وہ کتنی چالاکیاں اور ڈرامے بازیاں سیکھ گئی تھی، جب سے اس کے قدم راہ خاردار کی جانب اٹھے۔ پتا نہیں یہ سب انسانی فطرت میں شامل ہوتا ہے یا اندھی محبت سب سکھا دیتی ہے۔ اپنے گھر والوں کو دھوکا دینا، ان کے اعتبار کا پاس نہ رکھنا، ڈھٹائی سے ان کی آنکھوں میں دھول جھونکنا، بہانے گھڑنا اور بلاتامل جھوٹ بولنا۔۔۔ وہ یہ سب سیکھ گئی تھی اور ابھی نجانے کیا کیا سیکھنا باقی تھا
ساتویں قسط
زندگی معمول کے مطابق گزر رہی تھی مگر کچھ تھا جو نامحسوس طور پر ان سب کی زندگیاں بدل گیا تھا۔
"کیا بات ہے شگفتہ میں اتنے دنوں سے دیکھ رہی ہوں، جب سے تم گاؤں سے آئی ہو بہت چپ چپ رہنے لگی ہو۔ کیا بات ہوئی ہے وہاں؟ ایک تو تم کچھ بتاتی بھی تو نہیں ہو۔"
وہ بستر پر نیم دراز سوچوں میں گم تھی، جب صائمہ نے اس سے پوچھا۔ جواب میں خالی نظروں سے وہ اسے دیکھتی رہی۔
"صبح سے تمھارے بستر پر کپڑے پڑے ہیں مگر تمھیں دھیان ہی نہیں۔ حالاں کہ تمہیں تو اپنے کام ساتھ ساتھ سمیٹنے کی عادت ہے۔" صائمہ نے دھلے ہوئے کپڑوں کی طرف اشارہ کیا۔
وہ سیدھی ہو کر بیٹھ گئی۔ اس طرف واقعی اس کا دھیان نہیں گیا تھا۔
"بس ویسے ہی یار، کچھ بھی کرنے کو دل نہیں چاہ رہا۔" اس نے بے دلی سے حواب دیا۔
"اچھا تم بھی دل کی سننے لگی ہو۔ بتاؤ کیا مسئلہ ہے اسے؟"
"بس آج کل میں بے اے کے داخلہ کا کچھ کرتی ہوں۔ ایویں وقت ضائع کرنے کا فائدہ۔" بے ڈھنگے پن سے بات بدلنے کی کوشش صائمہ محسوس کر چکی تھی۔
"ہاں تو کر دو اپلائی۔ اس میں اتنا سوچنے کی کیا بات ہے؟" صائمہ سمجھ گئی کہ شگفتہ کے دل میں کوئی بات ضرور مگر وہ بتانا نہیں چاہتی تھی۔ اصرار کرنا بے کار تھا۔
آج اتوار تھا۔ چھٹی کا دن ہاسٹل کی لڑکیوں کا کام کرتے گزرتا۔ کمرے کی صفائی، کپڑوں کی دھلائی، الماری درست کرنا، چیزیں سمیٹنا، نیند پوری کرنا۔۔۔۔
"یار کتنا عرصہ ہو گیا ہے نا ہم کہیں گھومنے پھرنے بھی نہیں گئے۔" صائمہ نے اپنی الماری درست کرتے ہوئے کہا جب کہ شگفتہ دھلے ہوئے کپڑے سیمٹ رہی تھی۔
"ہاں یار واقعی۔ کیا خیال ہے آج کہیں چلیں۔ موسم بھی اچھا ہے۔ اپنے کام سمیٹ لیں تب تک دوپہر کے کھانے کا وقت ہو جائے گا۔" چلو اس بہانے موڈ تو بدلے گا۔ اس نے دل ہی دل سوچا۔
"بس ٹھیک ہے پھر۔ فوٹریس چلتے ہیں۔ ایگزیبیشن لگی ہوئی ہے، ہو سکتا ہے ضرورت کا کچھ اچھا مل جائے۔ گھومنا پھرنا بھی اور شاپنگ بھی۔" صائمہ نے جھٹ سے پروگرام ترتیب دیا۔ وہ جب بھی باہر جاتیں اپنے گھر والوں کے لیے بہت کچھ لیتی تھی۔ اب بھی وہ زبانی کلامی فہرست مرتب کر رہی تھی کہ کس کے لیا کیا لینا ہے۔ شگفتہ کا تو کوئی ایسا سگا بھی نہ تھا جس کے لیے وہ کچھ لیتی۔
٭٭٭٭
کام ختم کرنے کے بعد آرام کرنے کے بہانے وہ کمرے میں آ گئی۔ اماں اور آپا کپڑے بکھرائے بیٹھی تھی۔ چھوٹی بھی ان کے پاس برآمدے ميں بیٹھی اسکول کا کام کر رہی تھی۔ سب مصروف تھے، اس کی طرف کسی کا دھیان نہ جاتا۔ موقع اچھا تھا۔۔ ڈوپٹے میں چھپایا موبائل اسے نے باہر نکالا۔ پہلے اس کی بیل بند کی اور پھر اس کی انگلیاں پھرتی سے پیغام لکھنے لگیں۔
"آّپ اب کال نہ کیجیے گا۔ گھر والے مجھ پر نظر رکھنے لگے ہیں۔"
"کیوں کیا ہوا ہے؟ اتنا ظلم نہ کرو۔ تمھاری آواز نہیں سنوں گا تو مجھے سکون کیسے آئے گا؟" فورا سے آیا جوابی پیغام پڑھتے ہی حسینہ کے لبوں پر مسکراہٹ پھیلی۔
