عبدالکریم جس نے میری جان بچائی تھی، اس نے مجھے آتے ہوئے ایک آفر دی تھی، وہ چاہتا تھا کہ اسی وقت اس کے ساتھ جاؤں ، مگر میں یہاں آنا چاہتا تھا، اب یہاں حالات آپ کے سامنے ہیں، مجھ میں ذہنی طور پر ابھی کچھ کرنے کی سکت نہیں، اور قرض خواہ الگ جان کو آئے ہیں، بچوں کو اسکول سے نکال دیا گیا ہے، " "تو کیا آفر ہے اس کی بیٹا؟" آسیہ بی بی نے اپنے بیٹے کو کچھ الجھ کر دیکھا۔۔
"اس کی بہن ہے ایک۔۔" "توووووو" رومی نے بات کاٹ دی اندر کی حس بیدار ہو چکی تھی، عدیل نے نظریں چرائیں۔۔ "وہ بیوہ ہے، عبدالکریم چاہتا کہ میں اس سے شادی کروں اور اس کا جو حصہ ان کے آبائی کاروبار اور جائیداد میں بنتا وہ میں سنبھالوں!!!"۔
عائشہ محبوب
آخری حصہ
"ہیں، ایسے کیسے؟؟ " رومیصاء کی آواز میں حیرانی پریشانی دونوں تھی، جب کہ اس کے ساس سسر فقط پریشان تھے، "بیٹا، تمھاری ایسی حالت نہیں، کچھ صبر کرو، یہیں کوشش کرو، ایک تجربہ اتنا بھیانک ہوچکا، پھر تمھاری ذہنی جسمانی حالت اتنی اچھی نہیں ہے۔۔ "
"ابو اسی لیےکویت جارہا ہوں"
سب نے نا سمجھی سے اسے دیکھا،
عدیل نے گہرا سانس لیا، اور رومیصاء کو دیکھتے الفاظ ترتیب دیے ،
" عبدالکریم جس نے میری جان بچائی تھی، اس نے مجھے آتے ہوئے ایک آفر دی تھی، وہ چاہتا تھا کہ اسی وقت اس کے ساتھ جاؤں ، مگر میں یہاں آنا چاہتا تھا، اب یہاں حالات آپ کے سامنے ہیں، مجھ میں ذہنی طور پر ابھی کچھ کرنے کی سکت نہیں، اور قرض خواہ الگ جان کو آئے ہیں، بچوں کو اسکول سے نکال دیا گیا ہے، " "تو کیا آفر ہے اس کی بیٹا؟" آسیہ بی بی نے اپنے بیٹے کو کچھ الجھ کر دیکھا۔۔
"اس کی بہن ہے ایک۔۔"
"توووووو" رومی نے بات کاٹ دی اندر کی حس بیدار ہو چکی تھی، عدیل نے نظریں چرائیں۔۔ "وہ بیوہ ہے، عبدالکریم چاہتا کہ میں اس سے شادی کروں اور اس کا جو حصہ ان کے آبائی کاروبار اور جائیداد میں بنتا وہ میں سنبھالوں!!!"
