مجھے کافی پینی ہے،" میں نے دبنگ اپنی پسندیدہ کافی بار کا نام لیتے اسے حکم جاری کیا۔۔ "چلو" حسب عادت وہ بائیک کی چابی پکڑے تیار تھا۔۔

"ہونہہ اتنا بڑا کیفے بار اور یہ اس پٹیچر۔۔" میرے مکمل اماؤس بننے سے قبل وہ میرے کان کے پاس جھکا۔۔ "چلو کیا یاد کروگی، وہ کافی پلواتے ہیں۔۔" اور میں تجسس ہی میں پورے راستے خیالی پلاؤ بناتی بائیک کے ساتھ خود بھی اڑتی رہی کہ اچانک بائیک رکی۔۔۔۔۔

عائشہ محبوب

اماؤس کی رات سے تو واقف ہوں گے آپ نا۔۔۔
بس سمجھ لیں میں یعنی ماہ بیر ویانی وہی ہوں، اگر مجھے میری ذات کو سمجھنا ہو تو اماؤس کی رات دیکھ لیں!! آہ!! کہاں سے سناؤں کیسے سناؤں ۔۔۔
ہم کو کس کے غم نے مارا یہ کہانی پھر سہی
آئے گا نام تمھارا یہ کہانی پھر سہی
میں ایک جاہ و حشم حسب نسب پر پر غرور حب دنیا و مال گھرانے کی چراغ ہوں۔۔۔ جی چشم نہیں ہوں کہ پتا نہیں اس گھر میں پیدا کردیا جانا میرا امتحان تھا یا اس گھر کے مکینوں کا؟؟ خیر مختصر یہ کہ وہ سب کچھ اس گھرانے کا خاصہ تھا جو دولت کی چکا چوند سے دولت کو مائی باپ سمجھنے والے گھروں کا چلن ہوتا ہے، میرا بچپن بس بے چین گزرا، ماں جو یہاں مام تھیں ہوا کے جھونکے کی مانند پاس سے گزر جاتیں یہ اور بات کہ وہ جھونکا سرد ہوتا یا جہنم کی تہ رہتا میرے لیے، کبھی ہوا کا وہ جھونکا نا بنا جو لوری کی مانند ہو، جس سے میری بے چین روح کو قرار آئے ۔۔ اور رہے باپ یعنی ڈیڈ تو ان کے لیے میں ڈیڈ تھی کہ انھیں نظر ہی نہ آتی ، کبھی دِکھ جاتی تو "یہ میری اولادوں سے ہٹ کر ہے، کیا بنے گا اس کا!"
واقعتاً ان کی سوسائٹی ان کی کلاس میں میرا کچھ نہ بن پایا،
سو ایک عام سے گھرانے کے بظاہر عام سے فرد کے ساتھ رخصت کردی گئی ۔۔۔
مگر یہاں دولت اور آسائش کے دریا نہیں تو ان کے خواب تھے، اور ان ہی کے تلے بدگمانیاں، پھر ان سے جنم لیتے فساد تھے۔۔
میری روح کو قرار نہ ملتا، جو بظاہر عام نظر آتا میرا شوہر پھر میں نے اسے غور سے دیکھنا اور سننا شروع کیا، چہرے پر ڈاڑھی، حلیہ میں جہاں سے آئی تھی وہاں سے ہٹ کر،
"اور بھی غم ہیں زمانے میں اس کے سوا"
"یہ بھی کوئی دُکھ ہے؟ دُکھ تو انمول ہوتے ہیں"
یہ ہر بات میں جس کا تکیہ کلام تھا۔۔
" آؤ بیٹھو، ایسے بس کندھے پر ہاتھ رکھ لو"
بائیک عام سی بائیک جسے زندگی میں دیکھا ہی یہاں آ کر تھا ۔۔۔ ڈر لگا مگر اس کے رواں ہوتے زندگی رواں ہوگئی، جوس والے کے پاس رکتے۔۔ حیرت ہوئی۔۔ اس نے بھانپ لی۔۔۔
"یہی تو زندگی ہے، بس۔۔ سفر میں کیا اہتمام؟؟ اہتمام تو منزل کے لیے ہو!!"
پہلی بار گلی کے نکڑ پر کھڑی ریڑھی سے جوس پی لیا اور حیرت ہے کہ سکون سے سوئی یہ اور بات کہ سفر میں کیا اہتمام، اہتمام تو منزل کے لیے ہو اس کا جملہ کانوں میں گونجتا رہا!

