عبدالشکور مکتی بانیوں کی نظروں میں تھے- ایک رات ان مکتی بانیوں کے ایک بڑے جتھے نے ان کے گھر پر دھاوا بول دیا- ان کی بیوی اور بچوں کو قتل کردیا- عبدالشکور کسی طرح جان بچا کر بھاگ نکلے- مکتی بانیوں نے ان کے سارے گھر کو لوٹ لیا اور فیکٹری پر بھی قبضہ کر لیا -
ام منیب کراچی

انعام صاحب آج جب دفتر سے گھر جانے کے لئے نکلے تو راستے میں انھیں پیاس لگی سامنے ہی ایک آدمی گنے کا رس نکال رہا تھا-انھوں نے سوچا چلو گنے کارس پی لیتا ہوں- انھوں نے اس کے سامنے گاڑی روکی اور ایک گلاس گنے کے رس کا آرڈر دیا- تھوڑی دیر وہ اس شخص کو غور سے دیکھتے د ہے- ارے یہ کیا! یہ تو عبد الشکور صاحب ہی ہیں نا لیکن یہ یہاں کیسے! انعام صاحب نے اس سے پوچھا آپ عبد الشکور صاحب ہی ہیں نا-
اس نے جواب دیا " ہاں میں عبد الشکور ہی ہوں اور آپ انعام صاحب ہیں نا" انعام صاحب بولے " ہاں میں انعام ہوں پر یہ کیسے ہوا؟ "
عبد الشکور صاحب نے اپنی بپتا سنانی شروع کی-
آج سے 51 سال پہلے کی بات ہے جب انعام صاحب مشرقی پاکستان کے شہر ڈھاکا میں رہتے تھے- ہ بینک میں کام کرتے تھے اور بینک کے صدر تھے- عبدالشکور ان کے بینک میں آتے جاتے تھے - وہ اس بینک کے سب سے بڑے اکاونٹ ہولڈر تھے- کڑوڑوں کے مالک تھے- روپے پیسے کی ریل پیل تھی- ایک فیکٹری کے مالک بھی تھے- انھیں ہر سہولت میسر تھی- بڑا سا بنگلہ اور نوکروں کی فوج تھی- کسی چیز کی کمی نہیں تھی- پھر مشرقی پاکستان کے حالات بگڑنے لگے اور فسادات پھوٹ پڑے ،ڈھاکے میں مکتی بانیوں ( دہشت گرد تنظیم ) نے ڈیرے ڈال لیےاور ظلم و ستم کا بازار گرم کر دیا- وہ چن چن کر پنجابیوں کو مار رہے تھے اور ان کے گھر بار لوٹ رہے تھے- کچھ لوگ جان بچا کر مغربی پاکستان بھاگ گئے جو نہ جاسکے وہ مکتی باہنی کے ظلم و ستم کا نشانہ بنتے رہے-

عبدالشکور کا سارا سیٹ اپ ڈھاکے میں تھا مغربی پاکستان میں کچھ بھی نہیں تھا- وہ کئی سالوں سے یہاں رہ رہے تھے- وہ اپنا کاروبار چھوڑ کر نہیں جا سکتے تھے- انھوں نے احتیاطی تدبیر اختیار کی- اپنے ساتھ اور گھر میں بھی گارڈ رکھ لئے لیکن جب مصیبت آنی ہو تو کوئی بھی کچھ نہیں کر سکتا- عبدالشکور مکتی بانیوں کی نظروں میں تھے- ایک رات ان مکتی بانیوں کے ایک بڑے جتھے نے ان کے گھر پر دھاوا بول دیا- ان کی بیوی اور بچوں کو قتل کردیا- عبدالشکور کسی طرح جان بچا کر بھاگ نکلے- مکتی بانیوں نے ان کے سارے گھر کو لوٹ لیا اور فیکٹری پر بھی قبضہ کر لیا -

کچھ دنوں بعد انڈیا پاکستان کی جنگ چھڑ گئی - یہ 1971 کی جنگ تھی پاکستان اس جنگ میں ہار گیا اور مشرقی پاکستان کو کھو دیا - ڈھاکے میں انڈیا کے فوج دندناتی پھرتی تھی کچھ لوگ جان بچا کر برما کےراستے پاکستان پہنچے، ان میں انعام صاحب بھی تھے لیکن عبدالشکور کہیں نہ جاسکے کیونکہ مکتی باہنی ان کے پیچھے تھی- باقی لوگوں کو انڈیا نے جنگی قیدی بنا لیا- عبدالشکور بھی جنگی قیدی بن گئے- دو سال انڈیا کی قید میں مشقت اٹھاتے رہے - انڈیا والے مردوں سے بہت مشقت لیتے- کھدائی کرواتے، بھاری بھاری وزن اٹھواتے ، گھاس کٹواتے غرض ہر طرح کی مشقت لیتے- آخر دو سال بعد انڈیا پاکستان کے درمیان ایک معاہدہ ہوا جس کےتحت انڈیا والوں نے سویلین جنگی قیدی چھوڑ دیے- عبدالشکور لٹے پٹے پاکستان پہنچے- اب ان کے پاس کوئی گھر تھا نہ کوئی کاروبار اپنوں نے منہ موڑ لیا- آخر کار کسی سے ادھار لے کر ایک گنے کی مشین خریدی اور کام شروع کر دیا- جوکمائی ہوتی کچھ اپنی ضرورت کے لئے رکھتے باقی سے اپنا قرض اتارتے- دن بےحد کسمپرسی سے گزر رہے تھے - یہ سب واقعات سن کر انعام صاحب کے آنکھ سے آنسو جاری ہو گئے- انھوں نے عبدالشکور سے مدد کا وعدہ کیا اور افسردہ اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گئے- اللہ تعالی اس طرح کی آزمائش میں کسی کو بھی نہ ڈالے-