جب وہ ہمارے ساتھ بے وفائی نہیں کرتا تو ہم کیوں کریں! !!!!!! جب کوئی نہیں سنتا تو وہ سن لیتا ہے فریاد ہماری! جب کوئی نہیں پہچانتا ہمیں وہ رب پہچان لیتا ہے،جب سب منہ موڑ لیتے ہیں وہ تب بھی ساتھ دیتا ہے،جب لوگ بے عزت کرتے ہیں تو وہ پھر عزتیں بھی کرواتا ہے, گمان سے آگے بیان سے باہر
(دوسری قسط )
عائشہ شیخ
ہبا : ہمممم۔ صحیح کہہ رہی ہو۔
حدیقہ : اچھا اور بتاؤ ؟
ہبا : یار ہمارے کالج کب سے کھل رہے ہیں ؟
حدیقہ : شاید اس پیر سے۔ ابھی آنے والا ہے آفیشل میس website پہ، چیک کر لیں گے۔ ہبا : اچھا اوکے۔
حدیقہ : چلو پھر بات ہوگی ان شاء اللہ ۔
ہبا : ان شاء اللہ ۔ ٹھیک ہے پھر فی امان اللہ
حدیقہ : فی امان اللہ
٭٭٭٭
(ہبا اور حدیقہ کالج میں)
ٹیچر :
Hello Class,
how are you all?
سب طالبات : بالکل ٹھیک Ma'am سب کی ساتھ آواز
ٹیچر : !Good
why are you both wearing this abaya?
اشارہ ان کا ہبا اور حدیقہ کی طرف تھا
ہبا حدیقہ سے آہستہ آواز میں، کہا بھی تھا کہ ان کی کلاس میں نہیں پہنتے ایک تم ہی بضد تھی اب دیکھنا تم! کتنا بے عزت کریں گی ہمیں سب کے سامنے۔ کچھ نہیں ہوتا, حدیقہ نے کہا
حدیقہ : Yes Ma'am because we are comfortable and easy in this (نہایت ہی ادب کے ساتھ)
ٹیچر : ?Really ( طنزیہ لہجے میں)
حدیقہ: الحمداللہ (پرسکون لہجے میں)
ٹیچر : amazing, anyways let's start the class ٭٭٭٭
یہی سلسلہ مسلسل چلتا رہا, طنز ہوتے رہے لیکن اللہ نے بھی ان دونوں کو کمال کا حوصلہ دیا تھا۔ ایک دن آخر ہبا کا ضبط ٹوٹا اور اس نے حدیقہ سے کہا :
ہبا : کب سے ہماری بے عزتی ہو رہی ہے, عبایا چھوڑ دیتے ہیں مطلب یہاں کے لیے صرف! روزانہ اس طرح طنز بھرے رویے برداشت نہیں ہوتے اور اللہ ویسے بھی غفور و رحیم ہے ہمیں معاف کر دے گا۔
حدیقہ : اللہ غفور و رحیم ہے بے شک ہے تو اس ذات کے احسانات کی قدر کرو نا! جب وہ ہمارے ساتھ بے وفائی نہیں کرتا تو ہم کیوں کریں! !!!!!! جب کوئی نہیں سنتا تو وہ سن لیتا ہے فریاد ہماری! جب کوئی نہیں پہچانتا ہمیں وہ رب پہچان لیتا ہے،جب سب منہ موڑ لیتے ہیں وہ تب بھی ساتھ دیتا ہے،جب لوگ بے عزت کرتے ہیں تو وہ پھر عزتیں بھی کرواتا ہے, گمان سے آگے بیان سے باہر الحمداللہ💖 یہ تو وقتی رویے ہیں پروا کیا کرنی! اور اس رب کے اتنے سارے احسانات ہونے کے باوجود بھی کیا ہم وفا نہ کریں اس سے؟ جب کبھی لوگوں کی پسند اور اللہ کی پسند جدا جدا ہو جائے تو پھر ہم لوگوں کی پسند کو کیوں ترجیح دیں! !!!! اللہ کو اوپر رکھیں نا سب سے! ہبا : ہمممممم
حدیقہ : ایک خیال اللہ کے حکم سے میرے دل میں آیا ہے، آؤ بتاؤں تمہیں.................................. ہبا : مشکل ہوگا یہ۔
حدیقہ : اللہ آسان کردے گا۔
٭٭٭ اس کے بعد دوسرے دن، ہبا اور حدیقہ اس ٹیچر کے room میں گئیں، ہلکا سا knock کرنے کے بعد
حدیقہ :
may we come in Ma'am?
