سسرال یا جنجال

انھیں پیٹھ پیچھے اسی طرح کی باتیں کرنے کی عادت تھی۔ منہ پر میٹھی گڑ کی ڈلی جیسی اور پیچھے سے زبان میں کانٹے اگ آتے تھے۔ گھر بھر کو میرے خلاف بھڑکا دیتیں۔ مسئلہ یہ نہیں تھا کہ وہ اپنی چرب زبانی سے دوسروں کو شیشے میں اتار لیتی تھیں، مسئلہ تو یہ تھا سب لوگ جانتے بوجھتے ہوئے بھی ان کے شیشے میں اترتے کیوں تھے؟ اپنی عقل استعمال کیوں نہیں کرتے تھے؟ عجیب گورکھ دھندا تھا اس گھر کا

از۔۔۔۔زہرہ جبیں کراچی
پہلا حصہ

مزید پڑھیے۔۔

پیار نہیں مار

سائبیریا کے ماہرین نفسیات کا دعویٰ ہے کہ وہ منشیات، شراب نوشی یا جنسی تعلقات کے عادی افراد کو جسمانی سزا دے کر پیٹ کر ان کی عادات کو ختم کرنے میں مدد کر رہے ہیں۔اس کے پریکٹیشنرز کا دعویٰ ہے کہ تکلیف دہ علاج، جس میں نشے کے عادی افراد کو کولہوں پر مارنا شامل ہے، پیٹ ڈوہرٹی جیسے منشیات استعمال کرنے والوں یا کسی دوسرے طریقوں سے ناکام ہونے والے افراد کے علاج میں مدد کر سکتا ہے۔
حمیراعلیم

پچھلے کچھ عرصے سے پاکستان میں ایسے ماہرین نفسیات ، موٹیویشنل اسپیکرز اور دیگر ماہرین کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے جو مغرب سے تعلیم حاصل کرتے ہیں یا مغربی لوگوں کو فالو کرتے ہیں اور ان جیسا طریق کار اپنا کر پاکستان کے مسائل خصوصا ذہنی و جسمانی مسائل کا حل پیش کرنے کی ناکام کوشش میں مصروف ہیں۔وہ یہ نہیں سمجھتے کہ مغربی ممالک کے مسائل کچھ اور ہیں۔وہاں کے باسیوں کو دو وقت کی روٹی حاصل کرنے کی فکر نہیں ہوتی بلکہ ہمارے مقابلے میں ہر وہ سہولت حاصل ہوتی ہے جو ہمارے ہاں توآسائش ہے مگر وہاں بنیادی ضروریات زندگی میں شامل ہے۔اس لیے وہ کئی نشوں اور ذہنی بیماریوں کے عادی ہو جاتے ہیں۔جب کہ ہمارے ہاں ان چونچلوں کے لیے فرصت ہی نہیں ملتی اور بندہ غم روزگار میں ہی عمر گزار جاتا ہے۔

ان نام نہاد دانشوروں نے ایک مغربی مقولے کو اپنانے پر زور دیا کہ مار نہیں پیار۔اور نتیجہ یہ نکلا کہ ہماری نئی نسل بھی مغرب کی تقلید میں ان ہی کی طرح بگڑ گئی۔کیونکہ لاتوں کے بھوت بھی کبھی باتوں سے مانتے ہیں۔پھر بھلا ہو سائیبرین ماہر نفسیات کا جنہوں نے ہمارا مشرقی محاورہ سنا اور اسے بہترین طریقہ علاج قراردیا:" ڈنڈا بڑے بڑوں کا پیر ہے۔"

سائبیریا کے ماہرین نفسیات کا دعویٰ ہے کہ وہ منشیات، شراب نوشی یا جنسی تعلقات کے عادی افراد کو جسمانی سزا دے کر پیٹ کر ان کی عادات کو ختم کرنے میں مدد کر رہے ہیں۔اس کے پریکٹیشنرز کا دعویٰ ہے کہ تکلیف دہ علاج، جس میں نشے کے عادی افراد کو کولہوں پر مارنا شامل ہے، پیٹ ڈوہرٹی جیسے منشیات استعمال کرنے والوں یا کسی دوسرے طریقوں سے ناکام ہونے والے افراد کے علاج میں مدد کر سکتا ہے۔

