بیٹا! دس روز پہلے کراچی  سے واپسی پر وہ عابدہ کو ساتھ لا رہی تھی جبکہ تمہارا ابو یہ نہیں  چاہتا تھا ،وہ ناراض ہوکر پہلی گاڑی میں گاؤں آگیا۔ پیچھے والی گاڑی پر اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا گاڑی حادثے کا شکار ہوگئی۔ امی عابدہ زاہدہ سب اللہ کو پیارے ہو گئے

 مہوش اشرف

آخری حصہ

 کریم داد زمینوں پر ہی موجود  تھا۔ اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر درانتی  کا استعمال سکھایا۔ یہ پہلی اور آخری بار تھا، جب کریم داد نے مجھے پیار سے چھوا تھا، اس کے بعد تو زندگی کی کشتی کسی

طوفان کی نذر ہوگئی تھی۔ سارا سارا دن گھر اور کھیت کے کام اور رات کو نشے میں دھت کریم داد کی ننگی گندی گالیاں اور مار۔ چار چار دن وہ گھر نہیں آتا تھا۔ شراب کی لت سے گھر کی برکت جاتی رہی ۔پہلے بیل بکے اور پھر گھر کا سامان، گھر میں روٹی کے لا لے پڑ گئے۔ غربت ، میکے جانے پر پابندی اور ملنے والیوں سے قطع تعلقی نے زندگی اور جہنم بنا رکھی تھی، اگر کبھی کسی سے بات کر لیتی تو ساس الگ ایک کی چار کریم داد سے لگاتی پھر وہ گرم سگریٹ سے میرا جسم جلاتا۔

ابا نے پلٹ کر نہیں  پوچھا اور سال بعد اظہر بھیا آئے تو میری طرفداری کرنے پر انہیں چار سال پھر واپس نہ آنے کے لئے کراچی بھیج دیا گیا۔ اب کی بار خرچہ لینے سے بھیا نے انکار کر دیا تھا۔

میں بھیا کے سامنے بالکل نہیں روئی تھی ،پر اس کے پلٹ جانے کے بعد میں  پھوٹ پھوٹ کر روئی تھی۔

 ایسے میں سہیل کے آنے کی خوشخبری نے زندگی میں کچھ سکون فراہم کیا۔ اب میں اپنے آنے والے بچے کے ساتھ زندگی جینے لگی تھی۔

امی زمین پر کبھی روٹی کھلا دیتیں اور ڈوپٹے  کے پلو سے اپنے اور میرے آنسو صاف کرتی جاتیں۔ وہ بھی میری طرح بے بس تھیں اور اب میں  سمجھنے لگی تھی کہ وہ بھی میری طرح زندگی جی رہی ہیں۔

ایسے میں  میں ، شب و روز اپنے رب سے دعا کرتی کہ الہی مجھے بیٹی نہ دینا اور اگر دینا تو  اچھے نصیبوں والی دینا۔

عابدہ کی شادی پر مجھے امی ابا کے ساتھ جب لینے آئیں تو میری ساس نے میری طبعیت کا بہانہ کیا۔

”شاہدہ کی ماں!  تم تو خود بچوں والی ہو جانتی ہو ،شادی کے گھر میں  احتیاط نام کی کوئی چیز نہیں  ہوتی۔ تم تو لگی ہوگی مہمان داری میں  اور وہاں میری بہو کی خدمت کون کرے گا‍۔ میرا ایک ہی ایک بیٹا ہے اور اس کے گھر پہلی  خوشی ہے۔ ہم اتنی بڑی لاپروائی نہیں کر سکتے تمہیں بھلا لگے یا برا ہماری بہو تمہاری بیٹی کی شادی میں نہیں جائے گی۔ کریم داد شہر گیا ہے اور میں اس کی خدمت میں  لگی ہوں تو ہماری طرف سے بھی معذرت ہی سمجھو۔ “

