تھوڑی دیر بعد اس لڑکے نے ایک پرچے پر اپنا نام اور نمبر لکھ وردہ کے سرہانے رکھے پرس کے نیچے دبا دیا تھا ۔ وردہ نے پہلے سوچا کاغذ مروڑ کر اس کے منہ پہ مارا جائے لیکن پھر اس نے کاغذ لپیٹ کر پرس میں رکھ لیا ۔ لڑکے کے خیال میں چڑیا پھنس گئی تھی۔
آر اے قمر اسلام آباد
(پہلی قسط)
وردہ اور نعمان اسلام آباد ، مری اور شمالی علاقہ جات کی دس روزہ سیر و تفریح کے بعد لاہور پہنچے تھے ۔ڈیوو بس نے کلمہ چوک پر انہیں اتارا توقراقرم ایکسپریس کے چلنے میں تقریبا ڈیڑھ گھنٹا باقی تھا ۔ رکشے والے ان کے ظاہری ٹھاٹ باٹ کے مطابق کرایہ مانگ رہے تھے ۔لیکن نعمان ہمیشہ کی طرح رکشے والے کو زیادہ کرایہ دینے کے لیے بالکل تیار نہیں تھا ۔
ایک پرائیویٹ کار والا بھی اڈے پر موجود تھا ، اسے ریلوےاسٹیشن کی سواری چاہیے تھی ، اس کے کوئی عزیز کراچی جا رہے تھے ،وہ ان سے ملنا چاہ رہا تھا ،لیکن اس کی خواہش تھی کہ خالی ہاتھ جانے سے بہتر ہے،جانے کا خرچ کسی سواری سے وصول کرلیا جائے ۔ کلمہ چوک کے قریب ہی گھر ہونے کی وجہ سے اس کے لیے ڈیوو اڈے پر جانا مشکل نہ تھا ۔ نعمان جتنا کرایہ رکشے والوں کو دینا چاہ رہے تھے، کار والے نے اسی کرایے میں لے جانا قبول کر لیا ، اس طرح دونوں کا کام ہوگیا ۔ کار والا بھی خوش اور نعمان بھی رکشے والوں کا منہ مانگا کرایہ دینے سے بچ گیا ۔ اور کار کی آرام دہ سواری کا لطف الگ۔ اگر چہ رش تھا لیکن کار والے کو بھی تو جلد پہنچنا تھا ۔وقت سے خاصا پہلے اسٹیشن پہنچنے پر کار والا بھی خوش تھا اور نعمان و وردہ بھی ۔
٭٭٭٭٭
نعمان اور وردہ راول پنڈی ڈیوواڈے پر بس کے انتظار میں تھے ۔ وہاں لگی بڑی اسکرین پرکوئی مزاحیہ وڈیو کلپ چل رہا تھا۔ وردہ کی توجہ وڈیو کی طرف ہو گئی ، نعمان نے دوتین بار بلایا ،لیکن وردہ کی نہ صرف توجہ وڈیو کی طرف رہی بلکہ وہ بہت زور سے قہقہہ لگا بیٹھی ۔تنک مزاج نعمان کے لیے یہ کافی بڑی بات تھی ۔ اس نے وردہ کی اچھی خاصی کلاس لے لی۔ یہ کلاس گھر میں لی جاتی تو وردہ کو اتنا برا نہ لگتا لیکن سر عام بیسیوں لوگوں کی موجودگی میں جب اس کی کلاس لی گئی تو اس نے بھی خلاف معمول پلٹ کر نعمان کو جواب دے دیا ۔ نعمان کے جواب الجواب پر وردہ خاموش تو ہو گئی لیکن اس نے طے کر لیا کراچی پہنچنے تک احتجاجا نعمان سے بات چیت بند رکھے گی ۔ ڈانٹ ڈپٹ کے بعد یہی ارادہ نعمان نے بھی کرلیا تھا ۔ ڈیوو پنڈی سے چل کرلاہور پہنچ چکی تھی لیکن دونوں طرف کےکھچاؤ اور تناؤ میں فرق نہیں پڑا تھا ۔
٭٭٭٭