سائبیرین ٹائمز نے دو مریضوں کو 'تھراپی' کرتے ہوئے دیکھا۔ایک بائیس سالہ نتاشا جو کہ ہیروئن کی عادی تھی، نے اصرار کیا: 'میں اس بات کا ثبوت ہوں کہ یہ علاج کام کرتا ہے۔اور میں نشے یا ڈپریشن میں مبتلا ہر شخص کو اسے استعمال کرنے کا مشورہ دیتی ہوں۔

یہ تکلیف دہ ہے - لیکن اس نے مجھے میری زندگی واپس دے دی ہے۔ اس کے بغیر مجھے یقین ہے کہ اب میں مر جاؤں گی۔'ڈاکٹر جرمن پیلیپینکو اور ساتھی پریکٹیشنر پروفیسر مرینا چوکھرووا کا اصرار ہے کہ ان کا نیا علاج سائنسی اصولوں پر مبنی ہے۔

پروفیسر چوکھرووا نے کہا، 'ہم مریضوں کو کولہوں پر ایک واضح اور یقینی طبی مقصد کے ساتھ چھڑی لگاتے ہیں - یہ کوئی بگڑی ہوئی جسمانی تشدد والی سرگرمی نہیں ہے۔' جوڑے کا دعویٰ ہے کہ عادی افراد اینڈورفنز کی کمی کا شکار ہوتے ہیں - جسے اکثر 'خوشی کے ہارمونز' کے نام سے جانا جاتا ہے۔

جسمانی سزا کا شدید درد دماغ کو جسم میں اینڈورفنز کے اخراج کے لیے تحریک دیتا ہے 'مریضوں کو خوشی محسوس ہوتی ہے'۔

ڈاکٹر پیلی پینکو نے کہا کہ 'کیننگ، لکڑی سے پٹائی، زندگی کے لیے جوش و جذبے کی کمی کا مقابلہ کرتی ہے جو اکثر علتوں، خودکشی کے رجحانات اور نفسیاتی امراض کے پیچھے ہوتا ہے۔'

نتاشا نے بتایا کہ وہ ایک بوائے فرینڈ کے ذریعے منشیات میں مبتلا ہوئی جو اس عادت کی وجہ سے مر گیا۔ 'میرے ارد گرد بہت سی موتیں ہوئیں۔ میں بھی تقریباً مر گئی تھی - مجھے باہر نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا تھا۔ تب ہی میری والدہ نے علاج کے اس نئے طریقہ کے بارے میں سنا۔ میں نے اسے آزمانے پر اتفاق کیا۔' اسے بید کی چھڑی کے ساتھ 60 سٹروک کے ہر سیشن سے پہلے نفسیاتی مشاورت دی جاتی ہے۔ ہر سیشن کی قیمت لگ بھگ 60 پاونڈز ہے۔

اس نے کہا، 'میں جسمانی تشدد سے لذت حاصل نہیں کرتی ہوں۔ 'میرے والدین نے مجھے کبھی تھپڑ بھی نہیں مارا۔ اس لیے یہ میرا پہلا حقیقی جسمانی درد تھا اور یہ واقعی چونکا دینے والا تھا۔ اگر لوگ سوچتے ہیں کہ اس میں کوئی جنسی لذت ہے تو یہ بکواس ہے۔'

بائیس سالہ نتاشاہیروئین کے نشے سے چھٹکارا پا رہی ہیں:'ہر کوڑے کے ساتھ میں چیختی ہوں اور سرجیکل ٹیبل کو مضبوطی سے پکڑ لیتی ہوں۔ یہ ایک دردناک درد ہے، حقیقی اذیت ہے، اور میرا پورا جسم ہل رہا ہے۔ اکثر میں روتی ہوں، اور ڈاکٹر کبھی کبھی پوچھتا ہے کہ میں کیا محسوس کر رہی ہوں اور کیا میں ٹھیک ہوں؟ میرا جسم گرم ہو جاتا ہے اور میری ہتھیلی سے پسینہ آنے لگتا ہے۔ یہ واقعی ناخوشگوار ہے - لیکن ہر سیشن کے بعد میں دیکھ سکتی ہوں کہ یہ کام کرتا ہے۔ دراصل، یہ واحد چیز ہے جس نے میرے لئے کام کیا ہے۔ یہ علاج مجھے ہیروئن لینے پر سزا دینے کے بارے میں نہیں ہے۔یہ میرے جسم پر اثر کی وجہ سے کام کرتا ہے - ان اینڈورفنز کے ذریعے جو مجھے نشے سے چھٹکارا دے رہی ہے۔