زندگی نے رکنا ہی تو نہیں ہوتا نا، اب میں اس پر کھلنے لگی تھی اپنے اندر کی سوچیں اپنی محرومیاں اسے بتاتی اور وہ بس سنتا رہتا اور ہلکا سا مسکرائے چلا جاتا!! "یہ بھی کوئی غم ہے"

اب میں ری ایکشن دیتی چڑتی غصہ کرتی چلاتی میری زندگی جمود سے نکل چکی تھی، کبھی اس کی کسی بات پر ہنستی کسی لطیفے پر قہقے لگاتی پر ہوتے کھوکلے۔۔۔۔ کیونکہ جب وہ قرآن کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کرتا تو میں بس آنکھیں پھاڑے سنتی رہتی اور پھر مجھے لگتا میں اماؤس کی رات بن گئی ہوں، اپنے غم ستاتے اسے سناتی وہ تکیہ کلام ارشاد فرماتا، یہ بھی کوئی غم ہے۔۔۔ میں کاٹ کر چیختی پورا ہی نہ کرنے دیتی مکرر تو دور!!!

پچھلے سرما نکاح سے ہم تعلق دار ہوئے تھے۔۔ اس سرما تو اماؤس تھی، اب یہ سرما شروع ہوا چاہتا تھا۔۔۔ مجھے کافی یاد آنے لگی تھی۔۔۔

مگر اب تو دوسرا ماہ چل رہا تھا وہ گروسری میں میرا سامان لے آتا ۔۔ اس سے پہلے میں خود خریداری کرتی تھی!! وہ ساری اشیاباتھ روم، ڈریسنگ ٹیبل، الماری سے غائب ہوتی جارہی تھیں،کچھ پوچھتی تو وہی تکیہ کلام!!!

خیر اس کی کی گئی گروسری پر چیزیں پٹخ پٹخ اپنے نصیبوں کے رونے روئے، اس کے تکیہ کلام نا ارشاد کرنے پر سوگ بھی منائے اپنی زندگی کے مگر وہ تو چپ ہوچکا تھا۔۔ میں اسے سجدہ رو، دعا گو تلاوت کرتے تو ایک سال سے دیکھ رہی تھی، خالق سے متعارف بھی اسی کے ذریعے ہوئی اس سے پہلے تو بس پتا تھا کہ اللہ ہے۔۔۔ اور اس سے شکوے ہی شکوے تھے۔۔۔۔ مگر آگہی یہاں ملی۔۔ خیر میں غور کیا کرتے خود پر کہا نا اماؤس جو تھی میں۔۔۔!!!
"مجھے کافی پینی ہے،" میں نے دبنگ اپنی پسندیدہ کافی بار کا نام لیتے اسے حکم جاری کیا۔۔ "چلو" حسب عادت وہ بائیک کی چابی پکڑے تیار تھا۔۔

"ہونہہ اتنا بڑا کیفے بار اور یہ اس پٹیچر۔۔" میرے مکمل اماؤس بننے سے قبل وہ میرے کان کے پاس جھکا۔۔ "چلو کیا یاد کروگی، وہ کافی پلواتے ہیں۔۔"

اور میں تجسس ہی میں پورے راستے خیالی پلاؤ بناتی بائیک کے ساتھ خود بھی اڑتی رہی کہ اچانک بائیک رکی۔۔ نگاہ کے سامنے۔۔ عالمگیر کیفے!!!