تھی تو ایک خبر نارمل سی، ساس سسر نے پہلے تو گہرا سانس لیا شکر کا لیکن پھر جلدی سے رومی کی طرف دیکھا تو اس کا چہرہ خطرناک حد تھا سرخ ہوا پڑا تھا۔۔
"ہرگز نہیں!! ایسا نہیں کرسکتے آپ ۔۔ "
"کیوں نہیں کرسکتا؟؟ تمھیں بڑا شوق تھا نا کہ باہر جا کر کماؤں تو اس بار تو میرا کچھ خرچ بھی نہیں ہوگا اور سب کچھ قانونی طریقے سے ہوگا!!" عدیل نے اب فیصلہ کن نظروں سے اس کو دیکھا۔۔ عدیل کے اٹل انداز پر پہلے تو رومی سہم ہی گئی۔۔ پھر آگے بڑھی اس کے گھٹنوں کے پاس جا بیٹھی۔۔ "میں کیسے رہوں گی آپ کے بغیر، میں کیسے بانٹوں آپ کو ؟؟"
"یہ تم نے پچھلی بار بلکہ ہر بار شکایتوں کے دفتر کھولتے خود ترسی کا شکار ہوتے چڑچڑی ہوتے، اور مقابلہ بازی کرتے کیوں نہ سوچا تھا، کیوں تب بھی، اب بھی شکر گزار نہیں بنی۔۔ بس میں اب کوئی ذہنی اور جسمانی دباؤ والے کام نہیں کرسکتا کہ جو اس غیر قانونی سفر اور پھر کشتی میں ڈوبتے میں نے سہا، وہ مجھے بھولتا نہیں،بھولوں بھی کیسے یہاں بھی سکون تم لینے نہیں دیتی ۔۔ میں خود کو تمھارا اور بچوں کا مجرم سمجھتا ہوں، کل تم جب فون پر اپنی امی کے سامنے رو رہی تھی کہ میری زندگی عذاب ہے، فلاں فلاں۔۔۔ تو سمجھ سکتا ہوں تمھارے والدین کس قدر اذیت میں ہوں گے تمھیں لے کر، اور ہاں تم اکیلی کہاں ہوگی، پیسے بھیجوں گا، گھر خریدنا خوب صورت سا جو صرف تمھارا ہو۔۔ کسی ضرورت مند خاتون کو رکھ لینا۔۔۔عیش سے رہنا ، گھومنا پھرنا،گاڑی۔۔" عدیل اب ہانپ رہا تھا رومی کو آئینہ دیکھنے کی ہمت نہیں تھی۔۔ مگر ابھی کوئی اکڑ باقی تھی۔۔۔
"تو شادی تو نہ کریں۔۔ یوں ہی چلے جائیں۔۔اس نے کہا تو ہے مدد کردے گا۔۔" "ہنہہ رومی بیگم وہ نہ ہوتا تو میں کب کا مر کھپ چکا ہوتا اور میری قبر بھی گم نام ہوتی !! تو کیا ہر بار مدد لوں،کب تک؟ اس پر احسان کرنے کا ہی بوجھ ڈالوں، اس کا بوجھ کیوں نہ بانٹوں؟؟ تو اب اس کی بہن بیوہ ہی نہیں، پاؤں سے معذور ہے، اسے سہارے کی ضرورت ہے، سو اب میں نے جو کہنا تھا کہہ دیا، میرا بیگ تیار کرو، 13 تاریخ کو روانگی ہے۔۔ " عدیل تو چپ ہوگیا اور صوفے پر ہی نیم دراز ہوگیا، آسیہ بی بی رومی کی جانب ہوئی ہی تھی کہ یامین بیگ نے ہاتھ دبا کر انھیں روک لیا اور اشارے سے منع کیا کہ ابھی کوئی بات نہ کرنا اس سے، " سو وہ بھی اٹھ کر چل دیے، اب کمرے میں رومی اور عدیل تھے مگر رومی کو لگا وہ تنہا ہے بالکل تنہا، وہ 13 تاریخ لاشعوری گننے لگی!! ٭٭٭
ائیرپورٹ پر رخصت کا وقت تھا، رومی مارے باندھے آ تو گئی تھی پر سب سے ناراض تھی، اس کے باپ اور بھائیوں نے بھی عدیل کا ساتھ دیا، رومی کی والدہ خدیجہ خاتون نے پہلے کچھ شور شرابہ کیا تو عظیم صاحب نے تلخ حالات کا تلخ آئینہ ملک کی خطرناک حد تک بگڑتی معاشی صورتحال، پھر رومی کی عادت، طور طریقے سامنے رکھ دیےکہ اس بار اب یہ چوٹ لگے گی اس کے دل پر تو اپنے اندر کی بے صبری نا شکرا پن کو خود احتسابی کے ذریعے دور کرے گی آخر کار!! ٭٭٭
عدیل نظروں سے دور جارہا تھا اور رومی کو لگ رہا تھا کہ سانس نکل رہی ہے، جسم بے جان ہورہا ہے، بالکل اچانک اس لمحے اس پر انکشاف ہوا تھا کہ اس کی قیمتی متاع تو عدیل کا ساتھ ہونا تھا، باقی سب تو گزر ہی جاتا ہے، مگر عدیل کے بنا زندگی کیسے بیتے گی؟! وہ جن چیزوں کو زندگی کے لئیے ضروری اور سانس سمجھتی تھی وہ کافی حد تک اسے عدیل کی بغیر نوکری کے بھی مہیا تھیں، کروڑوں سے بہتر حالت میں تھی مگر، مستقبل اور دوسروں کے حال اپنے سے اوپر والوں کے دیکھ دیکھ اس نے خود زندگی تنگ کی اور بالآخر زندگی کا ساتھی جس کے دم سے زندگی پر رونق تھی وہ بھی کھویا!!
