سات (7) دن کی معصوم جنت اپنی ماں کی چھاتی سے لگی قطرہ قطرہ دودھ اپنے حلق سے اتار رہی تھی ۔ اپنے ناکردہ و غیر اختیاری جرم ”بیٹی ہونے “ سے بے خبر وہ نازُک کلی مزے سے ماں کی آغوش کی گرمائش میں مگن تھی کہ ایک دم اُس کا باپ درندہ بن گیا ، اس کو چھیننے کے انداز میں اُٹھایا اور بے دردی سے فرش پہ دے مارا ۔ اور پھر آنًا فانًا پانچ گولیاں اس کے سینے میں اتار دیں
ساجدہ بتول
(آخری قسط)
کیا ہوا؟“ مردود حیران ہوا ”ایک واقعہ یاد آیا ہے۔ “ بوڑھے نے دوبارہ کہنا شروع کیا ۔ ” خیر میں پہلے اپنی بات پوری کر لوں۔ ہاں تو میں کہہ رہا تھا ۔ عورت بہت مجبور ہے۔۔ اور یہاں اس پر کمانے کی ذمے داری بھی ڈال دی گئی ہے ۔ یہ مسلمان چوں کہ آدھے تیتر آدھے بٹیر ہو چکے ہیں ۔ مغرب کی تقلید میں عورت پہ گھر کی ذمے داریاں بھی ڈال چکے ہیں اور مشرقی ہونے کی دھن میں خاندانی نظام بھی بچانا چاہتے ہیں تو اس میں کمزور اور معصوم عورتوں پہ ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیں ۔ وہ بے چاری اندر اور باہر دونوں طرف گھن چکر بنی ہیں اور ایک ایک فرد کو راضی کرنے کی فکر بلکہ خوف میں اپنا آپ بھول چکی ہیں ۔ ایسی عورت یا تو باغی ہو جاتی ہے یا بہت محتاط اور سمجھدار ۔ تمہاری بد قسمتی ہے کہ تمہیں کوئی باغی عورت نہ ملی جسے ورغلا سکتے ۔۔ اور ایسی عورتیں تعداد میں بہت کم ہیں ۔ مجموعی طور پہ پاکستان کی عورت انتہائی سمجھدار اور سلجھی ہوئی ہے ۔ وجہ اس کا بہت سے مسائل سے گزرنا اور بہت سی ذمے داریوں سے نبٹنا ہے ۔ لہذا کسی عورت سے تو زمانہ جاہلیت کا کوئی کام کروانے کا خیال ہی چھوڑ دو ۔ عورت اگر عورت کی دشمن ہے بھی تو اس دشمنی کو انتہا پہ کبھی کبھار ہی لے کر جاتی ہے ۔ ورنہ بس تمام عمر ڈھیلی ڈھالی لڑائیاں ہی لڑتی رہتی ہے ۔ کیوں کہ اس کی نظر چاروں طرف ہے ۔ اسے سانپ بھی مارنا ہوتا ہے اور اپنی لاٹھی بھی بچانا ہوتی ہے ۔۔۔ اب میں بتاتا ہوں کہ میں چونکا کیوں تھا! بوڑھا شیطان اتنا کہہ کر کھنکھارا ”ہاں بتاٶ!“ مردود ہمہ تن گوش ہو گیا ۔ ”مجھے اس وقت آج سے چودہ سو سال پہلے کا ایک واقعہ یاد آیا تھا جس میں بیٹی کو بیٹی ہونے کے جرم میں پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کر دیا جاتا تھا ۔ تم نے سنا ہوا ہی ہو گا ۔ “
