ارے! نام مت لو اس منحوس کا میرے سامنے، پہلے خود میرے سینے پر مونگ دلتی رہی، اب میری پوتی کو اس کے سپوت نے نشانہ بنایا ہے، اس رانیہ کو تو میں کبھی نہ بخشوں گی

حفصہ فیصل

چوتھی قسط

اسد نے کونین اور ساجد کو عدنان کا پیغام دیا ، پہلے تو وہ خوب ہنسے۔

" ہم مسجد جائیں گے"

پھر نہ جانے کونین کے دل میں کیا سمائی کہ کہنے لگا ؛

"چل  چلتے ہیں یہ بھی ایک ایڈونچرہی سہی"۔

کیا کہہ رہا ہے؟ ہوش میں تو ہے مسجد جائیں گے تو نماز بھی پڑھنی پڑھے گی، کیسے پڑھتے ہیں نماز کچھ پتا بھی ہے؟ اسد نے تابڑ توڑ سوال کیے۔

امیر گھرانے کی بگڑی اولاد دین سے نابلد تھی ، مسجد اور نماز کو ایڈونچر کا نام دے رہی تھی۔ جسے بچپن میں صرف مسلمانوں والا نام دے کر یہ بتادیا گیا تھا کہ تم مسلمان ہو،  مسلمانی کے کیا تقاضے ہیں اس کی نہ ان کے والدین کو پروا تھی نا ہی انہیں اس بات کی فکر دلائی گئی تھی۔ جن اداروں میں تعلیم حاصل کی، وہاں بھی دینی تعلیم کا خاص اہتمام نہ تھا۔وہاں تو بس انگریزی فرفر بولنے پر توجہ دی گئی لیکن کلمہ تک ٹھیک سے پڑھنے کا نہیں کہا گیا۔ عدنان سے دوستی بھی حادثاتی تھی ورنہ عدنان اور ان کا کیا میل۔۔۔

دراصل عدنان کی چھٹیاں تھیں، رانیہ نے سپر اسٹور سے چند ضروری چیزیں منگوانی تھیں۔ سپر اسٹور سڑک کے اس پار تھا، وہیں سے پوش علاقے کی شروعات ہوتی تھی۔سپر اسٹور سے سامان خرید کر عدنان باہر آرہا تھا کہ کسی چیز سے اس کا پاؤں ٹکڑایا۔ نیچے دیکھا تو ایک  قیمتی لیدر کا والٹ پڑا تھا ۔ عدنان نے پہلے تو سوچا

"کیا کروں؟"

 پھر اسے اٹھا لیا کہ کاؤنٹر پر جمع کروادے کسی گاہک کا ہی ہوگا۔ ابھی اس نے والٹ اٹھایا ہی تھا کہ اسد اور کونین سپر اسٹور میں کچھ تلاش کرتے ہوئے داخل ہوئے اور یہیں سے عدنان سے ان کی دوستی کا آغاز ہوا۔

مگر رب کریم جب ہدایت کے فیصلے فرما دے تو کیچڑ میں بھی کنول کھلا دیتا ہے۔

٭٭٭٭

لائبہ کا پارہ بہت چڑھا ہوا تھا، کسی سے صحیح طور پر بات نہیں کررہی تھی۔ آج  رات کے کھانے پراتفاقاً سب گھر والے موجود زینت بیگم کے گھر میں ایسا اتفاق کبھی کبھی ہی ہوتا تھا۔ آج اس اتفاق کی ایک اور وجہ بھی تھی دراصل افسر صاحب اور انظر صاحب دکان کے حالیہ واقعے کے متعلق تمام گھر والوں خصوصاً اپنی اولاد کو باخبر کرنا چاہتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ بچے بھی اس حسد اور کینے کے متعلق جانیں اور آگے کے لیےمحتاط رہیں۔

ڈائنگ ٹیبل پر لائبہ کی غیر موجودگی محسوس کرکے افسر صاحب نے بیگم کی طرف خشمگیں نگاہوں سے دیکھا جس پر وہ نظریں چرا گئیں ۔

"جب ایک بار کہہ دیا کہ مجھے نہیں کھانا ،تو کیوں مجھے بار بار پکارا جاتا ہے۔" لائبہ کی جھنجھلا ہٹ بھری آواز سن کر افسر صاحب انتہائی غصے کے عالم میں اس کے کمرے کی طرف بڑھے۔

لائبہ!!!

