خیر اب میڈیکل سائنس اتنی ترقی کرچکی ہے کہ اگر ایسا کوئی بچہ ہوتا ہے تو بذریعہ آپریشن اس کو لڑکی یا لڑکے میں چینج کردیا جاتا ہے۔ اسّی 80 فیصد یہ ممکن ہے۔
اُم حیات ہنگورا
پانچویں قسط
’’ڈاکٹر صاحب، مخنث بچے کیسے ہوتے ہیں؟‘‘
’’کیا مطلب ہے آپ کا‘‘ ڈاکٹر نے چونکتے ہوئے مریضہ کو دیکھا۔
’’وہ میں ایسے ہی پوچھ رہی تھی‘‘
’’ان دنوں میں ایسی باتیں نہیں سوچنی چاہئے، ویسے یہ آپ کا کون سا بے بی ہے‘‘
’’چوتھا‘‘ وہ بولی۔
’’پہلے’’ڈاکٹر نے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
’’ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے‘‘
’’اور تیسرا‘‘ ڈاکٹر نے پوچھا۔
’’وہ نہ لڑکا تھا نہ لڑکی‘‘
’’اچھا‘‘ اب ڈاکٹر چونکی۔
’’آپ کی فائل کہاں ہے، پرانی‘‘
’’وہ تو شاید کہیں آگے پیچھے ہوگئی ہے‘‘
’’ویری اسٹرینج، کیس کہاں کروایا تھا‘‘
’’اسی اسپتال میں‘‘
’’کونسی ڈاکٹر کے پاس ؟‘‘
’’ڈاکٹر عالیہ‘‘
’’اوہ ان کی تو پچھلے سال ڈیتھ ہوگئی ہے‘‘
’’اچھا آخری اُمید بھی دم توڑ گئی‘‘ وہ دل میں سوچنے لگی۔
’’میں آپ کا کیس ڈسکس کروں گی چوتھا مہینہ ہے ایک بڑا الٹرا ساؤنڈ ہوگا پھر ہی میں کچھ کہہ سکتی ہوں‘‘
’’ویری لکی مسز شعیب یہ بے بی نارمل ہے‘‘ ڈاکٹر نے الٹرا ساؤنڈ دیکھ کر کہا۔
’’تو کیا یہ الٹرا ساؤنڈ میں معلوم ہوجاتا ہے‘‘
’’ہو تو جاتا ہے مگر مسز شعیب آپ کے آخری بچے کی وجہ سے میں نے ذرا مختلف الٹرا ساؤنڈ کروایا تھا۔ خیر اب میڈیکل سائنس اتنی ترقی کرچکی ہے کہ اگر ایسا کوئی بچہ ہوتا ہے تو بذریعہ آپریشن اس کو لڑکی یا لڑکے میں چینج کردیا جاتا ہے۔ اسّی 80 فیصد یہ ممکن ہے۔ آپ کا تیسرا بے بی کہاں ہے‘‘
’’وہ‘‘ یہ کہہ کر صائمہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
’’اچھا سب باتوں کو دماغ سے نکال دیں ورنہ اس بچے پر بھی برے اثرات پڑھ سکتے ہیں۔ یہ دوائیں استعمال کریں اور ہر ماہ چیک اپ کے لیے آئیں۔
٭٭٭٭٭
’’اس کو اسکول میں داخل کروانا ہے ببلی’’
’’تو کروالے مجھ سے کیوں پوچھتی ہے آپا گلو‘‘
’’اس کے ماں باپ کون ہیں کیسے بتائیں گے؟‘‘ آپا گلو نے پریشانی کے عالم میں کہا۔
’’تجھے جھوٹ بولتے ہوئے کونسا سوچنا پڑتا ہے۔ ہر وقت ایک نئی کہانی ہے تیرے پاس‘‘ ببلی نے کہا۔
’’جھوٹ‘‘ آپا گلو بڑبڑائی۔
’’یہاں سب جھوٹ ہی بولتے ہیں۔ تو نے کیا کبھی کسی کو سچ بولتے دیکھا ہے۔ قبروں میں پاؤں لٹکائے بیٹھے ہوئے لوگ بھی جس دھڑلے سے جھوٹ بولتے ہیں کہ : ’’اچھا چھوڑ فلسفہ مت بول‘‘ ببلی نے بات کاٹی۔