امی ابا نامراد واپس پلٹ گئے اور ان کے جانے کے بعد میں خوب روئی ،کتنا دل تھا میرا جانے کا، حسرتیں پالنا ہی اس دل کا واحد کام رہ گیا تھا۔

عابدہ کی شادی  خالدہ خالہ کے بڑے بیٹے ظہیر بھیا سے ہوگئی اور وہ کراچی چلی گئی مجھ سے بنا ملے۔ میں  نے اس کو دلہن بنا دیکھنا تھا ۔کتنے شکوے کئے تھے اس رات اللہ سے۔ جب ہم امی کے گھر تھے تو دادی اور ابا سے چھپ کر ایک دوسرے کو لال ڈوپٹا پہنا کر دلہن بنایا کرتے تھے کتنی پیاری لگتی تھی عابدہ ۔میں  خیالوں میں اسے رات بھر دلہن بناتی رہی۔

٭٭٭

سہیل کی پیدائش پر گھر میں  جشن کا سماں تھا، پر ساتھ ہی دل چیر دینے والی خبر گھر آئی، امی نے دروازے سے ہی  کریم داد کو ڈرتے ڈرتے اطلاع دی کہ وہاں کراچی میں ایک روڈ ایکسیڈنٹ میں ظہیر بھائی کا انتقال ہوگیا ہے اور وہ سب کراچی جا رہے ہیں۔

میری نظر میں نو بیاہتا عابدہ کی تصویر گھوم گئی، مجھے پیدائش کی کمزوری تو تھی ہی ساتھ بہن کا غم  بھی میں  بستر سے لگ گئی۔ کریم داد  نے میرے میکے والوں کا داخلہ بھی یہ کہہ کر بند کر دیا کہ منحوس لوگ ہیں۔ اس کو چلے میں پڑی بیمار عورت سے کوئی غرض نہیں تھی سو اس نے کراچی کا رخ کیا۔ فصل تیار کھڑی تھی ، زمیندار نے کسی اور کو زمین کا ٹھیکا دے دیا۔ روٹی کے آثار جاتے رہے ساس نے زمیندار کی حویلی کا رخ کیا، وہاں اس کی زمیندارنی سے اچھی بنتی تھی تاکہ وہ گھر کچھ اناج لائے اور پوتے کی ماں صحت یاب ہوکر دوبارہ سے غلامی کرے۔ میں نے بہن کا غم غلط کیا اور ننھی جان سہیل کی طرف توجہ دی پیٹ بھر روٹی  اور بیٹے کی صورت نے ہفتے بھر میں  کھڑا کر دیا۔

اب میں نے دوبارہ سے وہی شب و روز محنت شروع کردی، دس دن کا اناج زمیندارنی سے مل گیا تھا جو ختم ہونے کو تھا ادھر کریم داد کا کچھ اتا پتا نہیں تھا۔

 

٭٭٭٭

چار دن ہونے کو آئے گھر میں  ایک وقت اناج کھاتی اور سارا دن کام کرتی میری ہمت جاتی رہی اور جب سہیل کو دودھ نہ اترا تو مجھے درانتی یاد آئی۔ یہ سسرال میں  میری دوسری فصل  کٹائی تھی۔ اب مجھے درانتی چلانی خوب آتی تھی۔ ساس سے اجازت لے کر میں نے زمینوں کا رخ کیا۔ پر بات کس سے کروں نہ اماں دکھائی دیں نہ ابا، ہاتھ میں درانتی لیے  کھڑی سوچ ہی رہی تھی کہ چاچی عزیزہ امی کی پڑوسن میری جانب آتی دکھائی دی۔

”شاہدہ! تو ابھی تو تو چلے میں  ہے نا! صحت تو اچھی نہیں  لگ رہی تیری ،کیوں آئی ہے ۔“

ہاتھ میں  درانتی دیکھ کر اس نے مجھ سے سوال کیا اور ساتھ عجیب طریقے سے مجھے گلے لگا لیا جیسے پُرسہ دے رہی ہو مجھے وحشت ہونے لگی ۔

