یاد رکھو کہ باحیا اور باکردار لڑکیاں کبھی ہمارے جیسوں کے ہاتھوں نہ خوار ہوتی ہیں اور نہ خراب۔ اچھی لڑکیاں نہ ہی انجانے لڑکوں سے دوستیاں کرتی ہیں اور نہ ہی رابطے استوار کرتی ہیں۔ ان کے سامنے ہم چاہے جتنا مرضی سر پیٹ لیں وہ تو بات کرنے کی روادار تک نہیں ہوتیں

تنزیلہ احمد

  شگفتہ کے لیے شہر اور ہاسٹل میں آنا بھی خوش گوار تجربہ ثابت نہیں ہوا تھا۔ وہ آسمان سے گر کر کھجور میں اٹک گئی تھی۔ نوکری کے لیے دھکے کھاتے اور رنگ برنگے لوگوں کا سامنا کرتے چند دنوں میں ہی وہ زندگی کے اک نئے روپ سے آشنا ہوئی۔ زندگی آسان تو کبھی نہ رہی تھی مگر اتنی مشکل ہو جائے گی یہ تو اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔

شہر میں آتے ہی اس نے میٹھی زبان میں بات کرنے کا سلیقہ سیکھ لیا تھا۔ پہلی نوکری اسے بناوٹی خوش اخلاقی اور خوب صورت چہرے کی بدولت ملی تھی۔ گو کہ نوکری کے لیے لڑکی کا انٹر پاس ہونا لازمی تھا مگر اس کی خوب صورتی اور کم عمری کی بنا پر اسے منتخب کر لیا گیا تھا۔ نوکری اک نجی بس سروس میں 'ہوسٹس' کی تھی۔

چند دنوں میں ہی وہ جان گئی کہ نوکری کرنا اور رزق حلال کمانا اتنا آسان نہیں، جتنا وہ سمجھ رہی تھی۔ بہت سی عجیب چیزیں رونما ہونے لگی تھیں۔ لوگوں کے رویے سے پہلی بار اسے احساس ہونا شروع ہوا جیسے وہ انسان نہیں بل کہ ضرورت یا استعمال کی کوئی چیز ہے۔

گندی نظریں، اشارے کنائیے، ذومعنی فقرے، اور مسافروں کا بہانے بہانے سے اسے پاس بلانا اور خواہ مخوا کے مسائل اور بحث میں الجھانا اس کے لیے بہت ہتک آمیز تھا۔ اسے نوکری کی ضرورت تھی مگر کسی بھی حالت میں شرافت کا دامن اس نے ہاتھ سے نہیں چھوڑا تھا۔ یوں بھی فکر معاش کے سلسلے میں گھر سے باہر قدم دھرنے والی خواتین کو اپنی اور اپنے خاندان کی عزت رکھنے کے لیے زیادہ جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ اور وہ کر بھی رہی تھی۔۔

مگر بس میں سفر کرنے والوں کے لیے وہ زر خرید غلام تھی اسی لیے وہ اسے باعزت نہیں گردانتے تھے۔ نازیبا رویوں اور گھٹیا مسافروں سے تحمل سے پیش آنا کا فرض سے زیادہ مجبوری تھی۔  

چند ہی ماہ میں اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا تھا۔

٭٭٭٭

اس وقت وہ ابا کی دکان کے سامنے کھڑا تھا۔ گھر سے نکلتے وقت اس کا بگڑا موڈ کسی سے چھپا نہیں رہ پایا تھا مگر اس کے موڈ کی وہاں پروا کسے تھی۔ سب کو بس ابا کی فکر تھی۔ بے دلی سے تالا کھول کے اس نے دکان کا شٹر اوپر اٹھایا۔ عین نظروں کے سامنے ابا کی کریانےکی دوکان تھی اور اسے اجنبیوں کی طرح تکتا عظیم تھا۔

یہاں اس کا بچپن سے آنا جانا تھا۔ کبھی گھر کا چھوٹا موٹا سودا سلف لینے، کجھی ابا سے ضرورت کے پیسے اور کبھی فیس لینے آنا۔ مگر تب کے آنے اور آج کے آنے میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ پہلے وہ مہمانوں کی طرح آتا، ٹھنڈی بوتل چڑھاتا، تھوڑی دیر بیٹھتا اور یہ جا وہ جا۔ مگر آج وہ ذمے داری نبھانے مالک کی سی حیثیت سے یہاں موجود تھا۔

اسے دکان کھولتا دیکھ کر کچھ ہی دیر میں ارد گرد کی دکانوں والے ابا کی طبیعت پوچھنے اکٹھے ہو گئے۔ انھیں مطمئن کر کے وہ کاؤنٹر کے پاس دھرے اسٹول پر بیٹھ گیا جس پہ ابا بیٹھا کرتے تھے۔

ایک اچٹتی نگاہ اس نے اپنے ارد گرد دوڑائی۔ کاؤنٹر پر رنگ برنگی ٹافیوں، چورن چٹنیوں، چیونگم، کیک رس سے بھرے ڈبے سجے ہوئے تھے۔ دیوار کے ساتھ بنی شیلفوں پر بھی ضروریات زندگی کی اشیا پڑی ہوئی تھیں۔ دوکان کی پیچھے کی دیوار کے ساتھ چاول، چینی اور آٹے کی بوریاں اور کچھ دالوں کے توڑے رکھے تھے۔

دفعتا اس کا موبائل بج اٹھا۔ گھر کا نمبر دیکھ کر اس نے ٹھنڈی سانس بھری اور کال اٹھا کر موبائل کان سے لگایا۔۔

