چند سال بعد ندیم نے بڑی دھوم دھام سے شہر کے ایک پوش علاقے میں اپنے بنگلے کی تیاری کا کام شروع کروایا۔ وہ ہر چیز کے لیے اُجالا کو ساتھ لے جاتے، ہر معاملے میں اس کی پسند ناپسند کو مدِ نظر رکھتے۔جس چیز پر ہاتھ رکھتی اور پسند کرتی وہ بہت آرام سے خرید لیتے، ہر کوئی تعریف کرتا اور رشک سے دیکھتا کہ واہ کیا بات ہے، کہیں اس انداز میں بھی گھر بنتے ہیں کہ بیگم صاحبہ کی پسند ناپسند سے ہٹ کر تو بات ہی نہیں ہورہی۔ پورے بنگلے کا پینٹ، ٹائلز، خاص کر باورچی خانے کا اسٹائل سب کچھ اجالا نے طے کیا تھا۔
مہوش کرن اسلام آباد
تیسری قسط


شادی کے بعد چھ سال یوں ہی چپ چاپ بے عزتی سہتے، بھاگ دوڑ اور سب کو خوش کرنے کی کوشش میں گزر گئے۔ کہ اچانک اجالا کے گھر میں ندیم کی دوسری شادی کا غلغلہ اٹھا۔ اور اسے شہنیلا نے ہی بتایا کہ
”بھائی جان دوسری شادی کر لیں گے کیوں کہ انہیں اپنے وارث کی بڑی تڑپ ہے۔“

”اچھا لیکن میرے سامنے تو کبھی انہوں نے اس تڑپ کا اظہار نہیں کیا۔“ اجالا نے حیران ہو کر کہا تھا۔

”مگر آپ خود سوچیں یہ ان کا حق ہے۔“ جانے اس کے دل میں کیا آئی کہ وہ اپنی ساس سے بات کرنے چلی گئی اور جب ان کو بتایا تو وہ بالکل انجان بن کر کہنے لگیں،

”مرد تو ہوتا ہی بے وفا ہے، مگر تم فکر مت کرو میں ابھی زندہ ہوں۔“ بڑی نند روشن تو یہ سن کر رونے ہی لگی کہ، ”بھابی ایسا کیسے ہو سکتا ہے، شادی کو اتنے سال ہو گئے۔ میں آپ کے ساتھ ہوں، دیکھتی ہوں کہ کیسے بھائی جان یہ سب کرتے ہیں۔“

اجالا کو اپنی ساس اور روشن کی باتوں سے بڑی تسلی ہوئی۔ اسے لگا تھا کہ شاید اتنے سالوں کی قربانی، برداشت اور خدمت رائیگاں نہیں گئی۔ مگر وہ تو کوئی بڑا ہی گیم پلان کر رہے تھے۔ ان ساری باتوں کے بعد شہنیلا نے اجالا سے کہا تھا کہ، ”بھابی آپ بھائی جان کو روک نہیں سکتیں، انہیں یہ کام کرنا ہے سو کریں گے۔ مگر آپ اپنے گھر میں ابھی کچھ مت بتائیے گا، کوئی فائدہ نہیں الٹا آپ ہی کی بے عزتی ہوگی۔“ اجالا کے دماغ میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگی تھیں۔ اسے یاد آ رہا تھا کہ شادی کے ایک ہفتے بعد ہی ندیم نے اجالا سے کہا تھا،

”ایسا کرتے ہیں کہ ہم دونوں کچھ دن الگ ہو کر رہتے ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ ہم علیحدہ رہ سکتے ہیں یا نہیں۔“ نئی دلہن سے کرنے کے لیے کس قدر بودی بات تھی۔ مگر باقی باتوں کی طرح یہ سن کر بھی وہ چپ رہی تھی۔ اور پھر وہ نندوں کا ہاتھ دیکھ کر اعلان کرنا بھی اسے نہیں بھولتا تھا یعنی یہ ساری باتیں مستقل سب کے دماغ میں چل ہی رہی تھیں۔ کوئی ان واہموں سے خود کو آزاد نہیں کر رہا تھا سو سب کے دماغ میں یہ بات بیٹھ چکی تھی کہ وہ ہمیشہ بے اولاد رہے گی۔ دوسری طرف اجالا اس بات کو ماننے اور سمجھنے کے لیے بالکل تیار نہ تھی کہ دوسری شادی کرنا واقعی ندیم کا شرعی حق ہے اب چاہے وجہ کوئی بھی ہو لیکن عدل کی شرط کے ساتھ۔ البتہ وہ سچے دل سے اللہ کے حضور گڑگڑا کر حصولِ اولاد کی دعائیں مانگتی رہتی تھی. عمرہ اور حج کے وقت بھی خاص طور پر یہ دعا مانگی تھی۔ لیکن اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ کس دعا کو کس وقت قبول کرنا ہے۔

مگر یہ بات جیسے جھاگ کی طرح اٹھی تھی اسی طرح بیٹھ بھی گئی۔ اور ندیم کی دوسری شادی نہ ہوئی۔ البتہ ایک دیور دانش نے اپنی پسند مہرین کا اظہار کیا اور بڑے چاؤ اور رضامندی سے اس کی شادی اسی جگہ دھوم دھام سے کی گئی۔ شادی کے اتنے سالوں میں جب بھی کبھی دوسری شادی کی بات ہوتی تو وہ جذباتی ہوکر منع کرنا شروع کر دیتی تھی حالانکہ جانتی تھی جب چاہیں کر کے آجائیں گے۔ لیکن وہ اپنی اس بے وقوفی میں خود کو درست گرداتنی تھی. جانتی جو نہیں تھی کہ مزید شادی کرنے کا حق تو اللّٰہ نے ندیم کو دے رکھا ہے۔ پھر بھلا وہ کون ہوتی ہے انہیں روکنے والی، اور ندیم بھلا اپنے حقوق سے پیچھے کیوں ہٹتے؟ لیکن عجیب بات تھی کہ اس بات کو دھمکی کے طور پر تو سسرال والے استعمال کرتے مگر دوسری شادی اب تک کروائی نہیں گئی تھی۔ کیونکہ وہاں تو شاید ندیم کی جائیداد پر قبضے کا بھی ارادہ تھا۔ ٭٭٭٭

