شاہد پونے آٹھ بجے ہی کیفے پہنچ گیا ، کیفے کے باہر ایک خوب صورت نوجوان کھڑا تھا ، اس نے شاہد سے ہاتھ ملاتے ہوئے پوچھا " شاہد ؟ جواب میں شاہد نے مسکراتے ہوئے yes کہا نوجوان نے اپنا نام مسعود بتایا اور اسے اندر لے گیا اور کہا بھئی اپنا مہمان سنبھالو ، میں تو چلا ۔ یہ کہہ کر اس نے دروازہ بند کر دیا ۔ اب شاہد تھا اور دو برقع پوش خواتین ۔
آر اے قمر اسلام آباد
(دوسری قسط)
حیدر آباد سے کراچی تک کا سفر کٹنا وردہ کے لیے بہت مشکل ہو رہا تھا ، بار بار اس کی آنکھوں میں آنسو جھلملا رہے تھے ۔
نعمان کی بے رخی مزید آزردہ اور افسردہ کر رہی تھی ۔ڈھائی گھنٹے پورے سفر پہ بھاری ہو گئے تھے ۔ بالاخر سفر مکمل ہوا ، گاڑی کراچی چھاؤنی کے پلیٹ فارم پہ داخل ہوئی تو نعمان اپنا بیگ اور وردہ کا اٹیچی اٹھا کر دروازے کی طرف بڑھنے لگا ، وردہ بھی پرس اٹھا کر اس کے پیچھے چلنے لگی ۔ سامنے والی خالہ کو سلام کیے بغیر نکلنا اسے بد اخلاقی لگا ، اس لیے اس نے ان سے مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھایا۔ اس لڑکے نے قریب ہو کر سرگوشی کی مجھے آپ کے میسج کا انتظار رہے گا ۔
٭٭٭٭٭
گھر پہنچنے کے بعد بھی نعمان اور وردہ دن بھر تو ایک دوسرے سےروٹھے روٹھے اور اکھڑے اکھڑے رہے لیکن سونے سے پہلے ان میں دوستی ہو گئی تھی ۔ دونوں کی ایک دوسرے سے نظریں ٹکرائیں تو گھورتے گھورتے اچانک مسکرانے لگے ۔ دونوں کے لیے ایک دوسرے کی بس ذرا سی مسکراہٹ کافی تھی ۔ تھوڑی دیر میں ہی وہ شیر و شکر ہو گئے ۔ وردہ نے کئی بار سوچا کہ نعمان کو ریل گاڑی والا واقعہ بتائے لیکن اسےدوبارہ ناراضی کا خطرہ مول لینے کی ہمت نہیں ہوئی کیوں کہ نعمان کا کوئی بھروسا نہیں تھا کب ہتھے سے اکھڑ جائے ۔
٭٭٭٭
رات بارہ بجے شاہد کے موبائل پہ میسج کی ٹون بجی اس نے موبائل اٹھایا تو لکھا تھا
: ’’ہیلو سوئے تو نہیں آپ !‘‘
ابھی شاہد یہی سوچ رہا تھا کہ کس کا میسج ہو سکتا ہے ؟ ایک اور میسج آگیا
"سو گئے ہیں تو بتادیجیے ۔"
شاہد کو یہ تو اندازہ ہو گیا تھا کہ کسی لڑکی کا میسج ہے لیکن نہ جانے کس لڑکی کا ہو ، کیوں کہ وہ ہر وقت کسی نہ کسی شکار کو پھنسانے کے چکر میں رہتا تھا۔ اور کئی لڑکیاں اس نے پھنسا رکھی تھیں بیک وقت کئی لڑکیاں اس کے سامنے آنے لگیں ۔ پھر میسج آیا "کیا سوچ رہے ہیں ؟ بھول گئے ابھی کل ہی تو ریل گاڑی میں آپ نے کہا تھا میرے میسج کا انتظار کریں گے ۔" شاہد کا دل تو جیسے اچھل کر باہر نکلنے لگا ہو ۔ کالے برقعے میں بڑی بڑی خوب صورت آنکھوں اور گورے ہاتھوں والی یہ لڑکی (وردہ) اس کے حواس پہ چھائی ہوئی تھی ۔ اس نے اسے ویلکم کہا اور دونوں کے بیچ رات کے آخری پہر تک بات ہوتی رہی ۔ اگلی رات کا وعدہ کرکے دونوں نے ایک دوسرے کو گڈ نائٹ کہا ۔ دوسرے دن شاہد نے کال پر بات کرنے کی فرمائش کی ۔ وردہ نے بتایا کہ وہ ایک چھوٹے سے گھر میں رہتی ہے ۔ جہاں کال پہ بات ممکن نہیں ۔ لیکن وہ حوصلہ رکھے وہ اس سے ضرور بات کرے گی