"سکون تو مجھے بھی نہیں آئے گا مگر مجبوری ہے۔ جب موقع ملا آپ کو بتاؤں گی۔ تب ہی کال کیجیے گا۔ فٹافٹ اس نے جواب بھیجا۔
"تمھاری انھی باتوں پر تو میں فدا ہوں۔ ٹھیک ہے جیسے کہو گی ویسے ہی کروں گا کہ میری جان کو کوئی پریشانی نہ ہو۔" پیغام پڑھتے ہی اس کا چہرہ کھل اٹھا۔ دل نے اسے سراہا۔ دیکھا کتنا اچھا ہے، خیال اور پیار کرنے والا۔
"آپ بہت اچھے ہیں۔" اس نے تعریفی پیغام بھیجا۔
"اور تم بہت حسین۔ کاش میں تمھیں اپنے روبرو دیکھ سکتا۔۔۔" ٹھک سے جواب آیا۔
وہ بے اختیار شرما گئی، جیسے وہ اسے دیکھ رہا ہو۔ اس وقت گھر میں اگر کوئی بھی اس کے چہرے کے تاثرات جانچتا تو کچھ نہ کچھ اخذ ضرور کر لیتا مگر کسی کو فرصت کہاں تھی۔ وہ اسی شش و پنج میں تھی کیا کہے کہ ایک اور پیغام موصول ہوا۔
"کیا ہوا جواب کیوں نہیں دیا، کیا تم مجھ سے ملنا نہیں چاہتی؟" اس کے جواب کا دوسری جانب بے صبری سے انتظار ہو رہا تھا۔
"میں تمھارے جتنا خوب صورت نہیں، عام سا ہوں۔ پتا نہیں تمھیں پسند آؤں گا بھی یا نہیں۔۔۔"
حسینہ کا دل زور سے دھڑکا۔ تو بات ملاقات تک آ پہنچی تھی۔
"میں آپ سے کیسے مل سکتی ہوں؟ مجھے بہت ڈر لگتا ہے۔" ڈرتے ڈرتے اس نے کہا کہ کہیں وہ برا نہ مان جائے۔ ہاں وہ اسے خفا کرنے سے ڈرنے لگی تھی۔
"ملنے سے ڈر تو مجھے بھی لگتا ہے، اگر میں تمھیں پسند نہ آیا، میری محبت کو ٹھکرا دیا تو میں جی نہیں سکوں گا۔" جواب پڑھ کر حسینہ کا دل پسیجا۔
"ایسا نہیں ہو سکتا۔۔۔ جن سے محبت ہو ان میں خامیاں نہیں نکالی جاتیں۔ آپ جیسے بھی ہیں بہت اچھے ہیں کیوں کہ مجھ سے محبت جو کرتے ہیں۔" مسکراتے ہوئے ان نے پیغام بھیجا۔ اک عجیب سی سرشاری اس کے رگ و پے میں دوڑ رہی تھی جب آپا کی آواز اس کے کانوں میں پڑی۔
"کوئی بلا رہا ہے، بائے پھر بات ہو گی۔" فٹافٹ پیغام بھیج کر اس نے میسج لاگ مٹایا اور موبائل بستر سے ملحقہ میز پر دھر کر خود آنکھیں موند کر لیٹ گئی۔ وہ کتنی چالاکیاں اور ڈرامے بازیاں سیکھ گئی تھی، جب سے اس کے قدم راہ خاردار کی جانب اٹھے۔ پتا نہیں یہ سب انسانی فطرت میں شامل ہوتا ہے یا اندھی محبت سب سکھا دیتی ہے۔ اپنے گھر والوں کو دھوکا دینا، ان کے اعتبار کا پاس نہ رکھنا، ڈھٹائی سے ان کی آنکھوں میں دھول جھونکنا، بہانے گھڑنا اور بلاتامل جھوٹ بولنا۔۔۔ وہ یہ سب سیکھ گئی تھی اور ابھی نجانے کیا کیا سیکھنا باقی تھا۔ پر وہ یہ بھول گئی تھی کہ انسان چاہے جتنا مرضی ہوشیار اور شاطر کیوں نہ ہو سچ ایک دن سامنے آ کر رہتا ہے۔ برائی کا انجام آخر برا ہی تو ہوتا ہے۔
٭٭٭٭
شام ڈھلنے سے قبل اس نے بازار کا رخ کیا۔ اماں کی ہدایت کے مطابق کچھ چیزیں بازار سے خرید کر خالہ صغراں کو پہچانی تھیں۔ بازار میں داخل ہوتے ہی عظیم نے سرسری نگاہوں سے گردوپیش کا جائزہ لیا۔ کچھ ہی فاصلے پر مطلوبہ دکان اسے نظر آئی۔ فہرست کے مطابق مطلوبہ سامان لے کر وہ واپسی کے راستے پر قدم بڑھانے ہی والا تھا کہ ایک آواز نے اس کے قدم جکڑ لیے۔ آواز کے تعاقب میں پلٹتے ہی اسے خوش گوار حیرت نے گھیر لیا۔ سامنے ہی وہ اسے خریداری کرتی دکھائی دی۔ دکان دار سے اپنی پسند کی شے بارے بھاؤ تاؤ کرتی وہ شگفتہ ہی تھی. ہمیشہ کی طرح اپنے اردگرد سے بے نیاز اور لاپروا۔ حسن شاید بے نیاز ہی ہوتا ہے.