چند سال بعد ندیم نے بڑی دھوم دھام سے شہر کے ایک پوش علاقے میں اپنے بنگلے کی تیاری کا کام شروع کروایا۔ وہ ہر چیز کے لیے اُجالا کو ساتھ لے جاتے، ہر معاملے میں اس کی پسند ناپسند کو مدِ نظر رکھتے، روپیہ پیسہ پانی کی طرح بہتا رہا۔ اس سادہ سی گھر والی نے کبھی سوچا ہی نہیں کہ یہ سارا پیسہ آخر کہاں سے آ رہا ہے؟ جس چیز پر ہاتھ رکھتی اور پسند کرتی وہ بہت آرام سے خرید لیتے، ہر کوئی تعریف کرتا اور رشک سے دیکھتا کہ واہ کیا بات ہے، کہیں اس انداز میں بھی گھر بنتے ہیں کہ بیگم صاحبہ کی پسند ناپسند سے ہٹ کر تو بات ہی نہیں ہورہی۔ پورے بنگلے کا پینٹ، ٹائلز، خاص کر باورچی خانے کا اسٹائل سب کچھ اجالا نے طے کیا تھا۔

البتہ شہنیلا کو اس بات پر بھی بہت اعتراض تھا۔ اسی لیے اجالا نے شہنیلا کے کمرے کی چیزیں خود لینے سے انکار کر دیا اور شہنیلا نے خود ہی اپنے کمرے اور باتھ روم کا پینٹ، ٹائلز اور فٹنگز وغیرہ پسند کیے۔ ساس بھی طعنہ دیتیں کہ دیکھ لو تمھیں تو ہر آسائش ملی ہوئی ہے اور شوہر نے کتنا سر چڑھا رکھا ہے۔ اجالا کبھی سب کی باتیں سن کر پھولی نہیں سماتی، کبھی شوہر کی محبت کے سامنے مارے شرم کے گلنار ہوئی جاتی اور کبھی ندیم کے اس رویے پر حیران رہ جاتی۔ جب بنگلہ بن کر تیار ہوگیا اور سب اس میں شفٹ ہوگئے تو ہر دیکھنے والی آنکھ اش اش کر اٹھی اور اس نے اللّٰہ کا شکر ادا کیا کہ اتنی عزت ملی۔

ساتھ ہی یہ سوچ بھی پختہ ہوگئی کہ میرے شوہر تو بس میرے ہیں اور میرے بغیر کچھ بھی نہیں۔ وہ بے اختیار سوچتی کہ یہ سب میری محبت اور قربانیوں کا کمال ہے۔۔۔ اُس ذات کو جیسے بھول ہی گئی تھی جو دراصل سب کچھ کر رہا تھا۔

ہائے رے! کچھ پختہ سوچیں دراصل کتنی کمزور و نا پختہ ہوتی ہیں۔ بھربھری مٹی کے اُس ڈھیر کی طرح جو پانی کے ایک تیز ریلے سے بہ جاتا ہے، اُجالا کی سوچ بھی ٹوٹنے بکھرنے والی تھی۔ فلسفوں کے دھاگے سے کھینچ کر سرا دل کا وہم سے حقیقت تک ہم نے سلسلہ پایا ! ٭٭٭٭

گھر میں لوگ ہی کتنے تھے۔ ساس، ندیم، اُجالا، دیور دانش اور دیورانی مہرین جن کے اب دو چھوٹے پھول جیسے بیٹی و بیٹا عائشہ اور ایدان تھے۔ اس دیور کی شادی اُجالا نے بڑے مان سے خود ہی تو کی تھی اور اب مہرین سے خوب پکی دوستی ہوگئی تھی۔ ان کے بچوں کو اجالا اپنی سگی اولاد کی طرح پالتی اور سنبھالتی تھی۔ اور بچے بھی اس پر جان دیتے تھے۔ مہرین نے ندیم اور اجالا کو ابو اور امی کہلوایا تھا۔ اس کی ترسی مامتا کو یہ الفاظ سن کر بڑی تسکین ملا کرتی تھی۔ ایک دن باورچی خانے میں کام کرتے ہوئے ابلتے ہوئے دودھ کی دیگچی مہرین کے پیر پر گر گئی تھی۔ وہ کافی زخمی ہوئی تھی اور کئی مہینے تک کوئی کام نہ کر سکی تھی یہاں تک کہ چل بھی نہ سکتی تھی۔ اجالا نے اس کے صحت یاب ہونے تک اس کا بہت خیال رکھا، اسے وہیل چیئر پر گھماتی پھرتی، بھاگ بھاگ کر بچوں کے کام کرتی۔ فطرتاً مہرین بھی ساس اور نندوں کے آگے چپ رہنے والی لڑکی تھی اس لیے اسے بھی دبایا جاتا. یوں اجالا اور مہرین اس عجیب و غریب پل میں تولہ پل میں ماشہ سسرال میں ایک دوسرے کا اچھا سہارا بن گئے تھے۔ مگر کیا معلوم تھا کہ آگے چل کر یہ سہارا بھی ناپائیدار ثابت ہوگا۔ (جاری ہے)