’’اس انگریز ملک میں پاپی پیٹ کو پالنے کے لیے نام کے ساتھ ساتھ حلیے بھی بدلنے پڑ جاتے ہیں لیکن اب مجھے یاد آیا ہے کہ میں مریم ہوں اور اب مجھے سمجھ آیا کہ ہم اپنی قدریں بھول کر اپنے حالات تو بدل سکتے ہیں، لیکن اپنا اصل چھوڑ کر کبھی اپنا وجود اور اپنی شناخت نہیں حاصل کرسکتے۔۔۔
ڈاکٹر ماریہ اشفاق قریشی
(آخری قسط)
’’یوسف مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے میں نے تمہیں پہلے کبھی دیکھا ہے؟‘‘ میں نے بڑھتے تجسس کو کم کرنے کے لیے اس کے قریب ہو کر پوچھا۔
یوسف میرے قریب سے ہو کر کھڑی کی جانب بڑھا اور کمرے کے اندر لٹکے گلاب کے پودے سے ایک گلاب توڑ کر واپس مڑا اور ٹہلتے ہوئے میرے پاس آیا اور میرے پاس آکر اس پھول کو میرے بالوں میں سجانے لگا۔ میری نظریں مریم پہ تھیں۔ وہ بہت خوش تھی، اس کا شوہر کسی اور کے ساتھ محبت جتا رہا تھا اور وہ پاگل خوش ہورہی تھی، مجھے مریم پہ ترس آیا تھا۔
’’بتاؤ نایوسف!‘‘ میں نے اصرار کیا۔
’’بعد میں سمجھ آجائے گی۔‘‘ یہ وہ جملہ تھا جو میں نے پہلی بار مریم کے منہ سے سنا تھا اور اب یوسف سے سن رہی تھی۔ یہ دونوں مجھے جانتے ہیں لیکن کیسے؟ مجھے چکر سا آنے لگا۔ میں سر پکڑ کر پلنگ کی پائنتی کے ساتھ بیٹھتی چلی گئی۔ ٭٭٭٭
مجھے اپنے چہرے پہ پانی کے چھینٹے محسوس ہوئے۔ میں آنکھیں جھپکاتی جاگ چکی تھی۔ منظر دھندلا تھا لیکن نظر آرہا تھا۔ میں نے آنکھیں پوری کھول دیں، میں نے دیکھا میں پھر سے کسی بحری جہاز کے عرشے پہ کسی چیز سے ٹیک لگا کر بیٹھی ہوں۔ میرے ارد گرد کئی لوگ کھڑے ہیں اور ان سب میں مجھے ایک دیکھا بھالا چہرا نظر آیا۔ سب لوگ آج کے زمانے کے لباس میں تھے میں نے شکر کیا کہ میں پھر کسی دوسرے دور میں نہیں گئی تھی۔ سامنے کھڑا شخص میرے قریب آیا اور میرے پاس جھک کر آہستہ سے مجھ سے اپنے کیے کی معافی مانگنے لگا۔
’’دیکھو میری! بہت زیادہ سوری! مجھے تھوڑا لالچ آگیا تھا، اس لیے میں تمہیں اکیلا چھوڑ کر بھاگ گیا۔ اب اگر تم کسی کو میرے بارے میں نہ بتاؤ تو میں تمہیں وہ ساری فوٹوگرافز اور تمہارے سارے گیجٹس مع سود کے واپس دوں گا بس مجھے معاف کردو۔‘‘ اس نے معصومانہ سی شکل بنا کر کہا۔
میں مسکرانے لگی تھی۔ یہ میکس تھا جو اپنے کیے پر پچھتا رہا تھا۔ ’’تمہیں پتا ہے ہم نے تمہیں کیسے ڈھونڈا۔۔۔۔۔؟‘‘ وہ پُرجوش سا مجھے اپنے کارنامے کے بارے میں بتانا چاہتا تھا اور میں نے اسے روکے بنا بولنے دیا۔
