عائشہ محبوب
مشترکہ نظام میں سب کو برابر رقم رکھنی ہوتی تھی ساس کے ہاتھ پر، نتیجتاً، جیٹھ ، دیور اور ان کے اہل و عیال پر اثر نا ہوتا لیکن رومی اور اس کے شوہر کو تنگی ہوجاتی، اگر خرچے میں کبھی عدیل کچھ کمی کرتا تو جیٹھانی دیورانی میدان میں شوہروں کو مٹھی میں کرکے پہنچاتیں وہ بھی وہی خرچ دیتے، بچے ہوجانے کے بعد تو رومی کی زندگی میں مزید تنگی در آئی ، اوپر سے ساس نندوں اور سسر تک کا رویہ ایسا ہوتا کہ کبھی ترس کھا لیا کبھی درخور اعتنا نہ سمجھا
(پہلا حصہ)


کشتی الٹ گئی، ذرائع کے مطابق یونان کی سرحد کے قریب یونانی فورسز کی کارروائی، پاکستانی مردوں سے بھری کشتی الٹ گئی، یہ سب پاکستانی، بہترین روزگار کی تلاش میں غیر قانونی طور پر یونان کی سرحد سے، ترکیا اور یورپ وغیرہ جانا چاہتے تھے،" مزید تفصیلات کے لیے جڑے رہیے ہمارے ساتھ۔۔

تھی توایک خبر ہی لیکن جانے کتنے گھرانوں پر آگ کا بارود ثابت ہو کر ان کے پرخچے اڑا گئی کہ تا زندگی وہ ان ٹکروں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر جوڑتے رہیں گے۔

بہترین روزگار کی تلاش میں جانے والوں میں، کچھ پیچھے والوں کی خواہشات اور فرمائشوں کے بوجھ تلے دب کر یہ فیصلہ کر بیٹھتے ہیں تو کچھ واقعی حالات کے جبر میں روانہ ہوتے ہیں، اب بات ان کی تو ہے ہی نہیں کہ وہ ضرورت کے مارے مجبور ہوتے ہیں، مگر جو خواہشات اور فرمائشوں تلے دبتے ہیں بات ان کی ہے!!

"ہنہہ بس میرے ہی نصیبوں تلے صبر ہے، بس گھر کے کام اور گھر میں، بہت ہوا تو رسالہ پڑھ لیا، اور میری ہی کزنیں کیسے عیش تلے ہیں، اور مجھے ہر ہی بات میں دل مارنا پڑتا ہے،چاہے کھانا پینا ہو یا پہننا اوڑھنا، سیر سپاٹا تو دور، ننھیال یا ددھیال جانا ہوجاتا تو دل ہی جلتا، میری ہی ہم عمر۔۔۔۔ "" "" رومی، اے رومی۔۔۔!!"

"افف توبہ توبہ، میں کیا کیا سوچے چلے جارہی ہوں ، معاف کرنا اللہ تعالیٰ ! آئی امی ی ی " ماں کے آواز دینے پر وہ اٹھ کر ان کی اور چل دی، ایسا نہیں تھا کہ وہ بہت ناشکری تھی، بس زندگی کے جمود سے اکثر اکتا جاتی اور لایعنی سوچوں میں پڑجاتی، ( اسی لیے تو زندگی حرکت کا نام ہے، زندگی میں سر گرمی نہ ہو تو وہ سرد پڑ جاتی ہے اور آپ تو جانتے ہوں گے قارئین کے سرد چیز بالآخر پگھل جاتی ہے یا ٹوٹ جاتی ہے! سو آپ مرد ہیں تو اپنے گھر کی خواتین کو ان کی ذہنی و جسمانی استعداد، شوق، دل چسپی کے مطابق جائز تفریح سرگرمی جو استطاعت میں ہو ضرور مہیا کریں۔۔ زندگی جامد ہو یا آتش بہر حال وقت رکتا نہیں سو رومیصاء عرف رومی بھی بیاہ کر پیا دیس سدھاری۔۔

