16 دسمبر کے سلگتے زخم کی کہانی

حنا سہیل ریاض سعودی عرب

منیبہ ایک سائکاٹرسٹ تھی، اس کے پاس جو کیس آتے رہتے تھے ان میں سے کچھ تو بہت زیادہ خراب کنڈیشن میں ہوتے تھے، اپنے آپ سے بیگانہ،

گندے حلیے  میں ، ان میں پڑھے لکھے مریض بھی تھے جنہیں زمانے کی چوٹوں نے اس حالت پر پہنچایا تھا اور کچھ ان پڑھ بھی تھے_ مگر ان مریضوں میں ایک خاتون ایسی بھی تھیں جو بولتی نہیں تھیں یعنی خاموش جیسے گونگی ہوں انھیں بولنا نہ آتا  ہو،   گھر کے سارے کام کرتی تھیں  یار روتی رہتی تھیں، انھیں گھر والے ڈاکٹر منیبہ کے پاس ہر پفتہ تھیراپی سیشن کے لیے لے کر آتے _ مگر انکی حالت میںں5 سال میں زرا بھی فرق نہیں آیا تھا _                                    عطیہ ایک پڑھی لکھی خاتون تھیں ،شوہر بھی ایک اعلیٰ عہدے پر فائز افسر تھے اللہ کا کرنا کہ چھ سال تک یہ جوڑا اولاد کی نعمت سے محروم رہا ،  شادی شدہ عورت میں اولاد کی خواہش اللہ نے فطری طور پر رکھی ہے اور جب دنیا والے طعنہ دینے لگتے ہیں تو یہ خواہش شدت اختیار کر جاتی ہے ، عطیہ تہجد میں اٹھ اٹھ کر اپنے اللہ سے گڑگڑا کر صالح اولاد کی نعمت مانگتی تھیں  ، اور آللہ نے انکی یہ دعا ایسی سنی کہ اُنھیں دو جڑواں بیٹوں سے نوازا کیا دونوں میاں بیوی کی خوشی کا ٹھکانا نہیں رہا رب العالمین کا شکر ادا کیا اس نعمت پر اور عطیہ نے دن رات بچوں کی تربیت میں لگادیے، بچوں کا رونا تنگ کرنا انھیں بالکل پریشان نہ کرتا کیونکہ اسی چیز کی تمنا تھی انھیں ، ان کے گلشن میں اللہ نے جو پھول دیے تھے ان کی آبیاری وہ خوشی خوشی کرنے لگیں انکی خواہش تھی کہ بچے پہلے قرآن حفظ کریں  پھر دنیا کی تعلیم حاصل کریں ، دونوں بچے جب چار سال کے ہوگئے تو انھیں مدرسے میں داخل کروادیا ، بچے بھی بلا کے ذہین تھے ڈھائی سال میں قرآن حفظ کرکے مثال قائم کردی ، ان بچوں  کے تین سال  بعد اللہ تعالٰی نے عطیہ کو ایک بیٹا اور  پھر اک سال بعدایک بیٹی سے نوازا، لیکن عطیہ کو جو محبت اپنے جڑواں بیٹوں محمد، اور عبداللہ سے تھی وہ کم نہ ہوئی ، دونوں میاں بیوی سارے والدین کی طرح اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے خواب دیکھتے اور اس کے لیے جدوجہد بھی کرتے، اسی لیے انھوں نے شہر کے بہترین اسکول آرمی پبلک اسکول میں داخل کروایا ، محمد اور عبداللہ شریر ہونے کے ساتھ ساتھ بلا کے ذہین بھی تھے  نصابی اورہم نصابی سرگرمیوں میں سب سے آگے رہتے ہر بار کوئی نہ کوئی ٹرافی، میڈل یا شیلڈ  لاتے رہتے اور شوکیس انکے کارناموں کی داستان سناتا ، ماں صدقے واری جاتی باپ دعائیں دیتے نہ تھکتے _ محمد کا ارادہ ڈاکٹر بننے کا تھا جب کہ عبداللہ  پائلٹ بننا چاہتا تھا ، چھوٹے بہن بھائی بھی بڑے بھائیوں کی تقلید میں آگے بڑھنے اور اچھے نمبرز لانے کی کوشش کرتے ، ہر وقت والدین دونوں کو کہتے دیکھو بڑے بھائیوں جیسے بننا ہے ، اسی لیے جب امتحانات کا موسم ہوتا گھر میں مقابلے کی فضا بن جاتی ، دسمبر میں شش ماہی امتحانات کی تیاری زور شور سے جاری تھی دونوں بڑے نویں جماعت 9 میں اور چھوٹا عمر 6 چھٹی جماعت میں جبکہ عائشہ چوتھی جماعت میں تھے ، بڑے بھائی چھوٹے بہن بھائی کو پڑھانے میں مدد بھی کررہے تھے ، عبداللہ کا تو بس نہیں چل ریا تھا کہ سب کچھ گھول کر عمر کے دماغ میں ڈال دے اور محمد تو آتے جاتے ماں کو پیار کرکے دعائیں لینا نہیں بھولتا تھا کہ ماں دعا کریں اچھے نمبروں سے پاس ہوجاوں۔