"عظیم!" اماں کی آواز کانوں میں پڑی۔

"ہاں جی"

"دکان پر پہنچ گئے ہو؟"

"ہاں"

"اچھا میری بات غور سے سن۔ آتے ہوئے دھیان سے غلے سے سارے پیسے نکال کر لانا۔ تیرے ابا کہہ رہے ہیں کہ انھوں نے کل دو ہزار رکھے تھے۔ دیکھ پڑے ہیں وہاں؟"

"پڑے ہیں اماں" غلے کا تالا کھول کر نوٹ دیکھتے ہوئے اس نے جواب دیا۔

"اچھا سن تجھے کچھ سمجھانا ہے۔" اماں اسے ابا کی سمجھائی ہوئی ہدایات پہنچا رہی تھیں جو کہ اشیاء اور ان کی قیمتوں کے بارے میں تھیں۔ بے زاری سے چیزوں کر دیکھتا وہ بس "ہوں ہاں" میں جواب دیتا رہا۔

"کیا تھا جو ساری باتیں گھر سے سن کر نکلتا۔ مجھے کال تو نا کرنا پڑتی۔ مگر نہیں لاٹ صاب کے تو تیور ہی سیدھے نہیں ہوتے۔"

"بس کر دے اماں۔۔۔" اس نے چڑتے ہوئے جواب دیا۔۔

"اچھا ٹھیک ہے۔ دھیان رکھنا دکان کا اور مغرب سے پہلے گھر آ جانا۔ میں اب فون رکھتی ہوں، اپنا خیال رکھنا خدا حافظ۔" اچھی خاصی ہدایات دے کر اماں نے کال منقطع کی۔ فون کان سے ہٹاتے ہی اسے چھ سات سال کے دو بچے کاؤنٹر کے سامنے کھڑے نظر آئے جو کہ شاید کال بند ہونے کے انتظار میں تھے۔ ہاتھوں میں مضبوطی سے پیسے دبائے وہ مختلف ڈبوں کو گھور رہے تھے۔ نہ نہ کرنے کے باوجود ذمہ داری اس کے کندھوں پر آ پڑی تھی۔

اسے اپنی طرف متوجہ پا کر وہ بچے چیزیں بتانے لگے جو وہ لینے آئے تھے۔ دکان داری کا باقاعدہ آغاز ہو چکا تھا۔ وہ گڑبڑایا۔۔۔ کونسی چیز کس ڈبے میں ہے اسے سمجھ ہی نہیں آ رہی تھی۔ جیسے ہی اس نے بے ڈھنگے پن سے ہر ڈبا اٹھا اٹھا کر دیکھنا شروع کیا ایک بچے نے ہاتھ کے اشارے سے مطلوبہ ڈبے کی نشان دہی کر کے اس کی مشکل سہل کر دی۔ کوئی شک نہیں کہ وہ پہلے بھی وہیں سی جوس ٹافیاں لے کر جاتا ہو گا۔ شام تک بل کہ اگلے چند دنوں تک عظیم کو یہ سب ہی کرنا تھا۔ یہ اس کی اب تک کی زندگی کا مشکل ترین دن ثابت ہورہا تھا۔ شام تک اس کی بس ہو چکی تھی۔ نہ صرف وہ تھک چکا تھا بل کہ سر بھی شدید دکھ رہا تھا۔ چیزیں نکالنے اور واپس رکھنے کے دوران کئی ڈبے اس کے ہاتھ سے گرتے گرتے بچے۔ کون سی چیز کدھر پڑی ہے ڈھونڈنے میں ہی وہ بوکھلا گیا۔ کئی بار تو آنکھوں کے عین سامنے پڑی چیز اسے نظر ہی نہ آئی۔ پیسے گننے اور حساب کرتے ہوئے بھی اس سے گڑ بڑ ہوئی۔

مغرب کا وقت ہوتے ہی اس نے شکر کا کلمہ پڑھا اور غلے سے سارے پیسے نکالے۔ کل 2300 تھے یعنی آج اس نے 300 کمائے تھے۔ احتیاط سے روپے جیپ میں ڈال کر وہ دکان سے نکل آیا۔ اس سے پہلے کہ وہ شٹر گراتا دکان میں جلتی بتی اس کی نظروں میں آئی۔

"اف لائٹ بند کرنی یاد ہی نہیں رہی۔"

بتی گل کرنے اندر گھسا تو نظر آٹے چینی اور دال کے توڑوں پر پڑی۔

"یا خدا۔ اتنے کام۔۔۔" فٹافٹ سب بوریوں کے منہ بند کیے۔ بتی بجھائی اور باہر آتے ہی شٹر گرا دیا۔ شٹر کو تالا لگا کر کے اسے عجیب سا سکون محسوس ہو رہا تھا۔ احتیاط سے چابی جیب میں ڈالی تو لگا وہ آزاد ہو گیا ہے۔

تھکا ماندہ وہ سیدھا گھر آیا۔ حالات نے کیسا پلٹا کھایا تھا کہ نہ اسے کسی دوست کا خیال رہا نہ فیس بک اور نہ ہی کسی لڑکی کا۔۔۔! شام کو گھر میں داخل ہوتے ہی اسے اپنی پرانی والی اماں نظر آئی۔

فکر مندی اور پیار لیے اپنے اکلوتے بیٹے کی منتظر۔ اس کے سلام کا جواب دیتے ہی انھوں نے اس کا ماتھا چوما۔