عظیم کے قدموں کا رخ خودبخود بدل گیا۔ محتاط فاصلہ رکھے وہ اس کے پیچھے چل پڑا۔ قیمت ادا کر کے شاپر اٹھائے وہ دکان سے باہر نکل رہی تھی۔ آج بھی اس نے اپنے دل کش سراپے کے گرد چادر اچھے سے لپیٹ رکھی تھی. بازار سے نکل کر جیسے ہی وہ سڑک پر پہنچی وہ اس کے ہم قدم ہو گیا۔
"دیکھیے کیسا حسین اتفاق ہے مس شگفتہ۔" مسکرا کر اسے دیکھتے ہوئے عظیم کا انداز ایسا تھا جیسے وہ دونوں پرانے شناسا ہوں۔
اپنا نام سن کر وہ ٹھٹھکی مگر نگاہیں اٹھا کر سر راہ اپنا نام پکارنے والے کو دیکھ کر اسے حیرت کا شدید جھٹکا لگا۔ وہ ایک بار پھر اس کے راستے میں کھڑا تھا ازلی ہٹ دھرمی کے ساتھ۔
"تم؟" وہ صرف اتنا ہی کہہ پائی۔
"ہاں میں۔۔۔ ویسے میرا نام عظیم ہے، مجھے کوئی اعتراض نہیں آپ مجھے میرے نام سے پکار سکتی ہیں۔" وہ واقعی بہت ڈھیٹ تھا۔
"تمھیں میرا نام کیسے پتا چلا؟ تمھاری اتنی جرآت کہ بیچ چوراہے پھر میرے سامنے آ کھڑے ہوئے۔۔۔ میرا تعاقب کر رہے ہو، کس مٹی کے بنے ہو۔" اس نے انتہائی غصے سے کہا۔ عظیم کی ڈھٹائی نے اسے ششدر کیا تھا۔
وہ خباثت سے مسکرا دیا۔ "نام بھی پتا ہے اور یہ بھی کہ رہتی کہاں ہو۔ اور پچھلی ملاقات سے تو ظاہر ہے کہ یہ بھی معلوم ہے تم نوکری کہاں کرتی ہو۔۔۔" اس کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے اس نے سکون سے جواب دیا۔
وہ جو اس سے جان چھڑانے کے لیے تیز قدم اٹھا رہی تھی، بات سب کر یک دم رکی۔
"مسئلہ کیا ہے تمھارا؟ کیوں لیچٹر بن کر پیچھے پڑ گئے ہو۔ تم جیسے آوارہ اور لوفر لڑکوں کو درست کرنا مجھے اچھے سے آتا ہے۔ لگتا ہے پچھلی مرمت بھول گئے ہو جو بے شرموں کی طرح منہ اٹھائے پھر میرے سر پر آ کھڑے ہوئے۔" عظیم کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے شگفتہ نے بے خوفی سے کہا۔ یوں کہ اس کی اوقات بھی بتا دی اور یہ بھی جتلا دیا کہ وہ اس سے ہرگز خوف زدہ نہیں۔ عظیم کے چہرے کے تاثرات کھنچ گئے۔ شگفتہ کا سچا اور دو ٹوک انداز اسے نشتر کی طرح چبھا۔
"میں اتنا بھی برا نہیں جتنا تم سمجھ رہی ہو۔ نادانستگی میں ہوئی غلطی کو درگزر کر دو۔ تم نے کون سا اچھا کیا تھا۔ بدلے میں چوٹ پہنچا تو دی تھی۔" عظیم نے دھیمے لہجے میں کہا۔
کیا وہ شرمندہ تھا؟ شگفتہ نے اسے عجیب نظروں سے دیکھا۔
"تم مجھے اچھی اور مختلف لگی ہو۔ اس لیے پیچھے آیا کہ بات کرنا چاہتا ہوں۔ میرا مطلب دوستی۔۔۔ تمھارا موبائل نمبر ملے گا؟" بنا سوچے سمجھے وہ بولتا رہا۔ شاید اتنے دنوں کی بے چینی کی یہ وجہ تھی۔ اسے سامنے پا کر یوں لگا جیسے وہ اس موقع کو ضائع نہیں کر سکتا۔ شگفتہ کو تو پتنگے لگ گئے۔ وہ اس کے اندازے سے زیادہ ڈھیٹ اور بے باک نکلا۔
"اپنی اوقات میں رہو ورنہ منہ توڑ دوں گی تمھارا۔ جتنے تم گرے پڑے ہو اچھے سے جانتی ہوں۔ آئندہ اگر میرا راستہ روکا تو وہ حشر کروں گی کہ اپنے قدموں پر واپس نہ جا سکوں گے۔" درشت انداز میں اسے ڈپٹ کر وہ اپنی راہ چل دی۔ کچھ تھا شگفتہ کے انداز میں جس نے عظیم کو پیش قدمی سے روکا تھا۔
٭٭٭٭
"فون کیا پھر شگفتہ کو۔۔۔ کیا بات ہوئی اس سے؟" چارپائی پر پھیل کر بیٹھے وہ پھل کھا رہی تھیں۔ خیال آنے پر انھوں نے شوہر سے پوچھا۔
"بات تو ہوئی تھی میری اس سے۔"
"اچھا پھر کیا کہا اس نے؟ اس کے تو نخرے بہت ہیں۔"
"اس بارے کوئی بات نہیں ہوئی۔ تو نے دیکھا ہی تھا کہ جب وہ یہاں سے گئی تو کتنی خاموش تھی۔ اسے وقت دو۔ سوچ کر بتا دے گی۔ اتنی جلدی کاہے کی ہے؟"
چاچی کو یاد آیا اس کا رویہ واقعی پراسرار تھا۔ جس رات انھوں نے بات کی اگلے روز ناشتے کے بعد وہ شہر واپس چلی گئی تھی۔ اس بات کے بارے میں نہ ہی اس نے کوئی رائے دی نہ ہی کوئی جھگڑا۔۔۔ اس نے چپ سادھ لی اور اس کی یہ چپ چاچی کو کسی صورت برداشت نہیں ہو رہی تھی۔ عجیب سلسلہ تھا ان کا بھی۔ نہ شگفتہ انھیں بولتے ہوئے اچھی لگتی تھی نہ خاموش۔ پھر بھی وہ اسے اپنے اکلوتے لاڈلے بیٹے کی بہو بنانے کا سوچ رہی تھیں۔ یہ خیال انھیں مر کر بھی نہ آتا گر اس میں ان کا مفاد پنہاں نہ ہوتا۔ یہ سچ تھا کہ شگفتہ ان کی بیٹیوں سے زیادہ خوب صورت اور قد کاٹھ میں اچھی تھی۔ یہ بات انھیں اور کھٹکتی تھی۔
"اماں کیا سوچ رہی ہو تب سے؟" ثمینہ نے ماں کے پاس بیٹھتے ہوئے پوچھا۔
"ہیں کیا پوچھا۔۔۔ تیرا ابا کہاں چلا گیا؟"
