نور الاسلام مستقل دعاؤں میں مصروف تھیں۔ آنکھوں سے اشک بہ بہ کر دامن بھگو رہے تھے۔ "یا اللہ! میرے وطن کی حفاظت کرنا، اسے رہتی دنیا تک سلامت رکھنا۔ اللہ تو جانتا ہے کہ تیرے بندوں نے اس مملکت کے قیام کے لیے عظیم الشان قربانیاں دیں۔ گھر بار اور جائیدادیں چھوڑیں، آگ و خون کا دریا پار کیا، اپنے پیاروں کو خاک و خون میں نہلوا دیا، اپنی ماؤں بہنوں بیٹیوں کی عصمتوں کو گنوا دیا... آخر کیوں کیا تھا ہم نے یہ سب؟ کیا صرف زمین کا ایک ٹکڑا لینے کے لیے؟
آخری قسط
ام محمد سلمان
"دکھ تو ہوتا ہی ہے بیٹی! لیکن یہ عارضی جدائی ہے۔ یہ دنیا ہماری منزل نہیں ہے۔ ہماری منزل تو آخرت ہے. لا عیش الا عیش الآخرۃ ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے فضل و کرم سے جنت میں ملائے۔ مزہ تو اس زندگی کا ہوگا۔ جب جنتی ایک دوسرے کے آمنے سامنے قیمتی لباس پہنے خوشبوؤں میں بسے اونچے تختوں پر تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے۔ مسحور کن نغموں اور موسیقی سے دل بہلا رہے ہوں گے۔ پھل دار درختوں کی شاخیں ان پر جھکی جا رہی ہوں گی۔ خدام ان کے آگے پیچھے پھرتے ہوں گے اور وہ شاداں و فرحاں اپنے رب کی جنتوں میں مزے کر رہے ہوں گے۔" اللہ ہم سب کو نصیب فرمائے، آمین۔"
آمین.. فردوس اور عائشہ نے یک زبان ہو کر کہا۔
٭٭٭٭
"ارے واہ ماں جی! کتنا حسین ہے یہ دوپٹا... کس کے لیے بنا رہی ہیں؟" عائشہ نے فردوس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا جو پستئی رنگ کے دوپٹے پر ہم رنگ دھاگے سے کروشیا کی بڑی خوب صورت بیل بنانے میں مشغول تھیں۔ انھوں نے محبت سے بیٹی کی طرف دیکھا اور کروشیا بنتے ہاتھ رک گئے۔ بولیں یہ میری پیاری اماں جان" نور الاسلام" کے لیے ۔
کیوں اماں جان!! اچھا ہے نا؟
انھوں نے ماں سے تائید چاہی۔
"ہاں بہت ہی پیارا ہے بیٹی۔ ماشاء اللہ بہت نفاست ہے تمہارے ہاتھ میں۔" انھوں نے کھلے دل سے بیٹی کی تعریف کی اور عائشہ کی طرف دیکھ کر بولیں ذرا میری الماری کے اوپر سے وہ چھوٹی صندوقچی تو اٹھا کر لانا۔ عائشہ بھاگ کر صندوقچی اٹھا لائی۔
ابھی نانی اماں اس کا تالا کھول ہی رہی تھیں کہ افسر علی اور یوسف بھی سلام کرتے ہوئے گھر میں داخل ہوئے.... "ارے واہ نانی اماں!! آج تو صندوقچی کی سیر ہو جائے پھر..."