"مجھے پتا ہے تو بہت تھک گیا ہے۔ عادت ہی کہاں ہے تجھے ان سب کی۔"

ماں کے پیار سے کہنے پر وہ ہلکا سا مسکرا دیا۔

"بہت بھوک لگی ہے اماں۔ کھانا نکال دے میں منہ ہاتھ دھو کر آتا ہوں۔" اماں کے ہاتھ پر 2300 رکھتے ہوئے اس نے لجاجت سے کہا۔

"ماں صدقے، آسیہ جلدی کر بھائی کے لیے گرم روٹی ڈال دے۔ پھر تسلی سے اپنے ابا کو یخنی پلا دینا۔۔" بیٹی کو ہدایت دے کر وہ ہاتھ پر دھرے نوٹ گننے لگ گئی تھیں۔

پیٹ بھر کھانا کھا کر وہ ابا کے پاس ہی چلا آیا۔ بخار معمولی سا کم ہوا تھا۔ آپا انھیں یخنی پلا رہی تھی۔

"اب کیسی طبیعت ہے ابا؟" اس کے استفسار پر ابا ہلکے سا مسکرا دیے۔

یخنی ختم ہوتے ہی وہ پوری طرح اس کی طرف متوجہ ہوئے۔

"دکان پر کوئی مسئلہ تو نہیں ہوا؟ چیزوں اور قیمتوں کی سمجھ آ گئی تھی؟" ٹھہر ٹھہر کر نقاہت بھرے لہجے میں بولے۔ وہ کیا پوچھنا چاہ رہے تھے عظیم سمجھ گیا تھا۔

"ہاں جی ابا تھوڑی بہت۔۔۔" سر کھجاتے ہوئے وہ بولا۔

"ادھار پر کسی کو سودا نہ دینا۔" ابا نے وقفہ لیا۔ شاید بولنے کی ہمت جمع کر رہے تھے۔

"تم کسی کو پہچانتے نہیں۔ مستقل گاہکوں سے واقف نہیں ہو۔ نقد پر ہی سودا سلف دینا۔" رک رک کر بات کر کے انھوں نے ایک اور وقفہ لیا۔

"ہر چیز کا حساب رکھنا۔ چیز ختم ہونے سے پہلے اس کا نیا اسٹاک لانا ضروری ہے تا کہ گاہک دکان سے خالی ہاتھ نہ لوٹے۔۔۔" اٹک اٹک کر اور ٹھہر ٹھہر کر وہ ضروری بات مکمل کر چکے تھے۔

بہت سی باتیں اس کے سر سے گزریں پر اس نے سر اثبات میں ہلا دیا۔

"ابا آپ کی دوا کا وقت ہو گیا ہے۔" مستعد سی آپا دوا کھلانے کے لیے تیار کھڑی تھی۔ 

وہ اپنی ہی سوچوں میں غرق ہو چکا تھا۔ اچھی مصیبت تھی اس کے لیے۔ کہاں وہ کہاں دکان داری۔۔۔

"اللہ کرے ابا جلد تن درست ہو جائیں۔" دل ہی دل دعا کرتا عظیم اپنے کمرے میں آ گیا۔

ابا کا جلد از جلد ٹھیک ہونا اور دکان سنبھالنا اس کے وسیع تر مفاد میں تھا۔ میسج ٹون بجی تھی۔ بے دلی سے اس نے موبائل اٹھایا اور خاص پیغام پڑھتے ہی اس کی انکھیں چمک اٹھیں۔

"کہاں ہو ڈئیر۔۔ کوئی خیر خبر ہی نہیں؟" لکھ کر جواب دینے کی بجائے اس نے کچھ سوچ کر کال ملائی۔

"ہیلو۔۔ کیسی ہو؟" اس نے پرجوش آواز میں پوچھا۔

"بہت اچھی تم سناؤ؟" کھنکتی ہوئی نسوانی آواز نے آہستگی سے پوچھا۔

"میں کیا سناؤں، تم بتاؤ۔ لگتا ہے مجھے بہت مس کر رہی تھی۔" گہری سانس بھرتے ہوئے عظیم نے لگاوٹ سے کہا۔ دوسری طرف سے جواب میں جو بھی کہا گیا اس نے عظیم کے ہونٹوں پر جان دار مسکراہٹ بکھیر دی تھی۔

اس کی ساری تھکن اڑن چھو ہو چکی تھی۔ بیمار ابا، دکان داری، گھر غرض کہ سب کچھ اس کے ذہن سے محو ہو گیا تھا۔ لمبی رات اور لمبی بات۔۔۔ فون پر نامحرم لڑکی سے رومانس بھگارتے ہوئے وہ گردوپیش سے بے نیاز ہو گیا تھا۔