درد مجھے ان خطرات کو سمجھنے میں مدد کرتا ہے جو میں نے خود کو لاحق کیے ہوئے ہیں، میں کس طرح صرف اپنے آپ کو مار رہی تھی۔'اس نے زور دے کر کہا: 'میں جانتی ہوں کہ میرے بہت سے دوست سمجھتے ہیں کہ میں ان ڈاکٹروں پر بھروسا کرنے کی وجہ سے پاگل ہوں۔ لیکن میں جینا چاہتی ہوں۔ پانچ سال پہلے نشے کی لت لگنے کے بعد پہلی بار مجھے لگتا ہے کہ میرے پاس ایک موقع ہے۔

میں صرف ان تمام لڑکیوں کی طرح بننا چاہتی ہوں جن کی عام زندگی ہے - ایک آدمی تلاش کرنا، شادی کرنا، بچے پیدا کرنا، ایک ساتھ زندگی کے مسائل سے گزرنا۔

میں اس طرح کی عام زندگی چاہتی ہوں - اور اب میں محسوس کر سکتی ہوں کہ میں اس کی طرف واپس آ رہی ہوں۔' اس علاج کے کئی مہینوں بعد اسے ایک نئی نوکری مل گئی اب وہ ایک مقامی ٹیکسی کمپنی میں ڈسپیچر کے طور پر کام کرتی ہے۔

ایک اور41 سالہ مریض یوری کام کے دباو کی وجہ سے ووڈکا پینے کی سنگین عادت میں مبتلا ہو گیا۔ 'شرابیوں کو 60 نہیں 30 کوڑے لگائے جاتے ہیں۔'پہلی ضرب بہت دردناک تھی۔ میں چیخا، اور کسی شرابی کی طرح گالی بکی۔کسی نہ کسی طرح میں نے تمام 30 کوڑے سہے۔ اگلے دن میں دکھتی پشت کے ساتھ اٹھا لیکن فریج میں ووڈکا کو چھونے کی بالکل بھی خواہش نہیں تھی۔لیکن یہ سلوک اس کی گرل فرینڈ کے ساتھ جھگڑے کا سبب بنا۔

'اس نے مجھ پر ہر طرح کی عجیب و غریب چیزوں کا شبہ کیا، خفیہ دوستی سے لے کر مقامی جنسی تشدد پسند خواتین سے ملنے تک۔ میں نے اسے سچ بتا دیا - اور جب میں نے سب کچھ سمجھا دیا تو اس نے کہا کہ اسے اپنے علاج کے لیے اتنا خطرناک قدم اٹھانے پر مجھ پر فخر ہے۔' پروفیسر چکرووا نے کہا: 'پٹائی واقعی علاج ہے۔ ہم پہلے بہت ساری نفسیاتی مشاورت کرتے ہیں، اور ادویات کا استعمال بھی کرتے ہیں۔

'تمام مشاورت اور درد کے خلاف مزاحمت کی جانچ کے بعد ہی ہم پٹائی شروع کرتے ہیں۔'ہم بید کی چھڑیاں استعمال کرتے ہیں۔ وہ لچکدار ہیں اور نہ تو ٹوٹ سکتی ہیں اور نہ ہی خون بہنے کا سبب بن سکتی ہیں۔ ہم کولہوں پر پٹائی کرتے ہیں ۔ تجربہ سے پتا چلتا ہے کہ یہ ایک بہت اچھا اضطراری افعال کامرکز ہے جس کا استعمال انسانی جسم کے لیے درد کے اشاروں کو مثبت سرگرمی میں تبدیل کرنے کے لیے کیا جا سکتا ہے۔'