ٹیچر : Yes, come in
کیسے آئی ہو دونوں ؟ اور یہ ہاتھ میں کیا ہے تمہارے ؟
ہبا : Ma'am ہم آپ کے لیے یہ تحفہ لاۓ ہیں۔
حدیقہ : اس تحفے کو آگے بڑھاتے ہوۓ، پلیز قبول کر لیجیے Ma'am.
ٹیچر : ہممممممم۔ اوکے
ہبا : ہم جا سکتے ہیں واپس ؟
ٹیچر : yeah, sure. Go and join your class.
دونوں : Yes Ma'am and thank you Ma'am
ان کے جانے کے بعد ٹیچر نے دیکھا اس تحفے کو اس پہ نہایت ہی نفاست کے ساتھ ایک کارڈ چسپاں تھا، جس پہ لکھا تھا:
Ma'am you are the princess of Islam as all Muslim women are! and you are our sister in Islam, please accept our gift💕
اور ساتھ میں ایک آیت اور حدیث بھی پردےکی بابت quote کی گئی تھی اور جب اس کو کھولا گیا تو اس کے اندر ایک اسکارف اور عبایا تھا
باہر نکلنے کے بعد
ہبا : شکر ہے ٹیچر نے لے تو لیا ورنہ مجھے تو لگ رہا تھا شاید قبول ہی نہ کریں یہ تحفہ ہم سے۔ حدیقہ : الحمد اللہ انہوں نے لے لیا اللہ ان کے لیے اس میں ہدایت رکھے, آمین۔ ہبا : اگر وہ پھر بھی نہ بدلیں تو ؟؟؟؟
حدیقہ : ہدایت تو صرف اور صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے البتہ ہمیں اپنی کوشش کا اجر مل جاۓ گا🌸 لہذا تم relax ہو جاؤ۔ ٭٭٭٭
ایک ہفتہ پورا گذر گیا وہ ٹیچر کالج نہیں آئیں, اور اب دونوں فکرمند تھیں کہ پتا نہیں ٹیچر کیوں نہیں آ رہیں۔ حدیقہ نے خیریت معلوم کرنے کے لیے اپنی ٹیچر کو ایک میسج بھیجا۔
السلام علیکم ٹیچر آپ خیریت سے ہیں؟ آپ کئی دنوں سے کالج نہیں آ رہی؟
ٹیچر : وعلیکم السلام, بیٹے اللہ آپ دونوں کو سلامت رکھے💕 آپ لوگوں نے جو تحفہ دیا ہے, اس کے بعد میرے اندر کی دنیا بدل گئی ہے، مجھے ایسے لگ رہا ہے جیسے میں نے اندھیرے میں ایک روشنی دیکھ لی ہے لیکن میں ابھی تک اس کو قبول نہیں کر پا رہی، وہ آیت جو آپ نے لکھی تھی اس کو پڑھنے کے بعد مجھے اپنے اوپر بہت شرمندگی ہوئی ہے کہ اللہ کے کلام کو میں نے کیسے نظر انداز کر دیا! میں جو سمجھتی تھی کہ یہ تو مولویوں کی بنائی ہوئی باتیں ہیں پتا چلا کہ یہ تو قرآن میں ہے, اللہ اکبر۔
حدیقہ : اللہ آپ کے لیے ہدایت لکھ دے، آمین۔ اب آپ نے کیا سوچا ہے Ma'am؟
ٹیچر : میں جس لبرل ماحول سے تعلق رکھتی ہوں وہاں پردے کی جگہ نہیں۔ اب میں عجیب کشمکش میں ہوں کہ میں اپنی سابقہ زندگی کو برقرار رکھوں یا اللہ کے پیغام کو ترجیح دوں! مجھے خود کو سنبھالنے میں وقت لگے گا،میرے لیے دعا گو رہیں۔
حدیقہ : جی بالکل Ma'am ہم آپ کے لیے دعا گو ہیں💞 اللہ آپ کے لیے صحیح فیصلے کو کرنا آسان بناۓ، آمین۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حدیقہ کو بہت حیرت ہوئی اپنی ٹیچر کی بات کرنے کے انداز پہ, وہ کبھی اس طرح نہیں کرتی تھیں اور حیرت اس بات کی تھی کہ کیسے اللہ کے کلام کی ایک آیت یوں انسان کو بدل دیتی یے!! لیکن جب کوئی پورا قرآن ہی سمجھ سمجھ کے پڑھے تو پھر اس کی زندگی کتنی زیادہ شریعت کے قریب ہو جائے گی