٭٭٭٭

وہ ایک عام سا دن تھا۔ چہرے پر "پروفیشنل کرٹسی" سجائے وہ بس میں موجود تھی۔ مگر آج کا سفر اور دن عام سا نہیں اس کا اندازہ اسے جلد ہی ہونے والا تھا۔ سفر شروع ہونے کے بعد اس نے معمول کی اناؤنسمنٹ کی اور اپنی نشست پر جا بیٹھی۔ ہیڈ فونز اور کھانے کی اشیا کے ڈبے تقسیم کرتے ہوئے بس میں سوار وہ چھچھورا سا لڑکا اس کی آنکھوں میں کھٹک رہا تھا۔ اس نے خود پر مرکوز ذومعنی نظریں محسوس کیں۔ اس کے پاس پہنچنے پر لڑکے نے بے کار کی باتوں میں الجھانے کی کوشش کی تھی۔ سفر شروع ہوئے ابھی گھنٹا بھر ہی ہوا تھا اور وہ لڑکا دو بار بہانے سے بیل بجا کر اسے بلا بھی چکا تھا۔ اس کے خود ساختہ مسئلے ہی نہیں حل ہو رہے تھے اور یہ حرکتیں اس کا پارہ چڑھانے کے لیے کافی تھیں۔ تیسری بار بیل بجنے پر اس نے لڑکے کو دبی آواز میں جھڑک بھی دیا مگر وہ بھی انتہائی ڈھیٹ واقع ہوا تھا۔ بار بار اٹھتے ہوئے اسے کوفت ہو رہی تھی کہ منحوس کی سیٹ بس کے پچھلے حصے میں تھی۔

کچھ دیر گزری تھی کہ لڑکے نے پھر سے بیل بجا کر اسے متوجہ کیا۔ ابھی آدھا سفر ہی طے ہوا تھا۔ وہ تلملا اٹھی۔

"سیٹ مسئلہ کر رہی ہے، اٹک گئی ہے شاید؟" شگفتہ کے استفسار پر اس نے بتیسی کی نمائش کرتے ہوئے کہا تھا۔

صبر کے گھونٹ بھرتے ہوئے اس نے سیٹ اور اس کی ہتھی کی طرف دیکھا۔

"آپ اٹھیں گے پلیز۔۔۔"

وہ سیٹ سے اٹھ کر گزرنے والے درمیانی راستے میں کھڑا ہو گیا۔ یوں کہ وہ سیٹ کی ہتھی کی طرف کھڑی تھی اور اس کے عین سامنے وہ چھچھورا کھڑا تھا۔ ابھی وہ ذرا سا جھکی ہی تھی کہ بس نے موڑ مڑا۔ خود کا توازن قائم رکھنے کے لیے وہ ابھی سیدھی ہوئی ہی تھی کہ وہ لڑکا سیدھا اس پر آ گرا۔ وہ اچانک ٹوٹنے والی افتاد کے لیے تیار نہ تھی۔

اس سے پہلے کہ وہ کچھ سمجھ پاتی لڑکا اسے تھام چکا تھا۔ لڑکے نے اپنے بازؤں کے گھیرے میں اسے یوں جکڑ رکھا تھا کہ دیکھنے والوں کو لگتا کہ اس نے بے دھیانی میں خود کو اور ہوسٹس کو گرتے ہوئے سنبھالا ہے۔

صورت حا ل کا ادارک ہوتے ہی شگفتہ نے زور لگا کر خود کو اس کی زبردستی کی گرفت سے آزاد کیا۔ لڑکے کے چہرے پر خباثت بھری مسکراہٹ دیکھ کر اسے کچھ ہی پل لگے تھے سارا معاملہ سمجھنے میں۔ اس کا رہا سہا صبر جواب دے گیا تھا۔ اس وقت لڑکے کا چہرہ اس کی نظر میں دنیا کا مکروہ ترین چہرہ تھا۔ اپنی نوکری، ذمے داریاں سب اس کے ذہن سے اڑن چھو ہوا۔ اگلے ہی پل مسافروں سے بھری بس میں زناٹے دار تھپڑ کی آواز گونجی تھی۔ گال پر رسید ہونے والے کرارے تھپڑ کی وجہ سے لڑکے نے شاک کے عالم میں اپنے گال پر ہاتھ رکھا ہوا تھا۔

"تمھاری جرآت کیسے ہوئی؟ گھٹیا، زلیل، کتے، حرامی۔ تم نے مجھے سمجھ کیا رکھا ہے؟" جو اس کے منہ میں آیا وہ غصے سے بولے گئی۔

پوری بس میں جیسے کرنٹ دوڑ گیا تھا۔ ادھر اس ذلیل گھٹیا انسان نے بھی تذلیل محسوس کرنے ہی ہذیان بکنا شروع کر دیا تھا۔ سب کی نظریں ان دونوں پر ہی مرکوز تھیں۔ زرا سی دیر میں چلتی بس میں اچھا خاصا تماشا لگ چکا تھا۔ بمشکل لوگوں نے ان دونوں کو سنبھالا۔ کوئی لڑکے کو لعن طعن کر رہا تھا تو کوئی ہوسٹس اور بس سروس کو ملامت کرتے ہوئے ان کے خلاف زہر اگل رہا تھا۔ گالیوں اور کوسنوں کا سلسلہ ناقابل برداشت تھا۔

آج وہ سمجھ گئی تھی کہ گھر میں لگنے والے تماشے اور بیچ چوراہے میں لگنے والے تماشے میں کیا فرق ہوتا ہے۔

رنگ برنگے لوگوں کی چبھتی نگائیں، ذو معنی باتیں اور یہ تماشا اصل معنوں میں اس کے لیے ذلت اور ہتک آمیز تھا۔ عزت کا تماشا کیا ہوتا ہے اس کے حقیقی مفہوم سے وہ اب آگاہ ہوئی تھی۔۔

وہ اس کے لیے سفر اور نوکری کا آخری دن تھا۔ انتہائی ناخوشگوار طریقے سے شگفتہ اپنی پہلی نوکری گنوا بیٹھی تھی۔

