جس طرح ایئرپورٹ پہ زیادہ سامان ہونے کی وجہ سے checking میں مشکل آتی ہے وہاں یہ بھی سوچ لینا چاہیے کہ آخرت کی checking کیسی ہوگی! گناہوں کا بوجھ کم ہوگا تو ان شاءاللہ آسانی کے ساتھ قیامت میں اس مرحلے سے گذر جائیں گے ایئرپورٹ کے لیے سامان کا بوجھ کم رکھو اور آخرت کے لیے گناہوں کا بوجھ کم رکھو، تا کہ دونوں جگہوں پہ آرام سے نکل جائیں لمبی لائن میں کھڑا نہ رہنا پڑے

(تیسری قسط )
عائشہ شیخ

ہبا : ہاں ایسا تو ہوتا ہے،اچھا اور وہ بھی بتاؤ نا ۔۔۔ حدیقہ : کیا ؟
ہبا : جنت اور اللہ کا فضل۔۔۔۔۔۔۔۔
حدیقہ : ہاں! لیکن وہ بتانے سے پہلے تم مجھے ایک سوال کا جواب دو۔ تمہاری ایک پھوپھو جو بحرین میں رہتی ہیں, تم لوگ جب بھی ان کے پاس جاتے ہو تو کچھ نا کچھ ضرور لے کہ جاتے ہو،ایسا ہی ہے ؟
ہبا : ہاں ایسا ہی ہے۔
حدیقہ : لیکن کیوں ؟ وہ تو ماشاءاللہ ایک well settled family ہے،دنیا کی ساری سہولتیں ان کے پاس ہیں، پھر کیوں لے کر جاتے ہو کچھ بھی؟ یقینًا تمہارے لے کر جانے سے ان پہ کوئی اثر نہیں پڑتا ہوگا! پھر کیوں ؟ ہبا : کیوں کہ یار! ابو کہتے ہیں کہ کسی کے گھر خالی ہاتھ جانا اچھا نہیں ہوتا اور ابو تو کہتے ہیں کہ اپنا سامان کم سے کم رکھو کیونکہ ورنہ پھر ایئر پورٹ پہ زیادہ سامان ہونے کی وجہ سے checking میں مشکل پیش آتی ہے، لیکن پھوپھو کی ساری چیزیں رکھو سامان کے اندر۔

حدیقہ : صحیح۔ تو جب ہم جنت میں جانے کی تمنا رکھتے ہیں تو کیا وہاں خالی ہاتھ جائیں ؟ جب ہمارا رب ہمیں دیکھے تو ہمارے پاس کچھ بھی نا ہو؟ جب آپ ﷺ ہماری طرف دیکھیں وہاں تو ہمارے پاس ایسا کچھ بھی نا ہو جس پہ آپ ﷺ فخر کر سکیں! وہ ہمیں مسکرا کے دیکھ سکیں ! کیا ایسا کچھ بھی نہ ہو جس کو دیکھ کہ آپ ﷺ کا دل خوش ہو اور وہ خوشی سے کہیں میرا امتی دیکھو! کیا لایا ہے۔ہاں یہ بات حقیقت ہے کہ جتنا اللہ پاک اور رسول ﷺ کا حق ہے وہ ہم کبھی نہ ادا کر پائے تھے اور نا کر پائیں گے،لیکن پھر بھی تھوڑا سا، کچھ تھوڑا سا ہی کچھ تو ہو دکھانے کے لیے۔ بالکل خالی ہاتھ کیسے جائیں؟ شرم آئے گی۔