انہوں نے مزید کہا کہ اگر کسی مریض کو مار پیٹ سے جنسی لذت حاصل ہوتی ہے تو 'ہم اس عمل کو فوراً روک دیتے ہیں۔یہ ہمارے علاج کا حصہ نہیں ہے۔ اگر وہ اس کی تلاش کر رہے ہیں تو اس کے لیے بہت سی دوسری جگہیں ہیں۔ روس میں ڈاکٹر عمومااس علاج کا مذاق اڑاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ورزش، ایکوپنکچر، مساج تھراپی، چاکلیٹ کھانا اور یہاں تک کہ سیکس بھی اینڈورفِن کے اخراج کو متحرک کرنے میں بہتر ہیں، اور اس کے ٹریک ریکارڈ کے ثبوت کا مطالبہ کرتے ہیں۔

ڈاکٹر پلینکو نے کہا:'درد تناؤ کے خلاف ایک انجیکشن کی طرح کام کرتا ہے۔ہمیں اپنے ساتھیوں کی طرف سے بہت زیادہ شکوک و شبہات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن تمام پہل کرنے والے ایسا ہی کرتے ہیں۔ یہ علاج ایک انجیکشن کی طرح کام کرتا ہے تاکہ مریض جرم، جھنجھلاہٹ، غصہ، سستی، مایوسی یا ناامیدی کو کامیابی کی طرف جانے کے راستے میں رکاوٹ نہ بننے دے۔اس تیز رفتار اور متحرک طریقے سے نفسیاتی بیماریوں کی ایک بڑی تعداد کا علاج کیا جا سکتا ہے۔ بہت سے مریض اپنے آپ سے اور دنیا سے ناراض ہوتے ہیں، کمزور، بے حس، بھرائے ہوئے اور تھکے ہوئے ہوتے ہیں۔ ہم ان کی مدد کرتے ہیں کہ وہ تناؤ پر ردعمل کا انداز بدلیں اور مستقبل میں کسی بھی تشویشناک صورتحال پر قابو پانے میں ان کی مدد کریں۔'

لوگ مجھے دیکھنے کے لیے روس کے مختلف شہروں سے اور اب دوسرے ممالک سے بھی آتے ہیں۔ امریکا سے کئی مریض اپوائنٹمنٹ کے لیے کہہ رہے ہیں، اس لیے مجھے ذہنیت یا اس ملک پر کوئی مسئلہ نظر نہیں آتا جہاں سے مریض آتے ہیں۔

'یقیناً ہم اسے پیٹ ڈوہرٹی،میوزیشن اور سنگر، کے ساتھ آزمائیں گے - ہم ان جیسے لوگوں، فنکاروں پر خصوصی توجہ دیتے ہیں، تاکہ ان کی ذہانت دوسرے لوگوں کی زندگیوں کو روشن کرتی رہے۔'

اب دیکھیے نا جو کام ہمارے بزرگ ، اساتذہ اور پولیس بگڑوں کو سنوارنے کے لئے مفت میں کر رہے تھے لوگ 60 پاونڈز دے کر کروا رہے ہیں۔میں تو سوچ رہی ہوں کہ ڈاکٹر صاحب کی اجازت سے اس کلینک کی ایک برانچ میں پاکستان میں بھی کھول ہی لوں۔لوگوں کا بھی بھلا ہو جائے گا اور میرا بھی۔

رئیس المتغزلین کی شاعری میں عشق کا پرتو

چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے
ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانہ یاد ہے
تجھ سے کچھ ملتے ہی وہ بےباک ہوجانا میرا
اور ترا دانتوں میں وہ انگلی دبانا یاد ہے
کھینچ لینا وہ ترا پردے کا کونہ دفعتہً
اور دوپٹے سے ترا وہ منہ چھپانا یاد ہے

از۔۔۔۔ارم رحمٰن لاہور

مزید پڑھیے۔۔

آپ خود کشی کیوں نہیں کرتے؟

ایسے لوگوں سے میرا صرف ایک سوال ہے کہ اگر آپ اخراجات پورے نہیں کر سکتے تو خودکشی کر لیتے انہیں قتل کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ غربت دنیا کے ہر ملک میں ہے حتی کہ امریکا اور قطر جیسے ترقی یافتہ امیر ممالک میں بھی ہے۔

حمیراعلیم

مزید پڑھیے۔۔

ٹک حرص و ہوس کو چھوڑ میاں...