"وہ تو کب کے چلے گئے۔ دھیان کہاں ہے اماں؟"
"ارے دھیان کہاں ہونا ہے۔ اس موئی شگفتہ کے بارے سوچ رہی تھی۔" انھوں نے جھلاتے ہوئے کہا۔
"اماں کیا لگتا ہے، وہ کیا جواب دے گی۔۔۔ کیا وہ مان جائے گی؟"
"لو مانے گی کیوں نہیں۔ اس منحوس کی اتنی مجال۔ کیا کمی ہے میرے جاوید میں؟ احسان کر رہے ہیں اس پر شکر منائے۔"
"لیکن اماں اگر وہ نہ مانی تو؟ پھر کیا اس کا رشتہ وہاں کر دو گی؟"
"ارے کیسے نہیں مانے گی۔ تو دیکھتی جا بس، تیری ماں نے کچی گولیاں نہیں کھیلیں۔ تو بس خود پر توجہ دیا کر۔ اور جو کریم منہ پر ملتی ہے وہ ہاتھ اور پاؤں پر لگاتے ہوئے تجھے موت پڑتی ہے کیا؟" انھوں نے ناگواری سے اس کے سیب چھیلتے ہاتھوں کو دیکھ کر کہا۔
"توبہ ہے اماں۔" ثمینہ نے کھسیاہٹ چھپانے کی کوشش کی۔
"اچھا چل اٹھ اب، کڑی پکا کر رکھی ہے میں نے ڈونگے میں۔ دے آ اپنی سہیلی کے گھر۔ اور پتا ہے نا کیا کہنا ہے؟"
وہ خوشی خوشی اٹھ کھڑی ہوئی۔ "سب پتا ہے اماں، آخر بیٹی کس کی ہوں؟" اس نے اک ادا سے بال جھٹکتے ہوئے کہا۔ ماں بیٹی دونوں ہی مسکرا دیں۔
"حلیہ سنوار کر جائیں۔۔۔" وہ مزید ہدایت دینا نہ بھولیں۔
کچھ سوچ کر ان کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ وہ اپنی چالاکیوں کے بل بوتے پر دنیا جیتنے نکلی تھیں۔
٭٭٭٭
عظیم کے گھر میں غیر معمولی ہل چل تھی۔ ہونی بھی چاہیے تھی کہ ان کی پھوپھی شادی کی تاریخ طے کرنے آئی ہوئی تھیں۔ ٹھیک دو ہفتے بعد ان کے گھر شادی تھی۔ ان کے گھر کی پہلی خوشی، عظیم کے آپا کی شادی۔ حسینہ اور فضیلہ پورے گھر میں چہچہاتی پھرتی تھیں۔ ابا اور اماں کے چہرے کا سکون قابل دید تھا۔ ساری تیاریاں قریبا مکمل ہو چکی تھیں، بس کارڈ چھپ کر آنا باقی تھے۔ عظیم نے اپنی تفریح کافی حد تک محدود کر لی تھی۔ زیادہ وقت اس کا گھر اور کاموں کے انتظام دیکھتے ہوئے گزرتا۔ ابا کا ہاتھ بٹانے والا وہی تو تھا۔ ابا کا خاندان اتنا لمبا چوڑا نہ تھا اس لیے چیدہ چیدہ لوگوں کو شادی پر بلایا گیا۔
"اماں میں اپنے دوستوں کو بلا لوں؟ دو ہی تو دوست ہی میرے، بچپن کے۔۔۔" اس روز شادی کے کارڈ لکھتے ہوئے اس نے پوچھا۔
اماں سوچ میں پڑ گئیں۔ "چل ٹھیک ہے دونوں دوستوں کو بلانا بس۔ کارڈ دینے کی ضرورت نہیں، زبانی دعوت دے دینا۔" اماں نے فیصلہ سنایا۔ سر ہلاتے ہوئے وہ بقیہ کارڈ لکھنے لگ گیا۔
اگلے روز کالج سے نکلتے ہوئے عظہیم نے حسن اور الیاس کو مطلع کیا:
"اچھا سنو آپا کی شادی ہے۔ تم دونوں نے ضرور آنا ہے۔۔۔"
"بہت مبارک ہو یار۔ ضرور آئیں گے۔" الیاس نے اس کا کندھا تھپتھپاتے ہوئے کہا۔ حسن کا دل بلیوں اچھل رہا تھا۔ اس نے تو ابھی ملاقات بارے سوچنا شروع کیا تھا کہ سبب بھی بن گیا۔
"ہاں ضرور آئیں گے ہم۔۔۔" جوش دباتے ہوئے حسن نے کہا۔
"ہاں وقت پر آ جانا۔ کرسیاں بھی تو لگانی ہیں تم لوگوں نے۔۔۔"عظیم کی بات پر ان کا مشترکہ قہقہہ گونجا۔
حسن سے صبر نہیں ہو رہا تھا۔ گھر جاتے ہی اس نے حسینہ کو ٹیکسٹ کیا:
"فری ہو کیا؟" جب تک وہ خود رابطہ نہ کرتی وہ اس طرح کے ٹیکسٹ کرتا جس سے اس کی شناخت ظاہر نہ ہو۔ بے ضرر سے پیغامات جو کوئی اور بھی پڑھ لیتا تو نام دیکھ کر سمجھتا کہ حسینہ کی دوست حنا کے ہیں۔ کافی انتظار کے بعد بھی جواب نہ آیا تو اسے کوفت ہونے لگی۔
"شادی والا گھر ہے مصروف ہو گی۔ مگر ایسی بھی کیا مصروفیت کہ اسے میرا خیال نہ آئے۔۔۔" بے چینی سی بے چینی تھی۔
"فارغ ہوتے ہی میسج کرنا بہت ضروری بات کرنی ہے۔"
"چھوڑ دو اس کا پیچھا۔ کب سے لگے ہو، سامنے کھانا پڑا ٹھنڈا ہو رہا ہے۔ کن چکروں میں پڑے ہو؟" اس کی امی نے ٹوکا۔ موبائل جیب میں ڈال کر وہ کھانا کھانے لگ گیا مگر دھیان حسینہ کی طرف تھا۔ اس کے تخیل میں حسین چہرہ اور دیدہ زیب پیرائن لہرانے لگے۔ تقریبا دو گھنٹے بعد اسے جوابی پیغام موصول ہوا:
"جی میں فارغ ہوں اب۔"
"تمھیں میرا ذرا خیال نہیں؟ کوئی اپنے چاہنے والے کے ساتھ ایسا کرتا ہے۔۔۔" خفگی سے اس نے پیغام لکھا اور بھیج دیا۔ اس پر انتظار بہت گراں گزرا تھا۔
"سوری خفا نہ ہوں۔ گھر پر نہیں تھی، جیسے ہی میسج دیکھا جواب دے دیا۔" اس نے فورا صفائی پیش کی۔ اس کی ناراضی کے ڈر سے حسینہ کے ہاتھ پاؤں پھول رہے تھے۔ فورا جواب نہ آیا تو وہ گھبرا گئی.