اس تلخ واقعے سے نکلنے میں اسے کچھ دن لگ گئے تھے۔ زندگی تو بہرکیف اسے گزارنی ہی تھی اور اتنا تو وہ جان گئی تھی کہ ڈھنگ کی نوکری حاصل کرنے کے لیے مزید تعلیم حاصل کرنا ضروری ہے۔

مردوں کے اس معاشرے میں ایک خوب صورت لڑکی کے لیے جگہ بناتا آسان ہے بہ نسبت ایک معمولی شکل و صورت کی لڑکی کے۔ لیکن اگر کام کے سلسلے میں گھر سے باہر نکلنے والی خوب صورت لڑکی شریف اور باکردار ہو تو اس کی زندگی اجیرن بنانے میں مرد اور ان کا نام نہاد معاشرہ  سب سے آگے ہوتا ہے۔ قدم قدم پر عورت کی شرافت اور حدود اسے ٹھوکر کھانے سے تو بچا لیتی ہیں مگر تماشا لگنے سے نہیں بچا پاتیں۔

"میں تعلیم جاری رکھوں گی۔" شگفتہ فیصلہ کر کے مطمئن ہو گئی تھی۔

٭٭٭٭

اگلے دن بھی عظیم کا موڈ ٹھیک نہ تھا۔ جیسے تیسے دکان چلانے کی کوشش میں وہ ہلکان ہو رہا تھا۔ کم فہمی میں ایک دو بار وہ مختلف چیزیں دے گیا۔ ایک بچے نے "دو کپ کیک" مانگے اور اس نے "دو کیک رس" تھما دیے۔

ایک بچے کی مطلوبہ ٹافیوں کی بجائے اسے اور ٹافیاں نکال دیں۔

"اف" وہ بوکھلا کر رہ گیا۔ یہ سب اتنا آسان نہیں تھا پر ہائے رے مجبوری، اسے سب کرنا پڑ رہا تھا۔

دکان داری کے چکر میں اس نے دیکھا ہی نہیں کہ حسن کا ٹیکسٹ آیا ہے۔

فرصت ملنے پر جیپ سے موبائل نکال کر پیغام پڑھا۔

"یار کہاں ہے تو؟" گھنٹہ بھر پہلے پیغام موصول ہوا تھا۔

"اب ریپلائی کرنے کا کیا فائدہ۔" بے دلی سے عظیم نے موبائل دوبارہ جیب میں ڈال لیا۔ جس حساب سے وہ چیزیں بھول رہا تھا اور ادھر ادھر کر رہا تھا موبائل کو کاؤنٹر پر رکھنے کا جوکھم وہ مول نہیں لے سکتا تھا۔ 

آہستہ آہستہ اس کی بوکھلاہٹ کم ہونا شروع ہو گئی تھی۔

عظیم کو دکان پر جاتے ہوئے چوتھا روز تھا جب ابا کا بخار ٹوٹا۔ ٹیسٹ کی رپورٹ بھی آ گئی تھی جو ڈاکٹر کے مطابق  تسلی بخش تھی۔ بس ابا کا کولیسٹرول تھوڑا بڑھا ہوا تھا۔ فشار خون کو بھی ٹھیک رکھنے کی خاص ہدایت تھی۔ یہ سوچ کر کہ ابا اب ٹھیک ہیں اور جلد ہی دکان سنبھال لیں گے وہ خوش ہو گیا تھا۔ چند دنوں کی دکانداری نے اس کی عقل کچھ تو ٹھکانے لگا ہی دی تھی۔ وہ جان گیا تھا کہ دیکھنے میں یہ کام جتنا آسان لگتا ہے اصل میں اتنا ہے نہیں۔ باپ کے لیے پہلی بار اس کے دل میں ستائش اور فخر کے جذبات جاگے تھے۔

ہر چھوٹی چیز کا مکمل حساب رکھنا اور کم قیمت کی چھوٹی موٹی اشیاء بیچتے ہوئے صبر و تحمل کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑنا واقعی بڑی بات تھی۔

"کسی نے سچ کہا تھا کہ کڑوی زبان والے کا شہد بھی نہیں بکتا جب کہ میٹھی زبان والے کی مرچیں بھی بک جاتی ہیں۔"

چاہنے اور ضرورت کے باوجود بھی دکان کی کمائی میں اس نے ہیرا پھیری نہیں کی تھی۔ اپنے تئیں گھر والوں سے یہ اس کی وفاداری کا ثبوت تھا۔ ابا کی بیماری کے طفیل ذمہ داری کا وقتی احساس اسے ضرور چھو گیا تھا۔

معمول کے مطابق مغرب کے وقت اس نے شٹر گرایا اور گھر کی راہ لی۔ گھر میں داخل ہوتے ہی اس کی نظر برآمدے میں کرسی پر بیٹھے ابا پہ پڑی۔ کچھ دن کے آرام، اچھی خوراک اور خدمت نے ان کی صحت پر اچھا اثر چھوڑا تھا۔ 

"السلام علیکم ابا۔ کیسی طبیعت ہے؟" وہ سیدھا ان کے پاس چلا آیا۔

"وعلیکم السلام ، بہتر ہوں۔" انھوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔

"کچھ سمجھ آئی دکان اور دکان داری کی؟"

"ہاں جی ابا کچھ کچھ۔۔" اس نے سر کھجاتے ہوئے کہا۔

"چلو اچھا ہے۔ مجھے اب دکان کی فکر نہیں ہو گی۔۔ کچھ اوپر نیچے ہوتا ہے تو مجھے لگتا ہے تم دکان سنبھال لو گے۔"