کچھ عرصہ تو مکان اور مکینوں کے معمولات اور مزاج سمجھنے میں لگے، اب چوں کہ مشترکہ نظام تھا اور بہت ہی کم یہ نظام کامیاب رہتا ہے، وجہ اعتدال، عدل انصاف و توازن نہ ہونا، مرد حضرات قوی ہوتے ہوئے بھی توازن رکھ نہیں پاتے۔۔ سو شادی سے پہلے والے اکیلے اکیلے لایعنی سوچتے رہنا کلستے رہنا، معمول سے زیادہ ہوگیا، اس کے جیٹھ کا اپنا کاروبار اور دیور کی اچھی نوکری تھی جب کہ شوہر کا کام مناسب تھا مگر مشترکہ نظام میں سب کو برابر رقم رکھنی ہوتی تھی ساس کے ہاتھ پر، نتیجتاً، جیٹھ ، دیور اور ان کے اہل و عیال پر اثر نا ہوتا لیکن رومی اور اس کے شوہر کو تنگی ہوجاتی، اگر خرچے میں کبھی عدیل کچھ کمی کرتا تو جیٹھانی دیورانی میدان میں شوہروں کو مٹھی میں کرکے پہنچاتیں وہ بھی وہی خرچ دیتے، بچے ہوجانے کے بعد تو رومی کی زندگی میں مزید تنگی در آئی ، اوپر سے ساس نندوں اور سسر تک کا رویہ ایسا ہوتا کہ کبھی ترس کھا لیا کبھی درخور اعتنا نہ سمجھا ،اس کے علاوہ کوئی تیسرا رویہ اس مشترکہ نظام میں عدیل، رومی اور ان کے بچوں کے لیے نہ تھا، کیوں کہ وہ تحائف نہیں دیتے تھے، ن ہی برینڈ کپڑے پہنتے تھے، نہ گاڑی نہ بڑی پرائیوٹ اسکولنگ تھی ان کی!!!

عدیل کا صبر شکر تھا کہ رومی کلستے کلستے بھی زندگی گزار رہی تھی، آخر کار عدیل کو نسبتا بہترین نوکری گھر سمیت نصیب ہوئی تو اس نے علیحدہ ہونے میں دیر نہ کی، کیوں کہ وہ یہاں رہ کر پھر بھی اپنے بھائیوں کا مقابلہ نہیں کرسکتا تھا ، رومی کی نسبت وہ شکر گزاروں میں تھا اور جو ہے اس کو کمتر نہ جانتا، الگ ہونے کی کہانی بھی لمبی تھی، الزام رومی پر آیا ، عدیل نے اسے بری الذمہ کروایا، مگر سسرال والوں کے دل کا میل نہ گیا، اور رومی شکر گزار بنتی وہ الگ ہو کر ان سے مقابلے بازی میں جت گئی۔

آخر نوکری ہی تھی ،تنگی پھر پڑنے لگی، ان ہی دنوں عدیل کی قابلیت ہنر کے اعتبار سے ایک رشتے دار کم دوست نے یورپ کا رستہ سجھایا، عدیل نے نظر انداز کردیا مگر رومی اس کے پیچھے پڑ گئی، پیار محبت، دھونس دھمکی پھر منت سماجت ساتھ شدت گریہ سے دعائیں مانگنا، بالآخر عدیل نے حامی بھر لی، اگلا مرحلہ ویزا ٹکٹ، عدیل نے تو نہ جانے کس دل سے حامی بھری تھی کہ اس جیسا سمجھ دار بندہ بھی یہاں دماغ ماؤف کر بیٹھا، زیور بیچ باچ کر بھی مطلوبہ رقم کا ہدف دور تھا، کچھ جمع جتھا، کچھ قرض کے بعد ایجنٹ ہی کا رستہ تھا سو عدیل ہوا رخصت، اور رومی تو گویا ہواؤں میں اڑنے لگ گئی!!!