باپ کی آواز سن کر لائبہ لمحہ بھر کے لیے بوکھلائی مگر پھر خود پر قابو پاتے ہوئے دروازے کے پٹ کھول دیے۔

" یہ تم کس انداز سے اپنی ماں سے بات کررہی تھی؟"

وہ ڈیڈ! مجھے نہیں کھانا پھر کیوں...

بس! افسر صاحب پہلی باراس طرح طیش میں لائبہ سے محو گفتگو تھے۔

حالات کو محسوس کرتے ہوئے خاموشی میں ہی عافیت تھی۔

لائبہ خاموشی سے باپ کے پیچھے چل پڑی۔

افسر صاحب زینت بیگم کے ساتھ والی کرسی پر براجمان تھے۔ کھانا کھایا جاچکا تھا۔ سارے گھر والے کمرے میں موجود تھے۔ افسر صاحب نے حالیہ دکان پرپیش آنے والے تمام واقعات گھر والے کے گوش گزار کردیے ،

میرا یہ باتیں بتانے کے کچھ مقاصد ہیں پہلا مقصد گھر کے بچوں کے لیے ہے کہ آگے انہیں ہی ہماری جگہ سنبھالنی ہے تو ، ان تجربات سے سبق حاصل کریں اور اپنی آنکھیں کھلی رکھیں۔ دوسرا مقصد گھر کی خواتین کے لیے ہے کہ صدقہ خیرات کا اہتمام زیادہ کریں اور بغض اور کینہ دلوں سے نکال پھینکیں۔ تیسری بات بچیوں سے ہے کہ کسی بھی اجنبی پر اعتماد نہ کریں پڑھائی یا خریداری جس مقصد کے لیے گھر سے باہر جاتی ہیں وہ کرکے جلد لوٹ آئیں دشمن اور حاسدین کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہیں کرتے ۔

افسر صاحب کی دور اندیش باتوں نے گھر کے ہر فرد کا احساس ذمے داری بیدار کردیا۔ لائبہ بھی یہ باتیں سن کر اپنے اور عدنان کے معاملے پر خود کو ملامت کرنے لگی ،أخر کو وہ اجنبی ہی تھا نا۔

افسر صاحب کے دل و دماغ پر ان حالات کے بعد رانیہ کا خیال بار بار چھاجاتا تھا اور اسی خیال کے پیش نظر انہوں نے یہ بات زینت بیگم سے کرنے کا سوچا۔۔۔

"اماں! مجھے آج کل بار بار رانیہ کا خیال آتا ہے ،کہیں مکافات عمل تو شروع نہیں ہوگیا۔"

افسر صاحب ٹھہرے ہوئے لہجے میں بولے۔

"ارے! نام مت لو اس منحوس کا میرے سامنے، پہلے خود میرے سینے پر مونگ دلتی رہی اب میری پوتی کو اس کے سپوت نے نشانہ بنایا ہے، اس رانیہ کو تو میں کبھی نہ بخشوں گی"

ک ک کیا کہہ رہی ہیں اماں آپ ؟

 افسر صاحب حیرت کا بت بنے ماں کی

گل فشانی سن رہے تھے۔

"وہ وہ تم فکر مت کرو، میں نے معاملہ سنبھال لیا ہے۔" زینت بیگم اپنے ہی کہے پر ہڑبڑا گئیں اور اب بات کو پلٹنے لگیں۔

(یہ بات تو افسر کو بتانے  والی نہیں تھی ،یہ میں نے کیا کردیا، میں بھی واقعی سٹھیا ہی گئی ہوں)

مگر اب تو افسر صاحب سارے معاملے کو سمجھ چکے تھے ، خاموشی سے ماں کو تکے جارہے تھے کہ معاملات یہاں تک پہنچ گئے اور میں لائبہ کا باپ ہوتے ہوئے اتنا بے خبر ہوں۔۔۔

اب انہیں احساس ہورہاتھا کہ یہ اچانک رانیہ کا بار بار خیال آنا اس کے ساتھ اس گھر میں کیے گیے ظلم و ستم کا یاد آنا رب کا اشارہ ہی تھا۔

