مہوش کرن

پہلی قسط
کہاں وہ عشق و محبت، کہاں وہ ہجر و وصال
یہاں تو لوگ ترستے ہیں زندگی کے لیے
کبھی پلکوں پہ آنسو ہیں، کبھی لب پہ شکایت ہے
مگر اے زندگی پھر بھی، مجھے تجھ سے محبت ہے

===========
~~~~
اس روز صبح صادق سے ہی کتنی بے چینی تھی۔ نماز، قرآن، اذکار سب کرکے بھی سکون نہیں مل رہا تھا۔ کتنی دیر تک باغ میں ٹہلتی رہی مگر سویرے کی نرم، شبنمی ٹھنڈی گھاس کچھ تراوٹ نہیں بخش رہی تھی۔ اپنے ہاتھوں سے لگائے پھولوں کی کیاریاں بالکل اجنبی محسوس ہورہی تھیں۔ استغفار کا ورد وہ اکیلے نہیں کر رہی تھی بلکہ پرندے بھی اللہ کی حمد و ثنا بیان کر رہے تھے۔ یوں ہی کرتے کرتے روشنی تیز ہونے لگی تو وہ اپنے کمرے میں آگئی تھی۔

ندیم اُس کے شوہر جو نمازِ فجر کے بعد سوگئے تھے، ابھی سو ہی رہے تھے۔ تھوڑی دیر ٹھہر کر ان کی من موہنی صورت دیکھتی رہی، ایک شرمیلی پیار بھری مسکراہٹ ہونٹوں پر پھیل گئی، ہاں دل کو تھوڑا قرار آیا تھا۔ بس پھر کیا تھا اُجالا اطمینان سے باورچی خانے میں ناشتے کی تیاری کے لیے چلی گئی تھی۔
ناشتا بناتے کافی دیر ہوگئی تو کچھ حیرت سی ہوئی،
”ابھی تک ساس امی آئیں نہیں اور یہ بھی نہیں آئے“.
کچن سے نکلنے ہی لگی تھی کہ ندیم اندر داخل ہوئے تھے،

”ہاں میں پوچھنے ہی آرہی تھی کہ۔۔۔“

”امی کا ناشتا اُن کے کمرے میں دے دو اور میرا ٹیبل پر رکھ دو“ بہت رکھائی سے کہہ کر وہ پلٹ گئے تھے۔ کچھ سمجھنے سے قاصر وہ خاموشی سے ساس امی کا ناشتا ٹرے میں سجائے ان کے کمرے کی طرف بڑھ گئی تھی۔ ناشتا ان کے کمرے کی چھوٹی ٹیبل پر رکھ کر اُس نے کہا ہی تھا کہ،
”کیا ہوا امی، کیا طبیعت خراب ہے؟“
”چلی جاؤ کمرے سے“. انداز ایسا تھا کہ وہ کچھ پوچھنے کے قابل نہیں رہی تھی۔
ٹیبل پر اپنا اور ندیم کا ناشتا لے کر بیٹھی تو چپ چاپ ان کا چہرہ دیکھتی رہی۔ کچھ تو ہے جو ٹھیک نہیں، کہیں کچھ غلط ہے۔
ایک دم خیال آیا تھا کہیں وہی بات تو نہیں ہوگئی۔۔۔ نہیں نہیں اللّٰہ نہ کرے۔
”کیا بات ہے؟ سنیں سب ٹھیک ہے نا؟“ اس نے ڈرتے ڈرتے پوچھا تھا۔
”ہونہہ بہت خوب! اُجالا بیگم، اتنی انجان مت بنو جیسے کہ کچھ جانتی نہیں ہو۔“ ندیم نے اپنے جملے سے اپنی نفرت کا بھرپور اظہار کردیا تھا کچھ اور پوچھنے کی گنجائش نہیں بچی تھی۔

ندیم اٹھ کر اپنے کمرے میں جا چکے تھے، کچھ دیر بعد کام والی آگئی تو ساس امی کے برتن اُسی کے ہاتھ باہر آگئے تھے۔ اضافی کھانا رات کو ہی بنا لیا تھا کیونکہ آج چھٹی کا دن تھا جو وہ عموماً ندیم کے ساتھ ہی گزارتی تھی اس لیے کھانا بنانے کی فکر نہیں تھی۔ ایک دو بار کمرے میں گئی لیکن ان کا سُتا ہوا چہرہ دیکھ کر باہر آگئی اور کام والی کے ساتھ مصروف ہوگئی۔ دیور دفتری کام سے ملک سے باہر گیا ہوا تھا اس لیے دیورانی اپنے میکے رہنے گئی ہوئی تھی۔ ورنہ کوئی تو بتانے والے ہوتا کہ کیا ہوا ہے۔ اچانک گھنٹی بجی اور دروازہ کھلنے پر اُجالا کی بڑی نند بغیر بچوں اور شوہر کے اندر داخل ہوئیں نخوت بھری نظر اس پر ڈال کر ساس کے بند کمرے میں بند ہوگئیں۔