ہاں ہاں بیٹا ضرور!! اسی لیے تو کھول کر بیٹھی ہوں۔
پھر وہ صندوقچی سے مختلف چیزیں نکالنے لگیں... جنہیں وہ لوگ پہلے بھی بارہا دیکھ چکے تھے۔ یہ دیکھو! تمہارے نانا جان کی گھڑی۔ آخری وقت تک یہی ان کے ہاتھ پر بندھی رہی۔ یہ ان کا چشمہ اور یہ سفید جالی دار ٹوپی جو میں نے خود بنا کر دی تھی انھیں۔
اور یہ دیکھو انھوں نے صندوقچی سے ایک بہت پرانا سا تہ کیا ہوا کپڑا نکالا۔ کھول کر دکھایا تو وہ پاکستان کا جھنڈا تھا۔ ہرے رنگ کے کپڑے پر چاند ستارہ بڑی خوب صورتی اور نفاست سے کاڑھا گیا تھا۔ کہنے لگیں: یہ میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا تھا۔ جب پاکستان میں پہلی بار 14 اگست منائی تو میں نے یہ جھنڈا بنا کر دیا تھا اور تمہارے نانا جان نے گھر کی چھت پر لہرایا تھا۔ اس دن ہم بے تحاشا خوش تھے۔ ہم نے گھر میں بہت سارے گڑ کے میٹھے چاول بنائے اور پورے محلے میں بانٹے تھے۔ لوگ ایک دوسرے کو مبارک باد دے رہے تھے۔ آنکھیں آنسوؤں سے بھری تھیں اور لبوں پر مسکراہٹ... اس محلے میں رہنے والے سب مہاجر تھے۔ ہر کسی کا کوئی نہ کوئی پیارا اس وطن کی نذر ہوا تھا، کسی کا پورا خاندان تو کسی کے چند لوگ... سب مل بیٹھ کے اپنے پرانے دنوں کو یاد کیا کرتے تھے۔ جدوجہد آزادی کے قصے سنایا کرتے تھے ایک دوسرے کو... بار بار کے سنے ہوئے قصوں کو بھی ہر بار اتنے ہی شوق و تجسّس سے سنا جاتا اور بچوں کو بتایا جاتا۔ سب کے دل ایک ساتھ جڑے تھے ایک ساتھ دھڑکتے تھے. یہ سب چوٹ کھائے ہوئے زخم خوردہ لوگ تھے۔ ایک دوسرے کے زخموں پر اپنی محبت اور ہمدردی کا مرہم رکھتے تھے۔ ہائے....
وہ دن وہ محفلیں وہ شگفتہ مزاج لوگ
موجِ زمانہ لے گئی کیا جانے کس طرف
وہ ایک بار پھر آب دیدہ ہو گئیں۔
افسر علی انھیں محبت و عقیدت سے دیکھتے بولے.. اماں جی! آپ کو مجھ سے کبھی کوئی شکایت تو نہیں رہی نا!! میں نے تو ہمیشہ آپ کا بھرپور خیال رکھنے کی کوشش کی ہے۔ شاید میری سگی ماں بھی ہوتیں تو میں اس سے زیادہ ان کی خدمت نہیں کر سکتا تھا۔
ارے نہیں بیٹا! مجھے تم پر مان ہے فخر ہے تم میرے بہت پیارے بیٹے ہو۔ انھوں نے شفقت سے لبریز لہجے میں کہا۔ "نانی اماں! میں بھی آپ کا خیال رکھتا ہوں نا... کبھی بھی شکایت کا موقع نہیں دیتا۔" یوسف ان کی گود میں سر رکھتے ہوئے بولا۔
"ہاں میرے بچے! تم سب نے میرا بہت خیال رکھا۔ لیکن بیٹے ابھی ہم پر ایک بھاری ذمے داری ہے۔ ہم نے جس مقصد کے لیے پاکستان بنایا تھا، وہ ابھی تک ادھورا ہے۔ تم سب نے ابھی اس ملک کے لیے بہت کام کرنا ہے، بہت محنت کرنی ہے۔ اس وطن کو مخلص محبت کرنے والے محنتی لوگوں کی ضرورت ہے۔