”چاچی! اماں کہاں ہے؟“ میں نے پریشانی میں سوال کیا۔

بیٹا! دس روز پہلے کراچی  سے واپسی پر وہ عابدہ کو ساتھ لا رہی تھی جبکہ تمہارا ابو یہ نہیں  چاہتا تھا ،وہ ناراض ہوکر پہلی گاڑی میں گاؤں آگیا۔ پیچھے والی گاڑی پر اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا گاڑی حادثے کا شکار ہوگئی۔ امی عابدہ زاہدہ سب اللہ کو پیارے ہو گئے۔ “

میں چکرا گئی: ”دس روز ہوگئے کسی نے اطلاع نہیں دی اور اظہر بھیا میں  نے روتے ہوئے  پوچھا۔

”ہاں بیٹا تمہارے ابا نے یہاں میتیں لانے سے انکار کر دیا تھا۔ وہیں اظہر نے کراچی میں  ہی تدفین کر دی۔“ چاچی عزیزہ نے جواب دیا

”ابا اور دادی؟ میرے ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے۔

”تیرے ابا نے فقیر محمد کی بیٹی رخسانہ سے نکاح کر لیا اور گھر لے آیا۔“چاچی عزیزہ نے مزید بتایا‍۔

میں گھر واپس کیسے آئی میں نہیں جانتی میں گھر کے صحن میں  بے ہوش ہو گئی۔ آنکھ کھلی تو کریم داد  ہاتھ میں  پانی کا گلاس لیے میرے منہ پر چھینٹے ڈال رہا تھا،مجھے گالیاں دے رہا تھا ساتھ اپنی ماں پر غصہ کر رہا تھا۔

میں  جیسے تیسے اٹھ کر بیٹھی کریم داد سہارے سے مجھے کمرے میں  لے آیا۔

” کیا میں مر گیا تھا جو تو گھر سے نکلی۔“کریم داد غصے سے پاگل ہوا جا رہا تھا پہلی بار اس نے میری حالت پر رحم کھایا اور ہاتھ نہیں اٹھایا۔

کریم داد شہر سے کچھ کھانے کو لایا تھا۔ مجھے بھی کھانے کو دیا۔ سہیل رو رہا تھا۔ معصوم کو دودھ کے چند قطرے ملے تو سو گیا۔ میں بھی نقاہت میں تھی نیند لگ گئی۔

زندگی ایسے ہی چلتی رہی وقت گزرتا رہا۔ اب مجھے ان سارے کاموں اور باتوں کی عادت ہوگئی تھی۔ شادی کے پانچ سالوں میں سہیل کے بعد اوپر تلے اللہ نے مجھے تین بیٹیاں بھی دیں۔ کہتے ہیں بیٹیوں کی مائیں سمجھدار ہوتی ہیں سو بیس سال کی عمر میں  میں چالیس کی دکھائی دینے لگی۔ کریم داد نہ بدلا اور نہ اس کی ماں۔

ایک دن دروازے پر دستک ہوئی ،کریم داد وہیں کسی سے باتیں کرتا ہوا اُسے مہمان خانے میں اندر لے آیا۔

مجھے اور بچوں کو آواز دی ،سہیل دوڑ کر میرے پاس اپنی کھلونا گاڑی لے آیا۔ میں مہمان خانے تک آئی آواز جانی پہچانی تھی ۔یہ تو اظہر بھیا کی آواز تھی، میرے اندر کمرے میں  داخل ہوگئی۔ بھیا کے گلے لگی تو امی عابدہ اور زاہدہ کا غم تازہ ہوگیا۔

”نہ پگلی روتے نہیں“ بھیا نے ساتھ بٹھا لیا وہ بول رہا تھا تو لگ رہا تھا امی بول رہی ہیں۔