باپ کی بات سن کے وہ تو گڑبڑا ہی گیا تھا۔ "اللہ نہ کرے کچھ اوپر نیچے ہو آپ ہی سنبھالیں گے دکان۔۔۔"

"ابا وہ ایک بات کرنی تھی۔" اس نے ہچکچاتے ہوئے کہا۔

ابا نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔

"میں سوچ رہا ہو کہ کم از کم بی اے تو کر لوں۔ پڑھائی بہت ضروری ہے۔ داخلے کھلنے والے ہیں۔ آگے داخلہ لے لوں؟" سیمنٹ کا فرش تکتے ہوئے اس نے بات مکمل کی جب کہ ابا بغور اس کے تاثرات کا جائزہ لے رہے تھے۔

"پڑھائی کا شوقین تو یہ کبھی نہیں رہا۔۔ بمشکل ہی پاس ہو پاتا ہے تو کیا آگے پڑھنے کی بات اس لیے کر رہا ہے کہ دکان پر نہ بیٹھنا پڑے؟" باپ بیٹے کی سوچ تک پہنچ گیا تھا۔

"مگر تمھارا نتیجہ؟" ابا نے مشکوک انداز میں ادھوری بات کہی۔

"میں پاس ہو جاؤں گا۔" وہ فورا بولا۔

"اب میں دل لگا کر محنت سے پڑھوں گا۔ آپ کو شکایت کا موقع نہیں ملے گا۔"

"ہممم ٹھیک، دیکھتے ہیں۔ اب میں بہتر ہوں کل سے دکان پر میں خود جاؤں گا۔" ابا نے دو ٹوک بات کر کے مزید کچھ کہنے کی گنجائش نہیں چھوڑی تھی۔

وہ پرسکون ہوا۔ ایک طرح سے یہ ہاں ہی تھی۔ سکون کی گہری سانس بھرتا وہ اٹھ کھڑا ہوا۔

"آپا میرا کھانا نکال دو۔ میں فریش ہو کر آ رہا ہوں۔" آواز لگاتے ہوئے وہ منہ ہاتھ دھونے واش بیسن کی طرف بڑھ گیا۔ خوشی کی لہر پورے جسم میں دوڑ گئی۔ شاید وہ گنگنا بھی رہا تھا۔

٭٭٭٭

شگفتہ نے انٹر میں پرائیوٹ داخلہ تو لے لیا تھا مگر مسئلہ یہ تھا کہ فیس کہاں سے اور کیسے بھرتی کیونکہ نوکری سے تو وہ ہاتھ دھو بیٹھی تھی۔ چناچہ وہ زور و شور سے نئی نوکری کی تلاش میں جت گئی۔

جلد ہی اسے ادارک ہو گیا تھا کہ تنہا، جوان اور خوب صورت لڑکی کی تاک میں بیٹھے بھیڑیوں کی تعداد کا کوئی شمار نہیں اور خیرخواہوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ اس کے ساتھ پیش آ چکے واقعات کی بدولت کافی تبدلیاں بھی اس کی شخصیت میں رونما ہو چکی تھیں۔

چہرے پر بلا کی سنجیدگی، بگڑے تاثرات، زبان میں کڑواہٹ اور انداز میں بے خوفی و لاپروائی۔ یکے بعد دیگرے اس نے کئی پورے دن کی اور جذ وقتی نوکریاں کی تھیں۔ کتابوں سے زیادہ شگفتہ نے زندگی کو پڑھا اور اس کے ناخوشگوار تجربوں سے سیکھا تھا۔ وقت کا کام ہے گزرنا اور وقت گزرتا گیا تھا۔ جیسے تیسے وہ ایف اے بھی کر چکی تھی۔ چاچا کے ساتھ اس کا رابطہ ہمیشہ بحال رہا تھا۔ دو تین مہینوں میں ایک آدھ گھر کا چکر بھی لگا لیتی۔ چونکہ اب وہ اپنے آبائی گھر میں مہمان کی حیثیت سے جاتی اس لیے چاچی کو اس سے کوئی خطرہ نہیں رہا تھا بل کہ ان کا رویہ بھی اس کے ساتھ ٹھیک ہو گیا تھا۔

تفریبا دو سال کی مسلسل جدوجہد کے بعد ایک نامور ڈیپارٹمنٹ اسٹور میں سیلز گرل کی پکی نوکری مل گئی تھی۔  نئی جگہ، نئی نوکری اور نئے امتحان۔ گزشتہ برسوں میں اس کی زندگی میں بس یہ ہی تبدیلیاں آئی تھی۔

اچھے رہائشی علاقے میں واقع نیم سرکاری ورکنگ ویمن ہاسٹل ہی اب شگفتہ کی پناہ گاہ تھا۔ ہاسٹل ایک لمبی چوڑی دفتر کی عمارت سے ملحق تھا۔ دفتر اور عمارت ایسے ووکیشنل ادارے کی تھی جہاں لڑکیوں کو ہر طرح کے کورسز کرائے جاتے تھے۔ اس حوالے سے ادارہ کافی مشہور تھا مگر ہاسٹل کی ساکھ کے متعلق اس نے شروعات میں متضاد آراء سنی تھیں۔ مگر اسے اس سے نہ کچھ فرق پڑا اور نہ ہی اتنے سالوں میں اس نے کچھ ایسا ویسا دیکھا تھا۔ اسے تو بس مناسب کرائے پر ایک ٹھکانا درکار تھا جو کہ اسے میسر تھا۔ جب وہ یہاں آئی تو بہت کچھ تھا جو اس کے گمان سے بھی بہت دور تھا۔۔ بہت جلد وہ ایک اور تماشے کا شکار بننے والی تھی وہ بھی ایک عورت کے ہاتھوں۔ اسے ابھی یہ سمجھنا تھا کہ صرف مرد ہی عورت کا تماشا بنوانے کا باعث نہیں بنتے بل کہ بعض اوقات ایک عورت ہی ہوتی ہے جو اپنی ہم جنس کا تماشا  بنواتی ہے۔

