وہ لوگ مخنث تھے مگر ابھی تو وہ عزت سے بیٹھے تھے اس کے باوجود لوگ ان کی طرف اشارہ بھی کرتے اور سیٹیاں بھی بجاتے جس کی وجہ سے ببلی بہت پریشان تھی۔ دونوں نے بڑی چادریں اچھی طرح لپیٹی ہوئی تھیں۔
اُم حیات ہنگورا
’’ماشاء اللہ بہت پیارا ہے آپ کا بیٹا‘‘ صائمہ نے اُس عورت سے کہا۔ ’’میرا‘‘ وہ عورت مسکرائی۔ ’’یہ میرا بیٹا نہیں ہے، اس کا چہرہ دیکھ کر اندازہ نہیں ہوتا کہاں میں اور کہاں یہ؟‘‘ وہ عورت بے تکلفی سے کہنے لگی تو صائمہ بغور اس عورت کو اور بچے کو دیکھنے لگی۔
’’میں اس کی پھوپھو ہوں ۔ یہ چند ماہ کا تھا جب اس کے امی ابو کا روڈ ایکسیڈنٹ میں انتقال ہوگیا۔ بس یہ تب سے میرا بیٹا ہے‘‘ وہ وضاحت سے بولی۔
’’وہاں چل کر بیٹھیں صائمہ نے بینچ کی طرف اشارہ کیا تھوڑی دیر میں ان دونوں کی دوستی ہوگئی یہاں تک کہ دونوں نے ایک دوسرے کو اپنا فون نمبر بھی دے دیا۔
’’ممی چلیں ابو بلا رہے ہیں‘‘ مومنہ نے صائمہ کے پاس آکر کہا تو وہ فوراً کھڑی ہوگئی۔
’’یہ کیا حرکت تھی‘‘ گھر آکر شعیب صائمہ پر ناراض ہونے لگا۔ ’’آج ہمارا معراج بھی ہمارے پاس ہوتا تو اتنا ہی بڑا ہوتا نا‘‘
’’صائمہ تم انتہائی فضول عورت ہو، نہ جانے وہ کون تھے، ہر کسی سے‘‘ ’’پلیز آپ غصہ مت کریں۔ دو سال سے میں جس اذیت میں ہوں وہ آپ ہرگز نہیں سمجھ سکتے‘‘
’’تم ماں ہو تو میں بھی باپ ہوں۔ میں نے خوشی سے نہیں دیا تھا اسے‘‘ وہ یہ کہہ کر چلا گیا اور صائمہ دبی دبی آواز میں رونے لگی۔
٭٭٭٭
آج کل نیلی کچھ زیادہ ہی تجھ سے محبت نہیں جتا رہی‘‘ شام آپا گلو جب واپس آئی تو ببلی کے پاس نیلی بیٹھی ہوتی۔ ’’کیا کروں جب سے یہ بڑا ہوا ہے گھر کے اندر رہتا ہی نہیں باہر جانے کی ضد کرتا ہے۔ باہر دروازے پر لے کر کھڑی ہوتی ہوں تو گلی میں نکل جاتا ہے۔ نیلی آجاتی ہے اس کے ساتھ کھیلتی ہے تو ذرا بہل جاتا ہے‘‘ ببلی بولی۔
’’کسی دن یہ گل کھلائے گی تجھے نہیں پتا، کل میں نے اسے اپنے علاقے کے تھانے کے باہر دیکھا تھا‘‘ آپا گلو بولی تو ببلی سہم گئی۔
’’سامان باندھ ابھی فوراً سارا‘‘ آپا گلو نے پلنگ کے نیچے سے صندوق کھینچا اور راتوں رات وہ محلہ ہی نہیں شہر بھی چھوڑ چکی تھی۔
’’کس شہر کا ٹکٹ لیا ہے آپا گلو‘‘ ’’لاہور کا، وہاں تو ہم پہلی دفعہ جائیں گے۔ سکھر یا حیدرآباد چل لیتی یہ تو کراچی سے بہت دور ہوجائے گا‘‘ ببلی بولی۔
’’پگلی نیلی ہم کو ہر جگہ ڈھونڈ لیتی ہم کو دور ہی جانا تھا‘‘ ’’وہاں سب کچھ انجان ہوگا‘‘ ببلی بولی۔
’’ابھی چپ کر جا دیکھ نہیں رہی لوگ مڑ مڑ کر دیکھ رہے ہیں‘‘ آپا گلو نے ٹوکا۔