شاید یہ ان دونوں کا صبر و اخلاق ہی تھا جو رنگ لا رہا تھا۔
حدیقہ نے ہبا کو میسج کیا
ہبا سنو! Ma'am سے بات ہوئی تھی۔
ہبا : کیا کہا تھا انہوں نے؟ کیوں نہیں آ رہیں ؟
حدیقہ : ان شاء اللہ آ جائیں گی۔
ہبا : وہ اب کیا پردہ کریں گی ؟
حدیقہ : اللہ جانے ۔ لیکن ہمیں ان کے لیے بہت ساری دعائیں کرنی چاہییں۔ ہبا : بالکل۔
٭٭٭٭ دو دن کے بعد صبح کالج میں
ہبا اور حدیقہ جیسے ہی کالج پہنچیں تو گیٹ سے داخل ہونے کے بعد ان کی نظر ایک خاتون پہ گئی جنہوں نے نہایت ہی سلیقے اور نفاست کے ساتھ حجاب و نقاب کیا ہوا تھا، وہ بھی ان دونوں کو ہی دیکھ رہیں تھیں شاید،پہلے تو وہ دونوں پہچان نہ پائیں کیوں کہ اس سے پہلے ان کی ٹیچر ہمیشہ جینز اور coat میں ہی آیا کرتی تھیں۔ ہبا نے حدیقہ کو کہا: یار یہ تو Ma'am لگ رہی ہیں ۔
ہاں مجھے بھی حدیقہ نے کہا۔
تو جیسے ہی کچھ آگے گئیں تو انہوں نے اپنی ٹیچر کو سلام کیا اور ٹیچر نے بہت ہی اچھے انداز میں ان کو جواب دیا, وہ ٹیچرز روم سے باہر ہی کھڑی ہوئی تھیں, شاید assembly conduct کروانا تھی انہوں نے۔ اس کے بعد ٹیچر نے دونوں سے کہا کہ بیٹا میں آپ سے شرمندہ ہوں،میں نے آپ کو بہت ذلیل کیا ہے بلا وجہ۔ میں آپ سے معذرت خواہ ہوں انتہائی عاجزی والا ان کا انداز تھا, شاید وہ باہر سے زیادہ اندر سے بدلیں تھیں اور جب انسان کا دل بدل جاتا ہے تو پھر ظاہر کی تبدیلی تو آنی ہی ہوتی ہے۔
حدیقہ : نہیں نہیں ٹیچر آپ بالکل بھی معذرت نہ کریں💞 بڑے معذرت نہیں دعا کرتے ہیں،آپ ہماری استقامت کے لیے دعا فرمائیں۔
ٹیچر : بیٹے اللہ آپ دونوں کو سلامت رکھے، یوں ہی چراغ سے چراغ جلاتے رہنا۔ اندھیروں کو برا کہنے سے کچھ نہیں ہوتا، اپنے حصے کا دیا خود ہی جلانا ہوتا ہے۔ ہبا : مجھے تو رونا آ رہا ہے۔
حدیقہ : جذباتی انسان یہاں تو چپ کر جاؤ
وقت گذرتا رہا تو دین کی وجہ سے ان کا رشتہ اور مضبوط ہو گیا اب وہ ٹیچر ان کی ایک مخلص رہنما بن چکی تھیں اس کے بعد امتحانات ہوئے, چھٹیاں ہوگئیں اور سب اپنی اپنی زندگی میں مصروف ہو گئے۔
٭٭٭٭ اس کے بعدہبا نے حدیقہ کو واٹس ایپ میسج کیا
السلام علیکم سنو حدیقہ میرے ساتھ مارکیٹ چلو گی ؟
حدیقہ : وعلیکم السلام مارکیٹ میں تھک جاتے ہیں بہت, وقت بھی بہت ضایع ہوتا ہے۔ خیر تمہیں لینا کیا ہے؟ ہبا : ہاں وہ ایک ڈریس لینا ہے, ایک عبایا لینا ہے اور بھی کچھ دو تین چیزیں لینی ہیں۔ حدیقہ : عبایا لینا ہے،پھر ؟ اس دن ہی تو لیا ہے تم نے!