اور دیکھو جس طرح ایئرپورٹ پہ زیادہ سامان ہونے کی وجہ سے checking میں مشکل آتی ہے وہاں یہ بھی سوچ لینا چاہیے کہ آخرت کی checking کیسی ہوگی! گناہوں کا بوجھ کم ہوگا تو ان شاءاللہ آسانی کے ساتھ قیامت میں اس مرحلے سے گذر جائیں گے ایئرپورٹ کے لیے سامان کا بوجھ کم رکھو اور آخرت کے لیے گناہوں کا بوجھ کم رکھو، تا کہ دونوں جگہوں پہ آرام سے نکل جائیں لمبی لائن میں کھڑا نہ رہنا پڑے ہمیں!
ہبا : لیکن جنت تو پھر بھی اللہ کے فضل سے ہی ملنی ہے، ہے نا؟
حدیقہ : بالکل اللہ پاک کے فضل کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ لیکن چونکہ اللہ بھی بہت کریم ہیں اور رسول ﷺ بھی بہت کریم و شفیق ہیں،لہذا امید ہے کہ وہ ہمارے تھوڑے کو بھی قبول فرما لیں گے ان شاء اللہ ہبا : ہاں بس اللہ توفیق دے نیک اعمال کرنے کی۔
حدیقہ : آمین۔ خیر اور بتاؤ کیا کر رہی ہو ؟
ہبا : کچھ نہیں! مجھے پورے کا سمجھ یہ آیا ہے کہ, پھوپھو کے پاس اب کچھ نہیں لے کہ جانا حدیقہ : یا اللہ خیر۔ سمجھ بھی تمہیں یہ آیااللہ میری توبہ!
ہبا : ارے نہیں نہیں ویسے ہی تنگ کر رہی ہوں تمہیں۔ سمجھ آ گیا ہے الحمدللہ حدیقہ : الحمداللہ
ہبا : پھر مارکیٹ کب چل رہی ہو ؟
حدیقہ : تمہاری امی بھی ساتھ چلیں گی؟
ہبا : ہاں ہاں چلیں گی
حدیقہ : ٹھیک ہے۔ شاید میری امی بھی چلیں،ان کو گھر کا کچھ سامان لینا ہے، پھر میں امی سے پوچھ کے تمہیں بتاتی ہوں۔ باقی باتیں کل ہوں گی ان شاء اللہ،اب دیر ہو رہی ہے, سونا چاہیے ورنہ فجر میں اٹھا نہیں جاتا۔ ہبا : ابھی تو صرف 12 بج رہے ہیں, اتنی جلدی؟

حدیقہ : یہ اتنی جلدی ہے؟ اور تم اتنا لیٹ کیوں سوتی ہو؟ کام ہوتا ہے کوئی ضروری ؟ ہبا : نہیں بس ویسے ہی نیند نہیں آتی،پھر بس facebook scrolling اور instagram scrolling ہی کرتی رہتی ہوں۔ حدیقہ : تبھی تو کہتی ہوں تمہیں، یہ چیزیں بہت limited استعمال کیا کرو، یا کرو ہی نہیں تو اور اچھا۔ اگر کوئی ضروری کام ہو تو پھر اور بات ہے۔

ہبا : ہاں وہ تو صحیح ہے لیکن پھر بوریت ہوگی نا!
حدیقہ : بوریت کیسی ؟ کوئی اور اچھا کام کر لیا کرو۔
ہبا : مثلاً ؟

حدیقہ : مثلاً بہت سارے اچھے کام ہیں، بس یہ دھیان رکھ لیا کرو جس سے گناہ نہ ملتا ہو، لیکن پھر کبھی بات کریں گے اس پہ ان شاء اللہ۔
ہبا : ٹھیک ہے ان شاء اللہ
حدیقہ : اوکے فی امان اللہ

٭٭٭٭ حدیقہ اور اس کی امی،ہبا اور اس کی امی، چاروں مارکیٹ/مال میں، entrance پہ چیکنگ کروانے کے بعد، حدیقہ کی امی نے سب کو کہا کہ ہم جلدی جلدی اپنی شاپنگ پوری کریں گے بغیر وقت ضایع کیے ہوئے کیوں کہ تھوڑی ہی دیر میں عصر کی نماز کا وقت ہونے والا ہے کوشش کریں گے کہ تب تک گھر پہنچ جائیں۔

لیکن جلدی کرتے کرتے بھی انہیں دیر ہو ہی گئی اور عصر کی نماز کا وقت ہو گیا۔ حدیقہ کی امی : شاپنگ کو یہیں stop کرتے ہیں اور نماز پڑھنے کے لیے کوئی جگہ ڈھونڈھنی چاہیے ہمیں۔ ہبا کی امی : گھر چل کے پڑھ لیں گے۔

حدیقہ کی امی : تب تک قضا ہو جائے گی، عصر کی نماز کا وقت اتنا زیادہ نہیں ہوتا ہے۔ ہبا : آنٹی قضا پڑھ لیں گے۔
حدیقہ کی امی : نہیں بیٹا، جب وقت ہے تو قضا کیوں پھر!
ہبا کی امی : لیکن یہاں جگہ نہیں ملے گی نماز پڑھنے کے لیے۔ حدیقہ کی امی : پوچھنا ہوگا کسی سے، اکثر مال وغیرہ میں خواتین کے لیے ایک الگ مسجد نما ایک portion بنایا جاتا ہے نماز کے لیے پوچھتے ہیں کسی سے۔