’’میری مان آپا گلو اس کو واپس کردے اس کے ماں باپ کو اور ہم بھی واپس چلتے ہیں‘‘ اب اسٹیشن پر ببلی لوگوں کی نگاہوں سے پریشان تھی۔ ٹھیک ہے وہ لوگ مخنث تھے مگر ابھی تو وہ عزت سے بیٹھے تھے اس کے باوجود لوگ ان کی طرف اشارہ بھی کرتے اور سیٹیاں بھی بجاتے جس کی وجہ سے ببلی بہت پریشان تھی۔ دونوں نے بڑی چادریں اچھی طرح لپیٹی ہوئی تھیں۔ معراج کو بھی لڑکیوں کی طرح رکھا ہوا تھا اس کے باوجود بھی وہ لڑکی بالکل نہ لگتا تھا۔ بلکہ وہ فراک میں عجیب سا لگ رہا تھا کہ کسی نے آواز کسی۔ ’’کس کا بچہ اٹھا لیا ہے‘‘
’’جائو اپنے کام سے کام رکھو یہ ہمارا بچہ ہے دِکھتا نہیں ہے‘‘ آپا گلو نے ہاتھوں سے معراج کو پکڑ کر چادر کے اندر چھپالیا۔ بولنے والا بول کر چلا گیا تھا مگر اُن دونوں کو مزید تشویش میں مبتلا کر گیا تھا۔ ’’ریل گاڑی جب تک چلی نہیں دونوں کا سانس اَٹکا ہی رہا۔ ان کے کیبن میں مولانا صاحب اپنی فیملی کے ساتھ تھے۔
’’یہ ہر جگہ مولوی لوگ ہی کیوں ٹکراتے ہیں اب‘‘ آپا گلو بڑبڑائی۔
ریل کے چلتے ہی ببلی نے معراج کو آرام سے بٹھا کر کھانا کھلایا اور سلادیا مگر تھوڑی ہی دیر میں اس نے الٹیاں شروع کردیں۔ وہ دونوں بے حد پریشان ہوگئیں۔ ’’تم لوگوں کے پاس بچے کے لیے کوئی دوا نہیں ہے‘‘ مولوی صاحب نے بچے کی بگڑتی حالت دیکھ کر کہا۔ ’’نہیں، وہ دراصل ہم جلدی میں بھول گئے‘‘ ببلی بولی۔
’’اچھا ٹھہرو میں معلوم کرتا ہوں‘‘ چونکہ مولوی صاحب کے ساتھ بھی بچے تھے اس لیے ان کے پاس سے دوائی مل گئی اس کے باوجود جب وہ لاہور پہنچے تو معراج کی حالت کافی خراب تھی، اسے اسپتال لے جانا پڑے گا۔ مولوی صاحب نے دونوں سے کہا۔ ’’ہم لوگ پہلی دفعہ اس شہر میں آئے ہیں‘‘ آپا گلو نے مولوی صاحب سے کہا۔ ’’اچھا ٹھہرو میں کچھ کرتا ہوں‘‘ مولوی صاحب نے ٹیکسی کروا کر پہلے ان لوگوں کو اسپتال چھوڑا۔ بچے کو ایمرجنسی میں داخل کروایا۔ ’’میں گھر والوں کو چھوڑ کر آتا ہوں‘‘ یہ کہہ کر مولوی صاحب چلے گئے اور جب وہ واپس آئے تو وہ لوگ وہاں سے جاچکے تھے۔
٭٭٭٭
’’صائمہ پلیز بتی بجھادو میں کچھ دیر سونا چاہتا ہوں‘‘ شعیب نے کمرے میں آکر بستر پر لیٹتے ہوئے کہا تو صائمہ پریشان ہوگئی۔ ’’خیریت تو ہے آپ اس وقت، آپ کی طبیعت‘‘ ’’میں نے کہا نا!! لائٹ بجھادو‘‘ اب شعیب نے اوپر تک چادر لے لی۔ تو اسی وقت دروازے پر بیل بجی۔
’’اس وقت کون آگیا؟‘‘ صائمہ نے حیرت سے پوچھا۔
’’معاذ سے کہو کہ جاکر پوچھے کون ہے‘‘ شعیب نے کہا۔
’’ابو منصور چاچا آئے ہیں‘‘ معاذ نے اندر آکر بتایا۔