٭٭٭٭

اسد ،کونین اور ساجد عصر کی نماز کے عین وقت پر مسجد پہنچ چکے تھے ،انہیں دیکھ کر عدنان کے خزاں رسیدہ چہرے پر یکدم بہار آگئی۔ وہ ان تینوں کے استقبال کے لیے آگے بڑھا۔ اسد کے کپڑوں سے اٹھتی پرفیوم کی تیز مہک نے ماحول مزید پر بہار کردیا تھا۔ عدنان ان تینوں کو لیے مسجد میں داخل ہوا، مولوی ثاقب تکبیر تحریمہ کہہ چکے تھے ، عدنان کے ساتھ وہ تینوں بھی ان کی اقتدا میں کھڑے ہوگئے، ساجد تو جمعے جمعے نماز پڑھ لیتا تھا، کونین اور اسد تو بس عید کی  نماز بھی بس رسما ہی پڑھتے تھے ۔زندگی کی کوئی نیکی ہی تھی جو انہیں مسجد اور مولوی ثاقب تک لائی تھی۔

نماز  کے بعد عدنان کی سنگت میں تینوں مولوی ثاقب کے سامنے دو زانو بیٹھے تھے۔ مولوی ثاقب نے پہلے تو تینوں کو نظروں ہی نظروں میں تولا پھر مسجد کے خادم کو اشارہ کیا جو فورا ہی ان کے لیےچائے اور بسکٹ لے کر حاضر ہوگیا۔ ساجد اور اسد

کن اکھیوں سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے جب کہ کونین نے بنا دعوت کے ہی چائے کا کپ اٹھا لیا ، مولوی صاحب نے ہاتھ کے اشارے سے ان دونوں کو بھی چائے لینے کا کہا، ساتھ ایک کپ اٹھا کر عدنان کو بھی دیا، عدنان اس سارے ماحول میں جھینپا سا رہا۔۔۔ اسے کونین اور ساجد کے انداز تکلم سے خوف آرہا تھا کہ کہیں وہ دونوں بابا جان کے سامنے کچھ الٹا سیدھا نہ ہانک دیں۔۔۔

مولوی ثاقب نے تینوں سے تعلیم اور مشاغل پوچھے ۔

عدنان تو سمجھ رہا تھا کہ اسے لے کر ان تینوں کی خوب ڈانٹ لگائیں گے۔ لیکن مولوی ثاقب کا رویہ تو یکسر مختلف تھا ایسا لگ ہی نہیں رہا تھا ان تینوں کو یہاں تنبیہ کے لیے بلایا گیا ہو۔

ساجد نے کونین کو اشارہ کیا۔

"جی اب اجازت " کونین بولا۔

ہاں ہاں بالکل ! لیکن ایک شرط پر.... مولوی ثاقب ذومعنی لہجے میں بولے ۔

عدنان کی سانسیں جو بڑی مشکل سے بحال ہوئی تھیں ، پھر رکنے لگیں۔

شرط یہ ہے کہ اب روزانہ عصر کی نماز تم تینوں عدنان کے ساتھ یہیں ادا کرو گے۔

کیا خیال ہے؟ مولوی ثاقب مسکرا کر بولے۔

"جی جی بالکل ! لیکن ہماری بھی ایک شرط ہے!" کونین اپنے فطری لہجے میں بولا۔

مولوی ثاقب نے استفہامی  نگاہوں سے اسے دیکھا۔

یہ چائے بہت مزے کی تھی ،کیا نماز کے بعد یہ بھی روزانہ ملے گی۔ کونین دانت کسوڑ کر بولا۔

"ہاہاہا! ضرور ضرور۔۔۔ نماز کی پابندی ہوئی تو چائے کی بھی پابندی ہوگی۔ "مولوی ثاقب ہنستے ہوئے بولے۔

عدنان کا دم میں دم آیا ،اب وہ چاروں مسجد سے سیدھی جاتی سڑک پر مٹر گشت کررہے تھے اور مولوی ثاقب کی تعریفوں کے پل باندھ رہے تھے ۔

"یار عدنان! تیرے ابا کی شخصیت تو اتنی زبردست ہے اور تم نے ہمیں ایسے ڈرایا تھا کہ جیسے ابا نہ ہوئے ببر شیر ہوگئے۔۔ "ساجد اپنی جون میں بولا۔

ہاں بس وہ۔۔۔ عدنان ممنمنایا ،اسے خود سمجھ نہیں آرہی تھی کہ یہ کیا ماجرا ہوگیا ہے۔

 

 (جاری ہے)