’’ریسکیو ہیلی کاپٹر نے تو تمہیں بہت ڈھونڈا لیکن تم نہیں ملی پھر ہم نے ریڈیو اور ٹی وی پر تمہارے لاپتا ہونے کی خبر چلائی، ہمیں یقین تھا سمندر میں سفر کرتے لوگ ریڈیو ضرور سنتے ہیں اس لیے انہوں نے تمہیں بھی دیکھا ہوگا اور اس طرح اس جہاز کو تم مل گئی تھیں اور جب وہ جہاز اپنا رخ واپس جانے کے لیے موڑ رہا تھا تو تمہیں لگا کے وہ تمہیں بنا دیکھے واپس جارہا ہے لیکن حقیقت میں ان لوگوں نے ایک کشتی تمہیں لینے کے لیے بھیج دی تھی۔ اس کشتی نے تمہیں یہاں پہنچایا پولیس کو اطلاع دی۔ یوسف بھی پولیس اسٹیشن میں کسی کام سے گیا ہوا تھا جب میں نے تمہارے گمشدہ ہونے کی رپورٹ لکھوائی تھی۔ یہاں کے لوگوں نے تمہارے ملنے کی ہمیں اطلاع کی سو ہم آگئے۔ تمہارے لیے، تمہیں لینے کے لیے!!!!‘‘ وہ اپنا کارنامہ جوش کے ساتھ بتا رہا تھا اور شاید اس کے چہرے کی لالی بھی یہی بتا رہی تھی وہ میرے مل جانے پر خوش تھا اور یہ اس کے اندر کے ڈر کا نتیجہ تھا۔ اس کی بات ختم ہونے والی نہیں تھی جب اس کے عقب سے کوئی سامنے آیا تھا اور میرا دل زور سے دھڑکا تھا۔
’’یوووووووسففففففف!!!!!‘‘ میرے ہونٹوں سے بے اختیار نکلا تھا۔ لیکن اسی ہی لمحے مجھے ڈر محسوس ہوا۔ مجھے شبہ ہوا کہیں میں پھر سے کسی تصوراتی دنیا میں تو نہیں پہنچ گئی۔ ’’میری! اٹھو اور چلو میرے ساتھ ہمارا ہیلی کاپٹر آنے والا ہے، ہمیں شہر جانا ہوگا۔۔۔۔‘‘ یوسف نے مجھے میرے نام سے مخاطب کیا یعنی وہ مجھے جانتا تھا اور میں بھی اسے پہلے دیکھ چکی تھی تبھی مجھے اس تصوراتی دنیا میں وہ جانا پہچانا لگا تھا۔
’’ہاں میں چلتی ہوں۔ مجھے چھوڑ کر مت چلے جانا یوسف۔۔۔۔۔!‘‘ میں نے پھر بے وقوفی کی انتہا کردی تھی۔ ’’میری! ریلیکس میں یہاں تمہیں لینے ہی آیا ہوں، تو پھر تمہیں یہاں چھوڑ کر کیوں جاؤں گا۔۔۔۔؟‘‘ اس نے مسکرا کر اپنائیت سے کہا تو میرے سارے ڈر اور شبہات دور ہوگئے۔
چند لمحوں بعد ایک ہیلی کاپٹر جہاز کے عین اوپر منڈلانے لگا۔ تھوڑی دیر میں اوپر سے ایک ایڈجسٹیبل سیڑھی نیچے گرائی تھی۔ میں اپنے لوگوں کے ساتھ ہیلی کاپٹر میں بیٹھ گئی لیکن ابھی بھی مجھے کھوجانے کا ڈر تھا۔ مجھے میری تصوراتی دنیا کے ایک کردار مریم کا رہ رہ کر خیال آرہا تھا مجھے مریم یاد آرہی تھی لیکن وہ خوش تھی سو ٹھیک ہے لیکن اس کا مجھ سے کیا تعلق تھا میں یہ نہ سمجھ پائی تھی۔ لیکن خیر خیر کرکے میں نیویارک شہر میں پہنچ گئی تھی۔ وہاں اب مجھے فوٹو گرافی کونٹیسٹ کے لیے اپنی کھینچی وائلڈ لائف تصویریں جمع کرانی تھیں۔ مجھے پہنچنے کے بعد پتا چلا میں ایک دن نہیں بلکہ تین دن لاپتا رہی تھی، لیکن شکر کے مجھے ریسکیو کرلیا گیا اور میں وقت پر کونٹیسٹ میں شامل ہونے کے لیے پہنچ گئی تھی۔ بدقسمتی سے میری کھینچی تصویریں مقابلے میں کوئی جھنڈا نہ گاڑ سکی تھیں لیکن میرے اندر اپنے گھر کو چھوڑنے کی اگر چھوٹی سی خواہش بھی باقی تھی تو وہ اب گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہوچکی تھی خیر سے میں اپنے گھر پہنچ چکی تھی۔ نجانے کتنے ہی دن میں نے اپنے گزرے تین دنوں کے اندر چھپی نصیحت اور راز ڈھونڈنے میں گزار دیے۔ لیکن یوسف کے سوا کوئی سرا میرے ہاتھ نہیں آیا۔ یہ یوسف وہی خوبرو خیال تھا جو میرے ذہن کے پردے پہ ایک خوبصورت یاد بن کر نقش تھا اور اب میرے خواب میں مجھے دیکھتا کسی جنگل کی طرف چل نکلا تھا اور میں وہیں اس کے آنے کا انتظار کرنے بیٹھ گئی تھی۔ یوسف کے متعلق کئی باتیں ابھی بھی راز تھیں، کہ وہ مریم کے ساتھ کیوں تھا؟ اور پھر اس نے مجھے کیوں اپنایا؟ وہ بھی اتنی پیاری بیوی کو چھوڑ کر ۔۔۔۔ اس نے مجھ سے تصویر کیوں بنوائی اور پھر وہ پھول میرے بالوں میں لگایا۔ یہ کوئی خوش آئند بات تھی یا محض دماغ کا فتور میں جان نہ پائی تھی۔ شاید اکثر لڑکیاں اس عمر میں خواب سجانے لگ جاتی ہیں۔ میں نے بھی اسے کہیں دیکھا ہوگا اور اس چہرے کو ذہن کے پردوں پہ نقش کر لیا ہوگا تبھی وہ میرے خوابوں تک پہنچا تھا اور میں اپنی اس سوچ پہ مسکرادی کہ وہ مجھے بچانے آیا تھا، بہت بچکانہ لگی تھی۔ ہوسکتا ہے وہ مجھے چاہتا ہو لیکن پھر میں نے اس سوچ کی خود ہی نفی کردی کہ وہ تو مجھے جانتا ہی نہیں ہوگا۔
ایک مہینہ گزر گیا میرا یوسف یا کسی اور سے کسی قسم کا رابطہ نہ ہوا اور نہ ہی میں نے اپنے کیمرے کو ہاتھ لگایا کجا کہ میں پھر کسی کونٹیسٹ میں حصہ لیتی ۔۔۔۔۔ جسے کہتے ہیں کہ ’’جان بچی تو لاکھوں پائے۔‘‘
میں شام کے وقت کتاب کی ورق گردانی میں منہمک تھی جب میرا فون بجا تھا۔ کوئی انجانا نمبر جگمگا رہا تھا۔ میں نے کال اٹھائی کسی فیشن میگزین کے آفس سے کال تھی مجھے کسی برانڈ کے ماڈل کی فوٹو گرافی کے لیے بلایا گیا تھا۔ یہ آفس میرے اپنے شہر نیو جرسی میں تھا سو میں نے تھوڑی دیر سوچنے کے بعد ہاں کردی۔ اگلے دن پہنچ کر مجھے ایسا لگا کہ میں کسی پرانے زمانے کے کسی قدیم شہر میں پہنچ چکی ہوں۔ کچھ کمرے کا حلیہ پرانے دور کا تھا تو کچھ ماڈلز کے کاسٹیومز۔ کچھ دیر بعد ماڈل میرے سامنے کھڑا تھا۔ اس کے لباس اور انداز سے مجھے وہ گزرے زمانے سے اپنے لشکر سے بچھڑا شہزادہ لگا تھا۔ میں نے اسے نظر میں رکھتے ہوئے کئی ساری تصویریں کیمرے کی آنکھ میں قید کردیں۔