اب تو حد ہی ہوگئی آخر یہ ہو کیا رہا ہے، بار بار اپنے خدشات درست ہونے کا خدشہ لاحق ہورہا تھا۔ سیدھی اپنے کمرے میں گئی اور ندیم سے پوچھنے لگی تھی کہ

”کچھ تو بتائیں بات کیا ہے، ابھی ابھی باجی آئیں اور وہ بھی مجھ سے بات کرنے کی روادار نہیں“۔

اس سے پہلے کہ ندیم کچھ بولتے اُن کا موبائل بجنے لگا، باجی کی کال تھی اور انہیں بھی اسی بند کمرے میں بلایا جا رہا تھا۔

”ابھی تو میں کچھ بھی بتانے سے قاصر ہوں“۔ لاچاری سے کہتے ہوئے وہ چلے گئے تھے۔

کبھی نفرت، کبھی لاچاری جانے کیا ماجرا تھا۔ کھانا گرم کرکے وہ ظہر کی نماز پڑھنے لگی، وقت گزرتا جارہا تھا لیکن ندیم ابھی تک بند کمرے میں ہی تھے۔ نماز سے فارغ ہوئی تو اک دم امی کی کال آنے لگی تھی۔

”وہ، وہ جارہی ہے، نہیں رک رہی، ہر طرح سمجھا لیا، تمھارے بھائی کو آفس فون کیا ہے پر وہ اپنے شوہر کا فون ہی نہیں اٹھا رہی، بس ضد ہے اُسے، سارا سامان باندھ کر بیٹھی ہے کہ بس اب نہیں رکوں گی یہاں“، امی ایک سانس میں ہی بولتی گئیں۔

”کیا کہہ رہی ہیں آپ، ایسا کیسے ہوسکتا ہے ؟؟؟
ابھی تو بس دو مہینے ہی ہوئے ہیں شادی کو اس طرح کیسے آجائے گی ؟ سامان باندھ کر بیٹھی ہے ۔۔۔
لگتا ہے یہاں سب کو پتا ہے تبھی صبح سے گھر کا ماحول اتنا تَنا ہوا ہے، امی جان میں تو مر جاؤں گی، کچھ تو کیجیے،
اُسے روکیے۔۔۔“

”سب کچھ کہہ لیا بیٹی، وہ ایک نہیں سنتی، تمھارے ابو نے بھی اتنے واسطے دیے، دعائیں بھی دیں لیکن گاڑی میں سامان رکھ کر نکل بھی گئی، اسے جانا ہی تھا. شروع دن سے اس کی باتیں اور تیور ایسے ہی تھے۔ بہت بڑی غلطی ہوگئی جو تمھاری نند کو تمھاری بھاوج بنایا، نہ اس نے تمھارے بھائی کا گھر بسنے دیا اور خدا جانے واپس جاکر تمھارا کیا حال کرے گی۔۔۔“

”یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں، میرا کیا حال، کیا۔۔۔ نہیں نہیں میں تو کب سے یہ دھمکیاں سن رہی تھی کہ وہ آئے گی تو میں جاؤں گی۔۔۔“ فون ہاتھ سے گر چکا تھا وہ خود سے باتیں کرنے لگی تھی۔

مگر ایسا کیسے ہوسکتا ہے میری شادی کو بارہ سال ہوگئے اور وہ تو بس دو ماہ بھی لڑتے ہی رہے۔ ندیم مجھے نکال دیں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
کیا گمان سا گمان تھا۔۔۔
کیا جانتی تھی کہ سب خاک میں ملنے والا تھا ؟
مگر جب تک کہ اللّٰہ نہ چاہیں۔۔۔


دروازے پر شہنیلا کی گاڑی رکنے کی آواز آچکی تھی اور پھر وہی ساس کا بند کمرہ۔ پھر انتظار بھی ختم ہو ہی گیا تھا۔ کچھ دیر بعد ندیم کمرے میں آگئے تھے اور وہی ہوا تھا جسکا ڈر تھا۔۔۔ وہ آئی تو تم جاؤ گی۔۔۔کہا تھا نا !