’’فلسفہ نہیں ہے یہ کڑوا سچ ہے۔ اسی لیے میں جھوٹ بولتی ہوں کیوں کہ سچ کسی سے برداشت نہیں ہوتا۔ سچا آدمی تو اس کے باپ جیسا ہوتا ہے جن کے جگر گوشے چھین لیے جاتے ہیں‘‘ اب آپا گلو آہستہ سے بولی۔
’’کون تھا اس کا باپ؟‘‘ ببلی نے پوچھا۔
’’رہنے دے۔ سچ بول کر میں اس کے لیے مشکلیں کھڑی کردوں گی رہنے دے۔ کچھ انتظام کرنا ہی پڑے گا۔ اسے پڑھانا لکھانا اور بڑا آدمی بنانا ہے مجھے‘‘ اب آپا گلو گہری سوچ میں گم ہوگئی۔
٭٭٭٭٭
’’میں نے کہا تھا آپ کو؟ مشورہ تو کیا ہوتا۔ اتنی جلدی اتنا بڑا فیصلہ کرلیا۔ مجھے میری ڈاکٹر نے بتایا ہے کہ ایسے بچوں کا علاج ہوتا ہے تو وہ۔۔۔‘‘ صائمہ نے اسپتال سے واپسی پر ہی شعیب سے کہا۔
’’کہاں سے لاتی تم اتنا پیسہ۔ کیا مفت آپریشن ہوتا ہے۔ کیا یہاں پاکستان میں ہوتا ہے‘‘ شعیب نے جھنجھلاتے ہوئے کہا تو صائمہ خاموش ہوگئی۔ ہم عورتیں کبھی عقل سے بھی سوچ لیا کریں۔ وہ دل میں سوچتی رہی۔
’’اسے داخل تو میں کرادوں گا مگر‘‘ امام صاحب اتنا کہہ کر رُک گئے۔
’’مگر کیا امام صاحب؟"
" آپ کب تک اسکول والوں سے چھپی رہیں گی۔ کبھی نہ کبھی، کہیں نہ کہیں اور پھر‘‘
’’تو ہمیں کیا کرنا چاہیے‘‘ آپا گلو پوچھنے لگی۔
’’میری بات مانیں بہت ٹھنڈے دل سے سوچیں اسے اس کے والدین کو واپس کردیں۔ والدین نہ ہو تو رشتہ دار کو۔ میں اس بچے کے لیے بہتر ہے‘‘ امام صاحب نے آپا گلو سے کہا تو وہ سوچ میں گم ہوگئی۔
’’یہ میں بھی سمجھا رہی ہوں‘‘ ببلی بولی۔
’’واپس کیسے کروں گی امام صاحب‘‘
’’جیسے لیا تھا‘‘ امام صاحب نے سنجیدگی سے بولے۔
’’واپس دینے کے لیے نہیں لیا تھا‘‘ آپا گلو عجیب سے لہجے میں بولی۔
’’الحمد للہ دن رات تم اب اللہ والوں کے ساتھ رہتی ہو تبلیغ دین ہی اب تم نے اپنی زندگی کا مشن بنالیا ہے پھر اتنے نیک کام میں دیر کیوں۔ ابھی صرف چار سال کا ہے۔ جتنا بڑا ہوتا جائے گا اس کے مسائل بڑھتے جائیں گے۔ اگر یہ تمہارے جیسا ہوتا تو مسئلہ نہ تھا مگر یہ لڑکا ہے۔ آگے جاکر اس کے لیے بڑے مسائل ہوں گے۔ اب دیکھ لو صرف پہلے ہی مسئلے میں تم کتنی پریشان ہو‘‘
’’اچھا‘‘ آپا گلو نے ٹھنڈی آہ بھری۔
٭٭٭٭
’’آپا گلو مسئلہ کیا ہے تو اس کو واپس کیوں نہیں کردیتی آخر‘‘ شمسی بھائی کے سمجھانے کے بعد جب ببلی نے کہا تو آپا گلو رونے لگی۔
’’کیا کہہ کر واپس کروں گی‘‘
’’تو کچھ مت کہنا میں کہہ دوں گی بس‘‘ ببلی نے کہا۔
’’نہیں معراج کہیں نہیں جائے گا، یہ میرا آخری فیصلہ ہے‘‘ آپا گلو نے آنسو صاف کرتے ہوئے حتمی لہجے میں کہا۔ تو شمسی بھائی بھی چپ چاپ واپس چلا گیا۔
٭٭٭٭
’’مبارک ہو آپ کو بیٹا ہوا ہے‘‘ نرس نے باہر آکر کہا تو شعیب کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