”میں کہاں سے سنتا!“ مردود نے ناک پہ انگلی رکھی “ ””اوہ ہاں ہم شیاطین تو جاہل اور گنوار ہوتے ہیں ۔ “ بوڑھے نے ماتھے پہ ہاتھ مارا ”میں بھول ہی گیا تھا۔ اور یہ بے وقوف مسلمان انسان اتنا بھی نہیں جانتے ان کو علم عقل فہم ہر لحاظ سے مالامال کیا گیا ہے حتی کہ اگر یہ قرآن کی ایک ہی آیت آیت الکرسی دن میں دس بارہ بار پڑھ لیں تو کوئی نظر بد اور کوئی شیطان ان پہ حملہ آور نہیں ہو سکتا ۔ یہ تو علم و شرف سے مالا مال ہیں ۔ جاہل اور بے عزت تو ہم ہیں ۔ اور اسی لیے ہم ان سے حسد کرتے ہیں “ ””اب بکواس ہی کیے جاٶ گے یا کچھ بتاٶ گے بھی !“ مردود خاصا بور ہو چکا تھا اپنی ازلی خباثت پہ اتر آیا ””” بتاتا ہوں کھوں کھوں کھاں کھاں ۔“ بڈھا ایکدم کھانسنے لگا ”ہونہہ نیا ڈراما “ مردود نے سر جھٹکا ”جا پہلے ۔۔ کھاں کھاں ۔ جا ۔۔۔ کھیں کھیں ۔۔۔ جا کر ان مسلمانوں سے کہہ نماز اور قرآن سے دور رہیں ۔ ہمارے سب سے بڑے دو دشمن یہی ہیں ۔ پھر ہمارے لیے کسی کی بیٹی کو طلاق دلوانا اور کسی کے پے در پے مالی نقصانات کروانا مشکل نہ ہو گا “ بڈھے نے آخر یہ بات کھانستے کانپتے پوری کر ہی لی ”وہ پہلے ہی ان چیزوں سے دور ہیں ۔ ہاہاہاہا ہو ہو ہوہو ہی ہی ہی ہی “ مردود گندگی پہ لوٹنیاں لگاتے ہوئے مکروہ آواز میں قہقہے لگانے لگا ”او یہ اتنے خوبصورت خوب سیرت عقلمند انسان اور ڈرتے ہم سے ہیں ۔ ہم بدھٶوں سے ہم جن کے پاس عقل نام کی نہیں اور ان کے ایک سجدے پہ سارا رعب پھینک کے خود ڈر کر بیٹھ جاتے ہیں ہاہاہاہا “ ”ہاٶ ہاٶ ہاٶ ہاٶ ہاٶ ۔ “ گٹر میں اب اس کے ساتھ بڈھے کے قہقہے بھی گونجنے لگے ٭٭٭٭
”ہو ہا ہو ہا “ ہاٶ ہو ہاٶ ہو “ غرض گٹر میں ہر رنگ ہر سائز اور ہر کوالٹی کے قہقہے ناچنے لگے (آپ اِن قہقہوں کو اچھی طرح یاد کر لیجیے ہم دوبارہ یاد نہیں کروائیں گے ) ”حوصلہ ۔۔۔ حوصلہ “ آخِر مردود نے ہنسی روکی اور شیطان کو تسلّی دی ”کیسے حوصلہ کرُوں ہاہا کھاں ہاہا کھاں ہاہا کھیں کھیں “ کہتے کہتے شیطان ہنسنے اور کھانسنے ایک ساتھ لگا ۔ اس کی ہنسی اور کھانسی نے مکس ہو کر ایک نئی وررائٹی متعارف کروا دی تھی ”ہوہو کھیں کھاں آہ آہ ہاہاہا کھیں کھاٶں کھاٶں ۔۔۔ کھیں ہاہا کھیں ہاہا کھیں ہاہا “ کھانستے کھانستے کھانستے وہ ہانپنے لگا مگر ہنسنےسے باز نہ آ رہا تھا ۔ کھاٶں کھاٶں آہ آہ ہو “ بالآخر وہ تھک کر بیٹھ گیا اب پھوٹ دو وہ واقعہ ۔ مردود جھلّایا جس پر بڈھے کی گاڑی دوبارہ اسٹارٹ ہو گئی اور وہ اسے اپنی بھدّی آواز اور نحیف انداز میں وہ سارا واقعہ سناتا چلا گیا ۔ کس طرح اس شخص کو بیٹی کا وجود گالی لگتا تھا ۔ کیسے وہ اسے لے کر گھر سے باہر نکلا ۔ کس طرح ایک ویرانے میں پہنچا ۔ کس طریقے سے مٹی کھودی اور کیسے وہ معصُوم بچی اپنے ہاتھوں سے ہوا دیتے ہوئے اپنے باپ کا پسینہ خُشک کرنے کی کوشش کرتی رہی ۔۔ پھر کیسے اُس نے اسے گڑھے میں میں ڈال کر اس پر مٹی گرانا شروع کر دی اور آخِر کار اسے دفن کر دیا ۔ ”میں اُس حصّے میں کئی دفعہ گیا ہوں کھاٶں کھاٶں “ سارا واقعہ سنانے کے بعد بوڑھا شیطان کہنے لگا ” وہ جگہ آج بھی ویران ہے کھاٶں کھاٶں ۔ اس کے ارد گرد بلند و بالا عمارات ہیں کھاٶں کھاٶں ۔ اپنے چہار اطراف سے عمارات میں گھرا ہوا وہ قبرستان آج بھی بے آباد ہے کھاٶں کھاٶں ۔ کیُونکہ تعمیر کے لیے اس جگہ پہ جب بھی کھدائی ہوئی ، بھالے اور کدالیں اس کے اندر جا ہی نہ سکے کھاٶں کھاٶں ۔ حتیٰ کہ اب جدید مشینری اس پہ آزمائی گئی ،کھاٶں کھاٶں ۔ مگر زمین کا وہ قطعہ اتنا سخت ہے کہ اس کو جدید مشینیں بھی کھود نہیں سکیں کھاٶں کھاٶں ۔ “ کھانستے کھانستے بُڈھا پھوٹ ہی دیا ۔ مردُود کے ہتھے ایک جاندار پوائنٹ چڑھ گیا تھا ۔۔۔۔ اس نے بوڑھے شیطان کو دو چار گالیاں دی اور پھر اسے لعنت دے کر وہاں سے نِکل آیا ۔ اب اُسے کسی جوان شادی شُدہ مرد کی تلاش تھی ۔۔ اس کی قسمت اچھی تھی یا اس درندے کی بُری! کہ اُڑتے اُڑتے وہ سیدھا اسی کے قریب پہنچ گیا ۔ اس شخص کی آنکھوں میں عجیب سفاکیت تھی جسے ویلکم سگنل جان کر مردود فورا اُس کے دماغ میں گھس گیا ”اونہہ آ گئی بیٹی میرا سر جھکانے کو ۔ کتنا شوق تھا ناں مُجھے بیٹے کا ۔۔ مگر ہونہہ “ وہ درندہ اپنے دل میں کہہ رہا تھا مردود کا جی چاہا ، خوشی سے ناچنے لگے ۔ اس کی تو دلی مراد آج پہلے قدم پہ ہی برآئی تھی اور اُس کو پورا اسی کام کا چانس مل گیا تھا جس کی کہانی اس کو بوڑھےشیطان نے سنائی تھی ۔ اُس کو صرف اپنی کامیابی سے مطلب تھا مگر وہ نہیں جانتا تھا اس گھناٶنے کام کے بعد شیطانیت کو کِتنا فروغ ملے گا اور پُورے پاکستان میں ایک نیا سوال کھڑا ہو جائے گا ۔ لوگوں کے ذہن کتنے منتشر اور متنفّر ہو جائیں گے ۔ اِس پستی کو ترویج تو انسان ہی دے رہا تھا ۔ ایک پاکستانی مرد ، جو صرف اپنی انا کا پگّڑ اٹھانا جانتا ہے بھلے اس کی نسلیں ختم ہو جائیں ، بس اس کی انا باقی رہنا چاہیے اس کی عزت پہ حرف نہیں آنا چاہیے ۔ ۔ رہا مردود ۔۔ وہ تو بس یہ سوچ رہا تھا کہ اسے گندگی کا ڈھیر مل جائے ۔ اصل شیطان تو وہ تھا جو اس وقت اپنا انسان نما سراپا اٹھا کے کھڑا تھا ۔ جس کو اشرف المخلوقات کا نام دے کر آزمایا گیا کہ یہ اشرفُ المخلوقات بنتا بھی ہے یا نہیں ؟ اور وہ اس آزمائش میں فیل ہو گیا اور شیطان کا شیطان ہی رہا ۔ یہ پاکستانی مرد تھا مردُود نے پورے زور سے وار کیا تا کہ اس کا پہلا حملہ ہی کام کر جاٸے ”تو تم اسے مار ڈالو “ ”ہائیں مار ڈالوں ؟؟ “ ”ہاں ہاں مگر جلدی کرو اور اس کے لیے کسی سے مشورہ مت کرو تمہارے گھر والے اور سسرال والے اس میں روڑے اٹکائیں گے مگر بچی کی ذمے داریاں اٹھانے کو کوئی قریب بھی نہیں آئے گا ۔۔ یہ تمہارا مسئلہ ہے تم ہی حل کرو ۔ کسی سے کچھ کہنے سننے کی ضرورت نہیں ۔ ورنہ ہمیشہ کے لیے یہ مصیبت گلے میں لد جائے گی ۔ “ ”مم ۔۔۔ مگر ماروں کیسے ۔ اسلحہ کہاں سے لاٶں؟ “