ہبا : ہاں لیکن یہ اسٹائل نیا ہے نا۔ یہ ابھی تک نہیں ہے میرے پاس۔ اور پتاہے کیا یہ میں نے ایک ایکٹریس کو دیکھا تھا ٹی وی پہ، تو وہی لینا ہے بس۔
حدیقہ : لیکن جہاں تک میرا اندازہ ہے تمہارے پاس 7 یا 8عبایا پہلے ہی ہیں،پھر یہ فضول خرچی نہیں ہے ؟ اور عبایا صحابیات رضی اللہ تعالٰی عنھن کی پیروی سمجھ کے پہنا کرو نا کہ کسی ایکٹریس کی following میں! ہبا : ہاں لیکن یہ بہت اچھا ہے نا! پتاہے یہ ریڈ کا ایک نیا شیڈ ہے تو اچھا ہے بہت۔ حدیقہ : عبایا ریڈ کلر میں ؟ عبایا ہی ہوگا یا کچھ اور؟
ہبا : ارے عبایا ہی ہوگا، اگر ریڈ نا ملا تو پھر پرپل یا ڈارک بلیو کلر میں لوں گی۔ حدیقہ : عبایا کو عبایا ہی رہنے دو فیشن نا بناؤ۔
ہبا : یہ بن چکا ہے۔
حدیقہ : لیکن تم حصہ نہ لو۔ ویسے بھی ریڈ کلر کے عبایا میں تم بھوتنی لگو گی ہبا : کیا؟ کیا کہا تم نے! بھوتنی لگوں گی میں! میں تمہیں چھوڑوں گی نہیں اچھا ٹھیک ہے میں بلیک کلر میں لیتی ہوں،پھر تم مجھے تمغہ امتیاز دو گی ؟
حدیقہ : نہیں! میں تمہیں تمغہ بھوتنی دوں گی
ہبا : حد کرتی ہو اچھا حدیقہ یہ بتاؤ جنت تو اللہ کے فضل و کرم سے ملے گی نا! پھر ہم اتنی محنت کیوں کرتے ہیں ؟ مطلب اتنی زیادہ پابندیاں! کیوں آخر ؟
حدیقہ : پہلی بات تو یہ کہ, یہ پابندیاں نہیں بلکہ قوانین و حدود ہیں۔ جس طرح کسی بھی ادارے یا سسٹم کو چلانے کے لیے قوانین کی ضرورت ہوتی ہے تو ویسے ہی اسلام میں بھی کچھ قوانین ہیں اسلام الحمدللہ پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے کیا اس کے نظام کو ٹھیک رکھنے کے لیے اللہ نے کچھ قوانین و حدود نہیں رکھے ہوں گے ؟ اگر یہ قوانین و حدود نہ ہوں تو ہر شخص فرعون بن جاۓ, جو شریعت کے قوانین کو بھول جاتا ہے وہ پھر فرعون بن جاتا ہے۔ پھر جائز اور ناجائز کی پرواہ نہیں رہتی، پھر خیر اور شر میں کوئی تمیز باقی نہیں رہتی، پھر حلال اور حرام ایک سے لگتے ہیں،پھر اللہ کی رضا مطلوب نہیں ہوتی دنیاوی مفادات ہی مطلوب ہوتے ہیں۔ پھر دوسرے کا حق مارنا اپنا حق سمجھا جاتا ہے, پھر انصاف بہت مشکل سے ملتا ہے، پھر غلط کو صحیح بنا کے پیش کیا جاتا ہے, اللہ حفاظت فرماۓ, آمین۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