بالآخر ڈھونڈتے ڈھونڈتے آدھے گھنٹے کے بعد انہیں وہ جگہ مل ہی گئی ، چاروں نے سکون کا سانس لیا چلو مل گئی۔ شکر اللہ کا،نماز قضا ہونے سے بچ گئی۔

ہبا : میں تو تھک گئی ہوں چل چل کےگر نہ جاؤں، جوس لاؤ میرے لیے حدیقہ : نماز پڑھ لو، کم وقت رہتا ہے، فرمائشیں بعد میں کر لینا۔ ٭٭٭٭

نماز ادا کر نے کے بعد،سب وہیں بیٹھ گئیں کیوں کہ تھوڑی ہی دیر میں مغرب کی اذان ہونے والی تھی۔ حدیقہ نے ہبا سے کہا : آؤ مسجد دیکھتے ہیں کیسی بنی ہوئی ہے

مال کے اندر وہ چھوٹی سی مسجد بہت ہی پیاری بنی ہوئی تھی، بہت ہی صاف ستھری اور وضو کرنے کی جگہ تو سب سے اچھی تھی اتنی well managed اور well organized تھی کہ واقعی تعریف کے لائق تھی وضو کرنے والی جگہ پہ اوپر دیوار پہ وضو کی مسنون دعا لکھی ہوئی تھی کچھ نیچے ہی tissue papers اور hand sanitizer دیوار کے ساتھ ہی اٹیچ کر دیے گئے تھے۔ اس کے بعد مسجد کا جو main حصہ تھا وہاں ایک corner پہ کچھ قرآن پاک رکھے گئے تھے, ہر چیز بہت ہی منظم انداز میں رکھی گئی تھی اور ایک side پہ کچھ کرسیاں بھی رکھی گئی تھیں شاید ان خواتین کے لیے جن کو کھڑے ہو کےنماز پڑھنے میں کوئی مشکل ہوتی ہے اور main حصےکے ساتھ ہی ایک اور چھوٹا سا portion بنا ہوا تھا، ہبا نے حدیقہ سے کہا آؤ وہ بھی دیکھتے ہیں وہاں کیا ہے!

وہاں جا کے دیکھا تو وہاں ایک shelf/rack پہ کچھ جاۓ نماز اور کچھ کاؤنٹرز رکھے ہوئے تھے اور اوپر لکھا ہوا تھا "اگر مسجد نمازیوں سے بھر جاۓ تو پھر یہ جاۓ نماز آپ لے کہ مال میں کسی بھی جگہ پہ آپ نماز پڑھ کہ آ جائیں اور پھر واپس یہیں رکھ جائیں یہ" ۔ خیر ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے بہت سوچ سمجھ کہ نمازیوں کے لیے وہاں ہر قسم کی سہولت دے دی گئی تھی دیواروں پہ قرآن مجید کچھ آیات لکھی تھیں ، جن کی خطاطی بہت ہی خوبصورت تھی اور ان سے مسجد کی خوبصورتی میں اور اضافہ ہو رہا تھا

ہبا : مسجد اتنی چھوٹی کیوں بنائی گئی ہے؟ اتناااااا بڑا مال ہے اور مسجد اتنی چھوٹی ؟ حدیقہ : اب یہ تو ان کو ہی پتا ہوگا جنہوں نے بنوائی ہے۔ ہبا : ہاں لیکن پھر بھی کوئی تو وجہ ہوگی نا ؟

حدیقہ : ہاں, ہو سکتا ہے نمازیوں کی تعداد کا اندازہ لگا کہ اس حساب سے بنائی گئی ہو! یا ہو سکتا ہے انتظامیہ کے کچھ اپنے اصول و ضوابط ہوں! صحیح علم تو صرف اللہ ہی کے پاس ہے۔

لیکن ایک چیز واضح طور پہ پتا چل رہی ہے کہ لوگوں کا دین کے اندر interest کتنا ہے اور دنیا کے اندر کتنا!!! بس چھوٹی یا بڑی اللہ ہر مسجد کو آباد رکھے, بہت ساری ایسی مساجد ہوتی ہیں جو area کے لحاظ سے بڑی ہوتی ہیں لیکن وہاں کوئی نمازی نظر نہیں آتا،ایسا لگتا ہے جیسے مسجد ہم سے پوچھ رہی ہو "کہاں ہیں نمازی ؟ کہاں ہیں مجھے آباد کرنے والے ؟" تو خیر بس area پہ اتنا نہیں جانا چاہیے بس مساجد ہمیشہ آباد رہیں یہ دعا کرنی چاہیے۔ ہبا : لیکن آجکل ایسے لگتا ہے جیسے نمازی کم، مساجد زیادہ ہیں۔