قراقرم ایکسپریس میں سوار ہونے کے بعد بھی دونوں اس کھچاؤ کو باقی بلکہ بڑھانےپر غور کر رہے تھےنعمان سوچ رہا تھا وہ اندھیرا ہوتے ہی وردہ کے لیے بیچ والی برتھ کھول کر اسے مجبور کردے گا کہ وہ لیٹ جائے اور خود وہ بھی نیچے والی برتھ پرمنہ لپیٹ کر سو تا بن جائے گا۔دوسری جانب وردہ سوچ رہی تھی کہ گاڑی چلتے ہی نعمان سے کہے گی، میری طبیعت ٹھیک نہیں میری برتھ کھول دو ۔ اس طرح نعمان کو بھی مجبورا لیٹنا پڑے گا ۔دونوں منہ پھلائے بیٹھے تھے وردہ کھڑکی کے ساتھ بیٹھ کے موبائل میں مصروف ہو گئی اور نعمان نے برتھ کا دوسرا کنارہ سنبھال لیا تھا
تھوڑی دیر میں ایک بڑی بی اور ایک نوجوان نے سامنے کی برتھ سنبھال لی ، دونوں آپس میں خالہ بھانجے تھے۔ ان کے ساتھ وہی کار والا تھا ، یعنی جن عزیزوں کو رخصت کرنے وہ آیا تھا ۔اتفاق سے ان کی سیٹیں نعمان اور وردہ کے ساتھ آگئی تھیں۔ کار والے نے نعمان سے ہیلو ہائے کیا اور ساتھ ہی وردہ کو بھابی کہہ کر بلا لیا ۔ نعمان جو پہلے ہی غصے میں تھا اسے ایک غیر مرد کا اس کی بیوی کو بھابی کہہ کر مخاطب کرنا بہت برا لگا ۔ وردہ کو لگا ابھی گاڑی میں کوئی نیا طوفان آجائے گا۔خطرہ تھا نعمان کار ولے سے الجھ پڑے لیکن خیر رہی نعمان نے کار والے کو صرف گھورنے پر اکتفا کیا ، کاروالا بھی ذرا محتاط ہو گیا۔ گاڑی چلنے میں بس چند منٹ ہی باقی تھے ۔ پھر جوں ہی وقت پوا ہوا گاڑی نے رینگنا شروع کیا توکاروالا اپنی امی کی دوست اور ان کے بھانجے کو الوداع کہہ کر اتر گیا ۔ اس کی امی بہو کی بیماری کی وجہ سے رخصت کرنے اسٹیشن نہیں آسکی تھیں لیکن اپنی دوست کے راستے کے لیے کھانا بنا کر بھیج دیا تھا۔
٭٭٭
گاڑی چلنے کے بعد وردہ اور نعمان اپنی اپنی جگہ ایک دوسرے کے بگڑے موڈ کو مزید ہوا دینےکا سوچ رہے تھے۔ یوں تو وردہ اور نعمان میں مثالی محبت تھی لیکن نعمان غصے کا بہت تیز تھا اور غصے میں وردہ کو کچھ بھی کہہ دیتا تھا۔ گھر میں تو وردہ اسے فورا منا لیا کرتی تھی لیکن یہاں اس کی عزت نفس اور انا کو سخت ٹھیس پہنچی تھی ، اس لیے اس نے نعمان کو منانے کی نہ صرف کوشش نہیں کی بلکہ خاموش رہ کر اپنی ناراضی کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ جلد ہی سوجانے کا ارادہ کرلیا تھا ۔ نعمان غصے کا تیز ضرور تھا لیکن اس کا غصہ بس چند گھڑیوں کا ہی ہوا کرتا اور وردہ کی ذرا سی کوشش اورمعذرت بھی اس کا دل پگھلا دیا کرتی۔ آج وردہ کےمعذرت نہ کرنے سے اس کا غصہ بہت بڑھ گیا تھا ۔
دونوں طرف سوچ کی جنگ جاری تھی ۔ سونے سے پہلے نعمان نے بیت الخلا جانا ضروری سمجھا۔ وردہ کے جی میں آئی وہ خود ہی برتھ کھول لے ۔ اس طرح اس کی انا کو بھی تسکین پہنچتی اور نعمان کی انا کو ٹھیس ۔ اس نے برتھ کھولنے کی کوشش کی ، سامنے والے لڑکے نے جھٹ مدد کی پیش کش کردی ، وردہ نے نہ چاہتے ہوئے بھی نہ صرف مدد لے لی ۔ بلکہ اس کی زبان سے شکریہ بھی پھسل گیا ۔