اگلے دن وہ ایک خوشحال بادشاہ دکھائی دیا تھا۔ میں کیمرے آنکھ کے سامنے لیکن میں تصویر نہ کھینچ پائی۔ نجانے کیوں اس ماڈل کو اس حلیے میں دیکھ کر مجھے یوسف کی کاغذ پہ بنی تصویر یاد آگئی۔ وہی چہرہ وہی پوز، وہی انداز مجھے اس کی کہی بات سمجھ آگئی تھی کہ
’’بعد میں سمجھ آجائے گی۔‘‘
مجھے یاد آیا تھا میں نے یوسف کو اصل زندگی میں پہلے کب اور کہاں دیکھا تھا۔ چونکہ وہ ایک ماڈل تھا تو میں نے اسے شہر میں لگے بل بورڈ پہ کسی پراڈکٹ کے ماڈل کے طور پر دیکھا تھا۔ میں نے فوٹو سیشن کے بعد الوداع چاہی تو مجھے کسی نے ایڈوانس چیک تھمایا تھا آہستہ آہستہ ساری کڑیاں ملتی جارہی تھیں۔
میں آفس کی باؤنڈری سے باہر نکلی تو میرے پیچھے پیچھے یوسف بھی چلا آیا۔ ’’میری ۔۔۔۔۔؟‘‘ اس نے مجھے اس طرح پکارا جیسے میرا پرانا واقف ہو۔ ’’شکریہ!!!!‘‘
’’کس لیے؟‘‘ میں اب پوری کی پوری اس کی طرف مڑ کر پوچھنے لگی۔ ’’مجھے دنیا کے سامنے ایک خوبصورت چہرے کے طور پر متعارف کروانے کے لیے۔‘‘ ’’میں نے کب۔۔۔۔؟ آپ تو پہلے سے مشہور ہیں۔‘‘ میں نے ہونقوں کی طرح اسے دیکھا تھا۔ ’’مریم! بس کبھی تم مجھ سے ملی تھی ۔۔۔۔ اوہ سوری میری! میں نے پتا نہیں کیسے آپ کو مریم کہہ دیا۔‘‘ وہ شرمندہ ہوا تھا۔ ’’یوسف! میں مریم ہی ہوں!!!‘‘ میں نے جواب دیا۔ ’’اس انگریز ملک میں پاپی پیٹ کو پالنے کے لیے نام کے ساتھ ساتھ حلیے بھی بدلنے پڑ جاتے ہیں لیکن اب مجھے یاد آیا ہے کہ میں مریم ہوں اور اب مجھے سمجھ آیا کہ ہم اپنی قدریں بھول کر اپنے حالات تو بدل سکتے ہیں، لیکن اپنا اصل چھوڑ کر کبھی اپنا وجود اور اپنی شناخت نہیں حاصل کرسکتے۔۔۔۔‘‘ پتا نہیں مجھے یہ فلسفہ کیسے سمجھ آیا تھا لیکن شکر ! آگیا تھا۔
’’ہاں یہ تو تم نے بالکل صحیح کہا، لیکن ابھی ایک اور بات ہے جو تم کہنا بھول چکی ہو۔‘‘ وہ ایک ادا سے بولا تھا۔ ’’وہ کیا؟‘‘ میں نے ناسمجھی سے پوچھا۔
’’یہی کہ عورت جب اپنوں کی خوشی کے لیے اپنا گھر چھوڑتی ہے تو ضروری ہے اسے دوسرا گھر ملے اور اگر وہ جان کر چند ڈالرز کے لیے اپنوں کو چھوڑتی ہے تو بھٹکنا اس کا مقدر ہوتا ہے۔‘‘ اس نے مریم کے کہے الفاظ دہرائے تھے لیکن یہ الفاظ اسے کیسے معلوم؟ ہونقوں کی طرح اس جادوگر کو دیکھنے لگی۔
’’یوسف! یہ باتیں جو تم کہہ رہے ہو وہ میں نے اپنے خواب میں کسی دوست سے سنی ہیں، تم بن سنے یہ باتیں کیسے دہراسکتے ہو؟ وہ بھی بنا کسی لفظ کے ہیر پھیر کے۔‘‘