٭٭٭
ایک ہفتے تک دونوں ایک دوسرے کو بہت اچھی طرح جان چکے تھے ۔شاہد کال پر بات کرنے کے لیے تڑپ رہا تھا ، پھر ایک دن اچانک وردہ کے نمبر سے کال آہی گئی ۔اس نے بتایا وہ امی کی طرف آئی ہے ۔ اور یہاں کال میں کوئی مشکل نہیں ۔وردہ نے ایک ہفتہ امی کے ہاں رہنا تھا ،اس لیے دونوں رات رات بھر بات کرتے رہے ، شاہد اب ملاقات کے لیے باؤلا ہوا جا رہا تھا ، وردہ اس پہ تیا ر نہیں تھی لیکن شاہد نے چکنی چپڑی باتیں کر کے وردہ کو پھسلا دیا ۔ وردہ کے مطابق وہ ایف بی ایریا کے ایک اسکول میں ٹیچر تھی ۔اور اسکول کے قریب ہی اس کی دوست کے کزن کا نیٹ کیفے تھا ، وہ اس سے بات کرکے ملاقات کا پروگرام بنائے گی۔
٭٭٭٭
"میں کل اسکول سے چھٹی کروں گی ، نیٹ کیفے یوں تو 12 بجے کھلتا ہے لیکن میری دوست نے اپنی کزن کو آمادہ کر لیا ہے ۔وہ صبح 8 بجے ہی کھول دے گا ،میری دوست بھی ساتھ ہوگی اس کا کزن ہمیں کیفے میں بٹھا کر چلا جائے گا ہم دروزاہ اندر سے لاک کر لیں گے ،ہم دو لوگ 11 بجے تک کیفے میں رہ سکیں گے ۔ تم اچھی طرح مل لینا " آج اس نے آپ کی بجائے تم کہہ کر شاہد کو خوش کر دیا تھا۔
شاہد کا دل تو جیسے پنجرہ توڑ کر باہر آنے کو ہو ۔
"لیکن تمھاری دوست کباب میں ہڈی بنی رہے گی تو کیا خاص طرح اچھی طرح ملیں گے ہم !" شاہد کے لہجے میں شدید ناراضی تھی ۔
"ارے فکر نہ کرو، دوست ہمیں اپنی کزن کے آفس میں ہمیں بٹھا کر خود کسی بوتھ میں بیٹھے گی ۔"
" گویا ہمیں کھلی چھوٹ ہوگی " شاہد نے ہنستے ہوئے پوچھا ۔
"یہی سمجھ لو "
٭٭٭٭٭
شاہد پونے آٹھ بجے ہی کیفے پہنچ گیا ، کیفے کے باہر ایک خوب صورت نوجوان کھڑا تھا ، اس نے شاہد سے ہاتھ ملاتے ہوئے پوچھا " شاہد ؟ جواب میں شاہد نے مسکراتے ہوئے yes کہا نوجوان نے اپنا نام مسعود بتایا اور اسے اندر لے گیا اور کہا بھئی اپنا مہمان سنبھالو ، میں تو چلا ۔ یہ کہہ کر اس نے دروازہ بند کر دیا ۔ اب شاہد تھا اور دو برقع پوش خواتین ۔ان میں سے ایک بوتھ کی طرف بڑھ گئی اور دوسری نے شاہد کو کیفے کے آفس کی طرف چلنے کا اشارہ کیا ، شاہد نے اس کا ہاتھ تھامنے کی کوشش کی، جسے اس نے سینے پر ہاتھ رکھ ذرا سا جھکتے ہوئے بڑی خوب صورتی سے ٹال دیا ، شاہد کھسیانا ہو گیا ۔اب دونوں آفس میں تھے ۔
"دیکھ شاہد میں تمھارے لیے حسب وعدہ ناشتا بنا کر لائی ہوں "
"اپنے ہاتھ سے کھلاؤگی نا !!!"
