا۔

’’اور کوئی حل نہیں ہے‘‘ محمود نے پوچھا۔

’’میرے علم میں نہیں ہے اور پھر آج نہیں تو کل‘‘ ڈاکٹر نے اتنا ہی کہا اب ۔۔۔۔

’’کیا کروں بھائی؟ ‘‘ شعیب نے محمود کو دیکھا۔

’’کچھ سمجھ میں نہیں آرہا‘‘ اب محمود اتنا ہی بولا۔

’’اتفاق سے ایک مخنث ہمارے اسپتال میں اس وقت آیا ہوا ہے۔ ویسے بھی میں نے سنا ہے جہاں ایسے بچے ہوتے ہیں اسے لینے یہ لوگ وہاں پہنچ ہی جاتے ہیں۔ آپ چپ چاپ دے دیں کسی کو خبر بھی نہ ہوگی اور پھر میں نے محمود بھائی کے کہنے پر بچہ تم کو دے دیا خیر فیصلہ میرا اپنا ہی تھا‘‘ شعیب نے یہ کہہ کر ٹھنڈی آہ بھری۔ بابر اور گل خان آنکھوں سے آنسو صاف کرنے لگے ’’مگر اب ہم نے مل کر کام کرنا ہے‘‘ یہ کہہ کر شعیب طمانیت سے مسکرائے۔

٭٭٭٭

’’میں نے سنا ہے یہاں پر‘‘ ایک باپردہ خاتون ایک چھ یا سات سالہ بچے کے ساتھ کمرے میں داخل ہوئیں۔ ’’تشریف رکھیے کیا ان کے والد صاحب نہیں ہیں‘‘ بابر نے اکیلی خاتون سے پوچھا۔

’’نہیں اس کی پیدائش پر اس کے والد صاحب نے مجھے طلاق دے دی‘‘ انہوں نے بچے کی طرف اشارہ کیا۔

’’یہ داخلہ فارم بھردیں، مگر یاد رکھیں یہ آپ کی محبت کے حقدار ہیں‘‘ آپا گل خان بولا۔

’’میں ملنے آتی رہوں گی‘‘ خاتون بولیں۔

’’ضرور‘‘ گل خان نے کہا۔

٭٭٭٭

’’یہاں پر دینی تعلیم ہی نہیں ہنر بھی سکھایا جاتا ہے تاکہ ایسے بچے کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلائیں‘‘ آنے والے بزرگ سے بابر نے کہا۔

’’ہاں جی مجھے پتا چلا تو میں اسے یہاں لے آیا اس کو اس کی ماں چھوڑ کر چلی گئی۔ باپ اس کا پردیس چلا گیا میں اس کا دادا ہوں مگر میری زندگی کا کوئی بھروسا نہیں اور زمانہ اس کو‘‘ اتنا کہہ کر بزرگ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔

٭٭٭٭

جس طرح ذہنی معذور بچے ہوتے ہیں۔ اسی طرح یہ جسمانی معذور بچے ہوتے ہیں۔ الفاظ نہیں ہیں کہ ان لوگوں کا دردکیسے بیان کیا جائے۔ یہ بھی تو ہماری طرح انسان ہی ہیں۔ ان کو حقیر نہ جائیے بلکہ ان کو عزت دیجیے تاکہ یہ معاشرے کے کارآمد فرد بن سکیں۔ میری اس  کہانی کا مقصد سب تک پہنچانا تھا۔ ایسے بچوں کے والدین سے گزارش ہے کہ اپنے جگر گوشوں کو خود سے علیحدہ نہ کریں یہ قابل نفرت نہیں ہیں آپ سے آخرت میں ان کے متعلق سوال کیا جائے گا۔ یہاں کی آزمائش کو آخرت کا گناہ نہ بنائیے۔