”پر ایسے کیسے؟ یہ تو کوئی انصاف نہیں، اُن دونوں کے مسائل کے درمیان آپ لوگ مجھے کیوں پیس رہے ہیں ؟ ہمارا اتنا طویل ساتھ، آپ کی اتنی والہانہ محبت، میری اتنی قربانیاں وہ سب کہاں گیا، کیا رائیگاں گیا؟ نہیں یہ نہیں ہوسکتا، آپ مجھے نہیں نکال سکتے، ابھی روک لیں گے، ہے نا؟“

”میں مجبور ہوں، تمھیں نہیں روک سکتا. تمھارے لیے کچھ نہیں کر سکتا، محبت کرتا ہوں تم سے لیکن اپنی بہن سے زیادہ نہیں۔۔۔“ کوئی لاچاری سی لاچاری تھی ان کے لہجے میں۔

”مگر کیوں، مجھے کس بات کی سزا دے رہے ہیں؟ چلیں ٹھیک ہے آج اور ابھی میں آپ کی دوسری شادی سے اعتراض بھی ختم کرتی ہوں، جائیں کر لیں دوسری شادی۔ ایک یہی اولاد نہ ہونے کا غم ہے نا آپ لوگوں کو۔ میں کروں گی اس کی بھی خدمت اور اللّٰہ کرے گا آپ کے بچے بھی ہوجائیں گے،،،

اور اور اور کیا کروں، میں تیار ہوں سب کرنے کے لیے مجھے بتائیں تو سہی۔“

”اب اور کیا کرو گی اجالا بی بی ! کر تو دیا میری بہن کے خلاف پورا ماسٹر گیم پلان کہ اس کا گھر نہ بسنے دیا“، لہجے میں پھر نفرت دَر آئی تھی۔

”میں شہنیلا کے خلاف ہوتی تو اپنے بڑے بھائی سے اس کی شادی کیوں کرواتی، اس کی بڑھتی عمر اور رشتوں کی ناپیدگی میں اس کا ساتھ کیوں دیتی، اس کی روز کی باتیں اور عجیب حرکتیں آپ سب سے کیوں چھپاتی، اور یہ سب کر کے مجھے کیا مل رہا ہے، میرا کیا فائدہ ہوا ؟ بلکہ آپ یہ سب چھوڑیں، آپ اپنی اور میری بات کریں، بھلا ہم کیوں اپنا گھر توڑیں ؟؟؟“

”اب ہمارے بارے میں کوئی بات نہیں ہو سکتی، بات ہوگی تو صرف میری بہن اور تمھارے بھائی کی۔۔۔“

”اور آپ کی بیوی کے بارے میں۔۔۔؟“

”ہونہہ بیوی! تم دیکھنا کہ تم کس طرح رُل جاؤ گی، ابھی اسی وقت میرے گھر سے دفع ہو جاؤ“.

اِس بددعا کے بعد اب سننے کو اور کیا رہ گیا تھا،
چپ چاپ اُن کی شکل دیکھتی کی دیکھتی رہ گئی۔ ابھی کل رات ہی تو محبتیں نچھاور کرتے میرے قریب یہی شخص تھا، جس کا وجود میرے وجود سے مکمل تھا،
والہانہ پن میں پگھلتا شخص یوں بھی کٹھور ہوسکتا ہے،
کیا برسوں کی چاہتیں یونہی پَل بھر میں بدل جاتی ہیں ۔۔۔۔ ؟؟؟

آنکھوں کے آگے اندھیرا سا چھانے لگا تو چھوٹے بھائی صائم کو فون پر بس اتنا کہا کہ لینے آجاؤ۔

اُس بددعا کے بعد اب کوئی سامان لینے کو رہ بھی نہیں گیا تھا۔ شہنیلا تو اپنا سب سامان باندھ لائی تھی لیکن اُجالا کیا کرتی؟ اتنے سالوں کی جمی جمائی گھرہستی اکھاڑ کر گاڑی میں لوڈ کرواتی۔۔۔ گھر سے بس اپنا پرس اور حقارت سمیٹے نکل رہی تھی۔ ہر کمرے کے سارے دروازے بند تھے اور اُس کے اپنے گھر کے دروازے آج اس پر بند کردیے گئے تھے۔ ناجانے کب تک کے لیے ۔۔۔۔

ایک ہی شہر میں رہنا ہے مگر ملنا نہیں،
دیکھتے ہیں یہ اذیت بھی گوارا کر کے !
جاری ہے ۔