میں تو صدمے سے منہ ہی بند نا کر پائی،۔۔ سڑک کنارے میز کرسی بچھاتا بیرا لڑکا شاید میری تپش بھانپ گیا، لگا دانت نکوسنے،۔۔ "ایک کافی شاندار جاندار" ہائے اس کا آرڈر اور پھر انداز میں مزید کلسی۔۔۔
دھپ سے کرسی پر احسان کیا بیٹھنے کا۔۔
"تمھیں کچھ بھیجا ہے، دیکھو"
میں نے منہ ہی پھیر لیا۔۔۔
کافی آ گئی۔۔ بار کیفے کی نہ ہوتےبھی میرا دل کھینچا اس کی جانب، اسٹائل میں نہ ہوتے بھی من مچلا، ایک گھونٹ بس۔۔ دل نے صدا لگائی اور ایک گھونٹ کے بعد موبائل اور پھر اس کی بھیجی گئی ویڈیو۔۔۔ ویڈیو کیا تھی!! میرا وجود زلزلوں کی زد میں تھا، آگہی بڑی سخت بلکہ جان لیوا تھی۔۔ میں نے اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھا، مگر وہ تو خالی تھا، اور سامنے ویڈیو میں بھی ایک ممتا تھی۔۔

"کہتا تھا نا یہ کوئی غم ہے۔۔ غم تو یہ ہے درد تو ایسا ہوتا ہے، دکھ تو ان کے ہیں، سفر تو یوں ہوتا ہے، منزل کا اہتمام ان سے سیکھنا چاہیے،"

کافی کب مکمل ہوئی آنسوؤں کے ساتھ جان ہی نا پائی، مگر یہ پتا لگا کہ زندگی میں کبھی ایسی کافی پی نہ شاید پی پاؤں!! اس میں ندامت کے آنسو تھے، آگہی کے در تھے، جھٹکے تھے ضمیر کے!!!
"بس اسی لیے تمھاری شاپنگ کی جسارت کر بیٹھا"
کافی کا دوسرا کپ سامنے تھا، اب کی بار ایک معصوم کا مرجھایا چہرہ نڈھال مگر ایمان کا پرجوش عزم۔۔۔ بس وہ میز وہ کافی اور وہ چند کلپ مجھے بدل گئے۔۔۔
پھر میں سجدے میں جو گری تو وہ سمجھا، رخصت ہی ہوئی۔۔
"چلو کوشش تو کریں۔۔ رضا کارانہ طور پر فلسطین چلیں۔۔ "
پھر جو حلال کا تھا، وہ سمیٹا،
"کیا ہوا زندگی کتنی، میرے پاس کوئی ڈگری نہیں! ماں باپ کے ہوتے بھی ان کی چھاؤں اور سائبان کے لئیے ترس گئی تھی مگر وہ غم تو نہ تھا۔۔۔غم تو ان معصوم بچوں کا آ لگا۔۔۔ فکر تو جانم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی بس گئی۔۔ امتی امتی امتی۔۔ میں اور میرا بظاہر عام سا شوہر تو آج اس رخصت ہوئے۔۔ اب آپ کیا کرسکتے ہیں القدس کے لیے۔۔امت کے لیے؟؟ یاد رکھئیے فاتبعونی کے چار درجے ہیں۔۔۔ ایسے ہی کہا تھا میرے شریک حیات نے۔۔ محبوب کے رنگ میں رنگ جانا، کیسے؟؟ چار طرح سے!، محبوب کو جاننا، محب کی پسند، نا پسند اپنا لینا، عزت عقیدت تو احترام سب سے بڑھ کر کرنا، محب کی فکر کو اپنی فکر بنا لینا!! سو ان چاروں پر عمل شروع کرنے کے ساتھ اقدام اٹھاتے عازم سفر ہوئے ہم۔۔ مگر آپ سے التجا ہے۔۔بائیکاٹ وقتی نہیں عارضی نہیں۔۔۔ کلی کیجئے!!!