مجھے ایسا لگتا ہے کہ جیسے مجھے کام سے زیادہ ایک جیسی روٹین تھکارہی ہے۔مجھ پر ایک عجیب سا جمود طاری ہے۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میں ایک دائرے میں گھوم رہی ہوں دن سے رات رات سے دن۔۔۔۔سر چکرانے لگا ہے میرا اب تو ایسا لگتا ہے کوئی خوشی کوئی رنگین نہیں رہی اب زندگی میں۔۔۔
بنت مسعود احمد کراچی
"کیا زندگی ہے ایک جیسی بورنگ سی روٹین۔۔صبح اٹھو وہی کاموں کی لگی بندھی ترتیب اور پھر رات میں بس لمبی تان کر سوجاؤ۔"غنوی نے میاں سے شکوہ کیا۔
"تو پھر کیا ارادہ ہے کچھ نیا اور انوکھا ایڈوینچر کرنا چاہتی ہیں آپ؟"تیمور مسکراکر پوچھنے لگا۔ "میرا مطلب یہ نہیں ہے مجھے ایسا لگتا ہے کہ جیسے مجھے کام سے زیادہ ایک جیسی روٹین تھکارہی ہے۔مجھ پر ایک عجیب سا جمود طاری ہے۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میں ایک دائرے میں گھوم رہی ہوں دن سے رات رات سے دن۔۔۔۔سر چکرانے لگا ہے میرا اب تو ایسا لگتا ہے کوئی خوشی کوئی رنگین نہیں رہی اب زندگی میں۔"۔وہ سر کو دونوں ہاتھوں سے تھام کر بھرائی ہوئی آواز میں بولی۔
"کسی چیز کی کمی تو نہیں تمہیں ۔۔کوئی ضرورت کوئی فرمائش ہے تو کہو۔۔۔"تیمور نے دکھ سے اسے دیکھا۔ "سب ہی کچھ تو ہے اب میرے پاس ایک شاندار لائف اسٹائل۔۔۔اولاد کی نعمت۔۔۔پھر گھر کے کام کرنے کو بھی ماسی آتی ہے بس ایک کھانا ہی تو بناتی ہوں مگر پھر بھی کچھ کمی سی لگتی ہے میں ویسے خوش اور مطمئن کیوں نہیں جیسے پہلے ہوا کرتی تھی۔۔۔کچھ مسنگ ہے۔"ہلکی آواز میں اپنے دل کا حال سناتی وہ بے بسی کی انتہاؤں پر معلوم ہورہی تھی۔ "جب یہ سب نہیں تھا تب تو آپ بڑی خوش و خرم رہا کرتی تھیں، اب جب اللہ پاک نے اتنا کچھ دے دیا ہے تو اب کیا مسنگ ہے۔شاید ایک جیسی روٹین تمہیں الجھارہی ہے۔چلو آؤ ذرا باہر چلیں۔۔کیا پتا تمہارا ذہن اس طرح فریش ہوجائے۔"تیمور نے اس کی حالت کے پیش نظر ایک تجویز دی۔
"اس وقت؟"گھڑی ساڑھے گیارہ بجارہی تھی۔اس نے وقت دیکھا اور حیرت سے بولی۔ "ہاں کیا ہوا تو۔۔۔بچے تو سوچکے ہیں۔میں امی کو بتاتا کر آتا ہوں تم جلدی سے عبایا پہن کر نیچے آجاؤ۔"وہ کوئی بھی بات سنے بغیر فوراً اٹھ کھڑا ہوا صرف اس کی خاطر ورنہ وہ آج آفس میں معمول سے زیادہ کام نمٹاکر آیا تھا اور بہت تھک چکا تھا۔اس کو اٹھتا دیکھ وہ بھی نہ چاہتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔
★**★ اپنی پسندیدہ آئسکریم کھاکر اور تیمور کے ساتھ بہت سے چھوٹی چھوٹی باتیں شئیر کرکے وہ خود کو بہت ہلکا پھلکا محسوس کررہی تھی۔۔۔مگر اب بھی کچھ مسنگ تھا۔کیا ؟؟وہ یہ نہیں جان پارہی تھی۔ ★*★
