میری بیوی نے ہمیشہ میرا ساتھ دیا اور آج بھی دے رہی ہے۔ لیکن اب جیسے میں ہی اس کا ساتھ نہیں دے پا رہا۔ کبھی جو میں اس کو کپڑے اور زیور بنوا کر دیتا تھا۔ آج اس کا زیور بیچنے پر مجبور ہوگیا ہوں۔ وہ زیور جو اس کی امی اور میری امی نے بڑے چاؤ سے اس کے لیے شادی پر بنوایا تھا۔ اب وہ ایک ایک کر کے خود ہی بیچنے کے لیے دیتی جا رہی ہے۔ بہت عرصے تک تو میں لینے سے انکار کرتا رہا لیکن اب مجبور ہو کر لے رہا ہوں

مہوش کرن


میں آپ کی اور باقی سب کی طرح ایک انسان ہوں۔ اچھے تعلیمی ادارے سے پڑھا لکھا، خوب محنت کی، ہمیشہ سچ کا ساتھ دیا۔ اپنے طور پر یہی کوشش کی کہ کوئی بددیانتی یا کرپشن نہ کروں۔ زکوٰۃ ہمیشہ وقت پر ادا کی، اچھے وقتوں میں عمرہ اور حج بھی کر چکا ہوں، ہمیشہ گھر ایسے چلانے کی کوشش کی کہ کبھی کسی سے مقابلہ نہ کروں، اپنے بیوی بچوں کو بھی اسی طرح سمجھایا۔ ہم سب مل کر جیسے بھی حالات ہوتے خوشی سے گزارہ کرتے رہے۔ اور میں فخر سے کہہ سکتا ہوں کہ میں نے یہ سب کچھ اپنے ماں باپ سے سیکھا۔

میری بیوی نے ہمیشہ میرا ساتھ دیا اور آج بھی دے رہی ہے۔ لیکن اب جیسے میں ہی اس کا ساتھ نہیں دے پا رہا۔ کبھی جو میں اس کو کپڑے اور زیور بنوا کر دیتا تھا۔ آج اس کا زیور بیچنے پر مجبور ہوگیا ہوں۔ وہ زیور جو اس کی امی اور میری امی نے بڑے چاؤ سے اس کے لیے شادی پر بنوایا تھا۔ اب وہ ایک ایک کر کے خود ہی بیچنے کے لیے دیتی جا رہی ہے۔ بہت عرصے تک تو میں لینے سے انکار کرتا رہا لیکن اب مجبور ہو کر لے رہا ہوں۔

غربت کی تیز آگ پر اکثر پکائی بھوک
خوشحالیوں کے شہر میں کیا کیا نہیں کیا

ہم نے سوچا تھا کہ بچوں کی پڑھائی یا شادی میں یہ زیور کام آئے گا۔ اگر کبھی اپنا مکان بنایا تو زیور توڑ کر رقم اس میں ملا دیں گے لیکن کبھی یہ نہ سوچا تھا کہ بلوں، کرایوں اور فیسوں کی ادائیگی میں زیور پانی کی طرح بہ جائے گا۔ کیا کروں کس طرح یہ اخراجات پورے کروں جس میں کچھ فضول خرچی نہیں، کوئی دکھاوا، کچھ اضافی نہیں۔

کس ضرورت کو دباؤں، کسے پورا کر لوں
اپنی تنخواہ کئی بار گنی ہے میں نے
میں نے آج تک کسی سے سوال نہیں کیا تھا، اب ان حالات میں کس سے مانگوں، میرے سارے اپنے بھی میری ہی طرح پریشان ہیں۔ حالات سدھرنے کی بجائے مزید خرابی کی طرف جاتے نظر آ رہے ہیں۔

میرا ایک پرانا دوست کل پاکستان چھوڑ کر نوکری کے لیے باہر چلا گیا۔ میں نے اسے بہت سمجھایا کہ چھوٹے گھر میں رہ لو، بچوں کو کسی چھوٹے اسکول میں داخل کروا دو، کم پر گزارہ کر لو، یوں سب کو چھوڑ کر نہ جاؤ لیکن وہ نہ مانا۔ کہہ رہا تھا کہ بھابی اور بچوں کو بھی باہر بلا لے گا۔ تاکہ وہاں بچوں کو اچھا مستقبل دے سکے۔ میں نے اس سے پوچھا اور والدین کا کیا ہوگا، وہ کس کے سہارے رہیں گے۔؟ وہ خاموش ہوگیا۔ اس کی اپنی وجوہ تھیں، بہت ذہنی انتشار کا شکار لگ رہا تھا۔ الٹا مجھ سے پوچھنے لگا کہ تم تو ہمیشہ کم پر گزارہ کرتے آئے ہو، بتاؤ اب گزارہ ہو رہا ہے۔؟ یہ سن کر پھر میں خاموش ہو گیا۔

ایک سے دوسرا انسان جدا ہے نصرت
ہر جبیں پر نئی تحریر پڑھی ہے میں نے
ذہنی دباؤ کا شکار تو میں بھی ہوں لیکن یہ فیصلہ نہیں کرنا چاہتا۔ میں دار الکفر نہیں جانا چاہتا۔ آگے کیا ہونے والا ہے، میں حالات سے مقابلہ کیسے کروں گا یہ تو نہیں جانتا بس اتنا معلوم ہے کہ رازق اللہ ہے۔ اور اس اللہ نے ہی مجھے محنت اور کوشش کرنے کی صلاحیت دی ہے۔ سو جو مجھ سے بن پڑا کرتا رہوں گا۔ البتہ اس محنت کا صلہ کب اور کس انداز میں ملے گا یہ تو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ آسانی اپنے وقت پر ہی ملتی ہے لیکن اس سے پہلے ان گنت ریاضتیں کرنی پڑتی ہیں۔ جس کی جتنی زیادہ ریاضت، اس کے لیے آسانی بھی اتنی ہی زیادہ ہوگی، ان شاءاللہ! میں جو آپ سب کی طرح ایک عام، ایک سفید پوش انسان ہوں۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں کہہ سکوں گا۔

~~~~~~ آئیں کہ ہم سب قدم سے قدم اور دل سے دل ملا کر موجودہ حالات سے متاثر افراد کا ساتھ دیں۔ جو گر رہا ہے اسے تھام لیں، جو گر چکا ہے اسے اٹھا دیں۔ جو تھک گیا ہے اس کی ہمت بن جائیں، جو ناامید ہو گیا ہے، اس کی امید بن جائیں۔ جو ٹوٹ گیا اسے جوڑ دیں، جو جا رہا ہے اسے موڑ لیں۔ آئیں ہم عزم کریں کہ ان مصائب کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے میں دوسروں کے مددگار بن جائیں گے۔ اس یقین کے ساتھ کہ کٹھن گھڑیاں جلد گزر جائیں گی، آمین یا رب۔ اپنوں کے لیے، ایک دوسرے کے لیے ہم یہ ادنیٰ سی لیکن پرخلوص کاوش تو کر ہی سکتے ہیں نا؟