پانچ سال اظہر بھیا نے کراچی میں اکیلے محنت مشقت میں کاٹے ساتھ پڑھائی کرتے رہے اور خیر سے نوکری لگ گئی تھی، وہ سب کے لیے  کپڑے اور تحائف لائے تھے۔ یہ پہلی بار تھا جب میرے میکے سے کسی کو عزت دی گئی تھی۔ میں خوش تھی، پر بھیا نے میرے گھر کا پانی بھی نہیں پیا اور رسم و رواج نبھا کر چلے گئے‍۔

بھیا نے ہمیں کراچی بلایا تھا، ان کی شادی اچھے لوگوں میں ہو رہی تھی۔ کریم داد نے فون پر بھیا سے کراچی آنے کا وعدہ کر لیا تھا۔ میں  بہت خوش تھی پر قسمت کو میری خوشی منظور نہ تھی کریم داد کی ماں بیمار ہوگئی اور ایسی بیمار پڑی کہ اللہ کو پیاری ہوگئی۔

بھائی بھابھی میت میں آئے۔ پر  داد نے عزت نہ دی الٹا بھابھی کو منحوس قرار دے دیا۔ بھیا خاموشی سے واپس چلے گئے۔

 میں  چاہتی تھی کہ سہیل اسکول جائے۔ چار سالہ سہیل ذہین بھی تھا۔ چاچی عزیزہ کا بیٹا مڈل اسکول کا ٹیچر تھا۔ میں نے کریم داد کا اچھا موڈ دیکھ کر کان میں  بات ڈال دی۔ کریم داد نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اس کا اپنا نشہ پانی مسئلہ تھا ساتھ ہم پانچ لوگوں کی روٹی مشکل تھی۔ میری مشکلات میں ساس کے انتقال کے بعد مزید اضافہ ہوتا گیا پہلے تو وہ چند روز کا راشن زمین دارنی سے لے آیا کرتی تھی پر اب اس کا بھی کوئی امکان نہیں تھا۔ کریم داد کراچی گیا تھا پیچھے گھر میں کھانے کو کچھ نہیں تھا ساس کی فوتگی پر بھیا نے جو رقم دی تھی وہ ختم پر تھی۔ میں نے درانتی نکالی، بچے لیے اور زمینوں پر چل دی۔ میں چاچی عزیزہ سے سہیل کی بات کر رہی تھی کہ آگ بگولہ کریم داد اللہ جانے کہاں سے آگیا اور کلہاڑی کا ایک وار میرے سر پر کیا، میرے سر سے خون بہ نکلا اور میں وہیں کھیتوں میں  ڈھیر ہوگئی۔

آنکھ کھلی تو چاچی عزیزہ نے اپنے ڈوپٹے سے میرا سر بندھ رکھا تھا اور کریم داد پاس کھڑا تھا۔میرے چاروں جانب بچے تھے ۔

کریم داد نے میرے باہر نکلنے کو  بہانہ بنایا تھا۔ وہیں زمینوں پر مجھے طلاق دے دی گئی۔

چاچی عزیزہ نے فون کر کے بھیا کو اطلاع دی اور یوں ہم سب کراچی آ گئے۔

 بھیا بھابھی اچھے لوگ تھے زندگی گزرتی رہی میرے بچے پڑھائے انہوں نے بیٹیوں کی شادیاں کیں، سہیل نوکری کر رہا تھا اور میں سکون سے مر سکتی تھی۔

”شاہدہ! شاہدہ! آنکھیں کھولو میری بہن۔“اظہر بھیا کی آواز کان سے ٹکرائی تو شاہدہ ماضی سے حال میں  آ کھڑی ہوئی۔

”بھیا میں  تمہاری شکر گزار ہوں ۔ میرے بعد میری بیٹیوں کی خبر گیری رکھنا، جیسے میری رکھتے تھے اور روزِ محشر گواہی دینا کہ میں  نے امی ابا کی لاج رکھی تھی۔“

یہ کہہ کر شاہدہ ہمیشہ کے لیے  پر سکون نیند سو گئ۔