مردُود کا دل چاہا ، خوشی سے دھمال ڈالنے لگے ۔ یہاں تو پہلا تِیر ہی نشانے پہ جا لگا تھا ۔ وہ شخص فورًا مان گیا تھا ۔ مردُود کو افسوس ہُوا کہ اب تک خواہ مخواہ عورتوں کے پیچھے خوار ہوا ۔ اونہہ سدا کی امن پسند اور مصلحت ساز پاکستانی عورت ۔ ”اس کا بھی راستہ بتاتا ہوں “ سوچوں کے گرداب سے نکل کے مردُود فورًا بولا۔ مبادا شکار ہاتھ سے نِکل جائے ۔ اب اسے تصوّر کی آنکھ سے نظر آ ریا تھا کہ ایک قیامت برپا ہونے ہی والی ہے ۔ کچھ دیر بعد درندہ غصّے سے چمکتی آنکھوں کے ساتھ ہاتھ میں اسلحہ لیے اپنے گھر میں داخل ہوا ۔ اُسے واردات کی بہت جلدی تھی ۔ اُس کے پیچھے پیچھے مردُود بھی تھا ۔
٭٭٭٭ جنّت فاطمہ جو رحمت بن کر غلطی سے اُس کے گھر میں آگئی تھی اپنی ماں کے ساتھ لیٹی ہوئی تھی ۔ اُمّ جنت کو اس گھر میں بیاہ کر آئے ہوئے دو سال ہی ہوئے تھے ۔ اور معصوم جنّت جو صرف سات (7) دن کی تھی ، اس کی زندگی کی پہلی بہار تھی ۔۔۔ ام جنت کی چھاتی سے لگی وہ قطرہ قطرہ دودھ اپنے حلق سے اتار رہی تھی ۔ اپنے ناکردہ و غیر اختیاری جرم ”بیٹی ہونے “ سے بے خبر وہ نازُک کلی مزے سے ماں کی آغوش کی گرماٸش میں مگن تھی کہ ایک دم اُس درندے نے آگے بڑھ کر اس کو چھیننے کے انداز میں اُٹھایا اور بے دردی سے فرش پہ دے مارا ۔ اور پھر آنًا فانًا پانچ گولیاں اس کے سینے میں اتار دیں ۔
مردود کی خوشی کا ٹھکانا نہ رہا ۔ اب وہ چیف کو یہ اطلاع دینے کے لیے اڑا جا رہا تھا کہ اس نے ایک ایسے معاشرے میں ایک نو زائیدہ بچی کا سرِ عام قتل کروا کے دکھا دیا ہے جہاں دین کے احکام ، قرآن و حدیث کی تعلیم ، عُلماء کرام کے علم اور اللّٰہ والوں کی ولایت کا ڈنکا پٹ رہا ہے ۔ ایک ایسے ملک میں یہ کام کروا کے دکھا دیا ہے جس کو اسلام کے نام پہ حاصل کیا گیا تھا ۔ جس کو ریاستِ مدینہ کا خِطاب دیا گیا ہے ۔ ایک ایسے مُعاشرے میں یہ کام کروا کے دکھا دیا ہے جہاں خاندانی نظام مضبُوط ہے اور جہاں ایک قتل پہ جگہ جگہ ہنگامے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ مَخفی قتل پہ اِنسانی حقوق کی تنظیمیں حرکت میں آ جاتی ہیں ۔ ایسے مُعاشرے میں اس نے سرِ عام قتل کیا ، وہ بھی معصُوم بچی کا ، کروا کے دکھا دیا ہے ۔ یقینًا اِس کام کا اسے بہت بڑا اِنعام اور بہت شاباش ملے گی ۔۔ اُس نے نہ صِرف زمانہِ جاہلیّت جیسا کام کروا کے دکھا دیا ہے بلکہ قاتِل سے ”جنّت“ بھی چھن گئی ہے ۔ اُس کی زندگی بھی مکّہ مُکرّمہ کے اُسی قبرستان کی طرح ہمیشہ کے لیے ویران ہو گئی ہے ، جِس میں آج سے چودہ سو سال قبل معصُوم بچیوں کو زندہ دفن کِیا جاتا تھا اور جو قبرِستان آج بھی ویران ہے ۔ نئی تعمیر کے لیے کھدائی کی خاطر جب جدید مشینری اُس پر چلائی گئی تو وہ چل ہی نہ پائی۔۔ لہٰذا اپنے چاروں طرف بلند و بالا عِمارات کے ہوتے ہوئے بھی وہ میدان آج تک جُوں کا تُوں ویران ہے ۔