خود احتسابی مرحلہ شروع تھا، دن بھر اپنے احتساب تلے خاموشی سے کام نپٹاتی رہتی، اور رات اکیلے بستر پر تکیہ بھیگتا رہتا اس کا، عدیل کو گئے گیارہ ماہ ہونے کو آئے تھے، تصاویر بچے دکھاتے تھے، بہت خوش و خرم تھا، اس کی دوسری بیوی ہالہ اس سے عمر میں چند برس بڑی تھی،مگر چہرے سے سلجھی ہوئی اور باوقار لگتی تھی۔۔ بچے اچھی اسکول میں جارہے تھے، بہترین کالونی میں گھر ہوگیا، گاڑی ڈرائیور، کام والیاں، باغیچہ مالی سب تھا ، مگر نہ وہ گھر سجاتی، نہ کہیں گھومنے پھرنے، بس روٹین کے کام بچوں کی ذمے داری نبھاتی بے جان مجسمے کی طرح، بچوں سے اوپر اوپر ہنس بول لیتی، مگر اب گھر کی ہوگئی تھی، نا کسی کی ٹوہ نا کسی کے حالات کا تجسس یا سوچنا کچھ نہ رہا تھا، ترجمہ تفسیر کلاس اپنے والد کے کہنے پر جوائن کرلی تھی۔۔ ٭٭٭
"ارے ارے بھئی میں اب اتنا تیز نہیں بھاگ سکتی، " وہ ہنستے ہوئے بیٹھ گئی، ترجمہ تفسیر کلاس کو تین ماہ ہوئے، رومی میں بہت تبدیلی آئی تھی، اس نے عدیل کی شادی کو دل سے قبول کرلیا تھا، اور بچوں کو گھر کو دل سے بھر پور وقت دیتی تھی، عدیل سے شکوہ ہی نہ رہا، بلکہ سوچتی کہ صحیح کیا کہ اس نے شادی کرلی، بیوی کا رشتے سے جو مجھے اسے دینا چاہیے تھا میں شادی کے دس برسوں میں نہ دے پائی، تو زندگی اس کی بھی تھی، صرف کمانے کی مشین تو نہیں ہوتے مرد، چاہے شوہر ہوں، باپ، بھائی یا بیٹے، ان پر ناجائز بوجھ ڈال کر یہ سوچنا کہ یہ قوام اور قوی ہیں یہ سراسر بے عدلی اور نا انصافی ہے! ٭٭٭
" کہاں گئے یہ تینوں گھنٹی کب سے بج رہی ہے" یہ کہتے رومی نے پوچھتے پوچھتے لکڑی کا دروازہ کھولا، اور لوہے کی جالیوں سے جھلکتی عدیل کی شبیہ نے پہلے تو اسے ساکت کردیا، پھر عدیل ہی کے آواز لگانے پر فورا دروازہ کھولا، اور وہیں عدیل کے ہاتھ رونے لگ گئی، ہالہ اور عدیل اسے اندر لے آئے ۔۔ ٭٭٭
"رومی! " ہالہ نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیا۔۔ "رومی نے مسکرا کر اسے دیکھا، "تم عمر میں تو چھوٹی ہو پر رتبے میں بڑی ہو، معصوم ہو پیاری ہو، پر کم عقل ہو۔۔ " ہالہ کا لہجہ آخر میں شرارتی ہوا۔۔ "ایں ایں ایں میں کم عقل ۔۔ اب ہی تو عقل آئی ہے۔۔۔ کیا کم عقلی دیکھ لی؟؟ تمھیں قبول کرنا بطور سوتن یا بہن بنا لینا،" رومی نے مصنوعی رعب جھاڑا۔۔