"کیوں تمھارے ہاتھ ٹوٹے ہوئے ہیں"
شاہد نے لہجے کی تبدیلی کو محسوس کیا ۔ اور کہنے لگا :
ارے تم تو ناراض ہو گئی ، بھئی تم مجھے کھلانا میں تمہیں کھلاؤں گا "
"کیا یہ بہتر نہیں کہ ہم دونوں اپنے ہاتھ ہاتھ سے کھائیں ۔ "
"یار تم تو آج غصے میں لگ رہی ہو ، جیسے میں نے تمہارا بہت نقصان کر دیا ہو"
" اب ناشتا کرلیں ، یہ ایک دوسرے کو کھلانا پلانا ادھار رکھتے ہیں ٹھیک ہے ؟ لہجے کی تلخی و انکار پر دل کی گہرائیوں سے بہت بہت معذرت"
وردہ نے ایسے لہجے میں معذرت کی کہ شاہد دو جملوں سے لگنے والی ٹھیس بھول گیا ۔ وردہ نے ناشتے کا ٹفن کھولا ، شامی کباب ، انڈا ہاف فرائی اور چوکور پراٹھے۔ پلیٹوں میں سجا کر میز پہ رکھا اور تھرماس میں سے چائے کے دوکپ بھرے اور ایک بڑے ادب سے شاہد کے سامنے رکھا
"شرو ع کیجیے "
"بھئی نقاب تو ہٹاؤ ، ایسے کیسے ناشتا کروگی "
"اوہ اچھا نقاب ، لیکن میں تو اسی طرح ہوٹلوں میں کھا پی لیتی ہوں "
"اچھا لیکن وہاں تو غیر لوگ ہوتے ہیں اور ہم آپ کے غیر تو نہیں "
"آپ کہتے ہیں تو نقاب ہٹا دیتی ہوں مگر صرف ناشتے کے دوران بس "
یہ کہہ کر اس نے نقاب پلٹ دیا اور شاہد کو یوں لگا جیسے چودھویں کا چاند بادلوں کی اوٹ سے باہر آگیا ہو ۔ پلک جھپکنابھول گیا تھا۔ دیکھتا ہی چلا گیا
"ماشاء اللہ تو کہہ دو ، نظر لگاؤگے کیا !!!"
"ماشاء اللہ ماشاء اللہ! تم تو حسن کی پری ہو "
" ہلکی پھلکی باتوں کے ساتھ ناشتا مکمل ہوا اور وردہ نے برتن سمیٹے ۔
تھوڑی دیر ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد شاہد نے پوچھا :
"تم اپنے شوہر کے ساتھ خوش ہو ؟"
"کوئی اور بات کرو"
"لگتا ہے تمھارے اور اس کے بیچ محبت بالکل نہیں ، اسے تمھاری قدر نہیں ، حسن کی ایسی دیوی ، اسے تو تمھارے پاؤں دھو کر پینے چاہییں "
"پھر شاہد نےکچھ بازاری قسم کے دو چار اشعار سنائے اور چھیڑ چھاڑ کرنے لگا ،پہلے ہاتھ پھر چہرے کو چھونے کی کوشش کی ،جسے وردہ نے بڑے طریقے سے ناکام بنا دیا ۔ شاہد کھسیانا ہو کر دیوار پہ لگی پینٹنگ کو دیکھنے لگا ۔ پھر اٹھ کر اس پینٹنگ کے باکل سامنے جا کر کھڑا ہو گیا اور خوب انہماک سے دیکھنے لگا ، وردہ میز کے شیشے پر انگلی سے کچھ لکھنے لگی ، یک دم شاہد نےتیزی سے گھوم کر اسے آغوش میں لے لیا اور اس کے سینے کے طرف ہاتھ بڑھانے لگا ۔ ساتھ ہی یہ شعر گنگنانے لگا:
آنکھیں دکھلاتے ہو جوبن تو دکھاؤ صاحب
وہ الگ باندھ کے رکھا ہے جو مال اچھا ہے
وردہ نے خود کو بچانے کی کوشش کی لیکن شاہد کی گرفت مضبوط تھی وردہ نے سینے پہ ہاتھ رکھ لیا ،یک دم گڑ گڑاہٹ کی آواز سنائی دی۔
(جاری ہے )