’’اس کا نام ہم معراج رکھیں گے‘‘ صائمہ نے ننھے منے کو دیکھتے ہوئے کہا تو شعیب مسکرائے نہیں ’’سراج‘‘۔
’’سراج‘‘ بھی اچھا نام ہے‘‘ صائمہ نے تائید کی۔ پانچ سال بعد تمہارے چہرے پر خوشی کے رنگ دیکھ رہا ہوں۔ شعیب نے ننھے کا بوسہ لیتے ہوئے کہا تو صائمہ نے مسکرا کر آنکھیں موند لیں اور آنسو کے قطرے بند آنکھوں کے کنارے آکر رُک گئے۔
٭٭٭٭٭
’’دیکھو گل خان میں جب تک زندہ رہوں گا تم کو یہی بات سمجھاتا رہوں گا کہ معراج کو اس کے والد کے حوالے کردو‘‘ امام صاحب نے آپا گلو کا نام بدل کر گل خان اور ببلی کا نام بابر کر دیا تھا اور آج نماز عشاء کے بعد جب بیان مکمل ہوا تو پھر آپا گلو کو سمجھانے بیٹھ گئے۔
’’امام صاحب آپ سمجھتے کیوں نہیں کہ میں اس کو واپس نہیں کرسکتا۔ وہ لوگ اس کو ماردیں گے‘‘ گل خان نے دبی دبی آواز میں کہا۔
’’موت کا وقت مقرر ہے۔ تم نہ کسی کو زندگی دے سکتے ہو نہ کسی کی زندگی لے سکتے ہو جب تک وہ نہ چاہے‘‘ امام صاحب نے آسمان کی طرف اُنگلی اٹھائی۔ ’’آپ کو دنیا کا پتہ نہیں ہے یہ دنیا، یہ لوگ سب بہت ۔۔۔ ‘‘ اتنا کہہ کر گل خان چپ ہوگیا۔
’’دنیا میں برے لوگ ہیں تو اچھے لوگ بھی ہیں ورنہ دنیا کب کی ختم ہوجاتی۔ تم نے جو شمسی کے ساتھ نیکی کی تھی وہ شمسی کی زندگی بناگئی۔ آج یہ نیکی تم معراج کے ساتھ کرلو اس کو اس کے اصل کی طرف لوٹادو۔ ہوسکتا ہے یہ تمہاری مغفرت کا سبب بن جائے۔ کوئی کسی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ معراج کی زندگی جتنی وہ لکھوا کر لایا ہے اتنی ہی رہے گی‘‘ امام صاحب نے مزید سمجھایا۔ ’’میں معراج اور اس کے باپ شعیب کی زندگی بچانا چاہتا ہوں امام صاحب۔ آج کے دور میں بھی کچھ لوگ اس کے جیسے ہوتے ہیں اور کچھ لوگ بدلے کی آگ میں جل کر دوسروں کو جلادیتے ہیں‘‘ یہ کہہ کر گل خان رونے لگا۔
٭٭٭٭
’’کیوں تنگ کرتے ہو۔ ان کی بددعا مت لو کیا تمہاری ماں بہنیں نہیں ہیں‘‘ شعیب نے اپنے دوستوں سے کہا اس کے دوست مل کر ہیجڑوں کے ساتھ مذاق کررہے تھے اور ایک ہیجڑا مستقل ان لوگوں سے التجائیہ کہہ رہا تھا کہ بابو ہم اس طرح کے نہیں ہیں۔ ہمیں معاف کرو‘‘ تنگ آکر غصے میں شعیب نے اپنے دوست کو تھپڑ مار دیا۔ ’’تجھے بڑی ہمدردی ہے کیا تیری‘‘ دوست نے جواباً شعیب کا گریبان پکڑ لیا۔
’’تم لوگ انتہائی گھٹیا ہو مجھے بالکل اندازہ نہیں تھا کہ تم لوگ‘‘ یہ کہہ کر شعیب نے گریبان چھڑایا۔
آپا گلو وہ وقت یاد کررہی تھی جب اس کا پہلی دفعہ شعیب سے سامنا ہوا تھا مجھے میری آخرت کی فکر کرنی چاہیے شاید۔ آپا گلو بڑبڑائی۔
(جاری ہے )