دوسرے دن تیمور نے اچھی خاصی رقم اس کے حوالے کی کہ جاکر کچھ شاپنگ کرآؤ۔ وہ بچوں کے لیے اپنے لیے تیمور کے لیے اور اپنی ساس کے لیے بھی کئی جوڑے لے کر آئی۔ تیمور کو لگا کہ شاید اس طرح اس کی شریک حیات اچھا محسوس کرے گی۔ مگر وہ صرف چند گھنٹوں کی خوشی اور جوش تھا۔دوسرے دن پھر اس کا وہی حال تھا۔ ساس کے ہاتھ میں تین جوڑے تھمائےتو انہیں بیٹیوں کی یاد ستانے لگی۔فہمینہ تہمینہ کے حالات اتنے اچھے نہیں چل رہے تھے۔وہ عام سے سوٹوں کو اپنی سلائی کے ہنر آزماکر خاص بنالیتیں تھیں۔انہوں نے سوچا کہ میرے لیے ایک بھی بہت ہے باقی کے دو بیٹیوں کو دے دوں گی۔ابھی وہ یہی سوچ رہیں تھی کہ غنوی بولی۔ "اماں کیسے لگے؟"
"بہت اچھے ہیں۔"
"مجھے اپنا ناپ دیجیے گا میں ایک بہت اچھے ٹیلر سے سلواکر دوں گی۔" "تم جانتی تو ہو کہ میرے کپڑے شروع سے ہی تہمینہ سیتی ہے مجھے اسی کے ہاتھ سے چین آتا ہے۔" "اماں یہ برانڈڈ سوٹ ہیں ان میں کئی طرح کی بیلیں لگیں گی باجی کے لیے سینا مشکل ہوگا میں خود سلوادوں گی اب بس ناپ دیجیے گا۔"وہ قطیعت سے کہتی ان کے ہاتھوں سے وہ سوٹ واپس لیتے ہوئے بولی۔
★**★ "افففف میرے خدا۔۔"۔۔وہ نماز کے لیے کھڑی ہوئی اور دل کا اضطراب اتنا بڑھاکہ اس کی آنکھوں سے نمکین پانیوں کی برسات ہونے لگی۔
"کیا کروں میں؟؟"سلام پھیرتے ہی اس کی سسکیوں کو زبان مل گئی اور وہ ایکدم سے کھل کر رودی۔ "کیا ہوا مما۔۔"۔اروی نے حیرت سے ماں کو روتے ہوئےدیکھا۔ "کچھ نہیں میری جان۔۔"۔وہ اسے سینے سے لگاکر انسو پونچھتے ہوئےبولی۔
★**★ آج اس کے میکے والے اس کے گھر دعوت پر مدعو تھے۔اماں ابا دونوں بھائی اور اس کی بہنیں۔ سارا کھانا تیمور نے باہر سے بنوایا تھا۔وہ بیش قیمت برانڈڈ سوٹ میں نک سک سے تیار جان محفل بنی تھی۔ کتنے دن بعد وہ کھل کر ہنس بول رہی تھی۔سب کچھ کتنا مکمل اور پرسکون تھا۔اس نے دل میں ڈھیروں شکر کیا۔ ★**★
دعوت نمٹ چکی تھی سب جاچکے تھے۔بچے اور تیمور بھی تھک ہار کر سونے کے لیے لیٹ گئے تھے وہ اور اس کی ساس کچن میں بچے ہوئے کھانے رکھ رہی تھیں۔
کام والی فریدہ برتنوں کا ڈھیر دھو کر جانے کے لیے کھڑی تھی۔
غنوی نے فریزر سے کل کا بچا آلو گوشت اور دعوت کی بریانی باندھ کر اسے تھمائی۔وہ شکریہ ادا کرکے باہر نکل گئی۔ اس کی ساس نے حیرت سے غنوی کو دیکھا۔
"بیٹے کڑھائی گوشت اتنا بچ گیا تھا اور حلوہ بھی ۔۔۔تم فریدہ کو یہ دونوں چیزیں بھی دے دیتیں۔" "اماں ماسیوں کو ذرا ٹائٹ کرکے رکھنا پڑتا ہے ورنہ ان کا حوصلہ بڑھ جاتا ہے۔" "آپ جانتی ہیں کچھ پیسے زیادہ دے دیتی ہوں تو چند دن بعد پھر مطالبہ لے کر آجاتیں ہیں۔"وہ ساس کو سمجھاتی ان کو حیران کرگئی۔
★***★ "باجی کا فون آیا تھا کہہ رہی تھیں کہ پرسوں چکر لگاؤں گی"۔تیمور نے موبائل میں گم غنوی کو اطلاع دی۔ "اچھا۔۔۔۔سب بچے آئیں گے ساتھ؟"غنوی نے بے دلی سے پوچھا۔