میرے بچو! اس ملک پر شروع سے ہی کالی بھیڑوں کا سایہ رہا ہے. وہ جو اس ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کرتی رہی ہیں۔ جنہوں نے اسے نقصان پہنچانے اور توڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے. دشمن تو دشمن آج اس ملک کے باسی جو اس کے لیے اتنی قربانیاں دے کر آئے تھے، ان میں سے بھی کچھ لوگ اس عظیم مملکت کے قیام کے مقصد کو بھول گئے ہیں۔ ہر کوئی اپنے حال میں مست ہے۔ کسی کو پروا نہیں کہ خزانے کی حفاظت نہ کی جائے تو لٹیرے لوٹ کر لے جاتے ہیں۔ ہائے میرا پاکستان..!! تم لوگ اخبارات و رسائل کو لاکھ مجھ سے چھپا کر رکھو مگر میں پھر بھی پڑھ ہی لیتی ہوں۔ اس ملک کی حالت آج جتنی دگرگوں ہے شاید کبھی نہ تھی۔ اسے غیروں سے زیادہ اپنوں نے گزند پہنچایا ہے۔" وہ بہت دکھ سے بولیں اور پھر وضو کرنے چل پڑیں۔
آج کا سارا دن بھی انہی قصے کہانیوں میں گزر گیا اور عشاء ہو گئی۔ ان سب نے نماز پڑھی اور کھانا کھایا۔ نانی ماں نے دو چار لقمے مشکل سے کھائے اور آرام کے لیے اپنے بستر پہ جا کر لیٹ گئیں۔ آج ان کی طبیعت بہت نڈھال تھی۔ سو تھوڑی دیر بعد ہی وہ سو گئیں۔
کچھ دیر بعد فردوس نے ان کے کمرے میں آ کر دیکھا، چادر ٹھیک سے اوڑھائی اور ان کی پیشانی پر عقیدت و محبت سے بھرپور بوسہ دیا۔ اور وہ بھی جا کر اپنے بستر پر لیٹ گئیں۔ جلد ہی نیند ان پر مہربان ہو گئی ۔ ٭٭٭
رات کا تیسرا پہر تھا جب فردوس کی آنکھ کھلی۔ اٹھ کر صحن میں آ گئیں۔ آسمان پر چودھویں کا چاند چمک رہا تھا۔ سکھ چین کے درخت پر عجیب سی اداسی چھائی تھی۔ رات کی رانی کی خوشبو پورے صحن کو معطر کررہی تھی۔ وہ گہرے گہرے سانس لیتیں کچھ دیر اس منظر کو دیکھتی رہیں پھر وضو کر کے تہجد کی نماز ادا کرنے لگیں کہ اماں جی کے کمرے سے کچھ کھٹ پٹ کی آواز آئی۔ سلام پھیرا اور ان کے پاس جا کر دیکھا تو وہ بھی جائے نماز بچھائے نماز میں مشغول تھیں۔ فردوس نے اپنی پوری زندگی میں انھیں کبھی تہجد کی نماز چھوڑتے نہیں دیکھا تھا۔ ہر رات وہ نماز کے بعد عالمِ اسلام اور اس ملک و ملت کی بقا و سلامتی کے لیے گڑگڑا کر دعائیں مانگتی تھیں۔
"یارب العالمین! یا ربِّ محمد! امت مسلمہ پہ رحم کرنا. انھیں دنیا و آخرت کے خسارے سے بچا لینا۔ ہم پر رحم کر دینا. ہمیں ظالموں کے حوالے نہ کرنا، ہمیں کبھی دشمن کے آگے زیر نہ کرنا میرے مولیٰ ۔"
وہ آج بھی اسی طرح گریہ و زاری کر رہی تھیں۔ فردوس نے انھیں کچھ کہنا مناسب نہ سمجھا اور خاموشی سے وہیں ان کے پیچھے دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئیں۔ نور الاسلام مستقل دعاؤں میں مصروف تھیں۔ آنکھوں سے اشک بہ بہ کر دامن بھگو رہے تھے۔
"یا اللہ! میرے وطن کی حفاظت کرنا، اسے رہتی دنیا تک سلامت رکھنا۔ اللہ تو جانتا ہے کہ تیرے بندوں نے اس مملکت کے قیام کے لیے عظیم الشان قربانیاں دیں۔ گھر بار اور جائیدادیں چھوڑیں، آگ و خون کا دریا پار کیا، اپنے پیاروں کو خاک و خون میں نہلوا دیا، اپنی ماؤں بہنوں بیٹیوں کی عصمتوں کو گنوا دیا... آخر کیوں کیا تھا ہم نے یہ سب؟ کیا صرف زمین کا ایک ٹکڑا لینے کے لیے؟
میرے اللہ تو جانتا ہے کہ یہ ساری قربانیاں دینِ اسلام کے لیے تھیں۔ اسلام کی سر بلندی اور اس کی بقا کے لیے تھیں۔ مگر آج ہمارے اپنوں نے ہی اس چادر میں چھید کر دیے۔ آج دین پر عمل کرنا لوگوں کو بوجھ لگتا ہے۔ نماز روزے کے لیے وقت نہیں۔ مسجدیں خالی پڑی رہتی ہیں... سچ کہا تھا اقبال نے...