"بتاتا ہوں یار بتاتا ہوں... وہ جو سیٹھ عبد الغفور ہے نا وہی جس کی پلاسٹک کی فیکٹری تھی.. آج کل بہت کرائسسز میں ہے ۔ فیکٹری دیوالیہ ہو گئی ہے اور اب قرضے چکانے کے لیے گھر بیچنے تک کی نوبت آ گئی ہے۔ بس اسی کے گھر کا سودا کروا رہا ہوں تمہارے لیے۔"

ام محمد سلمان

مزید پڑھیے۔۔

احساسِ ندامت ہو تو اتنا کرنا....!!

میں پیپسی نہیں لوں گا.. وہ سامنے کلیم بھائی کی دکان سے دودھ دہی خرید کر لے جاؤں گا۔ امی سے کہوں گا مہمانوں کی لسی سے تواضع کریں اور کھانے کے ساتھ کوئی ٹھنڈا مشروب رکھنا اتنا ہی ضروری ہے تو کیری کا شربت بنا لیں یا پھر دہی کی نمکین لسی بنا کر رکھ دیں یا لیموں کی سکنجبین

ام محمد سلمان

مزید پڑھیے۔۔

میں اگر انکار کردوں تو!!!

ارم رحمان لاہور

میں اگر انکار کردوں تو
کہ تم سے پیار نہیں کرتی
نہیں جپتی مالا تمھارے نام کی
میں تمھارا انتظار نہیں کرتی

کیا کرو گے یقین میرے
ان الفاظ کا
کیا کرو گے حیرت سے
تصدیق
میرے بیان کی
کہ آنکھوں کی پتلیاں سکڑ جائیں گی ؟

مزید پڑھیے۔۔

اس خواب کی تقدیر میں تعبیر نہیں کیا ؟

چھتوں پر کھڑی مائیں، یاس بھری آنکھوں سے دور دیکھتی ہیں کہ ان کے لعل جیل سے چھوٹ کر واپس آئیں گے، کہیں اپنے ہاتھوں اپنے ہی لختِ جگر کو قبرستان بھیجتی ہیں کیونکہ باپ پہلے ہی جا چکا تھا، کہیں باپ کو کاندھا دینے بیٹا نہیں، کہیں بیویاں دروازے تکتے گلیوں میں بے آبرو ہورہی ہیں، کہیں ردائیں تار تار ہو رہی ہیں، کہیں کمسن بچیوں کی زندگی برباد ہورہی ہے، کہیں نظریں ہی چھین لی جارہی ہیں۔

مہوش کرن اسلام آباد

مزید پڑھیے۔۔

چنگاری

میں چاہتی ہوں اسرائیل کو عبرت ناک شکست ہو، فلسطین کو شان دار فتح نصیب ہو، میرے پروردگار! بس یہ ایک خواہش، ایک تمنّا، ایک حسرت پوری کر دے۔۔۔!! میں ان منحوس یہودیوں کو سسکتے تڑپتے دیکھوں جنھوں نے مسجدِ اقصٰی پر قبضہ کر رکھا ہے، جنھوں نے غزہ میں بمباری کر کر کے معصوم جانوں کو تڑپایا ہے، جنھوں نے اپنے ہی ملک میں ہمارے فلسطینی بہن بھائیوں کو قید کر دیا، جنھوں نے ظلم و بربریت کی نئی نئی داستانیں رقم کی ہیں۔ بس ایک بار !بس ایک بار۔۔۔“ اس نے شدّتِ جذبات سے اپنی مٹھیاں بھینچ لیں

اُمِّ محمد سلمان

مزید پڑھیے۔۔

بجلی کے بل اور پاکستان کا مطلب

ہم تو پچھلے کئی برس سے اسکرینوں کے سامنے چوبیس چوبیس گھنٹے ذہنی اور جسمانی طور پر مفلوج ہو کر کرکٹ اور فٹبال کے میچ اور کئی کئی گھنٹوں پر مشتمل ڈراما سیریز دیکھتے رہے ہیں۔ گم صم، کھوئے کھوئے سوئے سوئے اب جب بجلی کے بلوں کا عذاب آیا ہے، یعنی جیب پر زر پڑی ہے تو سب جاگ گئے ہیں ۔