"پلیز بتائیں نا کیا بات تھی؟" اسے تجسس ہونے لگا۔
"تمھیں قریب سے دیکھنے، تمھیں ملنے کا موقع مل رہا ہے۔" پیغام پڑھتے ہی اس کا دل یک بارگی دھڑکا۔
"کیا مطلب۔۔۔ کب کیسے؟" حسینہ نے پوچھا۔
"تمھارے گھر پر ہی بہت جلد۔۔۔" پیغام پڑھتے ہی اس کی رنگت متغیر ہوئی۔
"میرے گھر ملنے آئیں گے، یہ کیسے ممکن ہے؟" پریشانی میں اس چاروں اور سے گھیر لیا۔ کبھی یہ صورتحال بھی پیش آ سکتی ہے اس نے سوچا نہ تھا۔ اب کیا کروں؟
"کیا ہوا، تم خوش نہیں ہوئی؟ ادھر میں خوشی کی انتہا پر ہوں۔ سب مجھے لگ رہا ہے کہ تم مجھ سے ملنا ہی نہیں چاہتی۔ تم مجھ سے پیار نہیں کرتی ہو۔۔۔" ٹیکسٹ ملا اور اس کا دل سہم گیا۔
"آپ غلط سمجھ رہے ہیں۔ میں بس یہ سوچ کر گھبرا گئی کہ گھر پر کیسے ملیں گے۔ پکڑے گئے تو؟ مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔"
"کسی کو پتا نہیں چلے گا۔ سب مجھ پر چھوڑ دو۔ تمھاری آپا کی شادی پر اتنے تو مہمان ہوں گے۔" موصول ہونے والے پیغام نے اسے ششدر کر دیا.
شادی پر تو قریبی رشتہ داروں اور خاص لوگوں کو مدعو کیا گیا تھا تو کیا وہ ان میں سے ایک تھا؟ حسینہ کے پسینے چھوٹ گئے۔ یہ خیال اسے پہلے کیوں نہ آیا۔۔۔ وہ اس کے سبھی گھر والوں کے بارے میں جانتا تھا۔
خاندان میں بدنامی کا ڈر اسے پہلی بار محسوس ہوا۔ کسی کو پتا چل گیا تو میرا کیا بنے گا؟ اس سے آگے وہ سوچنا نہیں چاہتی تھی۔ ماتھے سے پسینہ پونجھتے ہوئے اس نے ڈرتے ڈرتے پوچھا:
"آپ میری آپا کی شادی میں کس حیثیت سے آئیں گے؟"
"تمھارے عاشق کی حیثیت سے جان۔۔۔" فوری جواب آیا تو اس کا دل اچھل کر حلق میں آ گیا۔
"اس دن کی وجہ سے تمھیں روکتا تھا۔ منع کر دو اسے ملنے کی قطعی ضرورت نہیں۔" دماغ نے تلملاتے ہوئے یاد دہانی کروائی۔
"پتا نہیں اس کے ارادے ٹھیک بھی ہیں یا نہیں؟" گڑبڑا کر اس نے سبھی پیغامات مٹائے۔
"پھر بات ہو گی، ابھی کام ہے امی کو موبائل چاہیے۔" جان چھڑانے کے انداز میں اس نے جواب بھیجا۔ حسینہ کو سوچنے کے لیے وقت درکار تھا۔ محبت کی سرشاری بے سکونی میں بدل گئی تھی۔
٭٭٭٭
"اماں اب کیا کریں؟ فرزانہ کہہ رہی تھی کہ اس کی امی کا ایک دو روز تک ہمارے گھرآنے کا ارادہ ہے۔" ثمینہ نے سہیلی کس گھر سے واپس آتے ہی انکشاف کیا۔ پورے انہماک سے ساس بہو کا ڈراما دیکھتی اماں کی نگاہیں وہیں تھم گئیں۔ ٹی وی کی آواز بند کر کے وہ اس کی طرف مڑیں۔
"آئے ہائے یہ تو خوشی کی بات ہے۔ اس میں ایسی ہونقوں کی شکل بنانے والی کیا تک ہے؟" ان کا ردعمل ثمینہ کے اندازے کے برعکس تھا۔
"اماں سمجھنے کی کوشش کرو۔ وہ مجھ سے ہوچھ رہی تھیں کہ شگفتہ نے اب گاؤں کب آنا ہے۔"
"اچھا تو پھر تو نے کیا کہا؟"
"میں نے کہا کہ وہ تو دو دو ماہ تک گھر نہیں آتی۔ حالاں کہ اتنا کہتے ہیں ہم اسے پر وہ ہماری سنتی کہاں ہے، سرپھری سی ہے۔"
"ہممم اچھا کیا جو یہ سب انھیں سنا دیا۔ پھر انھوں نے آگے سے کیا کہا؟"
"انھوں نے کہا چلو کوئی بات نہیں۔ بات تو تمھاری اماں سے کرنی ہے وہ بڑی ہیں۔ شگفتہ گھر پر نہ ہو تو بھی خیر ہے۔ ثمینہ نے جواب دیا۔
"اماں ان کی نیت جاننے کے باوجود بھی پریشان نہیں ہو۔۔۔ ان کے آنے کا سن کر بھی؟" وہ ماں کا رویہ سمجھ نہیں پا رہی تھی۔
"پریشان ہوں میرے دشمن، ست بسم اللہ ایک بار آئیں تو سہی گھر پھر دیکھنا میرا کمال۔۔ ہو گا وہی جو تیری ماں چاہے گی۔ اے ریحانہ ادھر آ تو بھی۔" انھوں نے چھوٹی بیٹی کو آواز لگائی۔
"اماں بلایا ہے؟" کچھ لمحوں بعد وہ سر پر آ کھڑی ہوئی۔