"کتنے دن گزر گئے، کب پہنچیں گے، پھر نوکری تو یوں مل جانی، بس ایک بار آ جائے پاؤنڈز آگے نئی کالونی بن رہی سب سے پہلے گھر کی بکنگ کروانی، اور ر ر۔۔۔۔ "

" امی ی ی ی ی ی ی ، جلدی آ آ آ ئیں،" رومی کی بھی لایعنی سوچتے رہنے کی عادت اونچی سمت میں پرواز کرگئی تھی لیکن ابھی داوود کی چیخ نما پکار نے اس کے اوسان خطا کردیے۔۔۔ دہل کر کھڑی ہو کر تقریبا گرتے پڑتے لاونج میں پہنچی تو داوود نے موبائل آگے کردیا، یو ٹیوب میں کسی پاکستانی چینل کی بریکنگ نیوز تھی، "پاکستانی مردوں سے بھری کشتی الٹ گئی۔۔"

رومی کے اوسان تو خطا ہوئے مگر دماغ و دل بھی بند ہوا جارہا اور وہ گر ہی گئی!! ایک دن ہو چلا تھا رومی ہوش میں آ چکی تھی، مگر آنکھیں تھیں کہ خشک نہ ہوتی تھیں، عدیل اور رومی کے بھائیوں نے پہلے تو خبر سن کر ہاتھ پاؤں چھوڑ دیےتھے پھر کچھ گھنٹوں بعد عقل نے ساتھ دیا تو اب باقی تفصیلات اور عدیل کی خیریت کی معلومات کے لیے بھاگ دوڑ میں لگ چکے تھے۔۔

" رومی ، وفات شدگان میں عدیل کا نام نہیں، نہ گمشدوں میں۔۔۔"
"کیا مطب بھیا، آخر عدیل کہاں جب نا اِن میں،نا اُن میں؟؟؟؟ " وفات شدگان ، گمشدہ دونوں ہی لفظ دل چیر دینے والے تھے سو رومی اِن اُن ہی کرپائی اور بہن کے لہجے نے وسیم کا دل چیر کر رکھ دیا۔۔۔ "صبر اور انتظار میری بہنا!! " رومی کے سر پر نم آنکھوں سے ہاتھ رکھتے، بھیگے لہجے میں وہ یہ ہی کہہ پایا، رومی کے پاس اب سوچیں الگ انداز میں تھیں، کہ کاش میں عدیل کی اس نوکری کو بہت جانتی شکر اور سمجھ کر چلتی، ساتھ انتظار اور صبر تھا، جو نا کٹ رہا تھا نا ہورہا تھا!!

رومی کے بھائی اچھی فطرت، نیک طبیعت تھے، پھر والد حیات تھے، سسر کو لاکھ شکوے لیکن اس کٹھن دل چیرنے والے حالات میں بہو اور پوتے پوتیوں کی خبر گیری اور کفالت جاری رکھے ہوئے تھے!!

وقت کا کام ہے گزرنا سو چار مہینے گزر ہی گئے، رومی بچوں سمیت والدین کے گھر تھی، سسر بھی حتی المقدور کفالت کررہے تھے، مگر بچوں کے اخراجات، دوسری ضروریات زندگی، بھائی اپنے اپنے گھر بار والے تھے، ایک حد تک ساتھ ساتھ دے سکتے تھے، والد اور والدہ کا بھی خیال رکھتے، پھر آخر رومی ہی اپنی عادت کے ہاتھوں اور کچھ ضرورت سے زیادہ سوچنے، خود ترسی کا شکار ہو کر اب تنگ پڑ رہی تھی،۔۔ ٭٭٭

"یہ مکمل ہوش میں آ چکے ہیں" ڈاکٹر پیشہ ورانہ مسکراہٹ کے ساتھ عبدالکریم کو اطلاع دے کر اگلے لواحقین کی طرف متوجہ ہوچکا تھا، عبدالکریم اس ایشیائی کے بیڈ کی طرف بڑھا، جو نو دن قبل رات کے وقت ان کی گاڑی سے ٹکرا کر زخمی ہوا تھا، "کیسے ہو برادر؟" عبدالکریم اس کے ہاتھ کو تھپتھپا کر قدرے جھک کر اس سے مخاطب تھا، مگر وہ مخاطب ہنوز چھت کو گھور رہا تھا۔۔

"برادر کیا تم سن رہے ہو میری بات؟ کیا بول سکتے ہو؟" اس بار عبدالکریم نے کندھوں سے جھنجھوڑا ذرا سا۔۔ جوابا اس نے عبدالکریم کو دیکھا، آنکھیں بالکل ویران اور خالی تھیں! "سن بھی رہا ہوں اور بول بھی سکتا ہوں" بلآخر عبدالکریم کی مزید کوشش کے بعد اس کے لب ہلے۔۔ ٭٭٭