ام محمد عبداللہ

مزید پڑھیے۔۔

کنواری بڑھیا کے خطوط

آج وہ سہیلی آئی اور مرحومہ کے کمرے میں گئ۔۔۔ ایک چابی پرس سے نکالی اور بیڈ کے ساتھ والی چھوٹی سی الماری کھولی ۔۔۔کاغذوں کے پلندے، عطر کی کچھ شیشیاں۔۔اور گلاب کی سوکھی پتیاں ۔۔ ایک شاپر بیگ لیا،اس میں یہ سب ڈالااور چلتی بنی۔۔ جاتے جاتے چابی مرحومہ کی ماں کو دے گئی۔۔ گھر جاکر کاغذات دیکھے تو شاعری کا انبار ۔۔۔اور بہت سارے افسانے ۔۔۔لیکن۔۔ایک پیلے بند لفافے میں پانچ خطوط نکلے۔
ارم رحمان لاہور

مزید پڑھیے۔۔

میں تو اس قابل نہ تھا

اجیال اکیڈمی نے علماء کرام کی مشاورت سے قرض اور قرض حسنہ کا ایک اہم قدم اٹھانے کی ٹھانی ہے۔ جس کی مدد سے وہ افراد جن پر پچھلے سالوں میں حج فرض ہوچکا ہے اور وہ کچھ وجوہ کی بناء پر نہیں جاسکے اور اب اخراجات کی اتنی مد ان کے لیے ناگزیر ہے تو وہ اس اکیڈمی سے آسان اقساط پر قرض لے کر اپنے اس دیرینہ اور اہم فرض سے احسن طور پر سبکدوشی حاصل کرسکیں گے۔۔۔
اہلیہ بلال کراچی

مزید پڑھیے۔۔

کیا کھویا کیا پایا؟

پھر ایک وقت آیا کہ پاکستان کی ائیر لائن دنیا کی بہترین ائیر لائن مانی گئی،ملک میں صنعتوں کا پہیہ گردش کرنے لگا،کراچی "روشنیوں کا شہر" اور "غریبوں کی ماں" کہلایا جانے لگا،ریلوے کا نظام بہتر ہونے لگا،ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہونے لگا،امن قائم ہونے لگا۔مگر افسوس۔۔۔!
حفصہ محمد فیصل کراچی

مزید پڑھیے۔۔

جہد آزادی

حافظ محمد عدیل عمران
آزادی ایکا ایکی نہیں آجاتی، یہ قوموں کے اذہان میں مختلف العنوان تقاضوں کے ساتھ ساتھ پرورش پاتی ہے ۔ خیالوں میں انقلاب آتا ہے تو جسموں میں بھی انقلاب کو راہ ملتی ہے اور جب جسم انقلاب قبولنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں تو پھر سورج کی طرح چمک کر انقلاب بھی ابھر آتا ہے بلکہ ساری قوم کو اپنے گھیرے میں لے لیتا ہے ۔ہمارا انقلاب ایکا ایکی نہیں آیا اور غالبا ہم تاریخ مرتب کرتے وقت اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ اس کی جڑیں کہاں سے شروع ہوتی ہیں،

مزید پڑھیے۔۔

تمھارے نام!

مہوش کرن
کیسی ہو پیاری! امید ہے بخیر و عافیت ہوگی۔ کب سے دل چاہ رہا تھا کہ تمھارے نام خط لکھوں بالکل اسی طرح جیسے ہم لوگ پہلے لکھا کرتے تھے۔ جب ایک دوسرے سے بہت دور رہتے تھے، پھر قریب ہونے کے باوجود بھی لکھتے تھے کیوں کہ قریب تر رہنا چاہتے تھے یا شاید خود کو فریب دیتے رہے۔

مزید پڑھیے۔۔

جانیے تو!!! سعد میاں کے ابا کو کیا ہوگیا تھا؟

کِسی کی سمجھ میں نہ آرہا تھا کہ ابا میاں ایک دم اسکول ، کالج اور پڑھائی کے خلاف کیوں ہو گئےہیں ؟؟؟ اکیلے میں نہ جانے کیا کیا بُڑبڑاتے رہتے ، کبھی ان کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگتے ۔ بڑے بھائی جان آج کل میں کسی سائیکاٹرسٹ کی خدمات لینے کا سوچ رہے تھے ۔ تا کہ کم از کم اتنا تو معلوم ہو ، کہ ابا میاں کو آخر ہوا کیا ہے ؟
ساجدہ بتول ملتان