"ہاں بیٹھو ادھر اور غور سے سنو میری بات۔ جیسے میں کہوں ویسے ہی کرنا ہے۔ ذرا بھی گڑبڑ کی تو خون پی جاؤں گی تم دونوں کا۔۔۔" رازداری سے سر جوڑے وہ انھیں اپنا لائحہ عمل سمجھانے لگیں۔ کوئی شک نہ تھا کہ وہ بہت اچھی چال باز تھیں۔
٭٭٭٭٭
صاف ستھرا گھر، سلیقے سے سجی چیزیں اور نک سک سے تیار ثمینہ اور ریحانہ۔ وہ بھی اچھے حلیے میں تھیں۔ جاوید سے کہہ کر کھانے پینے کی اشیا وہ پہلے ہی منگوا چکی تھیں۔ مہمانوں کو بلانے کا وقت خاص طور پر وہ رکھا جب شوہر گھر ہر نہ ہو۔ کیونکہ اس کی گھر پر موجودگی ان کی سازش میں کوئی نہ کوئی رخنہ ڈال سکتی تھی۔ دروازہ کھٹکنے کی آوازپر وہ چوکنا ہوئیں۔
"جا ثمینہ تو اندر چلی جا، جیسے سمجھایا ویسے ہی کرنا۔" اسے ہدایت دے کر وہ بسم اللہ پڑھ کے دروازہ کھولنے چل دیں۔
"سلام بہن آئیے تشریف لائیے۔" مہمانوں کو اندر آنے کا راستہ دیتے ہوئے انھوں نے خوش دلی سے کہا۔ فرزانہ اس کی ماں اور خالہ آنے والے مہمانوں میں شامل تھیں۔ اماں انھیں لیے اندر چلی آئی۔ مہمان خانے کو انھوں نے کافی سجا رکھا تھا۔
"بیٹھیے بہن آپ کا اپنا گھر ہے تشریف لائیے۔" اس وقت ان سے زیادہ خوش اخلاق کوئی نہ تھا۔
"ریحانہ ادھر آؤ مہمانوں سے ملو۔" آواز لگاتے ہی وہ بوتل کے جن کی طرح حاضر ہوئی۔
ان سے مل کر وہ وہاں بیٹھنے ہی والی تھی جب انھوں نے اسے مخاطب کیا:
"جاؤ بہن کو دیکھو ذرا، کہو شربت لے آئے۔ صبح سے باورچی خانے میں گھسی ہوئی ہے میری بیٹی۔ وہ تو خوش ہی بہت ہے کہ آپ لوگ آئے ہیں۔ آخر کو فرزانہ اس کی اتنی اچھی سہیلی ہے۔" انھوں نے مسکراتے ہوئے لگاوٹ کا اظہار کیا۔
"اور بہن آپ سنائیں سب خیریت؟" فرزانہ کی خالہ کو دیکھتے ہوئے پوچھا جو انھیں نک چڑی سی لگی تھی۔
"جی خیریت، اللہ کا شکر۔۔۔"
"کتنے بچے ہیں آپ کے؟" انھوں نے مزید پوچھا۔
"دو بیٹے ہیں میرے ماشاءاللہ۔" تفاخر سے گردن اکڑاتے ہوئے جواب دیا گیا۔
"تبھی تو مزاج کو کلف لگی ہوئی ہے۔" وہ دل ہی دل میں بڑبڑائی۔
"السلام علیکم" ثمینہ ٹرے میں شربت کے گلاس رکھے نزاکت سے اندر داخل ہوئی۔ سب کی نظریں بیک وقت اس کی جانب اٹھیں۔ شربت کی ٹرے میز پر رکھنے کے بعد وہ فرزانہ کے گلے لگی۔
"یہ جو میری ثمینہ ہے نا، گھر میں ہر وقت فرزانہ فرزانہ کرتی ہے۔ بہت پیار ہے بھئی دونوں میں۔" انھوں نے موقع ضائع نہ کیا۔
"ہاں دونوں بچپن کی سہیلیاں جو ہیں۔" فرزانہ کی امی مسکرا دیں۔
"بہن آپ شربت لیں نا۔" انھوں نے آنکھوں سے ثمینہ کو اشارہ کیا اور اس نے گلاس فردا فردا سب کی جانب بڑھائے۔
"شگفتہ کب آئے گی گھر؟" فرزانہ کی ماں نے پوچھا تو میٹھا شربت ان کے حلق میں اٹک گیا۔
"پتا نہیں بہن۔ اپنی مرضی کی مالک ہے، ہم تو اتنا چاؤ کرتے ہیں، بہت کہتے ہیں اسے مگر بس کیا بتاؤں۔ وہاں ہاسٹل میں رہتی ہے۔ پرایا شہر، اپنا کوئی پاس نہیں۔ آزادی ہی آزادی ہے جو چاہے کرے کوئی روکنے ٹوکنے والا تو ہے نہیں۔۔۔" انھوں نے بے چارگی طاری کرتے ہوئے کہا۔
"یتیم بچی ہے۔ دیکھیں محنت بھی تو کتنی کرتی ہے۔ نوکری ساتھ ساتھ پڑھائی بھی۔ بڑی بہادر ہے شگفتہ بھئی۔" فرزانہ کی امی کا اندازستائش لیے ہوئے تھا۔ انھیں اپنی بات ضائع جانے کا قلق ہونے لگا۔
"سنا، بہت خوب صورت ہے۔ کوئی تصویر تو ہو گی اس کی آپ کے پاس۔۔ دکھاؤ لا کر۔" خالہ نے ثمینہ کو دیکھتے ہوئے کہا۔ ثمینہ کی نظریں ماں کی طرف اٹھیں جنھیں مہمانوں کی باتیں سخت ناگوار گزر رہی تھیں۔
"ہاں ہاں بیٹیاں تو سبھی پیاری ہوتی ہیں۔ ثمینہ کو ہی غور سے دیکھ لیں۔ ایسی ہی ہے وہ بھی۔۔۔ مگر جو معصومیت میری بیٹی میں ہے وہ شہر میں رہنے والی لڑکیوں میں کہاں پائی جاتی ہے۔" نک سک سے تیار ثمینہ واقعی چھوئی موئی سی اور پیاری لگ رہی تھی۔ اس نے شرم سے سر جھکا کر مزید معصومیت طاری کرنے کی کوشش کی۔