’’صائمہ تم دوسرے کمرے میں چلی جاؤ اور معاذ تم منصور کو یہیں لے آؤ‘‘ شعیب نے بیٹھتے ہوئے کہا۔
’’السلام علیکم بھائی‘‘
’’وعلیکم السلام‘‘
’’میں معافی چاہتا ہوں‘‘ منصور نے بات کا آغاز کیا۔
’’کیسی معافی؟ میں سمجھا نہیں‘‘ شعیب نے پوچھا۔
’’وہ آج میری وجہ سے امی جان نے آپ کے ساتھ زیادتی کردی‘‘
’’اوہ بھائی چھوڑو۔ جب سے اس راہ پر قدم رکھا ہے ہماری تو عادت ہوگئی ہے‘‘ اب شعیب مسکرایا۔
’’میں گھر پہنچا تو فرخ نے بتایا‘‘ منصور نے محمود کے بیٹے کا نام لیا۔ ’’فرخ نے‘‘ اب شعیب کو حیرت ہوئی۔
’’بھائی جان کو پتا نہیں ہے وہ کیا کررہے ہیں۔ ایک ماں کو خوش کرنے کے لیے وہ جس طرح لوگوں کی غیبتوں اور بہتانوں کی میٹنگ کرتے ہیں اس میں وہ دوسروں کا کم اپنا نقصان زیادہ کررہے ہیں۔ اسی لیے میں نے سوچا کہ میں شادی کے بعد الگ رہوں گا۔ جس کی وجہ سے امی جان نے سارا غصہ آپ پر نکالا۔ میں نے آپ کے بچوں کو بھی دیکھا ہے اور محمود بھائی کے بچوں کو بھی۔ بے شک وہ بچے بھی اچھے ہیں مگر ابھی سے ان میں لوگوں کی باتیں کرنا۔ دوسروں کی ٹوہ میں رہنا۔ اپنی خودنمائی کرنے کی گندی عادتیں نمو پارہی ہیں جس کی وجہ سے ان بچوں کی ساری معصومیت ختم ہورہی ہے معذرت کے ساتھ۔ پہلے پہل جب آپ الگ ہوئے تھے میں آپ کو غلط سمجھتا تھا مگر آج جب میں اپنی شادی اپنے بیوی بچوں کا تصور کرتا ہوں تو میں سوچتا ہوں کہ یہ جوائنٹ فیملی سسٹم تو سراسر اللہ تعالیٰ کو ناراض کرنے کے اسباب ہیں۔ چند روزہ فانی زندگی کے لیے ہم نے اپنے پروردگار کے احکام کا کس طرح مذاق اڑایا ہے۔ اکثر بھابھی بغیر دوپٹے کے ہمارے سامنے آجاتی ہیں۔ حالانکہ ان کا کوئی قصور نہیں ہوتا وہ تو بے چاری گھر کے کام کاج میں مشغول ہوتی ہیں مگر افسوس میری ماں خوش رہے مگر اللہ تعالیٰ ناراض اسی طرح میں سوچتا تھا کہ طلحہ بھائی (دور کے رشتہ دار) کی بیوی بھی تو پردہ کرتی ہے وہ بھی تو ساتھ رہتے ہیں مگر اب سمجھ میں آیا کہ ان کی بیوی تو کرتی ہے مگر وہ تو نہیں کرتے کیوں کہ ان کے گھر کی باقی عورتوں پردہ نہیں کرتیں اور وہ صرف اپنے والد صاحب کی ناراضی کے ڈر سے علیحدہ نہیں ہوپا رہے ہیں۔ افسوس صد افسوس‘‘ منصور نے ٹھنڈی سانس بھری۔
’’چھوڑو بھائی کیا باتیں لے بیٹھے۔ اللہ تعالیٰ کی راہ میں تو سب کچھ سہنا پڑتا ہے، میں سہ رہا ہوں تو کمال نہیں‘‘ شعیب نے بات ختم کرنا چاہی۔
’’نہیں بھائی مجھے بے حد افسوس ہے۔ مجھے امی سے تفصیل سے بات کرنی چاہیے تھی‘‘ منصور بولا۔
’’تب بھی وہ یہی کہتیں منصور، ان کے دل میں جو تھا وہی کہا انہوں نے‘‘ شعیب نے افسردگی سے کہا۔
(جاری ہے )