"ارے یہ کم عقلی نہیں کہ شوہر موصوف کو بس میرے پلو سے باندھ دیا ہے، ساتھ چلو، تم بھی کچھ خدمتیں کرو ان کی، " " واہ واہ۔۔ ارے دس برس تو ساتھ تھے میرے۔۔۔ پر میں نے ہی قدر نہ کی، تمھارے ساتھ نے ان کو کیسا ہشاش بشاش توانا کردیا ہے، " رومی کی آنکھیں نم ہوئیں۔۔
"رومی وہ بھی تمھارے بغیر مکمل نہیں، کوئی تو وقت ہو جب تمھیں یاد نہ کرتے ہوں،تمھارا ذکر خیر نہ کرتے ہوں، تم ان کی زندگی میں آنے والی زندگی کی پہلی ساتھی نہیں ان کے بچوں کی ماں بھی ہو، بچوں اور تمھارے بغیر وہ بہت ادھورے ہیں، اور سمجھتے ہیں کہ تم اب تک دل میں ناراض ہو ان سے، تم سے بچے لے کر کبھی جانے کا سوچ بھی نہیں سکتے، جانتی ہو ان کے والٹ میں آج بھی تمھاری تصویر ہے، دیکھو تو بچوں میں آ کر تمھیں دیکھ کر کیسے جی اٹھے ہیں... " "مگر میں کیسے۔۔ کس منہ سے۔۔"
"اسی پیارے منہ سے چلو ساتھ، تم جانتی ہو میں ماں نہیں بن سکتی، مگر میں الحمدللہ تین بچوں کی ماں تو ہوں نا؟" ہالہ کی آنکھوں میں شرارت تھی۔۔
رومی الجھی۔۔
"ارے، حازم، قانتہ اور جویریہ کیا یہ میرے بچے نہیں، صرف تمھارے ہیں،" مصنوعی روٹھا انداز تھا۔۔ "کیوں نہیں، کیوں نہیں، تم نے تو نکاح کے ساتھ ہی انہیں اور مجھے اپنا مانا تھا، تب ہی آج ہم اتنے اچھے حالات میں ہیں۔۔ "
" یہ سب اوپر والے کی دین ہے، تم لوگوں کا نصیب ہے، جاؤ عدیل تمھارے منتظر ہیں۔۔" کہتے ساتھ ہالہ نے ہاتھ سے پکڑ کھڑا کرکے اسے کمرے کی طرف دھکیلا۔۔ ٭٭٭
آج بھی ائیرپورٹ پر رخصت کے مناظر تھے مگر آج رومی دل سے آئی تھی، خوشی کے آنسو تھے، کچھ اداسی تھی ماں باپ، بھائیوں اور سسرالی رشتوں کو چھوڑ کر جانے کی مگر دل مطمئن اور بھرا ہوا تھا کہ اپنے سائبان تلے جارہی تھی، اپنے شریک حیات کے ساتھ، کہ بچے بھی اب مکمل زندگی گزاریں گے اور رومی کی تو زندگی عدیل ہی کے سنگ مکمل تھی ۔۔۔ عدیل کا ساتھ ہوگا تو وہ سال چھ ماہ میں اپنے باقی پیاروں سے ملنے آ سکتی ہے، لیکن عدیل کے بغیر سب کی نظروں میں ہمدردی ہی رہے گی۔۔!