"بہن آپ کو تو اندازہ ہے ہم کس کے لیے آئے ہیں۔ میرا نعیم لاکھوں میں ایک ہے۔ بی اے پاس، خوش شکل، دوبئی میں اچھی نوکری۔ وہ تین ماہ بعد پاکستان آنے والا ہے چھٹی پر۔ اب میں اس کی شادی کر کے ہی بھیجوں گی۔ اپنے نعیم کے لیے مجھے شگفتہ پسند ہے۔ یتیم، بہادر اور نیک بچی ہے۔ آپ لوگ ہی اس کے بڑے ہیں۔ امید ہے اتنے اچھے رشتے پر آپ کو کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔" فرزانہ کی امی نے صاف گوئی کا مظاہرہ کیا۔
ثمینہ اور اس کی اماں نے بے چینی سے پہلو بدلا۔
"ثمینہ جاؤ میری بیٹی چائے کا انتظام کرو۔" انھوں نے اسے جانے کا اشارہ کیا۔
"آپ ہمارے گھر رشتے کی نیت سے آئیں اس سے بھلا اور اچھی بات کیا ہو گی۔ میں تو خوشی خوشی آپ کے گھر رشتہ کروں بہن مگر مجبوری یہ ہے کہ جس کا رشتہ آپ مانگ رہی ہیں ان کا ہونا ممکن نہیں۔۔۔" ان کے کہنے پر مہمانوں کے منہ اترے۔
"مگر کیوں۔۔۔ کیا اعتراض ہےآپ کو؟"
"ارے نہیں مجھے بھلا کیا اعتراض ہونا ہے، پر شگفتہ کو ضرور اعتراض ہو گا اس پر۔۔۔"
دروازے سے باہر نکلتے ہوئے ثمینہ نے اپنی ماں کو کہتے سنا۔ اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ رینگنے لگی۔ کچھ دیر قبل کی بے سکونی سکون میں بدلنے لگی تھی۔
٭٭٭٭
"وہ جو کونے میں بیٹھی ہے نا صالحہ اس کی شادی ہے اگلے ہفتے۔۔۔" وہ کھانے کے کمرے میں بیٹھی رات کا کھانا کھا رہی تھیں جب صائمہ نے شگفتہ کی توجہ ایک لڑکی کی طرف مبذول کروائی۔
"ہممم" شگفتہ نے سرسری انداز میں اسے دیکھا۔
"کتنی معمولی شکل کی ہے، حق ہا ہم بیٹھے ہیں ابھی اور اس کی شادی ہو رہی ہے۔" صائمہ نے ٹھنڈی آہ بھری۔ شگفتہ بے اختیار مسکرا دی۔
"رشتے شکل و صورت کی وجہ سے تھوڑی ہوتے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو دنیا کی آدھی سے زیادہ لڑکیاں تو کنواری رہ جاتیں۔ یہ تو نصیب کی بات ہے، خدا کی مرضی کی بات ہے۔" شگفتہ نے کھوئے کھوئے انداز میں کہا۔
"بات تو تمھاری ٹھیک ہے پر آج کل سب کو چاند سی بہو چاہیے۔ اپنا بیٹا چاہے بن مانس ہو۔۔۔" اس کی بات پر شگفتہ بے اختیار قہقہہ لگانے پر مجبور ہو گئی۔
"ہاں زمانے کے دوہرے معیار ہیں۔ لڑکی خوب صورت ہو۔ باکردار، شریف اور اچھے خان دان کی فیملی بھی مختصر ہو اور سونے پر سہاگہ کہ کمانے والی بھی ہو۔ یہ ہیں آئیڈیل بہو کی خصوصیات۔" شگفتہ نے دل گرفتگی سے کہا۔
"ارے واہ اس حساب سے تو تم آئیڈیل بہو ہوئی۔ کل کو پڑھ لکھ بھی جاؤ گی۔ سمجھ لو تمھاری تو نکل پڑی بس۔" صائمہ چہکی۔ اس مذاق نے شگفتہ کو ٹھٹھکنے پر مجبور کیا۔ دھیان یک دم سے چاچی کی باتوں کی طرف گیا تھا۔
"تمھیں تو کوئی شہزادہ ملے گا پھر۔۔۔" صائمہ نے اسے کہنی مارتے ہوئے مزید کہا۔ شگفتہ کے ذہن کے پردے پر جاوید کی شکل ابھری۔
"توبہ ہے تم بھی نا۔۔" سر جھٹک کر فضول خیال سے جان چھڑاتے ہوئے شگفتہ نے صائمہ کو ٹوکا۔ سامنے ہی وارڈن اپنی مخصوص نشست پر بیٹھی اپنی چمچیوں سے باتیں کرنے میں مگن تھی۔ لگتا ہے میڈم کچھ بدل گئی ہے۔ شگفتہ نے سوچا۔ تبھی وہ باقی لڑکیوں کی طرف متوجہ ہوئیں:
"اچھا لڑکیوں سنو اک ضروری بات بتانی ہے تم سب کو۔ صالحہ کی شادی ہے اگلے ہفتے تو اس خوشی میں اتوار کی شام کو ہاسٹل میں اک چھوٹا سا فنکشن ہو گا۔ اچھا کھانا بنے گا، دلھن کی ہلکی ہھلکی سی مہندی کی رسم ہو گی۔ تم سب کو شرکت کی دعوت عام ہے۔ ہلا گلا کرنا۔۔۔" وارڈن نے خوش دلی سے سب کو مطلع کیا۔ یہ سن کر صالحہ کی دوستیں خوشی سے تالیاں پیٹنے لگیں۔ یہ انھی کا آئیڈیا تھا۔