رہ گئی رسمِ اذاں، روح بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا، تلقینِ غزالی نہ رہی
مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے
یعنی وہ صاحبِ اوصافِ حجازی نہ رہے
لوگوں نے پاکستان کو ناچ گانے، سود، جوا اور حرام کاری کا اڈا بنا دیا۔ سب لوگ بس دنیا کے ہو کر رہ گئے. اپنی تخلیق کا مقصد بھول گئے، قیامِ پاکستان کا مقصد بھول گئے! اپنی آخرت بھول گئے... پورے عالم اسلام کو بھول گئے! امت کو بھول گئے۔ دشمنوں کے نرغے میں پھنسے اپنے مسلمان مجبور بھائی بہنوں کو بھول گئے.. فلسطین اور کشمیر کو بھول گئے۔ بھارت میں آج بھی مسلمانوں پر ظلم ڈھائے جاتے ہیں، کشمیر میں آج بھی ماؤں بہنوں کو ننگا کیا جارہا ہے، میرے جوانوں کو اندھا دھند مارا جا رہا ہے، ان کی نسل کشی کی جا رہی ہے مگر سب لوگ آنکھوں پر پٹی باندھ کر بیٹھے ہیں۔ آج کوئی اس امت کے خستہ حالوں کی مدد کرنے نہیں آتا۔ اب کوئی خالد بن ولید جیسا جرنیل نہیں آتا۔ میرے اللہ! میرا سینہ اس درد سے چھلنی ہو گیا ہے، مجھ سے یہ بوجھ اب اٹھائے نہیں اٹھتا... میں تھک گئی میرے مولی میں تھک گئی۔ میرے درد کا تو گواہ ہے! تو جانتا ہے میری راتوں کی تڑپ کس کے لیے ہے!!
کوئی تو راہ نکال میرے اللہ! کوئی تو راستہ دکھا دے اس دلدل سے نکلنے کا۔ اس قوم کے سپوت اپنا مقصد بھول کر دنیا کی دوڑ میں لگے ہیں، انھیں صحیح راستہ دکھا رب العالمین۔ انھیں اسلام کا سچا مجاہد بنا دے۔ اس امت کو ذلت کی گہرائیوں سے نکال دے...
میں تجھ سے بھیک مانگتی ہوں میرے مولیٰ.. میرے ان پھیلے ہاتھوں کی لاج رکھنا..." وہ زارو قطار روتی ہوئی سجدے میں چلی گئیں اور یا اللہ یا اللہ کر کے فریاد کرتی رہیں۔
فردوس کے آنسو بھی تواتر سے بہ رہے تھے. وہ وہیں بیٹھی ان کی دعاؤں پر زیر لب آمین کہہ رہی تھیں۔ کچھ دیر گزری اور ان کے وجود میں کوئی حرکت نہ ہوئی تو وہ اپنی جگہ سے اٹھیں اور انہیں آواز دی.. لیکن کوئی جواب نہیں آیا.. فردوس کا دل ایک دم زور سے دھڑکا۔ جا کر شوہر اور بچوں کو جگایا... افسر علی آئے اور انھیں بہت نرمی سے پکارا...
"ماں جی! اٹھیے!!"
مگر ان کے وجود میں کوئی جنبش نہ ہوئی. تب فردوس لپک کر آگے بڑھیں اور انھیں ہلایا تو پتا چلا ان کی روح تو اس دنیا کو چھوڑ کر آسمانوں پر پرواز کر گئی ہے...!!!! وہ اس دنیا کے دھندوں سے نجات پا گئیں۔ وہ درد جو ان سے سہا نہیں جا رہا تھا، رب نے اس اذیت سے انھیں نجات عطا فرما دی تھی۔ فردوس نے ان کا سر اپنی گود میں رکھ لیا۔ صبیح پیشانی پر پسینے کے قطرے تھے اور گالوں پر آنسوؤں کے نشان...
فردوس نے بے ساختہ سسکی لی اور ان کی پیشانی چوم لی... "انا للہ وانا الیہ راجعون." "نور الاسلام" تاریخِ پاکستان کا ایک سنہری باب تھا جو آج ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا مگر پیچھے رہ جانے والوں کے لیے ایک سبق چھوڑ گیا کہ مقصد کے تحت زندگی کیسے گزاری جاتی ہے!!
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نو رستہ اس گھر کی نگہبانی کرے