شمیم اپنے شوہر کو چھوڑ کر دو بچوں کے ساتھ شہر آ گئی ۔ریاض کی ملاقات اس کے ایک رشتے دار کے گھر ہوئی ۔شمیم ایک چالباز عورت تھی ۔ریاض جلد ہی اس کے جھانسے میں آ گیا ۔ویسے بھی اسے اپنے بیوی بچوں کی کیا پرواتھی۔شمیم نے اپنے پہلے شوہر سے طلاق لیے بغیر ہی ریاض سے نکاح کر لیا۔
ام عبد اللہ رمضان


اپنے اپاہج، فالج زدہ شوہر کے منہ میں چمچ سے دلیہ ڈالتے ہوئے زینت ماضی کے جھروکوں میں کھو گئی اور اس کی آ نکھیں ساون کے بادلوں کی طرح برس پڑیں۔جب کوئی انسان کسی پر ظلم کرتا ہے۔اس وقت وہ قدرت کے انتقام سے بے خبر ہوتا ہے وہ خود کو خدا سمجھ بیٹھتا ہے۔اپنا پورا زور لگا دیتا ہے ۔کسی معصوم ،کمزور اور بے بس انسان پر ظلم کرتے وقت وہ یہ بھول جاتا ہے کہ اللہ کی پکڑ سخت ہے۔اللہ کی دی ہوئی ڈھیل کو اپنی چالاکیاں سمجھنے لگتاہے۔ اور جب اللہ رسی کھینچتا ہے وہ وہ منہ کے بل زمین پر آ گرتا ہے۔۔۔پھرایسا وقت بھی آ تا ہے" جب وہ اپنے اوپر سے مکھی تک نہیں ہٹا سکتا۔" ٭٭٭

زینت ریاض کی پھوپھو زاد تھی، ان دونوں کی بچپن میں ہی منگنی ہوگئی تھی ۔ ماں کے انتقال ہونے کی وجہ سے زینت کی شادی اس عمر میں کردی گئی، جب وہ اپنی ہم جھولیوں کے ساتھ درخت کی ٹہنیوں پر دوپٹے سے جھولا جھولتی گڈے،گڑیا کی شادی کرتی،کھیتوں میں اچھلتی کودتی، درختوں پر چڑھ کر پھل توڑ کر کھاتی۔وہ دنیاداری سے بے خبر ایک شوخ چنچل، لاابالی لڑکی تھی۔

زینت کے آ تے ہی ریاض کی ماں کے بھاگ ہی جاگ اٹھے۔ خود تو مہارانی بن کر بیٹھ گئی اور زینت کو نوکروں کی طرح رکھا ۔ گھر کے سارے کام کی ذمے داری اس کو سونپ دی ۔ریاض شہر میں کام کرتا تھا ۔وہ شادی کے ایک ہفتے بعد ہی شہر چلا گیا ۔شروع میں تو وہ دوچار مہینے میں گھر کا چکر لگا لیتا لیکن رفتہ رفتہ اس نے گھر آ نا کم کردیا۔جب بھی ریاض گھر آتا، اس کی ماں اسے اپنے ساتھ ہی بٹھائے رکھتی ۔زینت سارا دن ہل میں جتے بیل کی طرح کام کرتی ۔ ،جب سب کھانا کھا لیتے تو پھر وہ بچے کھچے روٹی کے ٹکڑوں پر نمک مرچ لگا کر اپنا گزارہ کرتی ۔اس گھر میں تو اسے دووقت کی روٹی بھی پیٹ بھر کر نہ ملتی ۔

زینت تین بچوں کی ماں بن چکی تھی لیکن آ ج بھی زینت اسی جگہ پر تھی، اس کے حالات نہیں بدلے تھے ۔ ایک دن زینت کو کسی رشتے دار کی زبانی پتا چلا کہ ریاض نے شہر میں شمیم نامی عورت سے دوسری شادی کر رکھی ہے ۔یہ خبر زینت پر بجلی بن کر گری ۔اس سے زیادہ حیرانی کی بات یہ تھی کہ اس کے اپنے ماموں ریاض کے ابو بھی اس شادی میں شریک تھے ۔جب اپنے ہی بیگانے بن جائیں تو نصیب کو کیا دوش دینا۔

شمیم اپنے شوہر کو چھوڑ کر دو بچوں کے ساتھ شہر آ گئی ۔ریاض کی ملاقات اس کے ایک رشتے دار کے گھر ہوئی ۔شمیم ایک چالباز عورت تھی ۔ریاض جلد ہی اس کے جھانسے میں آ گیا ۔ویسے بھی اسے اپنے بیوی بچوں کی کیا پرواتھی۔شمیم نے اپنے پہلے شوہر سے طلاق لیے بغیر ہی ریاض سے نکاح کر لیا۔

ادھر زینت کے بچے دو وقت کی روٹی سے محروم ہو گئے ۔ آ س پڑوس کے لوگوں سے مانگ تانگ کر زینت اپنے بچوں کو کھانا کھلاتی۔کبھی بچے رو رو کر بھوکے ہی سوجاتے۔

ایک دن شہر سے خط آ یا کہ ریاض بہت بیمار ہے ۔شہر کے ہسپتال میں داخل ہے ۔یہ سن کر اس کے ابو اپنے بیٹے کی خبر گیری کے لیے شہر کے لیے روانہ ہوگئے ۔

ریاض کو فالج کا اٹیک ہوا تھا اور اس کے جسم اور زبان نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا وہ شہر کے ایک سرکاری ہسپتال میں داخل تھا ۔ ڈاکٹروں نے جواب دے دیا تھا ۔اسے ناچار واپس گھر ہی لانا پڑا۔

ہوا یوں کہ شمیم نے پہلے پہل تو ریاض کے دل میں جگہ بنانے کے لیے ہر ایک حربہ آ زمایا اور وہ بھی اس کی محبت پاکر خود کو دنیا کا خوش نصیب انسان سمجھنے لگا تھا۔اب وہ اس پر اندھا اعتماد کرنے لگا تھا ۔ ایک دن ریاض جب اپنے کام سے گھر لوٹا تو اس کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی ۔کیونکہ اس کی بیوی اس کی محبوبہ اس کے گھر کا سارا قیمتی سامان لے کی کر بھاگ گئی تھی۔اور وہ خالی ہاتھ رہ گیا ۔ اس نے شمیم کو بہت تلاش کیا وہ کہیں بھی نہ ملی۔

اسی صدمے میں وہ بلڈ پریشر کا مریض بن گیا ۔اور ایک دن اسے فالج کا اٹیک ہوگیا۔ آ ج وہی زینت اس کی خدمت میں لگی تھی ۔ریاض اس سے اشاروں اشاروں میں معافی مانگتا ۔وہ اپنے کیے پر شرمندہ ہوتا ۔ اس کی معافی مانگنے اور شرمندہ ہونے سے زینت کو کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ اس طرح نہ تو اس کی خوشیاں لوٹ سکتی تھیں اور نہ ہی اس کے زخم بھر سکتے تھے ۔

آ ج وہی زینت اسکی کی زندگی کی اہم ضرورت تھی جسے وہ اچھے دنوں میں اپنے پاؤں کا جوتا سمجھتا تھا۔