حدیقہ : ہاں جمعہ کے دن تو اچھی خاصی تعداد ہوتی ہے لیکن باقی دنوں میں اتنے لوگ نظر نہیں آتے (ہو سکتا ہے گھر میں پڑھ لیتے ہوں) اور فجر میں تو خاص طور پہ مساجد کے اندر ایک خاموشی چھائی ہوئی ہوتی ہے۔ ھبا : ٹھیک ہے آئندہ میں فجر کی نماز مسجد میں جا کے پڑھ لوں گی

حدیقہ : محترمہ آپ گھر میں ہی پڑھ لیں بہت مہربانی آپ کی۔ ویسے ہبا ایک عجیب بات ہے جب لوگ شاپنگ کرنے آتے ہیں تو شاپنگ میں اتنا کھو ہو جاتے ہیں کہ بس انہیں یاد ہی نہیں رہتا کہ نماز بھی فرض ہے ان پہ!!! ہبا : ہاں لیکن یہاں اذان کی آواز سنائی نہیں دیتی۔ شاید اس لیے بھول جاتے ہیں۔

حدیقہ : یہ تو کوئی بات نہیں ہوئی کہ اذان نہ سنائی دے قریب سےتو نماز ہی بھول جاؤ! بہت سارے ایسے ممالک ہیں جہاں اذان پہ پابندی ہے تو وہاں پھر لوگ کیسے پڑھتے ہیں! تو بس پڑھنے والے پڑھ لیتے ہیں اور یہاں ویسے میوزک اتنی تیز آواز میں چلایا جاتا ہے کہ اگر کہیں سے کوئی اذان آ بھی رہی ہوتی ہے تو وہ اس دھماکےدار میوزک کی وجہ سے سنائی نہیں دیتی(استغفراللہ, اللہ ہمیں معاف فرماۓ۔) ہبا : آمین۔

اتنے میں مغرب کا وقت ہوگیا اور چاروں نے نماز ادا کی اور اس کے بعد وہاں سے واپس۔۔۔۔ واپس جاتے ہوئے مال کے اندر ہی ہبااور حدیقہ کو اپنی ایک پرانی اسکول کی دوست ملی۔ لاریب : تم دونوں ھبا اور حدیقہ ہو نا ؟ نقاب میں میں تمہیں پہچان ہی نہیں پائی۔ حدیقہ : اچھا اب تو پہچان لیا نا!

لاریب : ہاں لیکن یہ تم لوگوں نے یہ پردہ، پتہ نہیں کیا کہتے ہیں اس کو یہ کب سے شروع کر دیا ہے؟ اور ویسے بھی یار ابھی تو ہم اٹھارہ کے بھی نہیں ہوۓ اتنی جلدی یہ پردہ!

ہبا : لاریب تم ہمیں NIC بنوانے کا بتا رہی ہو یا پردے کا! اٹھارہ کا تعلق NIC سے ہے پردےسے نہیں! لاریب : پتا ہے لیکن ابھی تو زندگی پڑی ہےبعد میں کر لینا ابھی تو life کو enjoy کرو یار! کیوں خود کو bound کر لیا ہے؟

حدیقہ : bound تو تمہاری نظر میں ناہمیں تو بہت مزہ آتا ہے, الحمدللہ! لاریب : ایسا بھی کیا مزہ ؟

حدیقہ : تم کرو تو تمہیں پتا چلے! خیر اور بتاؤ آج کل کیا کر رہی ہو؟ لاریب : آؤ بیٹھ جاتے ہیں کہیں۔

حدیقہ : ہم تو ابھی نکل رہے ہیں بس امی آ جائیں۔ لاریب : کہاں ہیں آنٹی ؟

ہبا : سامنے والی شاپ پہ وہ دیکھو،ہبا نے اشارہ کرتے ہوئے بتایا لاریب : ہاں جب تک آ جائیں، سامنے سیڑھیوں پہ ہی بیٹھ جاتے ہیں۔ ہبا : آؤ حدیقہ بیٹھ جاتے ہیں, جب تک امی آ جائیں ۔ حدیقہ : ہاں آؤ۔

لاریب : یار ایک بات پوچھوں برا تو نہیں مناؤ گی ؟ حدیقہ : اللہ خیر کرے گا تم پوچھ لو۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