٭٭٭٭

بالآخر بڑے دنوں بعد عظیم کی پسند کا دن چڑھا تھا۔ ان دنوں جیسا جو اس نے اپنی مرضی اور پسند سے گزارے تھے۔ دوستوں کے ساتھ وہ مخصوص چائے کے ڈھابے پر موجود تھا۔

"کیا بات ہے یار۔ آج تو بڑا خوش لگ رہا ہے؟"

"ویسے شکر ہے ملاقات تو ہوئی۔ بڑی بوریت ہو گئی تھی تیرے بغیر۔۔۔"

الیاس نے عظیم کو مخاطب کیا وہ کافی پرجوش لگ رہا تھا جب کہ حسن چپ چپ سا بیٹھا تھا۔

"شکر ہے یار ابا ٹھیک ہوئے۔ خوامخواہ کی سر پڑی ذمہ داری سے میری تو جان ہلکان ہوگئی تھی۔ کہاں تیرا شہزادہ دوست اور کہاں عام سی دکان داری۔" عظیم نے تفاخر سے فرضی کالر کھڑے کیے۔

"بس میں نے بی اے کرنے کا طے کر لیا ہے اور خوشی کی بات یہ کہ ابا نے اجازت بھی دے دی ہے۔" عظیم نے خوشگوار موڈ میں بات مکمل کی اور چائے کے گھونٹ بھرنے لگا۔

"واہ یہ ہوئی نا بات۔ اچھا اور سنا کوئی نیا سلسلہ چلا، پرانی والی کا کیا بنا؟"

الیاس نے میز پر تھوڑا آگے کو جھکتے ہوئے رازداری سے اپنی مرضی کی بات اگلوانے کی کوشش کی۔ وہ خود تو ان چکروں میں نہیں پڑتا تھا مگر اسے ایسی داستانیں سننے کا بہت چسکا تھا۔ الیاس کی بات سنتے ہی عظیم کی آنکھیں چمک اٹھیں۔

"او ہاں یار بڑے مزے کی بات ہے۔ سن وہ نہیں تھی، فیس بک والی چھمک چھلو۔ بڑی شوخی سی، اسے کتنے میسج کیے تھے پر کوئی ڈھنگ کا جواب ہی نہیں دیتی تھی۔ بڑے نخرے تھے بھئی اس کے۔۔۔"

"اچھا وہ۔۔۔" عظیم کے نقشہ کھینچنے پر الیاس کو کچھ سمجھ آئی تو تھی۔

"یاد ہے فون نمبر لینے کے لیے کتنے منتے ترلے کیے مگر کمینی ہاتھ ہی نہیں آتی تھی۔" میز پر کہنیاں دھرے وہ جیسے کوئی کارنامہ بیان کر رہا تھا۔ الیاس کا تجسس قابل دید تھا جب کہ حسن کھویا کھویا سا تھا۔ صاف لگ رہا تھا کہ اسے قصے میں کوئی دل چسپی محسوس نہیں ہو رہی۔

"اتنا چپ کیوں ہے، منہ کو تالا لگا کر بیٹھا ہے کیا؟" عظیم نے اس کی غیر معمولی خاموشی محسوس کرتے ہوئے ٹوکا۔

"تو چھوڑ اسے، یہ بتا کہ پھر کیا ہوا۔" الیاس نے کریدا۔

"ہونا کیا ہے۔ تیرے یار کی بات ہوئی ہے اس سے کال پر وہ بھی اتنی لمبی۔"

"ہیں واقعی؟"

"ہاں نا۔ پہلے کیسی میڈم بن رہی تھی۔ ویسے ہے بڑی کوئی توپ چیز۔۔۔" عظیم نے آنکھ میچ کر مزہ لیتے ہوئے کہا۔

عظیم اور الیاس کا مشترکہ قہقہ گونجا تھا۔  

"اچھا بڑی بات ہے یار۔ مگر اس نے تجھ سے رابطہ کیسے کیا؟"

"ایسے کہ جب وہ اپنا فون نمبر نہیں دے رہی تھی تو میں نے اسے اپنا نمبر انباکس کر دیا بھا۔ ابا کی بیماری کے باعث مصروفیت رہی اور میں نے کافی دن کوئی میسج نہیں کیا تو اس سے رہا نہیں گیا اور خود میرے نمبر پر میسج کر دیا۔"

"واہ جی واہ مزے ہیں تیرے۔۔۔"

"بڑے" الیاس کی بات کے جواب میں کہا گیا تھا۔ 

"تجھے کیا ہوا ہے، کیوں منہ لٹکا کر بیٹھا ہے؟ لگتا ہے جو پھنسی بھی نہیں وہ چھوڑ کے چلی گئی ہے۔" حسن کو بے ہودہ مذاق کر کے الیاس اور عظیم ٹھٹھہ لگا رہے تھے۔

"کوئی خاص بات نہیں، بس کچھ سوچ رہا ہوں۔" خلاف توقع حسن نے سنجیدگی سے جواب دیا۔ آج اسے عظیم کی کسی بے ہودہ بات پہ غصہ نہیں آیا تھا۔