مردُود کو اندازہ تھا کہ رَیپ کیسِز کی طرح یہ قتل کی کہانی بھی جب منظرِ عام پہ آئے گی تو بیٹی کو گالی سمجھنے والے مردوں کے ہاتھ ایک نیا جُرم لگ جائے گا ۔ وہ بھی یہ جُرم ضرُور کریں گے ۔ اور پھر معصُوم بچی رَیپ کیس کی طرح نو زائیدہ بچی قتل کیس کی خبر بھی آئے دن اخبارات کا حصہ بنے گی ۔ اور پھر ایک دن آئے گا ، جب اِس قوم کے لیے یہ خبر بھی ایک عام بات بن جائے گی ۔ جب قوم کو اِس خبر کی بھی عادت ہو جائے گی تو اس کی سنگدلی اور وحشت معصُوم بچیوں کے قتل کی حد کو بھی پار کر جائے گی ۔ جو قوم پہلے دُوسرے مُسلمان ممالک میں معصوم بچوں کو کَٹتے آرام سے دیکھ لیتی تھی ، پھر اپنے گھروں کی بچیوں کو بھی قتل ہوتے دیکھ کر ٹھنڈے پیٹوں ہضم کرنے لگے گی!!! مردُود نے اِس گھٹیا کام کا بھی رواج ڈال کر گمراہی کی طرف جاتی پاکستانی قوم کو ایک قدم آگے گمراہی پہ ڈال دیا تھا ۔
یہ ساری کہانی جو شُروع پہ تمثِیلی اور آخر پہ حقیقی ہے ، یہ فروری 2022 میں ”میانوالی“ شہر میں ہُوئی سانحہ ، سات دن کی معصُوم بچی جنّت فاطمہ کے قتل کے مُتعلّق لِکھی گئی ہے ۔۔۔ یہ کہانی یہ پیغام دے رہی ہے کہ یہ معاشرہ مردوں کا ہے ۔ یہاں مرد اپنے قوّام ہونے کا نا جائز فائدہ اٹھاتا ہے ۔ عورت یہاں ہمیشہ ہی مجبُور اور بے بس رہی ہے ۔ اگر عورت عورت کی دُشمن ہے بھی تو مرد کی اہمیّت کی وجہ سے ہے ۔ مرد اگر اپنی اہمیّت کا احساس نہ دلائے اور اپنے اختیارات کا سِکّہ نہ بٹھائے تو کوئی بھی عورت اس کا سہارا لینے یا اُس کی نظر میں اپنے نمبر بنانے کے لیے دوسری عورت کو نہ دبائے۔ یہ مرد کی انا اور اپنی صِنفِ کرَخت کو اہم سمجھنا ہی ہے جس نے معصوم جنت کو موت کے گھاٹ اتار دیا ۔ اور ہاں ۔۔۔ اِس ظُلم میں بڑا ہاتھ معاشرے کا ہے ۔ اگر معاشرے نے مرد کو بے جا اہمیّت اور عورت کو بے جا ذِلّت نہ دی ہوتی تو آج کی عورت کے ساتھ اس کے پیدا ہوتے ہی یہ وحشیانہ سلوک نہ ہوتا ۔ عورت پہ معاشرے کا تسلّط بہت سخت ہے ۔ چاروں طرف سے اس پر اس قدر دباٶ ہے کہ اب وہ بے حد محتاط ہو چکی ہے ۔ لہٰذہ عمومی فضا یہ ہے کہ اس سے کوئی بڑا جُرم کروانے کی سوچنے والا بھی ناکام ہو جاتا ہے ۔ ہاں آج کے ابلیس کو جب کوئی اور ہتھکنڈہ نہیں ملتا تو وہ مرد کو گھسیٹتا ہے اور پھر عورت کا عورت اور کمزور و کم ہمّت ہونا ہی مرد کے جُرم اور مردُود کی کامیابی کی وجہ بن جاتا ہے ۔