"یار یہ تو کچھ نہیں بتایا انہوں نے۔۔۔وہ جانتا تھا کہ باجی کے آدھا درجن بچوں سے غنوی کا موڈ آف ہوجاتا ہے پر کیا کرتا وہ ان کی سگی ماں جائی تھیں پھر وہ ان کا لاڈلا اکلوتا بھائی۔"
"ان کو تو سبزی بہت پسند ہے اب آرہی ہیں تو یقینا دو تین دن تو رکیں گی۔آپ ذرا دو تین قسم کی سبزیاں لے آئیے گا کل۔۔۔" غنوی نے ایسا شو کیا جیسے اسے آپا کی پسند کا بڑا خیال ہو حالانکہ حقیقت اس کے برعکس تھی وہ چاہتی تو غریب نند کی خاطر تواضع گوشت مرغی مچھلی سے بھی کرسکتی تھی اللہ نے اس کے شوہر کو بہت کچھ دے رکھا تھا مگر غنوی کا دل تنگ ہوچکا تھا وہ نند کے لیے اتنا بڑا دل کیسے کرسکتی تھی۔وہ سمجھتی تھی کہ شوہر کی کمائی پر صرف اس کا اور بچوں کا حق ہے۔
★***★ باجی آرہی ہیں تو کیوں نا چھوٹی فہمینہ کو بھی ساتھ ہی بلالوں ورنہ اس کے لیے الگ سے خطرداریاں کرنی پڑیں گی یہ سوچ کر اس نے فہمینہ کا نمبر ملایا اور یہاں وہاں کی ایک دو باتیں کرکے اسے کل رکنے آنے کی دعوت دی جو اس نے بخوشی قبول کرلی۔
★**★ "غنوی بیٹی یہ دونوں کل آرہی ہیں میں سوچ رہی ہوں گوشت کا پلاؤ بنالوں کئی دن ہوگئے۔" "امی مہینے کا آخر ہے گوشت تو بس تھوڑا ہی رہ گیا ہے ۔"غنوی جھٹ بولی۔
"تو گوشت آبھی سکتا ہے تیمور سے کہنا وہ لادے گا۔بہنیں مہینے میں ایک دو دن کے لیے آتی ہیں کیا انہیں دل سبزی ہی کھلاکر مہمانداری کی جاۓ گی۔"ساس بھی غنوی کی بدلتی عادت سے خوب واقف ہوچکی تھیں اللہ جتنا اسے دے رہا تھا وہ اتنی ہی تنگ دل ہوئی جارہی تھی حالانکہ کچھ سال پہلے تک جب تیمور کی ترقی نہیں ہوئی تھی تو غنوی اپنی نندوں کا بے حد خیال رکھتی تھی یہ تو چند مہینے ہی ہوۓ تھے کہ اس کے انداز ہی بدل کر رہ گئے تھے۔ ★**★
تیمور نے اپنی بہنوں کی خوب اچھے سے آؤ بھگت کی بھانجے بھانجیوں کو گاڑی میں گھماکر لایا سب کو ان کی مرضی کی چیز دلوائی اور بہنوں کو انتہائی رازداری کے ساتھ بہترین جوڑے لاکر دیے۔ دونوں اکلوتی بھابھی کے رویے سے الجھن کا شکار تھیں مگر بھائی کی جانب سے محبت بھرے تحفے پاکر سب تلخی بھول بھال خوشی خوشی واپس گئیں۔ ★**★
آج وہ پھر اس کے سامنے بیٹھی رو رہی تھی۔۔۔
"کیا ہوگیا ہے تمہیں؟؟"
"پھر وہی خالی پن۔۔۔۔"
"مجھے لگتا ہے مجھ سے کچھ غلط ہوا ہے۔"
"کیا غلط۔۔۔؟"
"میرے ساتھ آئیں۔"وہ اس کا ہاتھ تھامے کمرے سے نکلی اور سیڑھیاں اتر کر لاؤنج سے ہوتی دروازے تک آئی "کہاں جارہی ہو؟"
"باہر گیرج کی طرف۔۔۔"