مزید پڑھیے۔۔

تصویریں بولتی ہیں

ما ہم کرن ریاض کراچی

 ہر تصویر کے مختلف پہلو و زاویے ہوتے ہیں ۔ 

یہ تصویر ہوبہو ہمارے ملک کے حالات کی عکاسی کرتی ہے ۔ جو طاقتور ہے وہ کمزور کی پشت پر قدم رکھ کر جی رہا ہے اور کمزور پس رہا ہے ۔ 

کراچی کی بندر گاہ سے لے کر درہ خیبر تک ہر وہ شخص جو طاقت میں زیادہ ہے وہ خود  سے کمزور کو اپنے قدموں میں رکھتا ہے ۔ 

مزید پڑھیے۔۔

قیامت صغری

ایمن عرفان کراچی

 عدنان "ترکیہ" کے قبرستان میں بیٹھا تھا ۔" ماریہ عدنان" ،"کاشان ولد عدنان"،" ربیعہ بنت عدنان" ۔ لائن سے بنی تینوں قبریں.... ۔ عدنان کے کانوں میں آوازیں گونج رہی تھیں ۔ بابا جانی میرے لیے بڑی چاکلیٹ لائیے گا۔ سنیں میں آپ کے بغیر دو دن بھی نہیں رہ سکتی۔

مزید پڑھیے۔۔

آپ کی یاد

عاشق کوشش تو  نہ چھوڑے کہیں نہ کہیں اس چوٹ کو رسنے دے، اس کا مرہم کسی بھی شے کو نہ بننے دے جو اللہ کی محبت کی ضرب ہے ،اسے زخم بننے دے

 ندا اختر

رات جب سیاہی کا جامہ پہن کر چاند کا جھومر ماتھے پر سجاتی ہے  ۔۔۔ تو آپ کی یاد آتی ہے ۔۔

ستاروں سے روشن دوپٹا اوڑھ کر کسی کی حسین یادوں میں کھو جاتی ہے تو آپ کی یاد آتی ہے ۔

مزید پڑھیے۔۔

میں اور تم

ندا اختر

یادوں کے دریچوں سے جھانکتی تصورات میں کھوئی ہوئی بارش کی رم جھم میں بھیگی ہوئی باتیں تیری ۔  ۔  ۔۔

 میں تم سے بچھڑ کر اکثر ڈھلتی شاموں کی طرح  نگاہوں کو جھکا لیتی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسی انتظار میں آنکھیں موندے سوچتی ہوں کہ کہیں سے چہرہ آپ کا نمودار ہو میرے دن کے روشن سورج کی طرح ۔۔

مزید پڑھیے۔۔

دلِ شکستہ

سویرا اور ظفر ایک دوسرے کے ساتھ کتنے بھی مخلص سہی مگر رشتے کی بات نہیں بن سکی۔ دونوں طرف سے مسائل کا سامنا تھا۔ اب عقل مندی کا تقاضا یہی تھا کہ دونوں ایک دوسرے سے الگ ہو جائیں مگر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!

 ام محمد سلمان

"ارے بھئی کہاں ہیں؟

کیا کر رہی ہیں؟ ایک میسج بھی نہیں کر سکتی تھیں؟" ظفر نے بے تابانہ میسج کیا۔

مزید پڑھیے۔۔

دیدار مصطفیﷺ

حالت بیداری میں جو ہمارے ذہن میں ہوتا ہے ،وہی ہم خواب میں بھی دیکھتے ہیں ، جب ہمارے دل میں نبی ﷺکی محبت ہو گی اور بار بار اس محبت کی چنگاری ہمارے" دل و دماغ "میں اٹھے گی تو خواب میں ضرور زیارت ہوگی۔

ایمن عرفان کراچی

"دیدار "کا معنی ہے دیکھنا اور اس کا آلہ آنکھ ہے۔ اور اس میں بڑی طاقت ہے۔ دیدار ہی کا حاصل تھا جس نے" قیس" کو مجنوں  بنا دیا۔

مزید پڑھیے۔۔

بارش کا قطرہ

نماز اس بارش کے پہلے قطرے کے جیسی ہی تو ہے جو کمزور ایمان اور بنجر ہو چکے دل کو نرم کرتی ہے، جیسے بارش  کے قطرے بنجر زمین کو زندہ کر دیتے ہیں، اسے حیات کا پیغام پہنچاتے ہیں۔  اس دل میں اپنے رب کی محبت پیدا کرتی ہے اور اس کے سامنے پیش ہونے کی چاہت بھی۔

حمنہ کامران اسلام آباد

مزید پڑھیے۔۔

خدا را۔۔۔۔۔۔۔!!!