"بڑی بات ہے کہ میڈم کسی لڑکی کی خوشی منانے کو تیار ہو گئیں۔" شگفتہ نے دل ہی دل اپنے کارنامے کو سراہا۔ وہ خوش تھی چلو اس بہانے ہاسٹل میں تھوڑی رونق ہو گی اور تو اور معمول سے ہٹ کر کچھ اچھا کھانے کا موقع ملے گا۔
"شکر ہے یار اتوار کی شام بوریت کی نذر نہیں ہو گی۔" صائمہ نے کہا تو اس نے تائید میں سر ہلا دیا۔
٭٭٭٭
عظیم کے گھر میں ڈھولکی رکھی جا چکی تھی۔ شام ڈھلتے ہی اماں اور دونوں چھوٹی بہنیں ڈھولکی کے گرد جمع ہو جاتیں۔ محلے کی چند عورتوں کے آ جانے سے گھر واقعی شادی والے گھر کا سماں پیش کرتا۔
"اے حسینہ دیکھ ذرا مستقل ٹوں ٹوں ہو رہی ہے اس میں، بات کرنا مشکل ہو گیا تیری پھوپھی سے۔ پتا نہیں کال آ رہی ہے یا میسج۔" اماں کافی دیر سے کال پر مصروف تھیں۔ ناگواری سے انھوں نے موبائل اس کی جانب بڑھایا۔ اس کے چہرے کی رنگت ایک پل کے لیے متغیر ہوئی۔ دو تین دن سے وہ اس سے بات کرنے سے کترا رہی تھی۔ بہانے بہانے سے اسے ٹال رہی تھی مگر کب تک۔۔۔ برآمدے میں ڈھولکی کے گرد محلے کی خواتین محفل سجائے بیٹھی تھیں۔ وہ نظر بچا کر کمرے میں آ گئی۔ اس کا اندازہ درست تھا۔ حنا کے نام سے چار ٹیکسٹ جگمگا رہے تھے۔
"کہاں مصروف ہو؟ جب بھی فری ہو بات کرنا۔ تم سے ضروری بات کرنی ہے۔" یکے بعد دیگرے وہ تمام پیغام پڑھتی گئی۔ دل کڑا کر کے جواب بھیجا۔
"جی فری ہوں بتائیں۔" اگلے ہی لمحے حسن کی کال آنے لگی۔
"کیا کروں؟" دل کی دھڑکن تیز ہوئی۔ اس نے کال اٹھائی۔
"ہیلو" حسینہ کی دھیمی آواز اس کے کانوں تک پہنچی۔
"کہاں تھی؟ تمھیں ذرا بھی خیال نہیں میرا، ادھر میں تڑپ رہا ہو اور تمھیں فکر ہی نہیں۔" حسن کی آواز سے ہی بے تابی عیاں تھی
"آپ کو اندازہ ہو گا میری مصروفیات کا۔۔۔" اس نے اندھیرے میں تیر چلایا۔
"اندازہ ہے کہ شادی والا گھر ہے مگر اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ تم مجھے مسلسل اگنور کرتی رہو۔"
"آپ کو کیسے پتا میرے گھر والوں اور میری آپا کی شادی کا؟" اس کے پوچھنے پر دوسری جانب خاموشی چھا گئی۔ ایک نہ ایک دن تو اسے اپنا آپ ظاہر کرنا تھا مگر حسینہ یک دو پوچھ لے گی اس کی اسے امید نہ تھی۔
"تم سے محبت کرتا ہوں اور جن سے محبت کی جائے ان کی خبر رکھتے ہیں۔" اس نے مخمور لہجے میں کہا۔ وہ بھی اتنا نادان نہ تھا کہ حسینہ کے سامنے فورا سب اگل دیتا۔
"کچھ بولو چپ کیوں ہو گئی ہو۔ کیا تمھیں برا لگا ہے کہ میں نے تمھاری خبر رکھی؟"
"نہیں یہ بات نہیں۔ آپ نے ملنے کی بات کی تو۔۔۔" حسینہ نے دانستہ طور بات ادھوری چھوڑی۔ ڈھولکی اور گانوں کی آواز اندر تک صاف سنائی دے رہی تھی پھر بھی وہ چوکنا رہی۔
دوسری جانب ٹھنڈی آہ بھری گئی۔ "میں تو مرا جا رہا ہوں تم سے ملنے کو۔ تمھاری آپا کی شادی میں آؤں گا تو تمھیں سب کچھ خود بغود پتا چل جائے گا کہ تمھارا چاہنے والا ہے کون۔ بھروسا رکھو تم پر آنچ نہیں آنے دوں گا تمھاری عزت میری عزت ہے۔ بس وعدہ کرو مجھے دھتکارو گی نہیں۔" حسن کی آواز میں لجاجت نمایاں ہوئی۔ اس کی باتیں سن کر حسینہ پہلے ہی پگھل چکی تھی۔ دل میں جو وسوے تھے وہ ایک پل میں ہوا میں تحلیل ہو گئے۔ حسینہ نے سکون کی سانس بھری۔
"ایسا کچھ نہیں ہو گا مجھ پر بھروسا رکھیں۔" اس کی کھنکتی آواز حسن کے کانوں اور دل میں جلترنگ بجا گئی۔
"لو یو جان۔۔۔" اس کی آواز کان میں پڑی تو حسینہ شرما گئی۔
"اچھا میں کال بند کر رہی ہوں باہر سب انتظار میں ہوں گے۔"
ڈر اور پریشانی غائب ہو چکی تھی۔ اسے بھی اب اپنے چاہنے والے سے ملاقات کا انتظار تھا۔