وہ ناسمجھی کی کیفیت سے دوچار تھا کہ غنوی اسے رات کے اس پہر باہر کیوں لے کر جارہی ہے۔ "بتاؤ تو یار۔" وہ الجھا۔وہ لمبی راہداری سے ہوتی ہوئی کیاریوں کی جانب اسے لے آئی۔ "یہ دیکھیں۔"۔۔وہاں ایک بلی اپنے چھوٹے چھوٹے کمزور بچوں کے ساتھ بے یارو مددگار پڑی تھی۔ "انہیں اٹھائیں۔"ان کو دیکھ کر ایک دم اس کی آنکھیں چھلکیں۔اس نے فورا ان بچوں کو اٹھایا اب اس کا رخ گھر کے داخلی دروازے کی جانب تھا بلی خود بخود اس کے پیچھے چلنے لگی۔
گھر میں قدم رکھتے ہی وہ کچن کی جانب لپکی۔فرج سے پتیلی نکال کر دو پیالیوں میں دودھ بھرا اور کمرے میں لے آئی۔ تیمور نے انہیں ایک طرف لابٹھایا۔ وہ دودھ ان کے سامنے رکھ کر قریب ہی بیٹھ گئی۔ بچے لپک کر دودھ کے پیالے کے پاس آئے بلی بھی دونوں کے ساتھ آکھڑی ہوئی۔
وہ دونوں اب بلی اور اس کے بچوں کو رغبت دودھ پیتے دیکھ رہے تھے۔ غنوی کے دل کو جیسے قرار سا آیا۔ آج دوپہر کو فریدہ نے جب بتایا کے بلی اپنے دو بچوں کے ساتھ ان کے گھر کے دروازے پر بیٹھی ہے تو بجاۓ اس کے کہ وہ ان کمزوروں کو کچھ کھانے کو دیتی اس نے یہ کہہ کر کیاری کی طرف بچے رکھوادئیے کہ یہ بلیاں فری ہوجاتی ہیں تو جان نہیں چھوڑتیں ایک بار آتی ہیں تو گھر کا رستہ دیکھ لیتی ہیں۔ اسی شام اس کے بیٹے فائق کو تیز بخار نے آگھیرا وہ دوا دلانے گئے تو پیچھے سے دادی کا فون آگیا کہ اروی سیڑھیاں اترتے وقت پھسل گئی اور اس کے سر سے خون بہ نکلا۔ وہ تو شکر تھا کہ اماں نے بروقت ہلدی ڈال کر اس کا سر دبایا تو خون رک گیا۔
فائق کو دکھاکر وہ اروی کو لےکر ڈاکٹر کے یہاں پہنچے اس کے دو ٹانکے آۓ۔
★***★ رات کے اس پہر باہر سے کھٹر پٹر کی آوازوں سے ان کی
آنکھ کھلی تو وہ گھبراکر اٹھیں اور کمرے سے باہر آئیں۔لاونج کے سرے پر ان کا بیٹا اور بہو بیٹھے تھے وہ حیران ہوکر ذرا آگے بڑھیں تو سامنے کا منظر دیکھ کر ان کے چہرے پر اطمینان در آیا۔۔۔۔صبح غنوی نے ان کے سامنے ہی فریدہ کو کہہ کر ان بچوں کو کیاریوں کی طرف رکھوایا تھا اور تب وہ نہ چاہتے ہوۓ بھی خاموش ہوگئی تھیں اب غنوی کی ندامت سے بھیگی آنکھیں دیکھ کر انہیں لگا کہ اگر وہ اب بھی نہ بولیں تو ان کی یہ خاموشی بہو کی آنے والی زندگی میں بہت سے غلط فیصلوں کا پیش خیمہ بن جاۓ گی۔
"امی آپ نے دیکھا کہ آپ کی بہو کتنی رحم دل ہے کہ آدھی رات کو بلیوں پر مہربان ہے۔۔"۔تیمور نے امی کو آتے دیکھ ذرا شوخ لہجے میں کہا۔ "ہاں میری بیٹی واقعی بہت اچھی ہے۔"انہوں نے کھلے دل سے بیٹے کی ہاں میں ہاں ملائی۔ غنوی نے آنسو بھری آنکھیں اٹھا کر امی کو دیکھا اور بولی۔ "امی میں کہاں اچھی ہوں آپ جانتی ہیں نا۔۔میں نے ہی کل ان بچوں کو کیاری میں ڈالوایا تھا۔"وہ وہیں فرش پر بیٹھی سسکنے لگی۔
تیمور نے حیران ہوکر اس کی بات سنی تھی۔عاتکہ بیگم آہستگی سے چلتی ہوئی اس کے پاس آبیٹھیں اور نرمی سے اس کا سر سہلاتے ہوۓ بولیں۔