’’مریم! تم کو ریلیکس کرنا چاہیے۔‘‘ اس نے بمشکل مسکراہٹ چھپاتے ہوئے کہا تو مجھے اپنا مذاق اڑایا جانا غصہ دلاگیا۔ ’’تم کیا کہنا چاہتے ہو؟‘‘ میں نے اپنی انگلیاں چٹخاتے ہوئے پوچھا۔
’’مریم! یہ ڈائیلاگز میرے ایک تھیٹر پلے کے ہیں جو میں نے اور ایک لڑکی نے جنگل کے سیٹ پہ ایک آگ کے الاؤ کے گرد بیٹھ کر بولے تھے۔ ’’وہ میرے ساتھ ساتھ اب قدم بڑھاتا ہوا بولتا جارہا تھا۔ ’’اور تم وہ پلے دیکھنے والوں میں اکلوتی تھیں جس نے ان الفاظ کی اصلی قیمت ادا کی تھی۔‘‘ وہ بات آگے بڑھا رہا تھا لیکن مبہم سی تفصیلات میرے لیے تجسس بڑھا رہی تھیں۔
’’میں نے کیا کیا تھا؟‘‘ میں نے اس کے ہاتھ میں پکڑے گلاب کے پھول کو دیکھا جو اس نے چلتے چلتے کیاری میں سے توڑ لیا تھا۔
’’پلے لوگوں کو فلاپ لگا تھا لیکن تم نے ہمارے لیے کھڑے ہو کر تالیاں بجائی تھیں اور جب تم نے دیکھا کہ کوئی اس میں تمہارا ساتھ نہیں دے رہا تو تم نے سیٹیاں بجانی شروع کردیں جب میں آگ کے گرد سے اٹھ کر اندر جارہا تھا تو اکیلی تم تھیں جس نے کم بیک جوزف! کم بیک جوزف کے نعرے مار کر میرے کردار کو امر کردیا۔ آج مجھے پلے کرتے ہوئے لاکھوں لوگ دیکھنا چاہتے ہیں وہ بھی تمہارے ایک ’’کم بیک جوزیف‘‘ کے نعرے کی وجہ سے اور میری قسمت کا بدلنا بھی تم دیکھ چکی ہو۔ اس لیے تھینک یو! وہ مجھے کتھا سنا رہا تھا جس کو میں نے تین دنوں تک خواب میں دیکھا تھا۔ ’’نہیں یہ تو تمہارا اپناٹیلنٹ ہے اور لکھنے والے کا کمال بھی۔‘‘میں نےشرماتے ہوئے کہا جیسےمیں کوئی چھوئی موئی، لجائی سے لڑکی ہوں۔
’’یہ تو تمہاری نظر کی خوبصورتی ہے کہ فلاپ شو کو بھی سپر ہٹ کروادیا تم نے۔ ویسے یہ پلے میں نے خود لکھا ہے۔‘‘ اس نے میری جھکتی نظروں کو دیکھتتے ہوئے بات بدلنی چاہی۔
’’اب مجھے گھر چلنا چاہیے، امی گھر میں اکیلی ہیں۔ بائے۔۔۔!‘‘ میں نے جلد از جلد وہاں سے ہٹ جانا چاہا۔ ’’اکیلا تو میں بھی ہوں اور جب میں اپنے گھر جاتا ہوں تو گھر اور بھی سونا لگنے لگتا ہے۔ میں اور تنہا محسوس کرنے لگ جاتا ہوں کیا تم میرے گھر کو اپنا گھر بناؤ گی؟‘‘ اس نے گلاب میرے سامنے کیا اور مجھے اس طرح پروپوز کیا کہ مجھ سے انکار نہ ہوسکا۔ میں نے سر کو ہاں میں جنبش دی اور میرے کان میں کسی نے ہولے سے سرگوشی کی تھی۔ ’’یوسف تو صرف مریم کا ہے، تمہیں تو خوش ہونا چاہیے اور میری خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