سخت سردی کا دن تھا آج عطیہ نے خاص طور پر موٹے موزے اور دستانے نکالے تھے محمد اور عائشہ کو تاکید کی تھی کہ یہ پہن کر جائیں ، نزلہ اور گلا خراب چل رہا تھا ، لیکن دونوں جلدی جلدی میں بھول گئے اب عطیہ کو غصہ آرہا تھا کہ اتنی سردی میں بھی یہ بچے  اتنی لاپروائی کرتے ہیں ، میں ہی بیگ میں ڈال دیتی یہ کہ کرمیاں کا ناشتا بنایا اور گھر کے کاموں میں لگ گئیں کام والی بھی صفائی کے لیے آگئ تھی عطیہ نے سوچا آج سب کی پسند کا پالک گوشت بنائے گی اور پالک کاٹنے میز پر آکر بیٹھی اور ٹی وی کھول دیا کہ خبریں سن لیں مگر جو خبر چل رہی تھی پہلے تو کانوں نے شاید غلط سنا سمجھیں مگر جب حقیقت معلوم ہوئی تو سمجھ نہیں آیا کہ کیا کریں کام والی بھی پریشان، انھوں نے ادھر ادھر فون لگایا مگر کوئی سننے والا نہ تھا گھر سے نکل کر اسکول کا رخ کیا تو حالات کی سنگینی کا اندازہ ہوا پیروں تلے زمین نکل گئی آسمان پھٹ گیا قیامت آگئی سب الفاظ چھوٹے ہیں اس ماں باپ کے لیے جنکا چمن اجڑ گیا ہر کوئی ایک ہی درد کی تصویر سجائے بیٹھا تھا باپ ادھر بھاگ رہا تھا کبھی ادھر کہ کسی طرح آسکول میں داخل ہوجائے بچوں کو بچالے کئی لوگ پکڑے کھڑے تھے کہ آگے خطرہ ہے او ظالمو! میرے بچے ہیں میری دنیا اندر ہے ، کیا نہ دہائی دی اس باپ نے لوگ کہتے ہیں صبر کروں کیسے صبر کروں کہاں سے لاؤں وہ دل ، اسے تو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ سارے جہان کو آگ لگادے جس میں اس کے اپنے بچے محفوظ نہیں وہ کیوں وہاں کھڑا ہے _ اس دن سے عطیہ کو خاموشی لگی ہے سکتے کی کیفیت میں ہے جس ماں کا گلشن اجڑ گیا اسے کوئی تسلی کوئی تسفی کام نہی کرتی_

ٹوٹے ہیں کتنے خواب ہمارے یہاں مگر

ہم کو ابھی تلک کوئی قاتل،ملا نہیں