نعمان واپس آیا تو اسے جھٹکا لگا ، دھان پان سی وردہ نے برتھ کیسے کھول لی ، نعمان کی نظریں سامنے والے لڑکے پر پڑیں تو وہ مسکرا رہا تھا ، نعمان کو یہ مسکراہٹ بہت زہریلی لگ رہی تھی لیکن وہ اسے کچھ کہہ نہیں سکتا تھا ۔ ابھی تک لڑکے نے کوئی غلط حرکت نہیں کی تھی ۔ اگر نعمان کو پتا چلتا کہ وردہ کو برتھ اس نے کھول کر دی ہے تووہ اس کی ٹھکائی کرنے سے ذرا بھی نہ ہچکچاتا ۔ نعمان فورا سونا نہیں چاہ رہا رھا لیکن بیچ کی برتھ کھلنے سے بیٹھنا ممکن نہ رہا رتھا اس لیےمجبورا اسے لیٹنا پڑا۔ دونوں کو ایک دوسرے کی بے رخی تپا رہی تھی لیکن کوئی ہار ماننے کو تیار نہ تھا۔نعمان لیٹ گیا اور تھوڑی ہی دیر میں انٹا غفیل ہو گیا ۔ بیچ کی برتھ پہ لیٹی وردہ بے چینی سے کروٹیں بدل رہی تھی ۔ پھر اس نے پرس سے موبائل نکال لیا ۔ اور مصروف ہوگئی ۔ اوپر کی دونوں برتھیں دوسری طرف بیٹھے لوگوں کی تھیں انہوں نے اپنابھاری سامان یہاں رکھ دیا تھا اور خود پوری فیملی ایک جگہ تھی۔ سامنے والی خالہ نے کھانا کھا یا اور نیچے برتھ پر لیٹ گئیں ، ان کے بھانجے نے اپنے لیے بیچ کی برتھ کھول لی اور اس نے بھی موبائل نکال لیا ۔ وردہ نے کن انکھیوں سے اس کا جائزہ لیا تو وہ اسی کی طرف دیکھ رہا تھا ۔ وردہ نے کروٹ بدل لی ۔ کافی دیر بعد اسے واپس پہلو بدلنا پڑ اتو وہ نہ صرف جا گ رہا تھا بلکہ اسی کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اب اسے گھبراہٹ ہونے لگی ، اس کا جی چاہا نعمان کو آواز دے لیکن اس نے ہنگامہ کردینا تھا ۔ تھوڑی دیر بعد اس لڑکے نے ایک پرچے پر اپنا نام اور نمبر لکھ وردہ کے سرہانے رکھے پرس کے نیچے دبا دیا تھا ۔ وردہ نے پہلے سوچا کاغذ مروڑ کر اس کے منہ پہ مارا جائے لیکن پھر اس نے کاغذ لپیٹ کر پرس میں رکھ لیا ۔ لڑکے کے خیال میں چڑیا پھنس گئی تھی ۔ رات کے آخری پہر تک کروٹیں بدلنے کے بعد وردہ کی آنکھ لگ گئی ۔ صبح دیر تک سوتی رہی ۔ نعمان کی نیند پوری ہو گئی تھی لیکن وردہ کو جگانا اسے اپنی شکست اور توہین لگا اور ایسے ہی کروٹیں بدلتا رہا ۔
وردہ کی آنکھ کھلی تو گاڑی حیدر آباد اسٹیشن پہ کھڑی تھی ۔ نعمان نیچے برتھ پہ نہیں تھا وہ اٹھ کر نیچے آ گئی اور برتھ بند کرنے لگی ، سامنے والے لڑکے نے ایک بار پھر خود کو مدد کے لیے پیش کردیا ، اور جھٹ ہاتھ بڑھا کر برتھ بند کرنے لگا ۔ لیکن اس سے پہلے اس نے وردہ کے ہاتھ پر ہاتھ رکھنا ضروری سمجھا،وردہ نے فورا اپنا ہاتھ پیچھے کر لیا ، لڑکے نے مسکرا کر برتھ بند کردی ۔ وردہ پرس سنبھال کر بیٹھ گئی ۔ اسے بیت الخلا جانے کی ضرورت شدت سے محسوس ہو رہی تھی لیکن نعمان سے کہنا اسے بالکل اچھا نہیں لگ رہا تھا ، اس لیے اس کا انتظار بھی نہیں کیا اور سامنے والی خالہ سے کہا" آپ میرے ساتھ بیت الخلا تک چلیں گی ؟" لڑکے نے بھی خالہ سے کہا" پلیز خالہ ان کی ہلپ کیجیے ! "
(جاری ہے )