"کیا سوچ رہے ہو، ہمیں بھی بتاؤ۔" دونوں بیک وقت بولے۔

"مجھے لگتا ہے یہ سب ٹھیک نہیں ہے۔۔۔" حسن نے بات شروع کی۔

"کیا ٹھیک نہیں ہے؟" عظیم نے آنکھیں سکیڑیں۔

"وہی جو تم کرتے ہو۔۔"

"تم"

"مطلب ہم، ہمیں ایسا نہیں کرنا چاہیے۔"

"کیوں؟"

"اس لیے کہ وہ لڑکیاں بھی کسی کی بہنیں اور بیٹیاں ہوتی ہیں۔۔۔"

"تو پھر؟"

"تو یہ کہ بہنیں بیٹیاں عزت ہوتی ہے۔" ان کے چہروں کو دیکھتے ہوئے حسن نے اٹکتے ہوئے بات مکمل کی۔

مکالمے کے اختتام پر ان دونوں کا قہقہہ گونجا تو حسن نے بے ساختہ پہلو بدلا۔

"کیا کہا تو نے؟ بیٹیاں، بہنیں، عزت۔ واہ رے واہ! تو کب سے اتنے نیک خیالات کا حاجی صاحب ہو گیا؟" عظیم نے اس کا بھرپور مذاق اڑایا تھا۔

"جب لڑکیاں رنگ برنگی سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائیٹس پر پروفائل بناتی ہیں، قابل اعتراض تصویریں اور ویڈیو ڈالتی ہیں انھیں تب احساس نہیں ہوتا کہ وہ بھی کسی کی بہنیں، بیٹیاں اور عزت ہیں؟"

"وہ تو ٹھیک ہے مگر۔۔۔"

"مگر کیا؟ ہم کون سا ان لڑکیوں کے ساتھ زبردستی دوستی کرتے ہیں۔ ان کی مرضی ہوتی ہے تو ہم سے دوستی اور بات کرتی ہیں۔ لڑکیاں خود انجانے لڑکوں سے چیٹنگ کرتی ہیں یہاں تک کہ ماں باپ کی عزت کو پس پست ڈال کر ایک نامحرم سے ملنے تک کو تیار ہو جاتی ہیں۔ وہ رابطے میں رہنا چاہتی ہیں تو ہم رابطہ رکھتے ہیں نا۔" انتہائی سفاکی سے ہی سہی مگر حقیقت عظیم نے ان کے سامنے کھول کے رکھ دی تھی۔

"مگر سب لڑکیاں تو ایک جیسی نہیں ہوتیں۔" حسن اپنی بات پر مصر رہا۔

"ہاں تو میں نے کب کہا کہ سب ایک جیسی ہوتی ہیں؟ مانا کہ تمام لڑکیاں دو ٹکے کی ٹائم پاس نہیں ہوتیں۔۔" عظیم نے درشتی سے کہا۔

"یاد رکھو کہ باحیا اور باکردار لڑکیاں کبھی ہمارے جیسوں کے ہاتھوں نہ خوار ہوتی ہیں اور نہ خراب۔ اچھی لڑکیاں نہ ہی انجانے لڑکوں سے دوستیاں کرتی ہیں اور نہ ہی رابطے استوار کرتی ہیں۔ ان کے سامنے ہم چاہے جتنا مرضی سر پیٹ لیں وہ تو بات کرنے کی روادار تک نہیں ہوتیں۔" یہ کہنے والا الیاس تھا۔ 

"اور نہیں تو کیا جب کسی کی بہن اور بیٹی کو خود اپنی عزت کا پاس نہیں تو ہم کیوں خوامخواہ میں ان کی عزت کے رکھوالے بنتے پھریں۔" عظیم نے الیاس کی بات میں ٹکڑا جوڑا۔

"ویسے بھی تیری کوئی بہن نہیں اور بیٹی والا تو ابھی تک ہوا نہیں تو تجھے کاہے کی فکر۔۔۔"عین حسن کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے عظیم نے استہزائیہ انداز سے کہا۔

گہری اور پرسوچ نظروں سے عظیم کو گھورتے ہوئے حسن نے تائید میں سر ہلایا۔

"ہاں ٹھیک کہتے ہو۔ میری کون سا کوئی بہن ہے۔ فکر مند تو وہ ہو جس کی بہنیں ہیں۔"

"یہ ہوئی نا بات۔" عظیم نے اس کے کندھے پر ہاتھ مارتے ہوئے اسے شاباشی دی۔

کئی دنوں سے حسن جس کشمکش کا شکار تھا اس کا خلاصہ آج عظیم کے ہاتھوں ہو گیا تھا۔ حسن کے حق میں اور عظیم کے وسیع تر نقصان میں۔۔۔

"یہ دنیا مکافات عمل ہے۔ انسان جب تک اپنے کیے کا انجام خود اپنی آنکھوں سے دیکھ کر بھگت نہیں لیتا اس کی آنکھوں پر بندھی جہالت کی پٹی نہیں اترتی۔ وہ بھی اپنے کیا بھگتے گا، ضرور بھگتے گا۔" فیصلہ ہو چکا تھا۔

الٹی گنتی شروع ہو چکی تھی۔ اس کا کیا دھرا اس کے سامنے آنے والا تھا۔ مگر بات اس کی عزت اور گھر تک آ جائے گی یہ تو عظیم کے فرشتوں کو بھی خبر نہ تھی۔(جاری ہے)