"اچھی بھلی نوکری تھی، گھر بھی ملا تھا۔۔ مگر میں نے بیوی کو سمجھانے کچھ سختی کرنے کی بجائے بے دلی سے سہی اس کی بات مان لی، زیور بیچ قرض کرکے ایجنٹ کے ذریعے سب کرکے سفر شروع ہوا، یونان میں داخل ہو کر وہاں سے ترکیا اور پھر یورپ جانا تھا، لکھنے کو بولنے کو یہ ایک سطر ہے، مگر بیت جانے میں سہنے میں ایک صدی یا شاید کچھ زیادہ ہو اس سے بھی!!!" اتنا ہی بول کر اس کی آواز بھرا گئی۔۔ اس نے آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیا!! "عدیل!!!!! برادر حوصلہ رکھو، تم آخر کار پاکستان جارہے ہو زندہ سلامت ورنہ اس کشتی میں بہت ہی کم کوئی بچ پایا، اس میں بھی کوئی معذور، کوئی کومے میں!!" عبدالکریم نے اس کی پیٹھ پر تھپکی دی۔ جوابا عدیل نے اسے ممنون نظروں سے دیکھا مگر بولنے کی سکت نہ تھی نہ الفاظ اتنے ہوتے کہ سامنے بیٹھے اپنے محسن کا شکریہ ادا کرسکتا سو اس کا ہاتھ آنکھوں سے لگا کر اور زار زار ہوا۔۔ "برادر بس وہاں جاؤ، حالات دیکھو، پھر میری آفر پر غور کرنا، کوئی زبردستی نہیں، کسی بھی مدد کی ضرورت ہو میں حاضر ہوں۔۔" عبدالکریم نے یاد دہانی کروائی اور الوداعی مصافحہ کیا! ٭٭٭

"کہاں سے لاؤں پیسا، تماشا بن گئی زندگی، اوپر سے تم لوگ، اسکول میں یہ منگوایا، وہ چاہیے، یہاں جانا وہ کرنا!! میں تو بس شادی بعد پس ہی رہی چکی کے دو پاٹوں میں، پہلے سسرال میں اور اب یہ مصیبت اوپر سے عدیل جانے کہاں ہیں؟ "" وہ اب چیخ چیخ کر تھک چکی تھی سو عدیل کو یاد کرکے رونے لگ گئی۔۔

"مما، مما اااااااا۔ جلدی آئیں دیکھیں بابا آ گئے ے ے ے ے۔۔" یہ خوشی سے چھلکتی آواز اس کی چھوٹی جویریہ کی تھی، وہ کچھ عجیب بد حواسی میں دوڑتے ہوئے باہر بھاگی، اور باہر کھڑے عدیل کو دیکھ کر اس پر گویا سکتہ ہی طاری ہوگیا، آخر عدیل کے جھنجھوڑنے پر جو وہ روئی تو چپ کروانا مشکل ہوگیا۔۔

"ارے بیٹا دیکھو تمھارا سہاگ صحیح سلامت واپس آیا ، شکر کا مقام ہے، شکرانے کے دو نفل پڑھو،" یہ رومی کے والد تھے عظیم ویانی۔۔

٭٭٭ زندگی کا اصل امتحان اب شروع ہوا تھا۔۔ نہ گھر رہا نہ کام کاج۔۔ قرضہ الگ واجب الادا تھا۔۔ ایسے میں رومی پہلے تو جوش سے ساتھ دیتی رہی، مگر آخر کار اپنی عادت کے ہاتھوں مجبور دوبارہ کچھ چڑچڑی خود ترسی کا شکار ہونے لگی، اس بار تو سسر اور ساس ان کا خیال رکھ رہے تھے، گھر میں ان کا کمرہ ان کے حوالے کردیا گیا تھا، مگر بچوں کے اسکول بدلوانے پر رومی راضی نہیں تھی ، اور عدیل اب بھی کشتی میں گزرے ایام اور اس خوفناک حادثے سے مکمل باہر نہیں آیا تھا، کمزوری بھی اسے بہت ہوگئی تھی۔۔۔ بھائی تو دونوں اس کے خاموش تھے مگر ان کے بیوی بچے، ان کا رہن سہن وہ رومیصاء کو چڑچڑا کررہا تھا "میں کویت جارہا ہوں، "(جاری ہے )