"بیٹے انسان ہو یا جانور کسی کو بھی تکلیف میں دیکھو اس کی مدد کرو اور کوشش کرو کہ ہماری ذات سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے کہ کسی کی دل آزاری کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔" "امی دیکھا آپ نے؟ میں نے بے زبانوں پر رحم نہیں کیا اب جب میرے دونوں بچے تکلیف میں ہیں تو مجھے اس بے زبان کی تکلیف کا اندازہ ہوا۔"
"تم ایسی نہیں تھیں غنوی تم تو بہت نرم دل رکھتی تھیں مگر اب کچھ عرصے سے دیکھ رہی ہوں کہ تم میں بہت بدلاؤ آگیا ہے۔"
"پتا نہیں مجھے کیا ہوگیا ہے۔۔۔۔میں ٹھیک نہیں ہوں نہ میں خوش ہوں۔" "بیٹے خوشیاں تو بانٹنے سے بڑھتی ہیں اور دکھ بانٹنے سے کم ہوجاتے ہیں۔۔۔تم دوسروں کو خوش رکھو گی تو خوش رہو گی.۔۔۔اپنا دل تنگ نہ کرو۔۔اگر اللہ تمہیں نواز رہا ہے تو دل بڑا کرو۔۔۔یوں تو تم تنہا رہ جاؤ گی بہت کچھ کھو دو گی۔"وہ آج اسے ہر وہ بات کہہ دینا چاہتی تھیں جو وہ کئی دن سے دل میں دباۓ ہوۓ تھیں۔ ارشاد باری تعالی ہے۔
"وَأَحْسِنُ كَمَا أَحْسَنَ اللهُ إِلَيْكَ"
ترجمہ:" اور جس طرح اللہ نے تم پر احسان کیا ہے تم بھی ( دوسروں پر ) احسان کرو ۔"سورة القصص : 77 "ہمممم۔یہ بات تو سو فیصد درست ہے کیونکہ یہ ہمارے رب کا حکم بھی ہے۔"تیمور نے ان کی تائید کی۔ "میری بیٹی بہت سمجھ دار ہے تم دیکھنا یہ بہت جلد اپنی پہلے والی عادتوں پر لوٹ آۓ گی۔" "شاید یہی وہ باتیں تھیں جو میں خود سمجھ نہیں پارہی تھی۔"توجہ سے سنتی غنوی آخر میں ندامت کے گویا ہوئی۔عاتکہ بیگم کی باتوں سے اس کو ذرا ڈھارس بندھی اور بے چین دل کو سکون آیا وہ ٹھیک تھیں بالکل ایسا ہی تھا جیسا کہ وہ کہہ رہی تھیں۔
"اب بس کل سے کوشش شروع کردو۔۔"۔تیمور ہنس کر بولا۔ "ان شاء اللہ میں پوری کوشش کروں گی"۔۔۔جوابا غنوی مضبوط لہجے میں بولی۔
★*★ اس کی دونوں نندیں اپنے بھتیجا بھتیجی کی عیادت کو آئی ہوئیں تھیں۔غنوی فریدہ کو ساتھ لگاۓ بڑی پھرتی سے بریانی اور کباب بنانے میں لگی تھی۔اس نے زبردستی نندوں کو کھانے پر روکا تھا۔
کام سے فارغ ہوکر فریدہ گھر جانے لگی تو اس نے تازہ پکا کھانا ساتھ بسکٹ اور کئی طرح کے چپس اس کے بچوں کے لیے دے کر اسے رخصت کیا۔
تیمور کے آنے پر نندوں نے مل کر دسترخوان لگوایا اور سب نے ایک خوشگوار ماحول میں کھانا کھایا۔وہ رات بھر کی جاگی ہوئی تھی بچوں کی تیمارداری کے ساتھ ساتھ اب مہمان داری میں جتی تھی۔رات سونے کے لیے لیٹے تو بستر پر لیٹتے ہی نیند اس کی آنکھوں میں اتر آئی ورنہ کئی عرصے سے وہ رات میں کروٹیں بدلتی رہتی تھی اور بڑی مشکل سے سو پاتی تھی تیمور نے ایک نظر سوئی ہوئی غنوی کے پر سکون چہرے کو ڈالی اور آسودگی سے آنکھیں موند لیں۔