گزشتہ دنوں ایک بہت ہی قریبی دوست نے بتایا کہ ان کی اہلیہ سے یہ جملے تک کہے گئے کہ "دس سال میں ایک بچہ بھی پیدا نہ کر سکے" چار دن تک معصوم عورت کے حلق سے ایک نوالہ نہ اتر سکا

 محمد حمزہ صدیقی

اولاد رب کریم کا بہت بڑا انعام اور بہت بڑی نعمت ہے، لیکن یہ نعمت دیگر نعمتوں کے مقابلے میں اس جہت سے ممتاز مقام رکھتی ہے کہ اس کے حصول میں انسان کا کوئی اختیار نہیں، دیگر امور کا معاملہ یہ ہے کہ ان کے اسباب کو اختیار کیا جائے تو عموماً ان امور کو انسان حاصل کر لیتا ہے،

مزید پڑھیے۔۔

یہ ظلم !! توبہ توبہ !!

ماہرین بھی اس بات پر متفّق ہیں کہ ’’چھوٹے بچّوں کو کم از کم 6سے8سال تک صرف مادری زبان ہی میں تعلیم دی جائے کہ اس عرصے میں سیکھنے کی صلاحیتیں عروج پر ہوتی ہیں

 مومنہ حنیف

مادری زبان کسی بھی قوم کی تہذیب و ثقافت کی پہچان اور فن و ادب کے اظہار کا ذریعہ ہے، جسے سیکھنے کے لیے ارادتاً کوئی کوشش یا محنت نہیں کی جاتی، کیوں کہ جب کوئی بچّہ ذرا شعور کی دُنیا میں قدم رکھتا ہے، توخصوصاً ماں سے جو جو سُنتا ہے، وہی بولنے کی کوشش بھی کرتا ہے۔ لغوی اعتبار سے بھی مادری زبان کا مطلب ’’ماں کی زبان‘‘ ہے۔فروغِ تعلیم اور تخلیقی صلاحیتوں پر کام کرنے والے تمام ادارے اس بات پر متفّق ہیں کہ تخلیقی صلاحیتیں پروان چڑھانے میں کوئی زبان، مادری زبان کا نعم البدل نہیں ہوسکتی۔

مزید پڑھیے۔۔

بد نظری

آنکھوں کی بے باکی شہوت میں انتشار اور شرمگاہ میں ابھار پیدا کرتی ہے۔ ایسی حالت میں انسانی عقل پر پردہ پڑ جاتا ہے۔ شہوت کھلی آنکھوں کے باوجود انسان کو اندھا کر دیتی ہے۔ اور انسان ذلت و رسوائی کے گڑھے میں جا گرتا ہے۔

 تحریر: ح غ تلہ گنگ

 انسانی آنکھ جب بے لگام ہوجاتی ہے تو اکثر فواحش کی بنیاد بن جاتی ہے۔اس لئے ماہرین کے نزدیک بد نظری "ام الخبائث"کی مانند ہے۔ یعنی تمام خرابیوں اور برائیوں کی جڑ

مزید پڑھیے۔۔

طاقت ور مومن

 جسم کمزور ہوگا, بیماری ہوگی تو نہ وہ دنیا کا کوئی کام  ڈھنگ سےکرسکے گا نہ دین کا ۔ جب زندگی میں جوش،  ولولہ،  خوشی اور امنگ نہ ہو تو وہ مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے۔

 حنا سہیل جدہ سعودی عرب

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ

مزید پڑھیے۔۔

خوش خبری کے متلاشی

ایک  مہربان سمجھانے لگے کہ شادی کے بعد پہلے سال میں ہی بچہ پیدا کر لینا چاہیے

اُن کے ہاں بچے شاید پلے اسٹور سے انسٹال ہوتے ہیں

محمد حمزہ صدیقی

ایک صاحب نے شادی کے صرف ایک ماہ بعد صرف یہ پوچھنے کے لیے کال کی

کوئی خوش خبری ہے؟

مزید پڑھیے۔۔